قومی یکجہتی کے فقدان وسائل کی غیرمساویانہ تقسیم کے باعث سقوط ڈھاکا ہوا ایکسپریس فورم
بنگلہ دیش کا وجود غیرجمہوری وغیرآئینی ہے،ڈاکٹر رفیق،مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن نہیں ہونا چاہیے تھا، جنرل (ر) شفیق
قومی یکجہتی ملکی استحکام کیلیے بہت ضروری ہے، قومی یکجہتی کے فقدان اوروسائل کی غیرمنصفانہ اورغیرمساویانہ تقسیم کی بنا پرسقوط ڈھاکا جیسے واقعات رونما ہوئے۔
تاریخ سے بہت کچھ سیکھاجاسکتا تھا لیکن ہماری قیادت کی جانب سے وہی غلطیاں دہرائی جارہی ہیں، بنگلہ دیش کا وجود غیر جمہوری وغیرآئینی ہے، بھارت اگر مجیب الرحمن کا ساتھ نہ دیتا تو مشرقی پاکستان اتنی جلدی علیحدہ نہ ہوتا، مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں ڈکٹیٹرشپ کا بہت بڑا کردار ہے، قیام پاکستان کے بعد فیصلہ سازی میں مشرقی پاکستان کو دوررکھنے کی کوشش کی گئی جس سے علیحدگی پسند قوتوں کو تقویت ملی، اندرونی جھگڑے اپنی جگہ لیکن مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بیرونی مداخلت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
ان خیالات کا اظہار مختلف مکاتب فکر کے دانشوروں نے ''سقوط ڈھاکہ'' کے حوالے سے منعقدہ ایکسپریس فورم میں کیا۔ میزبانی کے فرائض ایڈیٹر فورم اجمل ستار ملک نے انجام دیے جبکہ احسن کامرے نے معاونت کی۔ جامعہ پنجاب کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر رفیق احمد نے کہا کہ سقوط ڈھاکہ کے پیچھے سیاسی، سماجی، معاشی، نظریاتی اور بین الاقوامی محرکات شامل ہیں۔ میرے نزدیک سقوط ڈھاکہ کو ختم نہیں سمجھنا چاہیے، اس قسم کے اور بھی واقعات ہوسکتے ہیں۔ بنگلہ دیش کے پیچھے بھارتی جارجیت کا ہاتھ ہے اور اس کے علاوہ مکتی بانی کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
بنگال کی اکثریت مجیب الرحمن کو اچھے الفاظ میں یاد نہیں کرتی۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں ڈکٹیٹر شپ کا بہت بڑا کردار ہے جبکہ بنگلہ دیش کا وجود غیر جمہوری و غیر آئینی ہے۔ بنگالیوں کو ان کا حق نہیں دیا گیا، جب الیکشن ہوئے تو شیخ مجیب الرحمن کو وزیراعظم بھی بننے نہیں دیا گیا، اس سے بنگالیوں میں احساس محرومی پیدا ہوگیا جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو بہتر کرنا ہوگا۔ عسکری تجزیہ نگار جنرل(ر)شفیق احمد نے کہا کہ قیام پاکستان سے ہی ہمیں بیڈ گورننس کا سامنا ہے اور 47ء سے لے کر اب تک ایسا کوئی دورحکومت نہیں جس میں ہم نے اچھی گورننس کی ہو۔
اس کے ذمے دارہمارے حکمران اور بیوروکریسی ہے اور اس بیڈ گورننس کو بہتر بنانے کی کوشش بھی نہیں کی گئی۔ بنگال کو انگریزوں نے بھی محروم رکھا اور یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے وقت وہاں صرف ایک ہی ''آئی سی ایس '' افسر تھا۔ انھوں نے کہا کہ سقوط ڈھاکہ کے وقت سیات، بندوق اور طاقت فوج کے پاس تھی ،میرے نزدیک مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن نہیں ہونا چاہیے تھا۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت ہمیں خطرہ ہے کہ بلوچستان ہم سے الگ نہ ہوجائے، سندھ بھارت کے ساتھ نہ مل جائے۔
میرے نزدیک بلوچستان، کراچی، فاٹا اور سوات میں فوجی آپریشن نہیں کرنا چاہئے تھا، لہٰذا جب تک بنیادی چیزوں کو ٹھیک نہیں کیا جائے گا مسائل حل نہیں ہوں گے۔ شعبہ پاکستان اسٹڈیز جامعہ پنجاب کی چیئر پرسن ڈاکٹر مسرت عابد نے کہا کہ سقوط ڈھاکہ کوئی ایک دن میں رونما نہیں ہوا ، اس کے محرکات بہت پہلے سے موجود تھے۔47ء سے56ء تک ہم آئین سازی کیلیے کوشش کرتے رہے اوراس میںیہ کوشش کی گئی کہ کسی طرح بنگلہ دیش کی عددی اکثریت کومغربی پاکستان کی عددی اقلیت میں تبدیل کردیا جائے۔ فیصلہ سازی میں بھی انھیں مکمل طور پر علیحدہ کرنے کی کوشش کی گئی۔
''ون یونٹ'' بنانے کی کوشش کا مقصد بھی بنگالیوں کی اکثریت کا مقابلہ کرنا تھا۔ اس سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی پسند قوتوں کو بہت تقویت ملی۔ اگر بھارت بنگلہ دیش کا ساتھ نہ دیتا تو شاید اتنی جلدی بنگلہ دیش ہمارے سے علیحدہ نہ ہوتا۔ بد قسمتی سے ہم نے اپنی تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ جب حقدار کو اس کے حق سے محروم کیا جائے گا تو مسائل پیدا ہوں گے۔ شعبہ سیاسیات جامعہ پنجاب کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر رانا اعجاز احمد نے کہا کہ قومیں اس وقت تک متحد رہتی ہیں جب تک انھیں ان کے بنیادی حقوق دیے جائیں۔
ملکی یکجہتی کیلیے ضروری ہے کہ زبان کے حوالے سے اور باقی تمام مسائل کے حوالے سے نچلی سطح تک منصفانہ تقسیم ہو۔ سیاسی تنگ نظری اور مفادات کی وجہ سے مشرقی پاکستان پر توجہ نہیں دی گئی اور ابھی بھی ہمارے ملک میں کچھ ایسی ہی صورتحال ہے۔
اس وقت بلوچستان، سندھ اورخیبرپختونخوا اپنے آپ کو محروم تصور کررہے ہیں، اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے حقوق نہیں دیئے جارہے اور قیادت قدرتی وسائل کی منصفانہ تقسیم نہیں کررہی۔ جب تک تنگ نظری قیادت میں موجود ہے، محروم طبقات وجود میںآتے رہیں گے۔ ملک میں استحکام پیدا کرنے کیلیے قومی یکجہتی ضروری ہے، قیادت کو چاہیے کہ تمام نسلی گروپوں کو ملک کا حصہ سمجھے اور انہیں اکٹھا کرے تاکہ 71ء جیسے واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں۔
تاریخ سے بہت کچھ سیکھاجاسکتا تھا لیکن ہماری قیادت کی جانب سے وہی غلطیاں دہرائی جارہی ہیں، بنگلہ دیش کا وجود غیر جمہوری وغیرآئینی ہے، بھارت اگر مجیب الرحمن کا ساتھ نہ دیتا تو مشرقی پاکستان اتنی جلدی علیحدہ نہ ہوتا، مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں ڈکٹیٹرشپ کا بہت بڑا کردار ہے، قیام پاکستان کے بعد فیصلہ سازی میں مشرقی پاکستان کو دوررکھنے کی کوشش کی گئی جس سے علیحدگی پسند قوتوں کو تقویت ملی، اندرونی جھگڑے اپنی جگہ لیکن مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بیرونی مداخلت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
ان خیالات کا اظہار مختلف مکاتب فکر کے دانشوروں نے ''سقوط ڈھاکہ'' کے حوالے سے منعقدہ ایکسپریس فورم میں کیا۔ میزبانی کے فرائض ایڈیٹر فورم اجمل ستار ملک نے انجام دیے جبکہ احسن کامرے نے معاونت کی۔ جامعہ پنجاب کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر رفیق احمد نے کہا کہ سقوط ڈھاکہ کے پیچھے سیاسی، سماجی، معاشی، نظریاتی اور بین الاقوامی محرکات شامل ہیں۔ میرے نزدیک سقوط ڈھاکہ کو ختم نہیں سمجھنا چاہیے، اس قسم کے اور بھی واقعات ہوسکتے ہیں۔ بنگلہ دیش کے پیچھے بھارتی جارجیت کا ہاتھ ہے اور اس کے علاوہ مکتی بانی کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
بنگال کی اکثریت مجیب الرحمن کو اچھے الفاظ میں یاد نہیں کرتی۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں ڈکٹیٹر شپ کا بہت بڑا کردار ہے جبکہ بنگلہ دیش کا وجود غیر جمہوری و غیر آئینی ہے۔ بنگالیوں کو ان کا حق نہیں دیا گیا، جب الیکشن ہوئے تو شیخ مجیب الرحمن کو وزیراعظم بھی بننے نہیں دیا گیا، اس سے بنگالیوں میں احساس محرومی پیدا ہوگیا جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو بہتر کرنا ہوگا۔ عسکری تجزیہ نگار جنرل(ر)شفیق احمد نے کہا کہ قیام پاکستان سے ہی ہمیں بیڈ گورننس کا سامنا ہے اور 47ء سے لے کر اب تک ایسا کوئی دورحکومت نہیں جس میں ہم نے اچھی گورننس کی ہو۔
اس کے ذمے دارہمارے حکمران اور بیوروکریسی ہے اور اس بیڈ گورننس کو بہتر بنانے کی کوشش بھی نہیں کی گئی۔ بنگال کو انگریزوں نے بھی محروم رکھا اور یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے وقت وہاں صرف ایک ہی ''آئی سی ایس '' افسر تھا۔ انھوں نے کہا کہ سقوط ڈھاکہ کے وقت سیات، بندوق اور طاقت فوج کے پاس تھی ،میرے نزدیک مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن نہیں ہونا چاہیے تھا۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت ہمیں خطرہ ہے کہ بلوچستان ہم سے الگ نہ ہوجائے، سندھ بھارت کے ساتھ نہ مل جائے۔
میرے نزدیک بلوچستان، کراچی، فاٹا اور سوات میں فوجی آپریشن نہیں کرنا چاہئے تھا، لہٰذا جب تک بنیادی چیزوں کو ٹھیک نہیں کیا جائے گا مسائل حل نہیں ہوں گے۔ شعبہ پاکستان اسٹڈیز جامعہ پنجاب کی چیئر پرسن ڈاکٹر مسرت عابد نے کہا کہ سقوط ڈھاکہ کوئی ایک دن میں رونما نہیں ہوا ، اس کے محرکات بہت پہلے سے موجود تھے۔47ء سے56ء تک ہم آئین سازی کیلیے کوشش کرتے رہے اوراس میںیہ کوشش کی گئی کہ کسی طرح بنگلہ دیش کی عددی اکثریت کومغربی پاکستان کی عددی اقلیت میں تبدیل کردیا جائے۔ فیصلہ سازی میں بھی انھیں مکمل طور پر علیحدہ کرنے کی کوشش کی گئی۔
''ون یونٹ'' بنانے کی کوشش کا مقصد بھی بنگالیوں کی اکثریت کا مقابلہ کرنا تھا۔ اس سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی پسند قوتوں کو بہت تقویت ملی۔ اگر بھارت بنگلہ دیش کا ساتھ نہ دیتا تو شاید اتنی جلدی بنگلہ دیش ہمارے سے علیحدہ نہ ہوتا۔ بد قسمتی سے ہم نے اپنی تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ جب حقدار کو اس کے حق سے محروم کیا جائے گا تو مسائل پیدا ہوں گے۔ شعبہ سیاسیات جامعہ پنجاب کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر رانا اعجاز احمد نے کہا کہ قومیں اس وقت تک متحد رہتی ہیں جب تک انھیں ان کے بنیادی حقوق دیے جائیں۔
ملکی یکجہتی کیلیے ضروری ہے کہ زبان کے حوالے سے اور باقی تمام مسائل کے حوالے سے نچلی سطح تک منصفانہ تقسیم ہو۔ سیاسی تنگ نظری اور مفادات کی وجہ سے مشرقی پاکستان پر توجہ نہیں دی گئی اور ابھی بھی ہمارے ملک میں کچھ ایسی ہی صورتحال ہے۔
اس وقت بلوچستان، سندھ اورخیبرپختونخوا اپنے آپ کو محروم تصور کررہے ہیں، اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے حقوق نہیں دیئے جارہے اور قیادت قدرتی وسائل کی منصفانہ تقسیم نہیں کررہی۔ جب تک تنگ نظری قیادت میں موجود ہے، محروم طبقات وجود میںآتے رہیں گے۔ ملک میں استحکام پیدا کرنے کیلیے قومی یکجہتی ضروری ہے، قیادت کو چاہیے کہ تمام نسلی گروپوں کو ملک کا حصہ سمجھے اور انہیں اکٹھا کرے تاکہ 71ء جیسے واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں۔