’ سراج الحق کی سیاست‘
اصولی طور پر پنجاب اور سندھ میں میں بھی جماعت اسلامی کے لیے تحریک انصاف کے ساتھ ہی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنا مفید ہو گا ۔
KARACHI:
بطور امیر جماعت اسلامی ، سراج الحق کی سیاست کا ناک نقشہ اب پوری طرح ظاہر ہو چکا ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ آصف علی زرداری نے ''مفاہمتی سیاست'' کا جو علم بلند کیا تھا ، ان کے بعد اب اسے سراج الحق نے تھام لیا ہے۔ اتفاق ملاحظہ کیجیے ، اُدھر طاہر القادری دھرنا سے اٹھ کر گئے ، اور نوازشریف حکومت کے خلا ف دھرنا تحریک ظاہراً دم توڑتی نظر آئی ، اِدھر سراج الحق بھی اپنی ''مفاہمتی سیاست'' سمیت منظر سے غائب ہو گئے ؛ لیکن جیسے ہی نوازشریف حکومت کے خلاف عمران خان کی دھرنا تحریک نے پھر زور پکڑ ا ہے ۔
سراج الحق بھی ''مفاہمتی سیاست'' کے ساتھ نمودار ہو گئے ہیں ۔ اہل جماعت جو بھی کہیں ، دھرنا تحریک کے دوران سراج الحق کی ''مفاہمتی سیاست''سے اگر کسی کو فائدہ پہنچا ، تو وہ اولاً نواز شریف اور ثانیاًآصف علی زرداری ہیں۔ چنانچہ جیسے ہی نوازشریف کو عمران خان کی دھرنا تحریک سے خطرہ لاحق ہوتا ہے اور سراج الحق ان کے ریسکیومشن پر نکلتے ہیں ، تو آصف علی زرداری بھی سراج الحق کے صدقے واری جاتے ہیں ۔
یہ سراج الحق کی زرداری فیم ''مفاہمتی سیاست'' کا منطقی نتیجہ ہے کہ لاہور میں جماعت اسلامی کے تین روزہ اجتماع عام ، جس میں بقول جماعت اسلامی کے ، ایک لاکھ سے زائدمردوزن نے شرکت کی ، اور جس کے اختتام پر وہ چل کے وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کے پاس گئے اور جلسہ کے انتظامات میں تعاون پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ جماعت اسلامی کے اس اجتماع عام پر بانی جماعت اسلامی مولانا مودودی مرحوم ہی کا ایک تبصرہ صادق آتا ہے کہ ' یہ ایک ایسی بارش تھی ، نہ جس سے پہلے کوئی گھٹا اٹھی ، نہ جس کے بعد کوئی روئیدگی نمودار ہوئی '۔جلسے جلوسوں کی جذبات انگیز فضا میں بھی جماعت اسلامی کے جلسہ عام کو سیاسی اہمیت کیوں نہ مل سکی ، یہ وہ سوال ہے ، جو جماعت اسلامی کی قیادت کے لیے ہی نہیں ، جماعت اسلامی کے جملہ احباب کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہونا چاہیے ۔
یہ بات بھی اپنی جگہ دلچسپ ہے کہ خیبر پختون خوا میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف میں الیکشن سے پہلے اور الیکشن کے بعد جو مفاہمت نظر آئی ، وہ حقیقتاً سابق امیر جماعت سید منورحسن کی اس وضع کردہ پالیسی کا نتیجہ تھی کہ الیکشن 2013 میں تمام صوبائی تنظیمیں اپنے اپنے صوبہ کے حالات وواقعات کے مطابق سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا فیصلہ کریں گی۔ اس کالم نگار کی معلومات کے مطابق ، سید منورحسن کی خواہش یہ تھی کہ صرف خیبر پختون خوا میں نہیں ، اصولی طور پر پنجاب اور سندھ میں میں بھی جماعت اسلامی کے لیے تحریک انصاف کے ساتھ ہی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنا مفید ہو گا ۔
ان کی یہ خواہش مگر پوری نہ ہو سکی ، کیونکہ پنجاب میں جماعت اسلامی کے لاہوری گروپ کی پہلی ترجیح ن لیگ تھی ، ا ور وہ لاہور میں تحریک انصاف سے مل کر ن لیگ کے خلاف الیکشن لڑنے کا رسک لینے کو تیار نہیں تھا ۔ لاہور اور راولپنڈی میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے مذاکرات کے دو دور ہوئے ، اور دونوں ناکام ہو گئے ۔ تحریک انصاف کا موقف یہ تھا کہ جماعت اسلامی اگر تحریک انصاف سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنا چاہتی ہے ، تو اس کو یقین دہانی کرانا ہوگی کہ پنجاب میں پھروہ ن لیگ کے ساتھ کسی سیٹ پر ایڈجسٹمنٹ نہیں کرے گی؛ یہ نہیں ہوگا کہ اسلام آباد، راولپنڈی میں جماعت اسلامی ، تحریک انصاف سے مل کر الیکشن لڑ رہی ہو ، اورلاہور میں اس کی مدمقابل ن لیگ سے مل کر ۔ جماعت اسلامی کے جو ارکان لاہور سے الیکشن لڑنے کے لیے پر تول رہے تھے ، اور ن لیگ کے سعد رفیق، احسن اقبال سے رابطے میں تھے ، لہٰذا وہ تحریک انصاف کو یہ یقین دہانی کرانے کے لیے تیار نہ تھے ۔ یوں سید منورحسن کی خواہش کے باوجود پنجاب میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف میں معاملات طے نہ پاسکے ۔
ن لیگ کی حکمت عملی یہ تھی کہ پنجاب میں جماعت اسلامی کو ن لیگ سے بہر قیمت الگ رکھا جائے ۔ جب وہ اس مقصد میں کامیاب ہو گئی تو آخری وقت پر اس نے بھی جماعت اسلامی کو ٹکا سا جواب دے دیا ۔ نتیجتاً پنجاب میں جماعت اسلامی کے امیدوار نہ اِدھر کے رہے ، نہ اُدھر کے ۔اگر پنجاب کی جماعت بھی خیبر پختون خوا جماعت کی طرح تحریک انصاف سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرلیتی، توپنجاب میں جماعت اسلامی کی پوزیشن ، موجودہ پوزیشن سے بدرجہا بہترہونا تھی ۔
قصہ کوتاہ یہ کہ2013 ء میں جماعت اسلامی نے پنجاب میں بطور پارٹی ابھرنے کا بہت قیمتی موقع ضایع کر دیا۔ سراج الحق کے امیر منتخب ہونے پر جماعت اسلامی کے بہی خواہوں میں پھر سے امید پیدا ہو گئی کہ خیبر پختون خوا کی طرز پر اب پنجاب اور سندھ میں بھی جماعت اسلامی اور تحریک انصاف ایک دوسرے کے قریب آ جائیں گی ۔ اس پس منظر میں ، رواں سال کے وسط میں جب عمران خان نے الیکشن 2013 میں انتخابی دھاندلیوں کے خلاف لانگ مارچ اور دھرنا کی کال دی ، تواندازہ یہی تھا کہ سراج الحق جلد یا بدیر ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے کہ الیکشن 2013 میں دھاندلی سے متعلق عمران خان کے موقف کی انھوں نے ہمیشہ تائید کی تھی ۔ لیکن ، حیرت انگیز طور پر 14 اگست کو طاہر القادری اور چوہدری برادران تو عمران خان کے ساتھ کھڑے ہو گئے ، سراج الحق نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ چونکہ ان سے مشورہ نہیں کیا گیا ، لہٰذا وہ لانگ مارچ اور دھرنا میں شریک نہیں ہوں گے ۔
عمران خان نے سراج الحق سے مشورہ نہیں کیا تھا ، یہ ان کی غلطی تھی ، اور ان کالموں میں عمران خان کی اس غلطی کی نشاندہی کی جا چکی ہے۔ لیکن ازاں بعد 'مفاہمت کی سیاست' اور' جمہوریت بچانے کے نام پر' سراج الحق جس طرح عمران خان کی دھرنا تحریک کو ناکام بنانے پر تل گئے ، وہ سمجھ سے باہر ہے ۔ لطف یہ ہے کہ ظاہراً وہ عمران خان کے موقف کو حق بجانب قرار دیتے ہیں ، لیکن حقیقتاً نوازشریفحکومت بچانے کے لیے وہ بھی وہی کچھ کر رہے تھے اور کر رہے ہیں ، جس کے لیے آصف علی زرداری کمر بستہ تھے ۔
پھر، یہ سراج الحق ہی تھے ، جنہوں نے دھرنا تحریک کے دوران میں دعویٰ کیا تھا کہ ان کی کوششوں سے نوازشریف حکومت عمران خان کے 6 میں سے ساڑھے 5 نکات تسلیم کر چکی ہے ، لہٰذا اب عمران خان بھی لچک کا مظاہرہ کریں ، اور یہ کہ اگر حکومت نے وعدہ خلافی کی ، تو پھر وہ بھی حکومت کے خلاف عمران خان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ عمران خان نے مشروط طور پر نوازشریف کے استعفا کا مطالبہ واپس لے لیا ، لیکن کہاں گئے وہ ساڑھے 5 نکات ،جو بقول سراج الحق کے ، نوازشریف حکومت تسلیم کرچکی تھی ، اور کہاں گیا سراج الحق کا وہ دعویٰ کہ اگر حکومت نے وعدہ خلافی کی تو وہ حکومت کے خلاف عمران خان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔
جماعت اسلامی کا تشخص دھرنا تحریک سے پہلے 'اسٹیٹس کو' کی مخالف پارٹی کا تھا ، بلکہ اپنے تئیں جماعت اسلامی تبدیلی ء نظام کے لیے کوشاں ایک انقلابی پارٹی تھی ، لیکن عمران خان اور طاہر القادری کی دھرنا تحریک کے دوران ، سراج الحق کی زرداری فیم 'مفاہمت کی سیاست' اور ' نظام بچاو جدوجہد ' کے نتیجہ میں جماعت اسلامی اب عملی طور پر 'اسٹیٹس کو' کی حامی اور تبدیلی ِ نظام کی مخالف پارٹی بن کر رہ گئی ہے ۔ سراج الحق کی امارات میں جماعت اسلامی کا ترقی معکوس کا یہ سفر ، معلوم نہیں، کہاں جا کے رکے گا، کہ شاعر نے کہا تھا ،
تھا جو ' ناخوب ' بتدریج وہی ' خوب 'ہوا