16دسمبر کا غم اور ایک برہمن زادی
16دسمبر 1971ء وہ منحوس دن ہے جب ہم ایک برہمن زادی کے ہاتھوں شکست کھا گئے۔
میرے سامنے عالمی شہرت یافتہ امریکی ہفت روزہ جریدے ''ٹائم'' کی 6دسمبر 1971 کی اشاعت کا رنگین ٹائیٹل رکھا ہے۔ اس میں دو تصویریں نظر آرہی ہیں۔ اوپر جنرل آغا یحیٰ خان، جو ان بدقسمت ایام میں پاکستان کے صدر تھے، کی بڑی فوٹو ہے۔ ٹائیٹل کے نچلے حصے میں نسبتاً چھوٹی تصویر مسز اندرا گاندھی کی ہے جو اس وقت بھارت کی وزیراعظم تھیں۔
دونوں تصویروں کے درمیان دو تیز دھار خنجر دھرے ہیں۔ ٹائیٹل پر یہ الفاظ لکھے گئے: Pakistan V Indiaیعنی پاکستان اور بھارت آمنے سامنے۔ جریدے کے اندرونی صفحات میں شایع ہونے والی دو رپورٹوں میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ مشرقی پاکستان جلد ہی پاکستان سے جدا ہونے والا ہے۔1971ء کے دنوں کی یہ دونوں رپورٹیں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی مجرمانہ غفلت اور شرمناک نااہلی کی چغلیاں بھی کھا رہی ہیں۔
بھارت نے اپنے خبثِ باطن کے تحت مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے' مشرقی پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے اور بعد ازاں سنہری دیس میں باقاعدہ فوجی مداخلت کرنے کے لیے بھارت کے اندر اور پوری دنیا میں پاکستان کے خلاف میڈیا کی جنگ بھی جیتی۔ اس نے مشرقی پاکستان کے خلاف اور ''مظلوم'' بنگالیوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے پوری دنیا کے میڈیا میں اپنے سفارت خانوں کو پوری طرح استعمال کیا۔
71ء میں یہ بھی اس کا نہایت خطرناک (لیکن بے بنیاد) ہتھکنڈا اور پروپیگنڈا تھا کہ مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان کی فوجوں کے ''مظالم'' سے تنگ آکر ایک کروڑ بنگالی بھارت میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ بھارت نے پاکستان کے خلاف میڈیا وار جیتنے کے لیے اپنے مؤثر سیاستدانوں کو بھی مغربی ممالک بھیجا تاکہ پاکستان کے خلاف بھارت کی بھڑکائی گئی آگ کو مزید تیز کیا جاسکے۔ مثال کے طور پر بھارت کے معروف سیاستدان اور سابق سیکریٹری خارجہ نٹور سنگھ، جو پاکستان کے دو لخت ہونے کے دنوں میں پاکستان کے خلاف بہت متحرک تھے، نے اپنی تازہ ترین سوانح حیات ONE LIFE IS NOT ENOUGH میں (صفحہ 162) لکھا ہے کہ وزیراعظم مسز اندرا گاندھی نے اپنے ایک معتمد سیاستدان جے پرکاش نرائن کو برطانیہ اس لیے بھیجا تھا کہ وہ برطانوی پارلیمنٹ کے ارکان سے مل کر انھیں یقین دلائیں کہ پاکستان نے مشرقی پاکستان کے بنگالی شہریوں پر زندگی حرام کررکھی ہے۔
اُدھر پاکستان کے خلاف بھارت یہ گھنائونی سازشیں کرتے ہوئے مشرقی پاکستان میں اپنے مسلّح ساتھیوں (مکتی باہنی) کے توسط سے دہشت گردی کی سلسلہ وار وارداتیں کروا رہا تھا اور ادھر مغربی پاکستان میں جنرل یحییٰ خان اور ذوالفقار بھٹو اپنی اپنی شبینہ مجالس سجائے بیٹھے تھے۔ بھارت نے تو مغربی ممالک میں بروئے کار مشرقی پاکستان کے بعض بنگالی سفارت کاروں کو بھی خرید لیا تھا۔
ایسی ہی ایک مثال کنورنٹور سنگھ نے اپنی مذکورہ بالا سوانح حیات (صفحہ 153) میں پیش کی ہے۔ نٹور سنگھ نے پولینڈ، جہاں وہ خود بھی بھارت کے سفیر تھے، میں تعینات پاکستان کے بنگالی سفیر (مسٹر بشیر) سے راہ و رسم بڑھائی اور پھر اس کا گہرا اعتماد حاصل کرتے ہوئے اس سے وہ حساس معلومات اور کوڈ حاصل کر لیے جو بعد ازاں 71ء کی جنگ میں پاکستان کے خلاف استعمال ہوئے۔ یہ معلومات اتنی خفیہ اور حساس ترین نوعیت کی تھیں کہ نٹور سنگھ کو پولینڈ سے دوبار بھارت جانا پڑا تاکہ یہ معلومات وہ خود بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کے حوالے کرسکیں۔
نقشہ دیکھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) کو تین اطراف سے بھارت نے گھیر رکھا ہے۔ چوتھی طرف خلیج بنگال ہے۔ یہاں بھی بھارتی نیوی نے ناکہ لگا رکھا تھا؛ چنانچہ جب دسمبر 1971ء میں مشرقی پاکستان پر بھارت نے چاروں اطراف سے دہشت گردانہ یلغار کی تو مشرقی پاکستان میں پاک فوج کی تعداد سرے سے اتنی تھی ہی نہیں کہ وہ زیادہ دنوں تک جارح بھارتی افواج کا کما حقہ مقابلہ کرسکتی۔ پاکستان کے باقاعدہ 34ہزار فوجی بھارت کی پانچ لاکھ فوج اور مکتی باہنی کے دو لاکھ مسلح غنڈوں کا مقابلہ کررہے تھے۔ اِدھر مغربی پاکستان کی مشرقی سرحدوں پر بھی بھارت نے پاکستان کے خلاف محاذ گرم کردیا تھا۔ عالمی سطح پر چین اور امریکا کہیں بھی نظر نہیں آرہے تھے کہ جلد پاکستان کی اعانت کو پہنچ سکتے۔
مشرقی پاکستان میں، سویلین محاذ پر، دو تنظیموں ''الشمس'' اور ''البدر'' نے پاکستانی افواج کی دامے درمے قدمے بہت مدد کی لیکن بھارت کی تربیت یافتہ مکتی باہنی اور ان کے جدید ہتھیاروں کے سامنے ہلکے اور روایتی ہتھیاروں سے لیس ''الشمس'' اور ''البدر'' والے کب تک پاک فوج کی مدد کرسکتے تھے؟ یوں سقوطِ ڈھاکا کا فطری انجام سامنے کھڑا تھا۔ اس سانحہ کو گزرے 43/44 سال گزر گئے ہیں لیکن ''الشمس'' اور ''البدر'' کے وابستگان اور ان کی باقیات سے بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی نفرت ابھی کم نہیں ہوئی؛ چنانچہ ہم روز دیکھتے اور سنتے ہیں کہ منتقم مزاج بھارت کے اشارے پر بنگلہ دیشی وزیراعظم ''محترمہ'' حسینہ واجد اپنے ہاں بزرگ سیاسی رہنمائوں کو پھانسیاں دے رہی ہیں۔
یہ وہی باوفا لوگ ہیں جنہوں نے 1971ء کے دنوں میں پاکستان اور افواجِ پاکستان کا ساتھ دیا تھا۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ آج جب ان جانثاروں کو پھانسی کے پھندوں میں جھولا جھلایا جا رہا ہے، پاکستان کے حکمران یہ کہہ رہے ہیں: ''یہ بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے۔''
16دسمبر 1971ء وہ منحوس دن ہے جب ہم ایک برہمن زادی کے ہاتھوں شکست کھا گئے۔ قائداعظم محمد علی جناح علیہ رحمہ کا دیا گیا عظیم ملک پاکسان دولخت ہوگیا۔ پھر بھارت اس فتح پر شادیانے کیوں نہ بجاتا اور بھارتی حکمران خصوصاً برہمن زادی اندرا گاندھی اپنی فوجوں کو شاباش کیوں نہ دیتی؟ چنانچہ 16دسمبر کی شام وزیراعظم اندرا گاندھی نے بھارتی پارلیمنٹ سے ایک پُرجوش خطاب کیا جو آج بھی الفاظ کی شکل میں ہمارے کانوں میں دہکتے ہوئے انگاروں کی طرح سنائی دے رہا ہے۔ اندرا نے پُرغرور اور پُر تفاخر لہجے میں پارلیمنٹ میں کہا: ''مجھے آج آپ کے سامنے ایک اہم اعلان کرنا ہے۔ بنگلہ دیش میں آج مغربی پاکستان کی فوجوں نے ہماری فوج کے سامنے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیے ہیں۔
پاکستان کی ایسٹرن کمان کے سربراہ جنرل اے اے کے نیازی نے ہمارے لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ کے سامنے شکست کی دستاویزات پر دستخط بھی کردیے ہیں۔ ڈھاکا اب ایک آزاد ملک کا آزاد دارالحکومت ہے۔ یہ ہائوس اور بھارت کی ساری قوم اس فتح پر خوشی اور مسرت کا اظہار کرتی ہے۔ مکتی باہنی کے جوانوں اور لڑکوں نے اس فتح میں جو شاندار کردار ادا کیا، ہم انھیں مبارکباد دیتے ہیں۔ اور مبارکباد و تحسین کی حقدار ہیں ہماری نیوی، بری، ائیر فورس اور بارڈر سیکیورٹی فورسز جنہوں نے اپنی جوانمردی، ذہانت اور بے مثل پیشہ وارانہ کارکردگی کا مظاہرہ کرکے اپنا سکّہ جما دیا ہے۔ ضرورت سے زیادہ دنوں تک ہماری فوجیں بنگلہ دیش میں نہیں رہیں گی...'' اندرا گاندھی کی تقریر کے یہ الفاظ پڑھتے ہوئے آنکھیں اشکبار ہیں۔
یہ درست ہے کہ سانحۂ مشرقی پاکستان کے تینوں اہم کردار نہایت دردناک انداز میں اپنے انجام کو پہنچے لیکن فی الحقیقت کس پر اس لہو لہو المیے کا الزام دھرا جائے؟ ذوالفقار علی بھٹو عدالت کے ہاتھوں پھانسی پر لٹکا دیے گئے۔ شیخ مجیب الرحمن اپنے فوجیوں کی گولیوں سے انجام کو پہنچے اور برہمن زادی اندرا گاندھی اپنے محافظوں کے ہاتھوں قتل ہوئی۔ اتنا ضرور اور حق الیقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ بھارت نے مشرقی پاکستان میں مسلح دہشت گردی کی ہولناک وارداتیں کرتے ہوئے پاکستان کو توڑ ڈالا۔
ہمیں چاہیے کہ ہم ہر سطح پر، چاہے وہ تعلیمی نصاب ہو یا میڈیا، بھارت کی ان دہشت گردیوں کو اپنی نئی نسل تک پہنچائیں تاکہ وہ بھی بھارت کے اصل چہرے سے آشنا ہوسکے۔ پاکستان کے خلاف بھارت کی یہ سازشیں اور وارداتیں اب بھی جاری ہیں لیکن اس کا کیا علاج کہ جب ہمارے منتخب حکمران علی الاعلان یہ کہنا شروع کردیں کہ ''ہم اور بھارتی ایک ہی طرح کے کھانے کھاتے ہیں، مشترکہ میوزک سنتے اور ایک ہی زبان بولتے ہیں، بس درمیان میں ایک (سرحد کی) لکیر ہے جس نے ہمیں ایک دوسرے سے جدا کر رکھا ہے۔'' تو اندرا گاندھی کے کہے گئے الفاظ سے پھر شکوہ کیسا؟ یہ دن بھی آنے تھے۔کاش ہم مشرقی پاکستان کا بدلہ لینے کے لیے خالصتانیوں کی کھل کر مدد اور حمایت کرسکتے لیکن یہ جرأت کون کرتا؟
دونوں تصویروں کے درمیان دو تیز دھار خنجر دھرے ہیں۔ ٹائیٹل پر یہ الفاظ لکھے گئے: Pakistan V Indiaیعنی پاکستان اور بھارت آمنے سامنے۔ جریدے کے اندرونی صفحات میں شایع ہونے والی دو رپورٹوں میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ مشرقی پاکستان جلد ہی پاکستان سے جدا ہونے والا ہے۔1971ء کے دنوں کی یہ دونوں رپورٹیں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی مجرمانہ غفلت اور شرمناک نااہلی کی چغلیاں بھی کھا رہی ہیں۔
بھارت نے اپنے خبثِ باطن کے تحت مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے' مشرقی پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے اور بعد ازاں سنہری دیس میں باقاعدہ فوجی مداخلت کرنے کے لیے بھارت کے اندر اور پوری دنیا میں پاکستان کے خلاف میڈیا کی جنگ بھی جیتی۔ اس نے مشرقی پاکستان کے خلاف اور ''مظلوم'' بنگالیوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے پوری دنیا کے میڈیا میں اپنے سفارت خانوں کو پوری طرح استعمال کیا۔
71ء میں یہ بھی اس کا نہایت خطرناک (لیکن بے بنیاد) ہتھکنڈا اور پروپیگنڈا تھا کہ مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان کی فوجوں کے ''مظالم'' سے تنگ آکر ایک کروڑ بنگالی بھارت میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ بھارت نے پاکستان کے خلاف میڈیا وار جیتنے کے لیے اپنے مؤثر سیاستدانوں کو بھی مغربی ممالک بھیجا تاکہ پاکستان کے خلاف بھارت کی بھڑکائی گئی آگ کو مزید تیز کیا جاسکے۔ مثال کے طور پر بھارت کے معروف سیاستدان اور سابق سیکریٹری خارجہ نٹور سنگھ، جو پاکستان کے دو لخت ہونے کے دنوں میں پاکستان کے خلاف بہت متحرک تھے، نے اپنی تازہ ترین سوانح حیات ONE LIFE IS NOT ENOUGH میں (صفحہ 162) لکھا ہے کہ وزیراعظم مسز اندرا گاندھی نے اپنے ایک معتمد سیاستدان جے پرکاش نرائن کو برطانیہ اس لیے بھیجا تھا کہ وہ برطانوی پارلیمنٹ کے ارکان سے مل کر انھیں یقین دلائیں کہ پاکستان نے مشرقی پاکستان کے بنگالی شہریوں پر زندگی حرام کررکھی ہے۔
اُدھر پاکستان کے خلاف بھارت یہ گھنائونی سازشیں کرتے ہوئے مشرقی پاکستان میں اپنے مسلّح ساتھیوں (مکتی باہنی) کے توسط سے دہشت گردی کی سلسلہ وار وارداتیں کروا رہا تھا اور ادھر مغربی پاکستان میں جنرل یحییٰ خان اور ذوالفقار بھٹو اپنی اپنی شبینہ مجالس سجائے بیٹھے تھے۔ بھارت نے تو مغربی ممالک میں بروئے کار مشرقی پاکستان کے بعض بنگالی سفارت کاروں کو بھی خرید لیا تھا۔
ایسی ہی ایک مثال کنورنٹور سنگھ نے اپنی مذکورہ بالا سوانح حیات (صفحہ 153) میں پیش کی ہے۔ نٹور سنگھ نے پولینڈ، جہاں وہ خود بھی بھارت کے سفیر تھے، میں تعینات پاکستان کے بنگالی سفیر (مسٹر بشیر) سے راہ و رسم بڑھائی اور پھر اس کا گہرا اعتماد حاصل کرتے ہوئے اس سے وہ حساس معلومات اور کوڈ حاصل کر لیے جو بعد ازاں 71ء کی جنگ میں پاکستان کے خلاف استعمال ہوئے۔ یہ معلومات اتنی خفیہ اور حساس ترین نوعیت کی تھیں کہ نٹور سنگھ کو پولینڈ سے دوبار بھارت جانا پڑا تاکہ یہ معلومات وہ خود بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کے حوالے کرسکیں۔
نقشہ دیکھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) کو تین اطراف سے بھارت نے گھیر رکھا ہے۔ چوتھی طرف خلیج بنگال ہے۔ یہاں بھی بھارتی نیوی نے ناکہ لگا رکھا تھا؛ چنانچہ جب دسمبر 1971ء میں مشرقی پاکستان پر بھارت نے چاروں اطراف سے دہشت گردانہ یلغار کی تو مشرقی پاکستان میں پاک فوج کی تعداد سرے سے اتنی تھی ہی نہیں کہ وہ زیادہ دنوں تک جارح بھارتی افواج کا کما حقہ مقابلہ کرسکتی۔ پاکستان کے باقاعدہ 34ہزار فوجی بھارت کی پانچ لاکھ فوج اور مکتی باہنی کے دو لاکھ مسلح غنڈوں کا مقابلہ کررہے تھے۔ اِدھر مغربی پاکستان کی مشرقی سرحدوں پر بھی بھارت نے پاکستان کے خلاف محاذ گرم کردیا تھا۔ عالمی سطح پر چین اور امریکا کہیں بھی نظر نہیں آرہے تھے کہ جلد پاکستان کی اعانت کو پہنچ سکتے۔
مشرقی پاکستان میں، سویلین محاذ پر، دو تنظیموں ''الشمس'' اور ''البدر'' نے پاکستانی افواج کی دامے درمے قدمے بہت مدد کی لیکن بھارت کی تربیت یافتہ مکتی باہنی اور ان کے جدید ہتھیاروں کے سامنے ہلکے اور روایتی ہتھیاروں سے لیس ''الشمس'' اور ''البدر'' والے کب تک پاک فوج کی مدد کرسکتے تھے؟ یوں سقوطِ ڈھاکا کا فطری انجام سامنے کھڑا تھا۔ اس سانحہ کو گزرے 43/44 سال گزر گئے ہیں لیکن ''الشمس'' اور ''البدر'' کے وابستگان اور ان کی باقیات سے بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی نفرت ابھی کم نہیں ہوئی؛ چنانچہ ہم روز دیکھتے اور سنتے ہیں کہ منتقم مزاج بھارت کے اشارے پر بنگلہ دیشی وزیراعظم ''محترمہ'' حسینہ واجد اپنے ہاں بزرگ سیاسی رہنمائوں کو پھانسیاں دے رہی ہیں۔
یہ وہی باوفا لوگ ہیں جنہوں نے 1971ء کے دنوں میں پاکستان اور افواجِ پاکستان کا ساتھ دیا تھا۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ آج جب ان جانثاروں کو پھانسی کے پھندوں میں جھولا جھلایا جا رہا ہے، پاکستان کے حکمران یہ کہہ رہے ہیں: ''یہ بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے۔''
16دسمبر 1971ء وہ منحوس دن ہے جب ہم ایک برہمن زادی کے ہاتھوں شکست کھا گئے۔ قائداعظم محمد علی جناح علیہ رحمہ کا دیا گیا عظیم ملک پاکسان دولخت ہوگیا۔ پھر بھارت اس فتح پر شادیانے کیوں نہ بجاتا اور بھارتی حکمران خصوصاً برہمن زادی اندرا گاندھی اپنی فوجوں کو شاباش کیوں نہ دیتی؟ چنانچہ 16دسمبر کی شام وزیراعظم اندرا گاندھی نے بھارتی پارلیمنٹ سے ایک پُرجوش خطاب کیا جو آج بھی الفاظ کی شکل میں ہمارے کانوں میں دہکتے ہوئے انگاروں کی طرح سنائی دے رہا ہے۔ اندرا نے پُرغرور اور پُر تفاخر لہجے میں پارلیمنٹ میں کہا: ''مجھے آج آپ کے سامنے ایک اہم اعلان کرنا ہے۔ بنگلہ دیش میں آج مغربی پاکستان کی فوجوں نے ہماری فوج کے سامنے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیے ہیں۔
پاکستان کی ایسٹرن کمان کے سربراہ جنرل اے اے کے نیازی نے ہمارے لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ کے سامنے شکست کی دستاویزات پر دستخط بھی کردیے ہیں۔ ڈھاکا اب ایک آزاد ملک کا آزاد دارالحکومت ہے۔ یہ ہائوس اور بھارت کی ساری قوم اس فتح پر خوشی اور مسرت کا اظہار کرتی ہے۔ مکتی باہنی کے جوانوں اور لڑکوں نے اس فتح میں جو شاندار کردار ادا کیا، ہم انھیں مبارکباد دیتے ہیں۔ اور مبارکباد و تحسین کی حقدار ہیں ہماری نیوی، بری، ائیر فورس اور بارڈر سیکیورٹی فورسز جنہوں نے اپنی جوانمردی، ذہانت اور بے مثل پیشہ وارانہ کارکردگی کا مظاہرہ کرکے اپنا سکّہ جما دیا ہے۔ ضرورت سے زیادہ دنوں تک ہماری فوجیں بنگلہ دیش میں نہیں رہیں گی...'' اندرا گاندھی کی تقریر کے یہ الفاظ پڑھتے ہوئے آنکھیں اشکبار ہیں۔
یہ درست ہے کہ سانحۂ مشرقی پاکستان کے تینوں اہم کردار نہایت دردناک انداز میں اپنے انجام کو پہنچے لیکن فی الحقیقت کس پر اس لہو لہو المیے کا الزام دھرا جائے؟ ذوالفقار علی بھٹو عدالت کے ہاتھوں پھانسی پر لٹکا دیے گئے۔ شیخ مجیب الرحمن اپنے فوجیوں کی گولیوں سے انجام کو پہنچے اور برہمن زادی اندرا گاندھی اپنے محافظوں کے ہاتھوں قتل ہوئی۔ اتنا ضرور اور حق الیقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ بھارت نے مشرقی پاکستان میں مسلح دہشت گردی کی ہولناک وارداتیں کرتے ہوئے پاکستان کو توڑ ڈالا۔
ہمیں چاہیے کہ ہم ہر سطح پر، چاہے وہ تعلیمی نصاب ہو یا میڈیا، بھارت کی ان دہشت گردیوں کو اپنی نئی نسل تک پہنچائیں تاکہ وہ بھی بھارت کے اصل چہرے سے آشنا ہوسکے۔ پاکستان کے خلاف بھارت کی یہ سازشیں اور وارداتیں اب بھی جاری ہیں لیکن اس کا کیا علاج کہ جب ہمارے منتخب حکمران علی الاعلان یہ کہنا شروع کردیں کہ ''ہم اور بھارتی ایک ہی طرح کے کھانے کھاتے ہیں، مشترکہ میوزک سنتے اور ایک ہی زبان بولتے ہیں، بس درمیان میں ایک (سرحد کی) لکیر ہے جس نے ہمیں ایک دوسرے سے جدا کر رکھا ہے۔'' تو اندرا گاندھی کے کہے گئے الفاظ سے پھر شکوہ کیسا؟ یہ دن بھی آنے تھے۔کاش ہم مشرقی پاکستان کا بدلہ لینے کے لیے خالصتانیوں کی کھل کر مدد اور حمایت کرسکتے لیکن یہ جرأت کون کرتا؟