ٹینک نہیں کتاب چاہیے
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان تعلیم کے شعبے میں اپنے پڑوسی ممالک سے پیچھے ہیں ، بھارت اور پاکستان ایک ساتھ آزاد ہوئے تھے۔
KARACHI:
اسکول تعمیرکیے جائیں ٹینک نہیں، میں اپنے ملک کو ایک ترقی یافتہ ملک دیکھنا چاہتی ہوں ، میرا خواب ہے کہ ہر بچہ تعلیم حاصل کرے ۔17سالہ ملالہ نے اوسلو میں امن کا ایوارڈ حاصل کرنے کی تقریب میں تقریر کرتے ہوئے اپنے خوابوں کا اظہار کیا۔ اس تقریب میں شرکت کرنے والے وزرائے اعظم کی تعلیم اولین ترجیح ہونی چاہیے ، ملالہ نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ ملک واپس آکر سیاست میں حصہ لینا چاہتی ہیں اور 20 سال بعد وزیر اعظم بننے کی خواہاں ہیں ۔
ملالہ کے ساتھ بھارت کے سماجی کارکن کیلاش ستیارتھی کو بچوں کی جبری مشقت ختم کرنے کی جدوجہد کرنے پر نوبل امن انعام ملا ہے، ان کا کہنا ہے کہ اگر دنیا بھر میں صرف ایک ہفتے کے دوران ہونے والے فوجی اخراجات کو روک دیا جائے تو پوری دنیا کے بچے اسکول جا سکتے ہیں۔ یوں اس دفعہ نوبل امن انعام تعلیم کے لیے مختص ہوا، پاکستان کو دوسری دفعہ امن انعام کا اعزاز حاصل ہوا، پہلا انعام فزکس کے استاد ڈاکٹر عبدالسلام کو ملا تھا، دوسرا ملالہ نے حاصل کیا۔ ملالہ دو سال قبل مینگورہ میں طالبان کے حملے میں شدید زخمی ہوئی تھی ۔ طالبان نے اس موقعے پر اپنے فرسودہ خیالات کا اظہار کیا ، کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان نے کہا کہ ملالہ کو یہ انعام تعلیم نہیں بلکہ مغربی کلچر کو فروغ دینے کی کوشش پر دیا گیا ہے۔
ترجمان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملالہ کے والد نے اسلام اور اسلامی معاشرے کے خلاف مقابلے کے لیے ملالہ کو کھڑا کیا ، وسائل اور پوری قوت کے ساتھ ملالہ کی شہرت کے لیے استعمال کیا ، ملالہ نے اپنے والد ضیاء الدین کے ساتھ مل کر مغربی شیطانی قوتوں کی طرف سے پاکستان اور پختون معاشرے کو تباہ کرنے کے لیے معاہدہ کیا ، طالبان کے ترجمان کا یہ بھی کہنا ہے کہ موجودہ جمہوری نظام دنیا نے تمام سابقہ جاہلانہ نظام سے زیادہ سیاہ موجودہ دور کے انسان کی پریشانی کا اصل سبب یہی قانونی اور معاشرتی نظام ہے ۔ انھوں نے سوال کیا کہ ملالہ میں کیا خصوصیت ہے کہ وزیر اعظم اس سے ملنے کے لیے لائن میں کھڑے ہوتے ہیں ، ملالہ کی زندگی ان رجعت پسندوں کے سوالات کاجواب دیتی ہے ، سوات کے لوگ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ ملالہ کے والد ضیاء الدین اپنی زندگی کا بیشتر حصہ تعلیم کے لیے کوشاں رہے ، پختون معاشرے میں ایک باپ کااپنی بچیوں کی تعلیم کے لیے کوشش کرنا ایک منفرد رویہ تھا۔
انھوں نے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے مینگورہ میں ایک جدید اسکو ل قائم کیا، اس اسکول میں انگریزی کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے ۔ ملالہ اس اسکول میں زیر تعلیم تھی، پھر ملا فضل اللہ نے سوات میں مقبولیت حاصل کر لی۔ انھوں نے ایف ایم ریڈیو کے ذریعے رجعت پسندانہ خیالات نشر کرنے شروع کردیے۔ یوں جب طالبا ن نے سوات پر قبضہ کیا تو انھوں نے لڑکیوں کے اسکول بند کردیے ، اسپتالوں میں فرائض انجام دینے والی لیڈی ڈاکٹروں اور نرسوں پر مختلف نوعیت کی پابندیاں کی گئی مگر اس صورتحال میں ضیاء الدین نے اپنا اسکول بند نہیں کیا مگر اسکول کو بند کرنے کی دھمکیاں ملنے لگی۔ اسکول کے استادوں کو ہراساں کیا جانے لگا، ایک وقت ایسا آیا کہ ضیاء الدین طالبان کے حملے سے بچنے کے لیے اپنے گھر میں رہنے سے گریز کرنے لگے، ملالہ شروع سے ہی حساس بچی تھی اس کی ساری دلچسپی تعلیم حاصل کرنے میں تھی خاص طور پر انگریزی زبان کی تعلیم میں غیر معمولی دلچسپی حاصل کرلی تھی۔ یوں اس نے سارے واقعات اپنی ڈائری میں لکھنے شروع کیے۔
پاکستان کی فوج نے طالبان کے خلاف آپریشن کیا۔ ملالہ اور لاکھوں افراد کوسوات چھوڑنا پڑا اور خیموں میںزندگی گزارنی پڑی، ملالہ نے سارے واقعات اپنی ڈائری میں تحریر کیے ،ملالہ کا پشاور میں مقیم بی بی سی کے نمایندے سے رابطہ ہوا ، بی بی سی کی ویب سائٹ پر گل مکئی کی ڈائری شایع ہونے لگی ، طالبان نے سوات میں 400 اسکولوں کو تباہ کیا۔ خواتین کو کوڑے مارے گئے، مزاروں کی بے حرمتی کی گئی اور یہ سب گل مکئی کی ڈائری کے ذریعے دنیا کے سامنے آیا ، اس نے فوجی آپریشن کے دروران انتظامی کنٹرول کی غیر قانونی کارروائی کا بھی اس ڈائری میں ذکر کیا ، گل مکئی کی یہ ڈائری جہاں ایک طرف پوری دنیا میں اس کی شہرت کا باعث بنی ، طالبان کے لیے بڑا جرم بن گئی، پھر ملالہ اور اس کا خاندان مینگورہ واپس آگیا۔
ملالہ نے اپنے ساتھی طالبات کے ساتھ دوبارہ اسکول جانا شروع کردیا ۔ ملالہ اور اس کے خاندان کی یہ جرات لڑکیوں کے لیے مشعل راہ بن گئی، سوات کے اسکول اور کالجوں میں دوبارہ طالبات نے تعلیم حاصل کرنا شروع کردی ، سوات کی لڑکیاں جدید تعلیم میں خصوصی دلچسپی لینے لگی ، سوات کی کمین گاہوں میں روپوش رجعت پسندوں سمیت شمالی وزیرستان میں موجود شوریٰ نے ملالہ کی زندگی چھیننے کا فیصلہ کیا۔ یوں ملالہ پر اس وقت فائرنگ کی گئی ، جب وہ اسکول وین میں سفر کررہی تھی ، ملالہ کی زندگی بچانے میں سابق صدر زرداری اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل کیانی نے اہم کردار ادا کیا ، ملالہ کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے پشاور منتقل کیا گیا ،پھر مزید علاج کے لیے خصوصی طیارہ سے برمنگھم لے جایا گیا اس طرح رجعت پسندوں کا ملالہ کی زندگی کا خاتمے کا خیال ناکام ہوگیا ، ملالہ پختون روایات کی علمبردار ہے۔
وہ پختون خواتین کے روایتی لباس میں تقریبات میں جاتی ہیں، اس کے خاندان والے عقیدت و احترام کے ساتھ روزے رکھتے ہیںاور دوسری مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں مگر تعلیم عام کے لیے ملالہ کی کوششیں جاری ہیں ، ملالہ نے نوبل انعام کی تقریب میں شرکت کے لیے پاکستان سے ان پانچ خواتین کو بلایا جو کسی نہ کسی طرح جبرو تشدد کے خلاف جدوجہد میں مصروف تھیں ، ملالہ نے اپنی تقریر میں تعلیم کی اہمیت پر روشنی ڈالی ، اس کا کہنا ہے کہ ہمیں ٹینک نہیں کتابیں چاہیے،یہ بات پاکستان ،بھارت ، افغانستان اور اطراف کے ممالک کے حوالے سے اہم ہے ، پاکستان، بھارت،افغانستان مین فوجی اخراجات کے مقابلے میں تعلیم پر ہونے والے اخراجات انتہائی کم ہے خاص طور پر لڑکیوں میں تعلیم حاصل کرنے کی شرح اور کم ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان تعلیم کے شعبے میں اپنے پڑوسی ممالک سے پیچھے ہیں ، بھارت اور پاکستان ایک ساتھ آزاد ہوئے تھے، پاکستان میں دیہی علاقوں میں 57فیصدبچے اسکول نہیں جاتے، یوں اسکول نہ جانے والے بچوں کی شرح 75فیصد سے کم ہے ، بھارت میں یہ شرح 92فیصد ہے، یوں پاکستان 1971 میں آزاد ہونے والے ملک بنگلہ دیش سے بھی پیچھے ہے ، تعلیم عام نہ ہونے سے غربت اور افلاس کی شرح بڑھنے کے ساتھ بیماریوں کے خاتمے کا عمل متاثر ہو رہا ہے ، خاص طور پر پختون علاقوں میں بچوں کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا گیا ہے، والدین بچوں کو بنیادی ٹیکے لگانے کو تیار نہیں جس کی وجہ سے پولیو کا مرض بچوں کو بچپن میں اپاہج بنا دیتا ہے ،ان مسائل کا حل تعلیم میں ہے، ملالہ کے خلاف صرف ان لوگوں نے پروپیگنڈا کیا جو جدید نظام کے خلاف ہیں، دوسرے وہ لوگ جو جدید تعلیم حاصل کرکے بھی ملالہ کو برا کہتے ہیں ۔
ایسی ہی صورتحال سرسید کے ساتھ بھی تھی، ان کی مخالفت ایک طرف علمائے کرام کرتے تھے تو دوسری طرف وہ پڑھے لکھے لوگ کرتے تھے جو نہیں چاہتے تھے کہ عام مسلمان تعلیم حاصل کرے، ان رجعت پسند عناصر کا دہرا رویہ ہی تعلیم کے خلاف فضاہموار کررہا ہے۔ اگر سوشل میڈیا پر ملالہ کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والے سچے ہیں تو انھیں طالبان سے خواتین کی جدید تعلیم کے حق کے بارے میں فتویٰ ضرور لینا چاہیے۔ طالبان کے ترجمان نے جمہوریت کو برانظام قرار دیا ہے ، انتخابی عمل میں حصہ لینے والے مذہبی جماعتوں کو اس طرف توجہ دینی چاہیے، بہر حال ملالہ کا یہ نعرہ ہی مسئلے کا حل ہے ''ٹینک نہیں کتاب چاہیے'' ڈاکٹر عبدالسلام اور ملالہ نے پاکستان کا سر فخر سے بلند کیا ہے، ہر باشعور شہری کو ان شخصیتوں پر فخر کرنا چاہیے۔