دھند
ہماراپورامعاشرہ شدید دباؤ بلکہ الجھاؤکاشکار ہے۔ ہم اپنے تضادات کے اعتراف کواپنے لیے شرم کاباعث سمجھتے ہیں۔
آپ مختلف اخبارات، جریدے،رسائل اٹھاکر دیکھیے۔ آپ کو محض چندمخصوص موضوعات دکھائی دینگے۔ سیاست، دہشتگردی اوربیانات۔ عام انسانوں کے متعلق لکھنے کے لیے کوئی تیارہی نہیں ہے۔ہرشخص مشکل سماجی رویوں پرلکھنے سے ڈرسا جاتا ہے!مجھے کوشش کے باوجوداس کی وجہ سمجھ نہیں آتی۔
اپنے معاشرے پرغورکیجیے،ہماراپورامعاشرہ شدید دباؤ بلکہ الجھاؤکاشکار ہے۔ ہم اپنے تضادات کے اعتراف کواپنے لیے شرم کاباعث سمجھتے ہیں! ہم مصنوعی دنیامیں زندہ رہ رہے ہیں۔مجھے کہنے کی اجازت دیجیے کہ ہم جھوٹ کے سہارے زندگی گزارنا شروع کردیتے ہیں۔ یہیں سے وہ تکلیف دہ دوہری یاتہری شخصیت وجودمیں آتی ہے جس میں آپ بذات خودموجودنہیں ہوتے۔
میں ایک عام سی بات کرناچاہتاہوں۔اسلام آبادمیں چندماہ ایک وزارت میں ڈپٹی سیکریٹری کے طورپرکام کررہا تھا۔ وہاں ایک این جی اوسے وابستہ ایک جرمن خاتون دفتر تشریف لائیں۔مجھے انکانام اچھی طرح یادنہیں رہا۔ شائدجنیفرتھا؟ان کی شادی پاکستان میں ایک سرکاری افسرسے ہوئی تھی۔وہ بیس پچیس برس سے پاکستان رہ رہی تھیں۔وہ پاکستانی لباس پہنتی تھیں اوردوپٹہ لیتی تھیں۔وہ ماحولیات پرکام کرتی تھیں اور مختلف شہروں میں جاکرپودے لگاتی تھیں۔ان سے پہلی ملاقات ہوئی توان کی عمرتقریباًساٹھ برس کی تھی۔
ایک دن میں نے ان سے ایک ذاتی نوعیت کاسوال کیاکہ آپ نے ہمارے معاشرہ کوکیسا پایا؟ انکاجواب انتہائی دلچسپ تھا۔کہنے لگیں کہ میں تواب یہ سوچ رہی ہوں کہ دوپٹہ سے بھی آگے پردہ شروع کردوں۔وجہ سادہ سی ہے کہ پاکستان میں مردہرعورت کواس طرح دیکھتے بلکہ گھورتے ہیں کہ ان کی نگاہیں چھبتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔یہ بات عام سی ہے مگریہ ہرگزعام سی نہیں ہے۔ آپ کسی پاکستانی خاتون سے یہ بات پوچھ لیجیے، اس کا جواب بعینہ وہی ہوگاجو اس جرمن خاتون کاتھا۔ صاحبان!اوپرسے لے کر نیچے تک ہر تضاد ہرایک کے علم میں ہے،مگرکوئی انھیں تسلیم کرنے کے لیے تیارہی نہیں۔مگریہ تمام تضادات ایک بہت مثبت حقیقت کوجنم دیتے ہیں۔ کئی باراس صورتحال سے اپنے وقت کابہترین ادب تخلیق ہوجاتا ہے۔
اس بارادب کانوبل انعام جین پیٹرک موڈی اینا (Jean Patrick Modiana)کودیاگیاہے۔جب میں نے پہلی بار اس ادیب کے متعلق لکھاتھا،تب میں نے اس کی کوئی تحریریاناول نہیں پڑھاتھا۔بہت کوشش کے بعداسکاانگریزی میں ترجمہ شدہ ناول"Suspended Sentences" دستیاب ہوا۔ موڈی اینا منفردسوچ کامالک ہے اوراس کی تحریریں تمام ادیبوں سے نہایت مختلف ہیں۔ وہ پیرس میںپیدا ہوا۔ یہ1945ء کاپیرس تھا۔ اس کا والدالبرٹ موڈی اینا(Albert Modiana)ایک یہودی تھا۔جنگ دوم میںجرمنی میں چارسال کے لیے فرانس کوغلام بنالیاگیا۔جرمن افواج نے حکم دیا کہ پیرس میں یہودی پیلے رنگ کی ٹوپی پہنیں اور ان کے کپڑوں پرمخصوص طرزکایہودیت کانشان لازم قرار دیا گیا۔ مگر البرٹ نے یہ دونوں کام کرنے سے انکار کر دیا۔
وہ جرمن فوج کے ساتھ مل گیااور غیرقانونی تجارت شروع کردی۔ اس نے جرائم پیشہ افراداورجرمن سیکرٹ سروس "گسٹاپو"سے بھی قریبی تعلق بنالیا۔عملی طورپرالبرٹ اوراس کی بیوی لویسا(Louisa)نے اپنی اولادکوحالات کے دھارے پر چھوڑدیاتھا۔پیٹرک مجبوری کے عالم میں اپنے بڑے بھائی روڈی(Rudy)کے ساتھ اپنے ناناکے گھررہا۔پیٹرک کا دنیامیں صرف ایک دوست تھااوروہ تھااسکابڑابھائی روڈی۔ مگر اسکایہ بہترین دوست صرف دس برس کی عمرمیں فوت ہوگیا۔ پیٹرک مکمل طورپراکیلارہ گیا۔وہ اتنے شدیدمشکل حالات میں رہاکہ اپنی تعلیم بھی مکمل نہ کرسکا۔مگراس نے ایک نایاب صلاحیت حاصل کرلی اوروہ تھی لکھنے کی طاقت!اس کے مالی حالات اتنے دگرگوں تھے کہ 1970ء میں جب اس کی شادی ہوئی توتقریب کی ایک تصویر بھی نہ بنواسکا۔صرف بائیس برس کی عمرمیں اس نے اپنی زندگی کاپہلاناول لکھا۔وہ اب تک تقریباًتیس ناول لکھ چکاہے۔
موڈی ایناکی زندگی کاسب سے بڑاالمیہ اس کی ذاتی شناخت رہی۔ وہ کبھی اس حادثہ کو نہ بھول پایاکہ وہ جس شہرمیں پیدا ہوا اورجن گلیوں میں اسکابچپن گزرا،وہ شہرایک غیرملکی فوج کا اسیر رہا۔وہ یہ بھی نہیں بھول سکاکہ اسکابچپن کتناغیرمحفوظ اورتکلیف دہ تھا۔اس کے لاشعورمیں یہ پرچھائیں بھی قائم رہی کہ دراصل اسکاوالدمحض ایک جرائم پیشہ شخص نہیں تھا،بلکہ ایک قومی غداربھی تھا۔موڈی ایناہرناول لکھنے کے بعدسوچتاتھاکہ وہ اپنے ماضی کوبیان کرکے اس سے باہرنکل آیاہے مگروہ خود ہربار اپنے آپکوغلط ثابت کرتاتھا۔اس کے ذہن میں کوئی نہ کوئی ایسی ذہنی الجھن باقی رہ جاتی تھی کہ وہ نیاناول لکھناشروع کردیتا تھا۔وہ ہرناول میں اپنے شہرپیرس کوبیان کرنے کی مکمل کوشش کرتاتھا۔ مگرہرباراسے محسوس ہوتاتھاکہ وہ اپنے موضوع سے مکمل انصاف نہیں کرسکا۔
شروع کے ناولوں میں ایک ناول"ڈورا بروڈر" (Dora Bruder)ہے۔اسکاانگریزی زبان میں ترجمہ کیاگیا اور اس کا نام"Search Warrant" رکھا گیا۔ ڈورابروڈرکاکردارانتہائی خوف، زندگی اورموت کی کشمکش اور دھندلکے سائے میں تشکیل دیاگیا۔ڈورامشرقی یورپ میں رہنے والی پندرہ برس کی ایک بچی تھی۔جنگ میں قتل ہونے کے خوف سے وہ ایک مذہبی درسگاہ میں چھپی رہی۔ پھر اسکو وہاں سے بھی نکال دیاگیا۔اس کے بعداسکاکچھ معلوم نہ ہوسکا۔ موڈی ایناکویہ کردار1941ء کے ایک اخبارسے معلوم ہوا جس میں گمشدہ لوگوں کی فہرست چھپی ہوئی تھی۔مصنف کے طورپروہ خود،شناخت کے گم ہونے کاشکارتھالہذااس نے ڈورا کے متعلق جاننے کی کوشش شروع کردی۔دراصل وہ اپنے آپکوپہچاننے کی کوشش کررہاتھا۔وہ اس مذہبی درسگاہ میں دنوں بیٹھارہاجہاں وہ پندرہ سال کی بچی اپنی جان بچانے کے لیے چھپنے پرمجبور رہی۔اس نے یہ سوال اٹھایاکہ اس لڑکی نے وہ تمام وقت کس طرح گزار۔اس کے ناول میں یہ واقعہ بھی باربار دہرایاگیاکہ وہ کیسے جرمن فوج سے بچنے کے لیے فرارہوتی رہی ۔
جب اس سال موڈی ایناکوادب کانوبل انعام دیاگیا تو دنیاکے اکثرلوگوں کے لیے ایک حیرت تھی۔اس وقت تک اس کے محض دویاتین ناولوں کاانگریزی ترجمہ کیاگیاتھا۔اسے فرانس سے باہربہت کم لوگ جانتے تھے۔لیکن جیسے ہی اسے نوبل پرائزملا،پوری دنیامیں اس کے ناولوں کے ترجمے ہونے لگے۔ آج تک تقریباًتیس زبانوں میں یہ تراجم ہوچکے ہیں۔ اس میں اردوشامل نہیں ہے۔یہ تعجب اورافسوس کی بات ہے!
نوبل پرائزملنے سے پہلے موڈی اینافرانس کامشہورترین ادیب بن چکاتھا۔اسے یورپ کے لاتعدادانعام مل چکے تھے۔ اسے فرانس کے قومی ادبی ایوارڈسے بھی نوازا جاچکا تھا۔ موڈی اینااپنی ذات میں گم، ایک انتہائی کم گواورشرمیلاانسان ہے۔ وہ انٹرویودینے سے بھی کتراتاہے۔وہ کسی قسم کی شہرت کوپسندنہیں کرتا۔وہ کسی تقریب یادعوت میں جانے سے پہلے ہزاربارسوچتاہے۔وہ سب کویہ کہتاہے کہ اس نے زندگی میں کوئی ایسابڑاکام نہیں کیاکہ وہ غیرمعمولی عزت کاحقدار قراردیاجائے۔فرانس کی ادبی اکیڈمی نے اسے"غیرمعمولی انسانوں"کی فہرست میں ڈال دیا۔اس عظیم ادیب نے اکیڈمی کوخط لکھ کرقائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ ایک انتہائی معمولی آدمی ہے اورکسی طورپربھی ان کی ترتیب شدہ فہرست میں شامل ہونے کے قابل نہیں۔
موڈی ایناکہتاہے کہ لکھناایک بہت بڑاذہنی بوجھ ہے۔یہ دھندمیں ایک ایساسفرہے جسکی راہ میں کوئی نشان نہیں۔بلکہ آپکویہ بھی معلوم نہیں ہوتاکہ آپ سفرکس جانب کررہے ہیں اورکیوں کررہے ہیں۔اپنے پرانے ناولوں کودیکھ کرکہتاہے کہ ان میں سانس لینے کی گنجائش بہت کم ہے۔وہ یہ بھی کہتاہے کہ اپنے کام کودیکھ کرخوداسکویقین نہیں آتااوراسکادم گھٹنے لگتاہے!موڈی ایناایک ایساحیرت انگیزشخص ہے جسکی بدولت فرانسیسی زبان میں ایک نئے اور منفرد لفظ کا اضافہ ہوا ہے۔ وہ لفظ ہے "Modianesque"۔اسکامطلب ہے پُراسراراورایک ایسی صورتحال جس میں کسی جانب بھی کوئی راستہ نہ نظرآرہاہو۔عجیب بات یہ ہے کہ اس کے اپنے والدسے معاملات انتہائی کشیدہ تھے بلکہ اس کے والدنے اسے سترہ برس کی عمرمیں گھرسے نکال دیاتھا۔مگراس کے باوجوداس کے کئی ناول اپنے والدسے منسوب ہیں۔یہ بذات خودایک بہت عجیب تضادہے۔اس کی ادبی زندگی پرسب سے زیادہ اثراس شخصیت کاہے جس نے اس سے تمام دنیاوی تعلق توڑلیاتھا۔
ہمارے شخصی اورسماجی تضادات بے شمارہیں۔ہم انکااس بری طرح شکارہیں کہ کوئی بھی حقیقت لکھنے کی ہمت نہیں رکھتا۔ہم تمام لوگ مختلف چہرے لگاکرپوری عمرایک نامکمل سی زندگی گزارنے پرمجبورہیں۔ہماری اصلی زندگی کسی اندھیرے راستے میںگُم سی چکی ہے۔ہمارے پاس موڈی ایناکی طرح دھند میں آئینہ دکھانے والاکوئی شخص موجودنہیں۔اگرہوتابھی توکب کااسے نشانِ عبرت بنادیاجاتا۔
اپنے معاشرے پرغورکیجیے،ہماراپورامعاشرہ شدید دباؤ بلکہ الجھاؤکاشکار ہے۔ ہم اپنے تضادات کے اعتراف کواپنے لیے شرم کاباعث سمجھتے ہیں! ہم مصنوعی دنیامیں زندہ رہ رہے ہیں۔مجھے کہنے کی اجازت دیجیے کہ ہم جھوٹ کے سہارے زندگی گزارنا شروع کردیتے ہیں۔ یہیں سے وہ تکلیف دہ دوہری یاتہری شخصیت وجودمیں آتی ہے جس میں آپ بذات خودموجودنہیں ہوتے۔
میں ایک عام سی بات کرناچاہتاہوں۔اسلام آبادمیں چندماہ ایک وزارت میں ڈپٹی سیکریٹری کے طورپرکام کررہا تھا۔ وہاں ایک این جی اوسے وابستہ ایک جرمن خاتون دفتر تشریف لائیں۔مجھے انکانام اچھی طرح یادنہیں رہا۔ شائدجنیفرتھا؟ان کی شادی پاکستان میں ایک سرکاری افسرسے ہوئی تھی۔وہ بیس پچیس برس سے پاکستان رہ رہی تھیں۔وہ پاکستانی لباس پہنتی تھیں اوردوپٹہ لیتی تھیں۔وہ ماحولیات پرکام کرتی تھیں اور مختلف شہروں میں جاکرپودے لگاتی تھیں۔ان سے پہلی ملاقات ہوئی توان کی عمرتقریباًساٹھ برس کی تھی۔
ایک دن میں نے ان سے ایک ذاتی نوعیت کاسوال کیاکہ آپ نے ہمارے معاشرہ کوکیسا پایا؟ انکاجواب انتہائی دلچسپ تھا۔کہنے لگیں کہ میں تواب یہ سوچ رہی ہوں کہ دوپٹہ سے بھی آگے پردہ شروع کردوں۔وجہ سادہ سی ہے کہ پاکستان میں مردہرعورت کواس طرح دیکھتے بلکہ گھورتے ہیں کہ ان کی نگاہیں چھبتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔یہ بات عام سی ہے مگریہ ہرگزعام سی نہیں ہے۔ آپ کسی پاکستانی خاتون سے یہ بات پوچھ لیجیے، اس کا جواب بعینہ وہی ہوگاجو اس جرمن خاتون کاتھا۔ صاحبان!اوپرسے لے کر نیچے تک ہر تضاد ہرایک کے علم میں ہے،مگرکوئی انھیں تسلیم کرنے کے لیے تیارہی نہیں۔مگریہ تمام تضادات ایک بہت مثبت حقیقت کوجنم دیتے ہیں۔ کئی باراس صورتحال سے اپنے وقت کابہترین ادب تخلیق ہوجاتا ہے۔
اس بارادب کانوبل انعام جین پیٹرک موڈی اینا (Jean Patrick Modiana)کودیاگیاہے۔جب میں نے پہلی بار اس ادیب کے متعلق لکھاتھا،تب میں نے اس کی کوئی تحریریاناول نہیں پڑھاتھا۔بہت کوشش کے بعداسکاانگریزی میں ترجمہ شدہ ناول"Suspended Sentences" دستیاب ہوا۔ موڈی اینا منفردسوچ کامالک ہے اوراس کی تحریریں تمام ادیبوں سے نہایت مختلف ہیں۔ وہ پیرس میںپیدا ہوا۔ یہ1945ء کاپیرس تھا۔ اس کا والدالبرٹ موڈی اینا(Albert Modiana)ایک یہودی تھا۔جنگ دوم میںجرمنی میں چارسال کے لیے فرانس کوغلام بنالیاگیا۔جرمن افواج نے حکم دیا کہ پیرس میں یہودی پیلے رنگ کی ٹوپی پہنیں اور ان کے کپڑوں پرمخصوص طرزکایہودیت کانشان لازم قرار دیا گیا۔ مگر البرٹ نے یہ دونوں کام کرنے سے انکار کر دیا۔
وہ جرمن فوج کے ساتھ مل گیااور غیرقانونی تجارت شروع کردی۔ اس نے جرائم پیشہ افراداورجرمن سیکرٹ سروس "گسٹاپو"سے بھی قریبی تعلق بنالیا۔عملی طورپرالبرٹ اوراس کی بیوی لویسا(Louisa)نے اپنی اولادکوحالات کے دھارے پر چھوڑدیاتھا۔پیٹرک مجبوری کے عالم میں اپنے بڑے بھائی روڈی(Rudy)کے ساتھ اپنے ناناکے گھررہا۔پیٹرک کا دنیامیں صرف ایک دوست تھااوروہ تھااسکابڑابھائی روڈی۔ مگر اسکایہ بہترین دوست صرف دس برس کی عمرمیں فوت ہوگیا۔ پیٹرک مکمل طورپراکیلارہ گیا۔وہ اتنے شدیدمشکل حالات میں رہاکہ اپنی تعلیم بھی مکمل نہ کرسکا۔مگراس نے ایک نایاب صلاحیت حاصل کرلی اوروہ تھی لکھنے کی طاقت!اس کے مالی حالات اتنے دگرگوں تھے کہ 1970ء میں جب اس کی شادی ہوئی توتقریب کی ایک تصویر بھی نہ بنواسکا۔صرف بائیس برس کی عمرمیں اس نے اپنی زندگی کاپہلاناول لکھا۔وہ اب تک تقریباًتیس ناول لکھ چکاہے۔
موڈی ایناکی زندگی کاسب سے بڑاالمیہ اس کی ذاتی شناخت رہی۔ وہ کبھی اس حادثہ کو نہ بھول پایاکہ وہ جس شہرمیں پیدا ہوا اورجن گلیوں میں اسکابچپن گزرا،وہ شہرایک غیرملکی فوج کا اسیر رہا۔وہ یہ بھی نہیں بھول سکاکہ اسکابچپن کتناغیرمحفوظ اورتکلیف دہ تھا۔اس کے لاشعورمیں یہ پرچھائیں بھی قائم رہی کہ دراصل اسکاوالدمحض ایک جرائم پیشہ شخص نہیں تھا،بلکہ ایک قومی غداربھی تھا۔موڈی ایناہرناول لکھنے کے بعدسوچتاتھاکہ وہ اپنے ماضی کوبیان کرکے اس سے باہرنکل آیاہے مگروہ خود ہربار اپنے آپکوغلط ثابت کرتاتھا۔اس کے ذہن میں کوئی نہ کوئی ایسی ذہنی الجھن باقی رہ جاتی تھی کہ وہ نیاناول لکھناشروع کردیتا تھا۔وہ ہرناول میں اپنے شہرپیرس کوبیان کرنے کی مکمل کوشش کرتاتھا۔ مگرہرباراسے محسوس ہوتاتھاکہ وہ اپنے موضوع سے مکمل انصاف نہیں کرسکا۔
شروع کے ناولوں میں ایک ناول"ڈورا بروڈر" (Dora Bruder)ہے۔اسکاانگریزی زبان میں ترجمہ کیاگیا اور اس کا نام"Search Warrant" رکھا گیا۔ ڈورابروڈرکاکردارانتہائی خوف، زندگی اورموت کی کشمکش اور دھندلکے سائے میں تشکیل دیاگیا۔ڈورامشرقی یورپ میں رہنے والی پندرہ برس کی ایک بچی تھی۔جنگ میں قتل ہونے کے خوف سے وہ ایک مذہبی درسگاہ میں چھپی رہی۔ پھر اسکو وہاں سے بھی نکال دیاگیا۔اس کے بعداسکاکچھ معلوم نہ ہوسکا۔ موڈی ایناکویہ کردار1941ء کے ایک اخبارسے معلوم ہوا جس میں گمشدہ لوگوں کی فہرست چھپی ہوئی تھی۔مصنف کے طورپروہ خود،شناخت کے گم ہونے کاشکارتھالہذااس نے ڈورا کے متعلق جاننے کی کوشش شروع کردی۔دراصل وہ اپنے آپکوپہچاننے کی کوشش کررہاتھا۔وہ اس مذہبی درسگاہ میں دنوں بیٹھارہاجہاں وہ پندرہ سال کی بچی اپنی جان بچانے کے لیے چھپنے پرمجبور رہی۔اس نے یہ سوال اٹھایاکہ اس لڑکی نے وہ تمام وقت کس طرح گزار۔اس کے ناول میں یہ واقعہ بھی باربار دہرایاگیاکہ وہ کیسے جرمن فوج سے بچنے کے لیے فرارہوتی رہی ۔
جب اس سال موڈی ایناکوادب کانوبل انعام دیاگیا تو دنیاکے اکثرلوگوں کے لیے ایک حیرت تھی۔اس وقت تک اس کے محض دویاتین ناولوں کاانگریزی ترجمہ کیاگیاتھا۔اسے فرانس سے باہربہت کم لوگ جانتے تھے۔لیکن جیسے ہی اسے نوبل پرائزملا،پوری دنیامیں اس کے ناولوں کے ترجمے ہونے لگے۔ آج تک تقریباًتیس زبانوں میں یہ تراجم ہوچکے ہیں۔ اس میں اردوشامل نہیں ہے۔یہ تعجب اورافسوس کی بات ہے!
نوبل پرائزملنے سے پہلے موڈی اینافرانس کامشہورترین ادیب بن چکاتھا۔اسے یورپ کے لاتعدادانعام مل چکے تھے۔ اسے فرانس کے قومی ادبی ایوارڈسے بھی نوازا جاچکا تھا۔ موڈی اینااپنی ذات میں گم، ایک انتہائی کم گواورشرمیلاانسان ہے۔ وہ انٹرویودینے سے بھی کتراتاہے۔وہ کسی قسم کی شہرت کوپسندنہیں کرتا۔وہ کسی تقریب یادعوت میں جانے سے پہلے ہزاربارسوچتاہے۔وہ سب کویہ کہتاہے کہ اس نے زندگی میں کوئی ایسابڑاکام نہیں کیاکہ وہ غیرمعمولی عزت کاحقدار قراردیاجائے۔فرانس کی ادبی اکیڈمی نے اسے"غیرمعمولی انسانوں"کی فہرست میں ڈال دیا۔اس عظیم ادیب نے اکیڈمی کوخط لکھ کرقائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ ایک انتہائی معمولی آدمی ہے اورکسی طورپربھی ان کی ترتیب شدہ فہرست میں شامل ہونے کے قابل نہیں۔
موڈی ایناکہتاہے کہ لکھناایک بہت بڑاذہنی بوجھ ہے۔یہ دھندمیں ایک ایساسفرہے جسکی راہ میں کوئی نشان نہیں۔بلکہ آپکویہ بھی معلوم نہیں ہوتاکہ آپ سفرکس جانب کررہے ہیں اورکیوں کررہے ہیں۔اپنے پرانے ناولوں کودیکھ کرکہتاہے کہ ان میں سانس لینے کی گنجائش بہت کم ہے۔وہ یہ بھی کہتاہے کہ اپنے کام کودیکھ کرخوداسکویقین نہیں آتااوراسکادم گھٹنے لگتاہے!موڈی ایناایک ایساحیرت انگیزشخص ہے جسکی بدولت فرانسیسی زبان میں ایک نئے اور منفرد لفظ کا اضافہ ہوا ہے۔ وہ لفظ ہے "Modianesque"۔اسکامطلب ہے پُراسراراورایک ایسی صورتحال جس میں کسی جانب بھی کوئی راستہ نہ نظرآرہاہو۔عجیب بات یہ ہے کہ اس کے اپنے والدسے معاملات انتہائی کشیدہ تھے بلکہ اس کے والدنے اسے سترہ برس کی عمرمیں گھرسے نکال دیاتھا۔مگراس کے باوجوداس کے کئی ناول اپنے والدسے منسوب ہیں۔یہ بذات خودایک بہت عجیب تضادہے۔اس کی ادبی زندگی پرسب سے زیادہ اثراس شخصیت کاہے جس نے اس سے تمام دنیاوی تعلق توڑلیاتھا۔
ہمارے شخصی اورسماجی تضادات بے شمارہیں۔ہم انکااس بری طرح شکارہیں کہ کوئی بھی حقیقت لکھنے کی ہمت نہیں رکھتا۔ہم تمام لوگ مختلف چہرے لگاکرپوری عمرایک نامکمل سی زندگی گزارنے پرمجبورہیں۔ہماری اصلی زندگی کسی اندھیرے راستے میںگُم سی چکی ہے۔ہمارے پاس موڈی ایناکی طرح دھند میں آئینہ دکھانے والاکوئی شخص موجودنہیں۔اگرہوتابھی توکب کااسے نشانِ عبرت بنادیاجاتا۔