مسافتیں پہلا حصہ

ادب میں سفرنامے کی صنف ایسی ہے، جسے بہت زیادہ لوگ دلچسپی سے پڑھتے ہیں۔


منظور ملاح December 15, 2014

ادب میں سفرنامے کی صنف ایسی ہے، جسے بہت زیادہ لوگ دلچسپی سے پڑھتے ہیں اور وہ اگر جاندار ہو تو سونے پے سہا گہ۔ ایسے ہی سفر نامے کی ایک کتاب میری آنکھوں سے گذری ہے۔ کتاب کا نام ہے ''گھوسٹ ٹرین ٹو دی ایسٹرن اسٹار ''496 صفحات پر مشتمل اس کتاب کو ڈیلی میل ، دی ٹائمز،ایوننگ اسٹینڈرڈ اورآبزرور جیسے اخبارات نے بھی خراج تحسین پیش کیا ہے ۔ اس کے مصنف گریٹ ریلوے بازار سے لے کر ڈارک اسٹار سفاری تک شاندار سفرنامے لکھنے والے امریکن لکھاری پال تھیرو ہیں۔

1973 میں پوری دنیا کا چکر لگانے کے بعد انھوں نے شہرہ آفاق سفر نامہ '' گریٹ ریلوے بازار'' لکھا، 2006 میں پھر پتا نہیں کیا سوجھی کہ ان ہی راہوں پر چل پڑے سوائے ایران جنہوں نے ویزا نہیں دیا ، افغانستان اور پاکستان، جہاں طالبان کا خطرہ تھا ۔ جب لندن سے اپنا سفر شروع کرنے لگے تو انھیں اپنے دو بیٹوں اور بیوی کی یاد نے گھیر لیا ، جب 1973 میں انھیں وہ یہاں الوداع کرنے آئے تھے اور اس بار یہ اکیلے تھے ۔ جب یورو اسٹار ٹرین میں سفر شروع کیا تو حلقی برسات اور پتھروں کی بنی پرانی لیکن خوبصورت عمارتوں نے الوداع کیا ۔ واٹر لو اسٹیشن ، پھر پیرس اور پھر مشرقی یورپ کا مسافر، مشرقی یورپ کی غربت اور ڈکٹیٹروں کے ظلم کے نشانات دیکھ کر ہاتھ ملتے رہے۔

استنبول ، بیچ میں سمندر کا نیلا پانی ، ایک طرف جدید یورپین اسٹائل شہرتو دوسری طرف قدیم ایشیائی شہر، نیم اداس نیم روشن ۔ اسی شہر پر نوبل لاریٹ ترکش رائٹر اور ہان پاموک نے '' استنبول'' نامی اک زبردست آب بیتی لکھی ہے، اس سے پہلے اس شہر پرمارک ٹوائن،جیمز بیلڈون، پال بولس اورجان فریلی بھی لکھ چکے ہیں۔ پال تھیرونے پاموک سے ملاقات میں اپنی تصنیفوں، بورجس اور نیپال کے بارے میں گپ شپ کی۔ ان کا اگلا نشانہ ترکی کی خوبصورت مصنفہ، مشیگن اور ایریزونا یونیورسٹیوں سے پڑھی ہوئی ایلف شفق،جنہوں نے اپنی ماں سے والد کی بیوفائی پر اک ناول '' دی باسٹرڈ آف استنبول'' لکھا ہے ، جس پر کچھ وقت استنبول میں پابندی بھی لگی ۔

استنبول کے قدیم گنبد، مسجدیں، بازار گھومنے اور کشتیوں کی سیر کے بعد ٹرین پر سوار انقرہ پہنچے ، وہاں کا چکر لگانے کے بعد جارجیا (تبلسی) کی طرف ٹرین کا سفر جاری رکھا ۔ ٹھنڈگندے کمرے ،لمبے کوٹوں کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے چلتی ہوئی پتلے جسم والی بوڑھی عورتیں، دھند، سرگوشیوں میں باتیں کرنے والے لوگ ، ترقی اور جارجیا کا بارڈر اور ہاتھ میں کونارڈ کی کتاب '' دی شیڈو لائن '' جارجیا کی معنی ہیں بھیڑیوں کا دیس، جس کا دارومدار زراعت اور روسی گیس پر ہے ، جو اسٹالن کی جنم بھومی بھی ہے۔اگلی منزل آذربائی جان (باکو) ، وہ ہی ٹرین کی چھک چھک ، اترنے چڑھنے والے مسافر ، دھندلے راستے ، میدان، برف اور عمارتیں،جارجیا مغربی انداز اورآذر بائی جان مشرقی اسٹائل۔ باکو آئل کے سہارے چلنے والا شہر ، ویران میدان، تنگ رہائشی علاقے، مٹی میں گرے گاؤں، گندے کپڑے پہنے چرواہے اور پھر کیسپین کنارے آباد یہ شہر ، جس کی لوک زندگی پر وہاں کے لکھاری قربان سعید نے ناول لکھا ہے ''علی اینڈ نینو '' اس شہر میں ڈکٹیٹر شپ اور غربت نے عوام کو جکڑا ہوا ہے ۔

پھر ترکمانستان کی راہیں پکڑیں، 2006 میں وفات کرنے والے، 50 لاکھ بھیڑوں کے مالک ، نیم دیوانہ حکمران سفر مراد نیازو جو اپنے آپ کو بابائے قوم کہلاتے تھے ، دنوں اور راتوں کے نام بھی اپنے خاندانی ناموں پر رکھے ، دولت بھی اپنے خاندان کے پاس ، باقی لوگ جاکر ریت چاٹیں۔ اشک آباد ، فون انٹر نیٹ نہ ہی سیٹلائیٹ ، ریڈیو ، ٹی وی چینلز ، اخبارات بھی حکومتی چھری کے نیچے ۔ افغانستان قریب ہونے کی وجہ سے ہیروئن اور جرائم کی دنیا کا ایک بڑا جہان ، 2008 میں نئے صدر کے بعد سرکس، موسیقی اور ڈراموں سے پابندیاں اٹھائی گئیں، 60% بیروزگاری کی شرح پھر بھی گیس، بجلی، پیٹرول مفت ، پانچویں صدی کی مسجد کے آثار، ونی عورت کا مقبرہ ، جہاں ہزاروں عورتیں منتیں مانگنے آتی ہیں۔ آگے ازبکستان ، تاشقند، جہاں ایک اور شخصی آمریت اور پولیس موت کا فرشتہ بنی ہوئی ۔ یہاں بھی غربت اور تباہ انفراسٹریکچر ، کوئی بھی غیر ملکی نظر نہیں آیا ،اس لیے جلدی نکلنے میں عافیت سمجھی۔

اب افغانستان اور پاکستان جانے کی بجائے جہاز میں سیدھا امرتسر پہنچے ، سالوں پہلے والے وہ ہی گھر، گلیاں اور راستے ، لوگوں کا جم غفیر ، مصالحے دار کھانے ، گولڈن ٹیمپل، چھوٹی بڑی گاڑیوں کا شور ، جدید ٹیکنالوجی ہوتے ہوئے بھی ریلوے ٹکٹ کے ہاتھ سے لکھے ہوئے فارم ۔ اس وقت پھر لاہور جانے کی سوجھی لیکن مذہبی شدت پسندی نے روک لیا۔ پھر ٹرین پکڑی ایک طرف بڑے بڑے لگژری ہوٹل تو دوسری طرف ٹوٹے ہوئے روڈ، لوگوں سے بھرے فٹ پاتھ ۔ اگلا پڑاؤ جودھ پور ... راجاؤں کا دیس ، لال پیلی ساڑھیاں ، امبرائیڈڈ شالیں، لمبے پاجامے ، سونے کے زیورات سے لدی ہوئی عورتیں ، قدیم جیلی مجسموں تلواروں اور خنجروں جیسے نوادرات کا کاروبار اور کرسٹوفر ہیبرٹ کی 1857 کی بغاوت پر کتاب '' دی گریٹ میوٹنی'' پڑھتا ہوا پال تھیرواور راجا امید سنگھ کا محل امید بھون۔ 1978 میں جب مارواڑ میں قحط آیا تو اس وقت کے راجہ نے اپنے لوگوں کو روزگار دینے کے لیے یہ محل تعمیر کروایا جس میں 15 سال لگے ۔

اس کے ایک حصے کو اب کمرشل استعمال کے لیے رکھا گیا ہے جس سے موجودہ راجہ کو اچھی خاصی آمدنی مل جاتی ہے ۔ پھر آگے مندروں اور محلاتوں کا گلابی شہر جیپور، پھر ممبئی روانگی ، جو لوگوں کا جنگل جہاں بڑی بڑی عمارتیں پھر بھی ایشیا کا سب سے بڑا جھوپڑ پٹی شہر ، جہاں کے مقامی باشندے کولھی ہیں ۔ بھارت کے کرکٹ سپر اسٹار ورات کولھی بھی ان میں سے ہیں۔ اگلی راہ بنگلور کی لی ، خوش گوار موسم اور آب ہوا، سال کے 9 مہینے مناسب درجہ حرارت ، بڑے تعلیمی ادارے ، پڑھے لکھے خاموش طبع لوگ ، جب کہ دلی جارحانہ ، ممبئی گرم اور لوگوں سے بھرا ہوا ۔

کسی دور میں انگریز دور کے ریٹائرڈ ملازموں کا شہر ، اب انفارمیشن ٹیکنالوجی کا مرکز۔پال تھیرو نے ترقی کا راز جان لیا ، آؤٹ سورس کمپنیاں ، سستی لیبر، اچھا خاصہ پڑھا لکھا سوٹڈ بوٹڈ بندہ بھی کم تنخواہ پر کام کرنے پر مجبور ، کیلیفورنیا کے لوگوں کا کال سینٹر بھی یہیں امریکن کمپنی کے زیر انتظام ۔ اگلا شہر چنائی، کسی دور میں کالونیئل عمارتوں ، باغات اور ہندی سمندر کنارے ٹھڈی ہواؤں کا شہر ، اب رکشاؤں ، لوگوں اور مندروں سے بھرا شہر ۔ پھر کولمبو، جب خود کش بمباروں کی بات نکلی توپال تھیرو نے گتھی سلجھا دی کہ خود کش بمباروں کا ذکر تو جوزف کونارڈ نے لندن کے بمباروں پر مشتمل ناول '' دی سیکریٹ ایجنٹ 1907 ''میں کیا تھا ۔ کولمبو سے ساحل سمندر ، چمکتی ہوئی ریت ، صاف نیلا پانی ، ناریل کے درخت ، تازہ خوشبو دار ہوا ، یہ ہے شہر گالے۔جس پر ورجینا وولف کے شوہر لیونارڈ وولف نے ماسٹر پیس '' دی ولیج ان جنگل'' لکھا ۔ لکڑی کی بنی سیٹوں والی آہستہ چلتی ٹرین پر کینڈی پہنچے۔ وہاں سے رنگون، فوج ، کرپشن، بھوک سے گھرا ہوا ٹوٹا پھوٹا شہر ، جہاں کے لوگ ڈپریشن کا شکار لیکن شہر کا کالونیل حصہ اب بھی اسی حالت میں ہے جہاں ردیارد کپلنگ ، جارج آرویل ، ایچ ایچ منرو بھی آئے ۔ (جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں