پاکستان ایک نظر میں اور لاہور بھی بند کردیا گیا

ان کو روکنا اسلئے مشکل ہے کہ روکے جانے کی صورت میں پی ٹی آئی نےاپنے پیروکاروں کو مرنے مارنے واضح احکامات دے رکھے ہیں۔


جاہد احمد December 16, 2014
تبدیلی اور انصاف کے نام پر پاکستان کو بند کرنے کی جس حکمتِ عملی پر عمران خان عمل پیرا ہیں یہ پاکستان کو خطرات سے دوچار کرنے کے لیے کافی ہے۔حکومتِ وقت ان کے خلاف کوئی ایکشن لے تو بُری اور نہ لے تو کمزور ، یعنی چت اور پٹ دونوں پاکستان تحریکِ انصاف کےحق میں ہی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

ISLAMABAD: تبدیلی اور انصاف کے نام پر پاکستان کے بڑے شہروں کو بند کرنے کی جس حکمتِ عملی پر عمران خان عمل پیرا ہیں یہ پاکستان کے وفاق کو خطرات سے دوچار کرنے کے لیے بہت کافی ہے۔ پاکستان کے چھوٹے صوبوں کی سیاسی جماعتوں کے قائدین کی اس شکایت سے متفق ہونا پڑتا ہے کہ 14 اگست سے لے کر لاہور بند کرنے تک جو کچھ خان صاحب کرتے چلے آئے ہیں اس کا ایک آدھا فیصد بھی کسی پختون، سندھی یا بلوچی رہنما نے کیا ہوتا تو یقیناًاس پر غداری کا لیبل لگا کرنشانِ عبرت بنا دیا گیا ہوتا!

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پنجاب کے سیاست دان کی قومی سطح پر پھیلائی گئی ایسی بدمعاشی اور غنڈا گردی پر اسٹیبلشمنٹ لب گنگ کیے کیوں بیٹھی ہے؟ حکومتِ وقت ان کے خلاف کوئی ایکشن لے تو بُری اور نہ لے تو کمزور ، یعنی چت اور پٹ دونوں پاکستان تحریکِ انصاف کےحق میں ہی ہے ۔

اس جماعت نے مقاصد کے حصول کے لئے اپنے نوجوان پیروکاروں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھادی ہے کہ پاکستان کی محبت اس جماعت سے زیادہ کسی دوسری جماعت میں نہیں ۔ جماعت کے حلقوں میں خان صاحب کی شخصیت کے گرد تانا بانا بن کر اپنے افضل و برتر و مخلص و نیک نیت و حب الوطن و پاک دامن و واحد نجات دہندہ ہونے کا تاثر ایک مضبوط اور پر اثر پروپیگینڈا کی بدولت اس حد تک بڑھایا جا چکا ہے کہ اِس جماعت کے پیرورکار قیادت میں اپنے نظریات اور لائحہ عمل سے اختلاف رائے رکھنا گناہ کبیرہ اور وطن دشمنی گردانتے ہیں جبکہ فسطائی مقاصد کے حصول کی خاطر اپنی جان و مال کی پروا تو درکنار مخالفین کو بھی کسی کھاتے میں لانے پر تیار نہیں۔

حکومت کے لئے ان کو روکنا اس لئے مشکل ہوجاتا ہے کہ قانونی طریقوں کے ذریعے ریاستی اداروں کی طرف سے روکے جانے کی صورت میں اِس جماعت کے رہنماؤں نے اپنے پیروکاروں کو مرنے مارنے اور جلاؤ گھیراؤ کے واضح احکامات دے رکھے ہیں اور اس صورتحال میں ریاستی مشینری کے حرکت میں آنے سے فسطائی جماعت و ریاست کے مابین تصادم کا صد فیصد امکان ہے اور ظاہری بات ہے کہ تصادم کی صورتحال میں قیمتی جانوں کا نقصان اور ضیاں منطقی بات ہے۔ ایسی صورتحال میں یا توریاست اِس جماعت کوروکنے کی کوشش کرے اور تصادم کی صورت پیدا کرتے ہوئے قانون کی بالادستی اور ریاست کی رٹ قائم کرے یا پھر تصادم کی صورتحال سے بچاؤ کے مقصد سے عوام اور مظاہرین کی جان و مال کو نقصان سے بچانے کے پیش نظر کھلا ہاتھ دے دیا جائے!

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستانی ریاست نے جس قدر نرمی تحریک انصاف کے مظاہروں ، ہڑتالوں اوراحتجاج کے خلاف دکھائی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ ایسے مناظر دنیا کے کسی معاشرے میں دیکھنے میں نہیں آتے جہاں مظاہرین ریاستی اداروں پر چڑھ دوڑ رہے ہوں اور ریاستی اہلکاروں کو آگے بڑھ کر انہیں روکنے اور قانون شکنوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی اتنی سی بھی اجازت نہ ہو !

فیصل آباد، کراچی اور اب لاہور میں بھی ایسے ہی مناظر دیکھنے میں آ ئے ہیں۔ ایک طرف تحریک انصاف سڑکوں پر بیٹھ کر زبردستی شاہراہیں بند کروا رہی تھی اور دوسری طرف ریاستی اہلکاروں کے ہاتھ بندھے تھے۔ عام شہری پریشان تھے، تاجر نے نقصان اٹھایا، بیمار ہسپتال پہنچنے سے قاصر تھے، مخالف سیاسی کارکن نفسیاتی پیچ و تاب کھاتے رہے! تحریک انصاف یہ بھول جاتی ہے کہ حقوق پاکستان کے تمام شہریوں کے برابر ہیں۔ نہ زیادہ نہ کم۔

مسلم لیگ ن نے انتہائی احسن اقدام اٹھاتے ہوئے فیصل آباد کے واقعات کے پیش نظر اور کراچی کے تجربات کے پیش منظر میں اپنے سیاسی کارکنان کو فسطائی جماعت سے دور رکھا جو بصورتِ دیگر خونی تصادم کا باعث بن سکتا تھا! کراچی کی طرح لاہور کی ہڑتال کو بھی اس لئے خیر خیریت سے گزرنا گنا جا سکتا ہے کہ لڑائی جھگڑے میں کوئی بد قسمت حق نواز لاش بن کر نہیں ڈھا !لیکن پی ٹی آئی کے لیڈر پھر بھی خالی ہاتھ لاہور سے نہیں لوٹے کہ اس معرکے کے اختتام پر ان کے سر چار بے گناہ عام پاکستانیوں کا خون آتا ہے جو ان کی بدمعاشی کا شکار ہوئے۔

لیکن اِس ساری صورتحال میں سوچنے کی بات یہ ہے کہ معاملہ کب تک جوں کا توں رہے گا ۔۔۔۔ حکومت کے خلاف احتجاج کو 4 ماہ سے زائد ہوگیا ہے ۔۔۔۔ اِس پورے عرصے میں تحریک انصاف اپنا کام کررہی ہے اور حکومت اپنا کام ۔۔۔۔ جبکہ نقصان ملکی معیشت اور عوام کو اُٹھانا پڑرہا ہے ۔۔۔۔ اُمید اور خواہش تو یہی ہے کہ معاملہ ، مذاکرات سے جلد از جلد ٹھیک ہوجائے ۔۔۔۔کیونکہ خدشات تو بہت ہیں ۔۔۔۔ مگر انسان کو مثبت سوچ سے ہی کام لینا چائیے ۔۔۔۔ اور میں بھی ایسا ہی کرناچاہتا ہوں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں