وقار یونس ٹیم سے ناقابل اعتبار کا لیبل اُتارنے کیلیے بے قرار
ورلڈکپ سے قبل کھیل کے تینوں شعبوں میں تسلسل لانا ہوگا، ٹاپ آرڈرکا کھویا ہوا اعتماد واپس آنا خوش آئند ہے،ہیڈکوچ
وقار پاکستانی ٹیم سے ناقابل اعتبار کا لیبل اتارنے کیلیے بے قرار ہیں، ہیڈ کوچ کا کہنا ہے کہ ورلڈکپ سے قبل کھیل کے تینوں شعبوں کی کارکردگی میں تسلسل لانا ہوگا۔
ٹاپ آرڈر کا کھویا ہوا اعتماد واپس آنا خوش آئند ہے، راتوں رات کوئی کرشمہ نہیں ہوسکتا، دوسرے ون ڈے کے بعد ٹیم سے شارٹ پچ گیندوں پر مسائل کے حوالے سے بات ہوئی،کرکٹرز نے کھیل میں بہتری لانے کیلیے کوشش کی اور کامیاب ہوئے، ان کے مطابق تیسرے میچ کی فتح کو صرف قیادت میں تبدیلی کا نتیجہ قرار دینا درست نہیں ہوگا، یونس خان ورلڈکپ پلان سے باہر نہیں ہوئے، اعتمادکی مکمل بحالی کیلیے ان کو رنز بنانے ہونگے، باصلاحیت اسد شفیق بھی جلد فارم میں واپس آئینگے۔
تفصیلات کے مطابق گذشتہ میچز کے برعکس کیویز سے تیسرے ون ڈے میں پاکستانی ٹاپ آرڈر نے اچھا کھیل پیش کیا تو ٹیم نے مجموعی طور پر اتنے رنز بنائے کہ شارجہ میں سب سے بڑے ٹوٹل کا ریکارڈ ہی ٹوٹ گیا، بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے محروم رہنے والے صرف ایک بیٹسمین عمراکمل رن آؤٹ ہونے کی وجہ سے ون ڈے سیریز میں ملنے والے پہلے موقع کو کارآمد نہ بناسکے، وقار یونس نے کہاکہ گذشتہ میچ میں شارجہ کے میدان پر ہی پاکستان کے6بیٹسمین شارٹ پچ گیندوں پر آؤٹ ہوئے تھے،مسائل کو حل کرنے کیلیے راتوں رات کوئی کرشمہ تو نہیں ہوسکتا ،کوچنگ اسٹاف اور مینجمنٹ نے پلیئرز کو حریف پیسرز کی طرف سے ممکنہ حملوں سے آگاہ کرتے ہوئے رہنمائی فراہم کی ،خوشی کی بات ہے کہ انھوں نے ان باتوںپر توجہ دیتے ہوئے کامیابی حاصل کی، کوچ نے کہا کہ ٹاپ آرڈر نے رنز کیے تو اتنا بڑا ٹوٹل اسکور بورڈ پر درج کرایا جاسکا۔
البتہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم نے مکمل طور پر ان مسائل پر قابو پالیا اور ہر ٹیم کو تسخیر کرنے کے قابل ہوگئے ہیں، ورلڈ کپ میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی پچزفاسٹ بولرز کی جنت سمجھی جاتی ہیں جہاں پیس اور باؤنس دونوں زیادہ ہونگے، اسی کے پیش نظر شارٹ پچ گیندوںکا بہتر انداز میں سامنا کرنے کی تیاری پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں، کارکردگی میں بہتری لانے کیلیے مزید محنت کا سلسلہ جاری رکھیں گے، وقار نے کہا کہ بڑے ایونٹس میں کامیابی کیلیے ہر شعبے کی پرفارمنس میں تسلسل کا ہونا ضروری ہے، فیلڈنگ میں بھی ہم مطلوبہ معیار تک نہیں پہنچ پائے، اس کیلیے مزید کام جاری رکھنا ہوگا۔انھوں نے کہا کہ کارکردگی میں عدم تسلسل ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے، ایک دن بدترین اور دوسرے روز ٹاپ کلاس ٹیم کیخلاف بھی بہترین پرفارمنس سامنے آتی ہے،یہ صورتحال اکثر پریشان کن ثابت ہوتی ہے، ہم ناقابل اعتبار کے اس لیبل کو جلد از جلد اتارنے کیلیے سخت محنت کررہے ہیں۔
طویل مدت منصوبے پر بھی کام جاری اور امید ہے کہ ٹیم غیریقینی کے بادلوں سے نکل کر استحکام کی طرف بڑھے گی۔ ایک سوال پر وقار یونس نے کہا کہ تیسرے میچ میں صرف کپتان کی تبدیلی کو ہی جیت کی وجہ قرار دینا درست نہیں ہوگا، آفریدی نے بلاشبہ قیادت کا حق ادا کرتے ہوئے انفرادی طور پر بھی اچھی کارکردگی دکھائی لیکن اس سے مستقل کپتان مصباح الحق کی خدمات کو نظر انداز کردینا مناسب نہیں ہوگا،آل راؤنڈرکا کھیل نکھرتا جا رہا ہے،وہ ذمہ داری بھی قبول کررہے ہیں جو پاکستان کرکٹ کیلیے اچھی بات ہے تاہم مصباح کی میدان میں کمی ہر کسی نے محسوس کی، امید ہے کہ وہ جلد صحتیابی کے بعد ایک بار پھرایکشن میں ہونگے۔ایک سوال پر ہیڈکوچ نے کہا کہ بلا شبہ یونس خان کی ٹیسٹ کرکٹ والی فارم ون ڈے میں نظر نہیں آرہی ، تاہم تجربہ کار کھلاڑی ایک ورلڈکلاس بیٹسمین اور ہمارے پلان کا لازمی حصہ ہیں، انھوں نے گذشتہ میچ میں گیندیں ضائع کیے بغیر رنزکیے۔
انھیں محدود اوورزکی کرکٹ میں اپنی صلاحیتوں کے اصل جوہر دکھانے کیلیے مزید اعتماد اور ردھم حاصل کرنے کی ضرورت ہے، وہ ایک شاندار تکنیک کے حامل ٹاپ بیٹسمین ہیں ، ایک بار رنز بنانا شروع کردیے تو ٹیم کیلیے بہت کارآمد ثابت ہوں گے، انھیں اس فارمیٹ میں بھرپور فارم میں واپسی کیلیے ہر ممکن سپورٹ فراہم کرینگے،کوچ نے کہا کہ اسد شفیق کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے، وہ بڑے اسکور نہیں کرپائے لیکن مسلسل 5ٹیسٹ کھیلنے کے بعد نئے فارمیٹ کیلیے الگ نوعیت کا ردھم درکار ہوتا ہے، اس بھی وہ جلد اپنی صلاحیتوں کے مطابق کھیل پیش کرنے میں کامیاب ہونگے۔ وقار یونس نے یونس خان کی افادیت واضح کرتے ہوئے کہا کہ سینئرز کی کریز پر موجودگی دوسرے اینڈ پر نوجوان بیٹسمینوں کیلیے حوصلہ افزائی کا ذریعہ بنتی ہے، تجربہ کار کھلاڑی جونیئرز کو ورلڈ کپ کی مختلف کنڈیشنز میں پرفارم کرنے کیلیے رہنمائی فراہم کرسکتے ہیں۔
ٹاپ آرڈر کا کھویا ہوا اعتماد واپس آنا خوش آئند ہے، راتوں رات کوئی کرشمہ نہیں ہوسکتا، دوسرے ون ڈے کے بعد ٹیم سے شارٹ پچ گیندوں پر مسائل کے حوالے سے بات ہوئی،کرکٹرز نے کھیل میں بہتری لانے کیلیے کوشش کی اور کامیاب ہوئے، ان کے مطابق تیسرے میچ کی فتح کو صرف قیادت میں تبدیلی کا نتیجہ قرار دینا درست نہیں ہوگا، یونس خان ورلڈکپ پلان سے باہر نہیں ہوئے، اعتمادکی مکمل بحالی کیلیے ان کو رنز بنانے ہونگے، باصلاحیت اسد شفیق بھی جلد فارم میں واپس آئینگے۔
تفصیلات کے مطابق گذشتہ میچز کے برعکس کیویز سے تیسرے ون ڈے میں پاکستانی ٹاپ آرڈر نے اچھا کھیل پیش کیا تو ٹیم نے مجموعی طور پر اتنے رنز بنائے کہ شارجہ میں سب سے بڑے ٹوٹل کا ریکارڈ ہی ٹوٹ گیا، بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے محروم رہنے والے صرف ایک بیٹسمین عمراکمل رن آؤٹ ہونے کی وجہ سے ون ڈے سیریز میں ملنے والے پہلے موقع کو کارآمد نہ بناسکے، وقار یونس نے کہاکہ گذشتہ میچ میں شارجہ کے میدان پر ہی پاکستان کے6بیٹسمین شارٹ پچ گیندوں پر آؤٹ ہوئے تھے،مسائل کو حل کرنے کیلیے راتوں رات کوئی کرشمہ تو نہیں ہوسکتا ،کوچنگ اسٹاف اور مینجمنٹ نے پلیئرز کو حریف پیسرز کی طرف سے ممکنہ حملوں سے آگاہ کرتے ہوئے رہنمائی فراہم کی ،خوشی کی بات ہے کہ انھوں نے ان باتوںپر توجہ دیتے ہوئے کامیابی حاصل کی، کوچ نے کہا کہ ٹاپ آرڈر نے رنز کیے تو اتنا بڑا ٹوٹل اسکور بورڈ پر درج کرایا جاسکا۔
البتہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم نے مکمل طور پر ان مسائل پر قابو پالیا اور ہر ٹیم کو تسخیر کرنے کے قابل ہوگئے ہیں، ورلڈ کپ میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی پچزفاسٹ بولرز کی جنت سمجھی جاتی ہیں جہاں پیس اور باؤنس دونوں زیادہ ہونگے، اسی کے پیش نظر شارٹ پچ گیندوںکا بہتر انداز میں سامنا کرنے کی تیاری پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں، کارکردگی میں بہتری لانے کیلیے مزید محنت کا سلسلہ جاری رکھیں گے، وقار نے کہا کہ بڑے ایونٹس میں کامیابی کیلیے ہر شعبے کی پرفارمنس میں تسلسل کا ہونا ضروری ہے، فیلڈنگ میں بھی ہم مطلوبہ معیار تک نہیں پہنچ پائے، اس کیلیے مزید کام جاری رکھنا ہوگا۔انھوں نے کہا کہ کارکردگی میں عدم تسلسل ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے، ایک دن بدترین اور دوسرے روز ٹاپ کلاس ٹیم کیخلاف بھی بہترین پرفارمنس سامنے آتی ہے،یہ صورتحال اکثر پریشان کن ثابت ہوتی ہے، ہم ناقابل اعتبار کے اس لیبل کو جلد از جلد اتارنے کیلیے سخت محنت کررہے ہیں۔
طویل مدت منصوبے پر بھی کام جاری اور امید ہے کہ ٹیم غیریقینی کے بادلوں سے نکل کر استحکام کی طرف بڑھے گی۔ ایک سوال پر وقار یونس نے کہا کہ تیسرے میچ میں صرف کپتان کی تبدیلی کو ہی جیت کی وجہ قرار دینا درست نہیں ہوگا، آفریدی نے بلاشبہ قیادت کا حق ادا کرتے ہوئے انفرادی طور پر بھی اچھی کارکردگی دکھائی لیکن اس سے مستقل کپتان مصباح الحق کی خدمات کو نظر انداز کردینا مناسب نہیں ہوگا،آل راؤنڈرکا کھیل نکھرتا جا رہا ہے،وہ ذمہ داری بھی قبول کررہے ہیں جو پاکستان کرکٹ کیلیے اچھی بات ہے تاہم مصباح کی میدان میں کمی ہر کسی نے محسوس کی، امید ہے کہ وہ جلد صحتیابی کے بعد ایک بار پھرایکشن میں ہونگے۔ایک سوال پر ہیڈکوچ نے کہا کہ بلا شبہ یونس خان کی ٹیسٹ کرکٹ والی فارم ون ڈے میں نظر نہیں آرہی ، تاہم تجربہ کار کھلاڑی ایک ورلڈکلاس بیٹسمین اور ہمارے پلان کا لازمی حصہ ہیں، انھوں نے گذشتہ میچ میں گیندیں ضائع کیے بغیر رنزکیے۔
انھیں محدود اوورزکی کرکٹ میں اپنی صلاحیتوں کے اصل جوہر دکھانے کیلیے مزید اعتماد اور ردھم حاصل کرنے کی ضرورت ہے، وہ ایک شاندار تکنیک کے حامل ٹاپ بیٹسمین ہیں ، ایک بار رنز بنانا شروع کردیے تو ٹیم کیلیے بہت کارآمد ثابت ہوں گے، انھیں اس فارمیٹ میں بھرپور فارم میں واپسی کیلیے ہر ممکن سپورٹ فراہم کرینگے،کوچ نے کہا کہ اسد شفیق کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے، وہ بڑے اسکور نہیں کرپائے لیکن مسلسل 5ٹیسٹ کھیلنے کے بعد نئے فارمیٹ کیلیے الگ نوعیت کا ردھم درکار ہوتا ہے، اس بھی وہ جلد اپنی صلاحیتوں کے مطابق کھیل پیش کرنے میں کامیاب ہونگے۔ وقار یونس نے یونس خان کی افادیت واضح کرتے ہوئے کہا کہ سینئرز کی کریز پر موجودگی دوسرے اینڈ پر نوجوان بیٹسمینوں کیلیے حوصلہ افزائی کا ذریعہ بنتی ہے، تجربہ کار کھلاڑی جونیئرز کو ورلڈ کپ کی مختلف کنڈیشنز میں پرفارم کرنے کیلیے رہنمائی فراہم کرسکتے ہیں۔