نئے چیف الیکشن کمشنر اور انھیں درپیش چیلنجز
آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ عام انتخابات کا انعقاد حقیقی جمہوریت کی اصل روح ہے۔
MULTAN:
بالآخر جسٹس (ریٹائرڈ) سردار محمد رضا خان نے 14 ویں چیف الیکشن کمشنر کی حیثیت سے اپنا نیا منصب سنبھال کر وہ چیلنج قبول کرلیا جسے قبول کرنے سے بڑے بڑے لوگ کترا رہے تھے۔ ایسا کرنے میں یہ لوگ حق بجانب بھی تھے کیونکہ اس عاشقی میں عزت سادات چلے جانے کا خطرہ بری طرح لاحق تھا۔جسٹس (ریٹائرڈ) فخرالدین جی ابراہیم کی دیانت داری کا بھلا کون معترف نہ ہوگا۔ انھوں نے بھی چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ کسی لالچ یا شہرت کے لیے نہیں بلکہ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کی خاطر قبول کیا تھا مگر افسوس صد افسوس کے ان کے لیے یہ تجربہ انتہائی تلخ اور ناخوشگوار ثابت ہوا۔ اس کے بعد یہ عہدہ خالی ہوگیا اور اسے عارضی طور پر پر کرنے کا بندوبست کرنا پڑا۔
پھر جب یہ عارضی مدت بھی حد سے گزرنے لگی تو سپریم کورٹ کی ہدایت پر سخت دوڑ دھوپ اور تلاش شروع ہوگئی۔ نام تو کئی تجویز ہوئے لیکن کسی پر حکومت کو اتفاق تھا تو اپوزیشن متفق نہیں ہو رہی تھی۔سپریم کورٹ کی جانب سے مقرر کی ہوئی آخری ڈیڈ لائن جب سر پر آپہنچی تو قرعہ فال جسٹس (ر) سردار محمد رضا خان صاحب کے نام پر نکل آیا جنھوں نے ملک و قوم کی بے لوث ختم کی خاطر یہ پیشکش قبول کرکے اپنی حوصلہ مندی کا ثبوت پیش کردیا ۔ایسے حالات میں جب کہ گزشتہ عام انتخابات کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے سنگین نوعیت کے اعتراضات اور دھاندلی کے الزامات منظر عام پر آکر شدت اختیار کرچکے ہیں، چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ مزید کانٹوں کی سیج بن چکا ہے اور اس عہدے پر کام کرنا کسی بھی شخص کے لیے اپنی ساکھ کو داؤ پر لگا دینے کے مترادف ہے۔ جسٹس (ریٹائرڈ) سردار محمد رضاخان صاحب کو اس حقیقت کا پورا اندازہ اور احساس ہے۔ چناں چہ اپنا نیا منصب سنبھالنے کے بعد ان کا کہنا تھا کہ ''مجھے کئی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔''
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بھی ان کی تقرری کو بڑے اچھے الفاظ میں سراہا ہے اور کہا ہے کہ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہ فیصلہ قطعی غیر متنازعہ اور متفقہ ہے۔ سب سے بڑا کٹھن کام اس اہم ترین ادارے کی کھوئی ہوئی ساکھ کی بحالی کا ہے۔ نئے چیف الیکشن کمشنر کے لیے سب سے سنگین چیلنج اس ادارے کا استحکام اور اس کی مکمل غیر جانبداری ہے۔ اس کے علاوہ الیکشن کمیشن کے تمام ممبران کی مکمل حمایت حاصل کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہے جس کے لیے بڑی پرکاری اور انتہائی صبر و تحمل درکار ہے۔
سابق چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ریٹائرڈ) فخرالدین جی ابراہیم کو پچھلے سال 30 جولائی کو اپنے عہدے سے مجبوراً اس وقت استعفیٰ دینا پڑا تھا جب وہ کمیشن کے چار میں سے تین ممبران کی اشد ضروری حمایت حاصل کرنے میں ناکام ہوگئے تھے جس کے بعد سپریم کورٹ نے دیگر فریقین کی شنوائی کے بغیر پی ایم ایل (ن) کے ایک قانون ساز کی جانب سے دائر شدہ پٹیشن پر صدارتی انتخاب کے شیڈول کو تبدیل کردیا تھا۔
یوں تو نئے چیف الیکشن کمشنر کے سامنے بہت سے اہم اقدامات کا ایک پلندہ موجود ہے لیکن ان میں سے بعض کام فوری نوعیت کے ہیں جن میں مزید تاخیر کی گنجائش موجود نہیں ہے۔ ان میں لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کا انعقاد سرفہرست ہے۔ وطن عزیز کی جمہوریت بھی بڑی نرالی اور عجیب شے ہے جو Grass Roots کے بغیر پروان چڑھ رہی ہے۔ لوکل باڈیز کے نظام کے بغیر پرورش پانے والا جمہوری نظام درحقیقت جمہوریت کے نام پر فراڈ یا تماشا ہی کہا جاسکتا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کے التوا کو نو سال سے بھی زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ یہ انتخابات Due نہیں بلکہ اب Over Due ہوچکے ہیں اور ان میں کسی بھی حیلے یا بہانے سے مزید تاخیر حقیقی جمہوریت کے قتل کے مترادف ہوگی۔
لہٰذا نئے چیف الیکشن کمشنر کے کندھوں پر سب سے بڑی ذمے داری آزادانہ، غیر جانب دارانہ، منصفانہ اور شفاف لوکل باڈیز الیکشنز کے انعقاد کی صورت میں عائد ہوتی ہے جو انھیں اولین وقت میں کرانے ہوں گے۔ ان انتخابات کے انعقاد کی پہلی شرط یہ ہے کہ سندھ اور پنجاب کے صوبوں میں کونسل اور وارڈز کی غلطی سے پاک حلقہ بندیاں کرائی جائیں۔ خیبرپختونخوا میں یہ کام قابل تعریف اور لائق تحسین انداز میں مکمل کیا جاچکا ہے۔ نئے چیف الیکشن کمشنر کی اگلی اہم ذمے داری 104 ممبران پر مشتمل ایوان بالا سے تعلق رکھنے والے ممبران 525 نشستوں پر انتخابات کا انعقاد کرانا ہے جو خالی ہو رہی ہیں۔
آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ عام انتخابات کا انعقاد حقیقی جمہوریت کی اصل روح ہے۔ اس کے لیے الیکشن کمیشن کا مستحکم اور قطعی غیر جانب دار ہونا اولین شرط ہے۔ جب تک یہ شرط پوری نہیں ہوگی اس وقت تک قابل اعتماد اور پائیدار جمہوریت کا فروغ ناممکن اور محال ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں آج تک اس کا بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے جمہوریت کی گاڑی کے کسی بھی وقت پٹڑی سے اتر جانے کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ کی یہ آبزرویشن خصوصی توجہ کی متقاضی ہے کہ پاکستان کی بنیاد جمہوریت اور جمہوریت کی بنیاد شفاف عام انتخابات ہیں۔ اس کے بغیر نہ تو ملکی سلامتی برقرار رہے گی اور نہ ہی آئینی ادارے اور ان کی روح زندہ رہ سکے گی۔
بھارت اور ہم ایک ساتھ ہی آزاد ہوئے تھے۔ لیکن بھارت کو ہم پر اس لحاظ سے برتری یا سبقت حاصل ہے کہ وہاں جمہوریت روز اول سے آج تک بلاتعطل اور مسلسل کامیابی کے ساتھ پروان چڑھ رہی ہے جب کہ ہمارے یہاں جمہوریت کا کم اور آمریت کا بہت زیادہ بول بالا رہا ہے۔ اس کے بالکل برعکس بھارت میں آمریت کے لیے سرے سے ہی کبھی کوئی گنجائش نہیں رہی۔ وہاں عام انتخابات قطعی آزادانہ، غیر جانب دارانہ اور منصفانہ انداز میں منعقد ہو رہے ہیں۔ اس کا سہرا وہاں کے الیکشن کمیشن کے سر ہے جو ریفری کا کردار نہایت کامیابی کے ساتھ ادا کر رہا ہے۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ جس میچ کا ریفری آزاد اور غیر جانبدار ہو، اس کا فیصلہ اور نتیجہ بلا عذر قبول کرنے میں کسی کو بھی کوئی اعتراض یا عذر نہیں ہوگا۔
بھارت نے جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتا ہے انتخابی اصلاحات کے حوالے کافی پیش رفت کی ہے اور بڑے اہم سنگ میل طے کیے ہیں۔ ہمیں وہ زمانہ بھی یاد ہے جب بھارت کی حکمراں کانگریس پارٹی اپنی سیاسی بالادستی کو برقرار رکھنے کے لیے عام انتخابات میں ہر طرح کے حربے استعمال کیا کرتی تھی اور غنڈوں کی خدمات نہ صرف کرائے پر حاصل کیا کرتی تھی بلکہ ان کی باقاعدہ پرورش بھی کیا کرتی تھی۔
لیکن سیاسی شعور بیدار ہونے کے ساتھ ساتھ تبدیلی کی ایک ایسی زبردست لہر اٹھی کہ سیاسی جماعتوں کی غالب اکثریت نے اس ضرورت کو شدت سے محسوس کیا کہ ملک میں صحت مند جمہوری کلچر کو فروغ دینے کے لیے انتخابی اصلاحات ناگزیر ہیں جس کے لیے الیکشن کمیشن کے ادارے کا مضبوط و مستحکم اور غیر جانبدار ہونا اولین شرط ہے۔ یہ اسی سوچ کا نتیجہ ہے کہ بھارت کا الیکشن کمیشن آج ایک مثالی ادارہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ دیگر باتوں کے علاوہ اس ادارے کی کامیابی کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ یہ ادارہ جدید ترین ٹیکنالوجی سے بھرپور استفادہ کر رہا ہے جس کے بعد انتخابی عمل میں کسی بھی نوعیت کی گھپلے بازی یا دھاندلی کی رہی سہی گنجائش بھی ختم ہوجاتی ہے۔
امید ہے کہ نئے چیف الیکشن کمشنر انتخابی اصلاحات کے عمل کو تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھانے پر بھرپور توجہ دیں گے۔ ہمارے خیال میں اگر اس سلسلے میں بھارت کے الیکشن کمیشن سے بھی رہنمائی حاصل کی جائے اور اس کے تجربے سے استفادہ کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہی ہے۔ جسٹس (ریٹائرڈ) سردار محمد رضا خان کے نئے چیف الیکشن کمشنر مقرر کیے جانے کا پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بھی خیر مقدم کیا ہے جوکہ ایک نہایت خوش آیند بات ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ انتخابی اصلاحات کے عمل میں بھرپور حصہ لیں اور سردار رضا صاحب کے ساتھ مکمل تعاون کریں تاکہ ملک میں آیندہ صاف اور شفاف عام انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنایا جاسکے۔
بالآخر جسٹس (ریٹائرڈ) سردار محمد رضا خان نے 14 ویں چیف الیکشن کمشنر کی حیثیت سے اپنا نیا منصب سنبھال کر وہ چیلنج قبول کرلیا جسے قبول کرنے سے بڑے بڑے لوگ کترا رہے تھے۔ ایسا کرنے میں یہ لوگ حق بجانب بھی تھے کیونکہ اس عاشقی میں عزت سادات چلے جانے کا خطرہ بری طرح لاحق تھا۔جسٹس (ریٹائرڈ) فخرالدین جی ابراہیم کی دیانت داری کا بھلا کون معترف نہ ہوگا۔ انھوں نے بھی چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ کسی لالچ یا شہرت کے لیے نہیں بلکہ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کی خاطر قبول کیا تھا مگر افسوس صد افسوس کے ان کے لیے یہ تجربہ انتہائی تلخ اور ناخوشگوار ثابت ہوا۔ اس کے بعد یہ عہدہ خالی ہوگیا اور اسے عارضی طور پر پر کرنے کا بندوبست کرنا پڑا۔
پھر جب یہ عارضی مدت بھی حد سے گزرنے لگی تو سپریم کورٹ کی ہدایت پر سخت دوڑ دھوپ اور تلاش شروع ہوگئی۔ نام تو کئی تجویز ہوئے لیکن کسی پر حکومت کو اتفاق تھا تو اپوزیشن متفق نہیں ہو رہی تھی۔سپریم کورٹ کی جانب سے مقرر کی ہوئی آخری ڈیڈ لائن جب سر پر آپہنچی تو قرعہ فال جسٹس (ر) سردار محمد رضا خان صاحب کے نام پر نکل آیا جنھوں نے ملک و قوم کی بے لوث ختم کی خاطر یہ پیشکش قبول کرکے اپنی حوصلہ مندی کا ثبوت پیش کردیا ۔ایسے حالات میں جب کہ گزشتہ عام انتخابات کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے سنگین نوعیت کے اعتراضات اور دھاندلی کے الزامات منظر عام پر آکر شدت اختیار کرچکے ہیں، چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ مزید کانٹوں کی سیج بن چکا ہے اور اس عہدے پر کام کرنا کسی بھی شخص کے لیے اپنی ساکھ کو داؤ پر لگا دینے کے مترادف ہے۔ جسٹس (ریٹائرڈ) سردار محمد رضاخان صاحب کو اس حقیقت کا پورا اندازہ اور احساس ہے۔ چناں چہ اپنا نیا منصب سنبھالنے کے بعد ان کا کہنا تھا کہ ''مجھے کئی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔''
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بھی ان کی تقرری کو بڑے اچھے الفاظ میں سراہا ہے اور کہا ہے کہ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہ فیصلہ قطعی غیر متنازعہ اور متفقہ ہے۔ سب سے بڑا کٹھن کام اس اہم ترین ادارے کی کھوئی ہوئی ساکھ کی بحالی کا ہے۔ نئے چیف الیکشن کمشنر کے لیے سب سے سنگین چیلنج اس ادارے کا استحکام اور اس کی مکمل غیر جانبداری ہے۔ اس کے علاوہ الیکشن کمیشن کے تمام ممبران کی مکمل حمایت حاصل کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہے جس کے لیے بڑی پرکاری اور انتہائی صبر و تحمل درکار ہے۔
سابق چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ریٹائرڈ) فخرالدین جی ابراہیم کو پچھلے سال 30 جولائی کو اپنے عہدے سے مجبوراً اس وقت استعفیٰ دینا پڑا تھا جب وہ کمیشن کے چار میں سے تین ممبران کی اشد ضروری حمایت حاصل کرنے میں ناکام ہوگئے تھے جس کے بعد سپریم کورٹ نے دیگر فریقین کی شنوائی کے بغیر پی ایم ایل (ن) کے ایک قانون ساز کی جانب سے دائر شدہ پٹیشن پر صدارتی انتخاب کے شیڈول کو تبدیل کردیا تھا۔
یوں تو نئے چیف الیکشن کمشنر کے سامنے بہت سے اہم اقدامات کا ایک پلندہ موجود ہے لیکن ان میں سے بعض کام فوری نوعیت کے ہیں جن میں مزید تاخیر کی گنجائش موجود نہیں ہے۔ ان میں لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کا انعقاد سرفہرست ہے۔ وطن عزیز کی جمہوریت بھی بڑی نرالی اور عجیب شے ہے جو Grass Roots کے بغیر پروان چڑھ رہی ہے۔ لوکل باڈیز کے نظام کے بغیر پرورش پانے والا جمہوری نظام درحقیقت جمہوریت کے نام پر فراڈ یا تماشا ہی کہا جاسکتا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کے التوا کو نو سال سے بھی زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ یہ انتخابات Due نہیں بلکہ اب Over Due ہوچکے ہیں اور ان میں کسی بھی حیلے یا بہانے سے مزید تاخیر حقیقی جمہوریت کے قتل کے مترادف ہوگی۔
لہٰذا نئے چیف الیکشن کمشنر کے کندھوں پر سب سے بڑی ذمے داری آزادانہ، غیر جانب دارانہ، منصفانہ اور شفاف لوکل باڈیز الیکشنز کے انعقاد کی صورت میں عائد ہوتی ہے جو انھیں اولین وقت میں کرانے ہوں گے۔ ان انتخابات کے انعقاد کی پہلی شرط یہ ہے کہ سندھ اور پنجاب کے صوبوں میں کونسل اور وارڈز کی غلطی سے پاک حلقہ بندیاں کرائی جائیں۔ خیبرپختونخوا میں یہ کام قابل تعریف اور لائق تحسین انداز میں مکمل کیا جاچکا ہے۔ نئے چیف الیکشن کمشنر کی اگلی اہم ذمے داری 104 ممبران پر مشتمل ایوان بالا سے تعلق رکھنے والے ممبران 525 نشستوں پر انتخابات کا انعقاد کرانا ہے جو خالی ہو رہی ہیں۔
آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ عام انتخابات کا انعقاد حقیقی جمہوریت کی اصل روح ہے۔ اس کے لیے الیکشن کمیشن کا مستحکم اور قطعی غیر جانب دار ہونا اولین شرط ہے۔ جب تک یہ شرط پوری نہیں ہوگی اس وقت تک قابل اعتماد اور پائیدار جمہوریت کا فروغ ناممکن اور محال ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں آج تک اس کا بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے جمہوریت کی گاڑی کے کسی بھی وقت پٹڑی سے اتر جانے کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ کی یہ آبزرویشن خصوصی توجہ کی متقاضی ہے کہ پاکستان کی بنیاد جمہوریت اور جمہوریت کی بنیاد شفاف عام انتخابات ہیں۔ اس کے بغیر نہ تو ملکی سلامتی برقرار رہے گی اور نہ ہی آئینی ادارے اور ان کی روح زندہ رہ سکے گی۔
بھارت اور ہم ایک ساتھ ہی آزاد ہوئے تھے۔ لیکن بھارت کو ہم پر اس لحاظ سے برتری یا سبقت حاصل ہے کہ وہاں جمہوریت روز اول سے آج تک بلاتعطل اور مسلسل کامیابی کے ساتھ پروان چڑھ رہی ہے جب کہ ہمارے یہاں جمہوریت کا کم اور آمریت کا بہت زیادہ بول بالا رہا ہے۔ اس کے بالکل برعکس بھارت میں آمریت کے لیے سرے سے ہی کبھی کوئی گنجائش نہیں رہی۔ وہاں عام انتخابات قطعی آزادانہ، غیر جانب دارانہ اور منصفانہ انداز میں منعقد ہو رہے ہیں۔ اس کا سہرا وہاں کے الیکشن کمیشن کے سر ہے جو ریفری کا کردار نہایت کامیابی کے ساتھ ادا کر رہا ہے۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ جس میچ کا ریفری آزاد اور غیر جانبدار ہو، اس کا فیصلہ اور نتیجہ بلا عذر قبول کرنے میں کسی کو بھی کوئی اعتراض یا عذر نہیں ہوگا۔
بھارت نے جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتا ہے انتخابی اصلاحات کے حوالے کافی پیش رفت کی ہے اور بڑے اہم سنگ میل طے کیے ہیں۔ ہمیں وہ زمانہ بھی یاد ہے جب بھارت کی حکمراں کانگریس پارٹی اپنی سیاسی بالادستی کو برقرار رکھنے کے لیے عام انتخابات میں ہر طرح کے حربے استعمال کیا کرتی تھی اور غنڈوں کی خدمات نہ صرف کرائے پر حاصل کیا کرتی تھی بلکہ ان کی باقاعدہ پرورش بھی کیا کرتی تھی۔
لیکن سیاسی شعور بیدار ہونے کے ساتھ ساتھ تبدیلی کی ایک ایسی زبردست لہر اٹھی کہ سیاسی جماعتوں کی غالب اکثریت نے اس ضرورت کو شدت سے محسوس کیا کہ ملک میں صحت مند جمہوری کلچر کو فروغ دینے کے لیے انتخابی اصلاحات ناگزیر ہیں جس کے لیے الیکشن کمیشن کے ادارے کا مضبوط و مستحکم اور غیر جانبدار ہونا اولین شرط ہے۔ یہ اسی سوچ کا نتیجہ ہے کہ بھارت کا الیکشن کمیشن آج ایک مثالی ادارہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ دیگر باتوں کے علاوہ اس ادارے کی کامیابی کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ یہ ادارہ جدید ترین ٹیکنالوجی سے بھرپور استفادہ کر رہا ہے جس کے بعد انتخابی عمل میں کسی بھی نوعیت کی گھپلے بازی یا دھاندلی کی رہی سہی گنجائش بھی ختم ہوجاتی ہے۔
امید ہے کہ نئے چیف الیکشن کمشنر انتخابی اصلاحات کے عمل کو تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھانے پر بھرپور توجہ دیں گے۔ ہمارے خیال میں اگر اس سلسلے میں بھارت کے الیکشن کمیشن سے بھی رہنمائی حاصل کی جائے اور اس کے تجربے سے استفادہ کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہی ہے۔ جسٹس (ریٹائرڈ) سردار محمد رضا خان کے نئے چیف الیکشن کمشنر مقرر کیے جانے کا پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بھی خیر مقدم کیا ہے جوکہ ایک نہایت خوش آیند بات ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ انتخابی اصلاحات کے عمل میں بھرپور حصہ لیں اور سردار رضا صاحب کے ساتھ مکمل تعاون کریں تاکہ ملک میں آیندہ صاف اور شفاف عام انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنایا جاسکے۔