وقت کسی کا پابند نہیں

زمانے کے ساتھ ساتھ جنگ کے آلات بھی بدل گئے۔ کبھی تلوار اور گھوڑا مرد کی طاقت اور عظمت سمجھے جاتے تھے۔

زمانہ بدل گیا۔ زمانے کے ساتھ ساتھ زندگی کے طورطریقے اور اس کے آداب بھی بدل گئے یہ جو زمانہ بدلا ہے یہ ہمیشہ بدلتا رہتا ہے۔ اس کی شکایت ہر نسل کرتی رہی ہے اورکئی بار یہ لکھا پڑھا جاچکا ہے کہ ہر آنے والی نسل کو جانے والی نسل نے شکایتی نظروں سے دیکھا اور یہ ضرور کہا کہ زمانہ ہی بدل گیا۔ اب وہ بات نہیں رہی۔

وہ کیا بات تھی جو نہیں رہی اور جس کے بارے میں ہر جانے والی نسل یہ جملہ ضرور کہتی ہے۔ کبھی اس پر غور کیا آپ نے کہ آخر وہ کیا تھا جو اب نہیں ہے۔ اور وہ کیا ہے جو نہیں ہونا چاہیے تھا جانے والوں کے خیال سے اور ضرور ہونا چاہیے موجودہ لوگوں کے حساب سے؟

آئیے آج غورکرتے ہیں۔ دراصل ہر وقت کی ایک Tune ہے۔ ایک Need ہے اور یعنی ایک فضایا ماحول ہے اور اس کے تقاضے ہیں۔ ہر نسل اس کو Set کرتی ہے اور اس میں وہ آرام محسوس کرتی ہے۔ مگر یہ کائنات Static یا منجمد نہیں ہے۔ اس میں ہر لمحہ تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ قادر مطلق نے ہر چیز کو اپنی صفات کے حساب سے مربوط کیا ہے اور دنیا کا سارا نظام لکھا جاچکا ہے۔ Probationaryطور پر یعنی ایک بہت ضروری اور وقوع پذیر ہونے والے خاکے کی صورت۔

انسان کا عمل اس میں تبدیلی پیدا کرتا ہے۔ جو ضروری ہے کیونکہ اللہ چاہتا تو ساری دنیا کے لیے سارا پانی ایک وقت میں پیدا کردیتا اور انسان استعمال کرتا رہتا اور وہ کبھی ختم نہ ہوتا۔ مگر وہ پانی صدیوں پرانا ہوتا۔ قدرت نے Recyclingکے ذریعے اس پانی کو ہر روز تازہ کردیا ہے، یہی تو قدرت ہے۔ اور اس کا ایک مظہر انسان اور اس کے اطوار و اعمال ہیں۔

کسی بھی بات کو کہنے کے لیے بہت سی باتوں کے ''جنگل'' میں سے گزرنا پڑتا ہے اور یہ ''جنگل'' ہرا بھرا سرسبز پھولوں کی وادی بھی ہوسکتا ہے اور سنگلاخ اور ناہموار علاقہ بھی، یہ اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کا طریقہ گفتگو اور موضوع گفتگو کیا ہے۔ میں نے تحریر میں یہ تجربہ بھی کیا ہے اور سمجھا بھی ہے کہ قلم کی حرمت کو برقرار اس صورت میں رکھا جاسکتا ہے کہ جب آپ اسے اس طرح استعمال کریں جس طرح اس کا حق ہے۔ تلوار سے قلم کی نوک تیار کرنے کی یعنی چھیلنے کی کوشش نہ کریں اب وہ قلم ہی نہیں رہے اب تو Ball Point ہے۔

تو یہ وجہ ہے کہ نئے آنے والے جب اپنی Tune کو Set کرنے لگتے ہیں تو پرانے لوگ اس پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں کہ یہ کیا ہے؟ ہمارے وقت میں تو ایسا نہیں ہوتا تھا۔ اس جملے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسان وقت کو پابند کرنا چاہتا ہے۔ مگر وقت کسی کا پابند نہیں۔

وقت نے چھوٹوں کو بڑا کردیا اور بڑے چھوٹے ہوگئے حالانکہ یہ بھی لوگ اپنے ''کیے'' سے ہوتے ہیں مگر الزام بے چارے ''وقت'' پر ہی ہوتا ہے کہ سارا اس کا قصور ہے۔ ''وقت بدل گیا'' جناب وقت نہیں آپ بدل گئے۔ وقت تو ایک گزرنے والی چیز ہے جس میں آپ بھی ہیں اور جمادات و نباتات بھی سب گزر جاتے ہیں گزرتے رہتے ہیں۔


زمانے کے ساتھ ساتھ جنگ کے آلات بھی بدل گئے۔ کبھی تلوار اور گھوڑا مرد کی طاقت اور عظمت سمجھے جاتے تھے۔ مگر اب نہیں! ان کی جگہ ''قانون'' نے لے لی ہے۔ اگر ''نافذ'' ہو۔ ''نافذ'' سے ہماری مراد ہے سب پر یکساں استعمال کیا جائے۔ قانون کہتے ہی اس ''قاعدے'' کو ہیں جو ایک ''ننگی تلوار'' ہے جسے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ اس کی ''زد'' میں آنے والے مجرم کا تعلق ''اشرافیہ'' سے ہے یا وہ کوئی ایک عام انسان۔

وہ تلوار یہ بھی نہیں جانتی اب کہ کیا ''چور'' بھوکا تو نہیں تھا۔ کیونکہ ''بھوک'' کا بندوبست کرنا حکومت کی ذمے داری ہے۔ وہ پابند ہے کہ اس کے دائرہ کار میں تمام افراد کو یکساں ''مراعات'' اور یکساں ''حقوق'' حاصل ہوں۔ اور ہر شخص اپنے لیے روٹی حاصل کرسکے ''باعزت طریقے'' سے پھر بھی کوئی ''چوری'' کرے تو ''سزاوار'' ہے۔

اپنے ملک کے قانون کی بات کرنا یوں دشوار ہے کہ لگتا یوں ہے کہ قانون بنانے کے ساتھ اس کے Leakage بند نہیں کیے جاتے۔ زیادہ بہتر طور پر تو قانون داں ہی جانتے ہوں گے مگر ہم عام تجربے سے یہ محسوس کرتے ہیں کہ قانون میں کہیں نہ کہیں ایسے ''چور راستے'' رہ جاتے ہیں جن سے اسی ''اصول'' کی عمارت کو ''منہدم'' کرنا آسان ہوجاتا ہے۔

بہت سے Tv شوز نے عدالتوں کی صورت اختیار کر رکھی ہے۔ وہ جسے چاہے ''بے گناہ'' اور جسے چاہے ''گناہ گار'' قرار دے دیتے ہیں۔ اگر اس کا نام عوامی آگاہی ہے تو پھر اسے اینکرز ''سیاستدانوں کے تھیٹر'' میں تبدیل کیے بغیر بھی آگاہی دے سکتے ہیں۔

رواج ہوگیا ہے کہ جب تک کسی شو میں ''گالم گلوچ'' نہ ہوجائے وہ ایک کامیاب شو نہیں کہلاسکتا مگر خدا کے بندو! یہ تو سوچو کہ عوام کو Depress اور Tense کرکے آپ ان کو بیماریوں میں مبتلا کر رہے ہو۔ شدید ذہنی اور نفسیاتی بیماریوں میں۔ گھروں میں جھگڑے اور اختلاف پیدا ہو رہے ہیں۔ وہ وقت دور نہیں اگر یہی حال رہا کہ شاید خدا نہ کرے گھروں میں ''سیاسی اختلافات'' کی وجہ سے بھی قتل ہونا شروع ہو جائیں۔

پہلے قوم کو اتنا Educate تو ہوجانے دو کہ وہ بحث کو جذبات سے دور رکھنا سیکھ لے اور زندہ باد ، مردہ باد، لعنت کے عوامل و عواقب کو سمجھ لے۔ ہر چوراہے پر ایک ''مظاہرہ'' ہے۔ ایک ''دھرنا'' ہے۔ سیاسی ''دھرنوں'' نے ان ''دھرنوں'' کی اہمیت کو ختم کردیا جو عوام اپنے مسائل پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے دیا کرتے تھے۔

اب حکومت کو بھی ''سیاسی دھرنے'' شاید اچھے لگنے لگے ہیں کیونکہ اس طرح ان ''دھرنوں'' پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے جو اس لیے دیے جاتے ہیں کہ عوام بھوک، افلاس، ناانصافی، ظلم اور حکومت کی ان پر عدم توجہ کی وجہ سے دیا کرتے تھے۔

موت غریب اور اس کے بچے کی قسمت میں لکھ دی ہے اس سسٹم کے کرتا دھرتاؤں نے، انھیں اس سے غرض نہیں کہ عوام پر کیا گزر رہی ہے، عوام کا مصرف صرف پانچ سال میں ایک بار ووٹ دینا ہے اور اب دھاندلی کے نئے طریقوں کے بعد تو شاید ہوسکتا ہے کہ اس کی ضرورت بھی باقی نہ رہے جیساکہ دھرنے والے کہتے ہیں یہ ان کا Statement ہے اور وہ دھاندلی کو ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں اس سسٹم کے اندر رہتے ہوئے جو خود اس دھاندلی کی پیداوار ہے۔

''شو'' جاری ہیں اور سیاست دم توڑ رہی ہے اس بچے کی طرح جو تھر میں بھوک اور پیاس سے، بہاولپور میں ''زہریلی ادویات'' کی وجہ سے اور کہیں اور آکسیجن کے خالی سلنڈروں کی وجہ سے دم توڑ دیتا ہے۔ یا ناتجربہ کار ڈاکٹر اسے دنیا میں آنے سے پہلے ہی واپس کردیتا ہے۔
Load Next Story