بنگلہ دیش قیام پاکستان سے پہلے بن گیا تھا

بنگلہ دیش بننے کی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ انگریز اور کانگریس کی مکارانہ چال تھی جو انھوں نے مل کر چلائی۔

qakhs1@gmail.com

مسلم دنیا کی تاریخ کے حوالے سے تین بڑے سانحات بڑے المیے کے طور پر یاد کیے جاتے ہیں، جن میں سقوط بغداد، سقوط ِ دلی اور سقوط ِ ڈھاکا۔ سقوط ڈھاکا کے حوالے سے بڑی وجوہات لکھی جا چکی ہیں جن میں کچھ یہ وجوہ بھی بتائی جاتی ہیں جس میں سقوط بغداد اور سقوط دلی داخلی کمزوری کا نتیجہ نہیں تھے لیکن سقوط ڈھاکا میں مقامی آبادی دشمن کے ساتھ کھڑی ہو گئی یا ایسے ایسا کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔ دوسری بڑی وجہ، مسلم فوجوں نے سرحدی مجبوریوں کے سبب کمک نہ ملنے کے باعث تقریبا لڑے بغیر ہتھیار ڈال دیے کیونکہ ایک ہزار کلومیٹر سے زیادہ فاصلہ تھا اور یہ تصور عام کیا گیا تھا کہ مغربی پاکستان، مشرقی پاکستان کا دفاع کرے گا۔

تیسری وجہ میں ہمارے نوے ہزار فوجی گرفتار ہوئے اور انھوں نے دشمن کی قید میں طویل مدت گزاری، اس کے باوجود پاکستان کا مغربی بازو پاکستان کے نام دنیا کے نقشے پر موجود رہا۔ یہ بھی بڑی اہم وجہ ہے کہ مملکتوں کے توڑنے کا سبب عموما اقلیتیں بنتی ہیں اور اکثریت کی نا انصافی کی شکایات کرتی نظر آتی ہیں لیکن یہاں مشرقی پاکستان کی آبادی اکثریت میں تھی اور مغربی پاکستان اقلیت میں۔ پاکستان بنانے والی بنگالی نسل مسلم قوم نے 1906ء میں ڈھاکا کی سرزمین پر مسلم لیگ کی بنیاد ڈالی اور اس کے بانیوں میں اکثریت بنگالی قائدین کی تھی۔

مشرقی پاکستان کی آبادی ملک کی مجموعی آبادی کا 54 فیصد تھی۔ حسین شہید سہرودی کی عزیزہ شائستہ اکرام اللہ نے اپنی کتاب' پردے سے پارلیمنٹ تک' میں شکایت کی کہ حسین شہید سہرودی نے مساوات کے اصول کے حق میں مہم چلا کر اپنے سیاسی کیرئیر کو داؤ پر لگایا لیکن مغربی پاکستان کے حکمرانوں نے کبھی ان کی اس خدمت کا اعتراف کرنا تک پسند نہیں کیا۔''

11 اپریل 1947ء ریئر ایڈمرل و سکاونٹ ماؤنٹ بیٹن کے نام گورنر بنگال سر ایف بروز نے ایک مراسلہ لکھا جس میں انھوں نے لکھا کہ ہندو سبھا نے جو کانفرنس تارا کیسوار (ضلع ہگلی) میں ایسٹر کی چھٹیوں کے دوران منعقد کی تھی اس میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اس میں ایک قرار داد کے ذریعے ڈاکٹر سیاما پرشاد مکر جی کو اختیار دیا گیا کہ وہ ایک ایکشن کونسل تشکیل دیں جو بنگال کے ہندؤں کے لیے الگ مملکت قائم کرنے کی کوشش کرے۔ جون کے آخر تک ایک لاکھ رضا کار بھرتی کیے جائیں ''یہ قیام پاکستان سے پہلے کا ذکر ہے جب پاکستان کے قیام کے لیے مسلم لیگ اور مسلمان کوشش کر رہے تھے تو دوسری جانب کانگریس کے عزائم بڑے بھیانک سامنے آ رہے تھے۔

یہاں ایک اور تاریخی سازش کا ذکر ضروری ہو جاتا ہے ۔''15 اپریل1947ء صبح ساڑھے دس بجے ایک میٹنگ وائسرے ہند کی سربراہی میں ہوئی جس میں ریئر ایڈمرل و سکاؤنٹ بیٹن آف برما، سر جے ۔ کول ویل، لیفٹنٹ جنرل سر اے نائے۔ سر اے۔ ویلی، ' سر ای ۔ جنیکر ، سر ایچ ۔ ڈو، 'سر ایف کلو، سر یسف ۔موڈی 'سر او ۔ کیرو ' اور متعدد انگریز فوجی افسر موجود تھے۔ جب کابینہ مشن پہلی بار منظر عام پر آیا تھا تو یہ درست تھا کہ اس وقت بنگال کی تمام جماعتوں نے سکھ کا سانس لیا تھا کہ بنگال تقیسم نہیں کیا جائے گا۔''


20 فروری کو حکومت برطانیہ کا فرمان چیف منسٹر کو دکھایا گیا تھا کہ حکومت کو بنگال ورثے میں مل جائے گا اور آزاد بنگال کے لیے منصوبہ بندی کی جائے گی۔ ہندوؤں نے اس بیس فروری کے اعلان سے یہ خطرہ محسوس کر لیا تھا کہ بنگال مسلم لیگ کی حکومت کو دے دیا جائے گا۔ پنجاب کے برعکس بنگال میں دو فرقے تھے 33 ملین مسلمان اور 25 ملین ہندو جس میں 9 ملین شیڈول کاسٹ ہندو تھے جو مسلم لیگ کے ساتھ تھے۔ مغربی بنگال کو ایک آزاد مملکت بنانے کی تجویز ٹائی سن کی جانب سے دی جا رہی تھی کہ بشرطیکہ اس میں کلکتہ کو شامل کر لیا جائے، کیونکہ تمام کلیدی صنعتیں مغربی بنگال میں واقع تھیں، مشرقی پاکستان میں پٹ سن کاشت کی جاتی ہے۔

اس کی گانٹھیں باندھی جاتی تھیں لیکن اس سے مصنوعات اس علاقے میں تیار نہیں کی جاتیں، شمالی بنگال میں چائے کی کاشت ہوتی اور اس کو تیار کیا جاتا لیکن مسلمانوں کے اکثریتی علاقوں میں چائے بہت ہی کم پائی جاتی ہے، مشرقی بنگال تنہا کبھی نہیں چلا اور نہ ہی چل سکتا ہے وہ اپنی خوراک کی ضرورت بھی پوری نہیں کر سکتا اور اس قابل کبھی نہیں ہو گا خواہ خوردنی اجناس کاشت کرنے کے لیے پٹ سن کی کاشت روک دی جائے گی۔ سر فیڈرک بروز کے الفاظ میں ''یہ زرعی گناہگار'' ہو گا مسلمان اور ہندو سب اس حقیقت سے آگاہ ہیں، پس پردہ محسوس کرتے ہیں کہ بنگال کو تقسیم کرنے کے واویلا کا مقصد پاکستان کو ''تارپیڈو'' کرنا ہے ان کی سمجھ میں یہ کسی طرح بھی نہیں آتا کہ وہ کس طرح مشرقی بنگال کو قابل عمل فارمولا اور نفع بخش سودا ہے۔15 اپریل1947ء میں گورنروں کی کانفرنس میں ماونٹ بیٹن کو بتایا گیا کہ کلکتہ میں بارہ سو پولیس کے سپاہی ہیں جن میں زیادہ تر کورگھے ہیں۔

میدانی علاقوں میں بھرتی نہیں کی جاتی آئی جی نے پولیس کی نفری میں اضافے کے لیے کہا تو اُس وقت کے چیف منسٹر مسٹر سہروردی نے اصرار کیا کہ یہ سب مسلمان ہونے چاہیئں ان کی تربیت کے پیش نظر سابق فوجی ہوں۔ لیکن اس کے لیے ان کو موزوں نظر نہیں آیا تو انھوں نے پنجاب سے چھ سو سابقہ فوجیوں کو پولیس میں بھرتی کیا اور ان سے اچھا سلوک کیا جس کے سبب گورکھوں نے انھیں سہروردی کی پرائیوٹ فوج کہنا شروع کر دیا تھا۔ ان ہی برطانوی گورنرز کی میٹنگ میں یہ بھی کوشش کی گئی کہ آزاد بنگال کو بنانے کی کوشش کی جائے، شمالی مغربی صوبہ سرحد قطع نظر لوگوں کے جذبات کے مسلم لیگ نے صوبے کے بہت زیادہ اخراجات کے باوجود اسے قبول کیا۔ صوبہ سرحد کی آبادی ساڑھے تین ملین تھی جس میںڈھائی ملیں قبائلی باشندے بھی شامل تھے۔

سندھ کی کل آبادی چار ملین اور پنجاب کے تقسیم شدہ حصے کی آبادی کو پندرہ ملین ظاہر کیا جاتا تھا اس طرح پاکستان کی کل آبادی 24 ملین شمار کی جا رہی تھی لیکن اس آبادی میں بنگال اور آسام کی آبادی کو شامل نہیں کیا جا رہا تھا پاکستان مربوط تشخص کے ساتھ قائم کیا جاتا تو اقتصادی طور پر خودکفیل ہوتا اور ہندوستان کبھی پاکستان کے ساتھ چھیڑ خانی کا تصور بھی نہ کرتا۔ لارڈ اسمے کا ماننا تھا کہ ''مسٹر جناح کا مقصد ایسا پاکستان حاصل کرنا ہے جس میں سندھ، پورا پاکستان، صوبہ سرحد، آسام اور پورا بنگال شامل ہو۔''اس کالم میں تاریخ کے اُس پہلو کو سامنے لانا مقصود تھا کہ بنگال کو شروع دن سے ہی پاکستان سے الگ کرنے کی سازش تیار کر لی گئی تھی۔

بنگلہ دیش بننے کی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ انگریز اور کانگریس کی مکارانہ چال تھی جو انھوں نے مل کر چلائی اور پاکستان کو ایک ایسا خطہ دیا جو اقتصادی لحاظ سے کمزور تھا تا کہ نئی ریاست جلد از جلد معاشی مشکلات کا شکار ہو جائے اور ان میں احساس محرومی کو اتنا وثق کیا جائے کہ بظاہر یہی نظر آئے کہ مغربی پاکستان، مشرقی پاکستان کے ساتھ نا انصافی کر رہا ہے۔ قیام پاکستان سے قبل انگریز حکومت کی سازشوں اور کانگریس کی چالوں کا ذکر کرنے کا یہی مقصد ہے کہ بنگلہ دیش کی پلاننگ قیام پاکستان بنانے سے قبل ہی کی جا چکی تھی اور معاشی حالات جو انھیں ورثے میں ملے تھے اس کا واویلا بھارت، انگلستان گٹھ جوڑ سے کرنے کے بجائے پاکستان کی جانب اس طرح موڑ دیا گیا کہ ہم تاریخ کی سیاہ ترین سازش سے ہمیشہ لاعلم رہیں۔

بنگلہ دیش تیس لاکھ ہلاکتوں کا پروپیگنڈا کرتے نہیں تھکتے، یہاں صرف ایک خبر کا ذکر کروں گا بنگلہ دیش میں 1971ء کی جنگ کے دوران ہلاکتوں پر سوال اٹھانا برطانوی صحافی ڈیوڈ برگ مین کو مہنگا پڑ گیا اور بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے برطانوی صحافی کو توہین عدالت کا مجرم قرار دیکر سزا سنا دی، عالمی انعام یافتہ ڈیوڈ برگ کو سماعت ختم ہونے تک عدالت میں کھڑے رہنے کی علامتی سزا دی گئی اور 65 ڈالر ( پانچ ہزار ٹکا) جرمانہ یا عدم ادائیگی پر ایک ہفتے کی قید کی سزا دی۔ برطانوی صحافی نے 1971ء میں جنگ میں ہلاکتوں کی سرکاری تعداد پر اپنے ایک بلاگ میں سوال اٹھایا تھا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 30 لاکھ افراد مارے گئے تھے جب کہ برگ مین کا کہنا تھا کہ اس دعوے کی حمایت میں کوئی شواہد نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ بنگلہ حکومت پاکستان کی حمایت کرنے والوں کو جس طرح طویل سزائیں اور پھانسیاں دے رہی ہے وہ خود ایک قابل مذمت اقدام ہے۔ ماضی چھپ نہیں سکتا یہ بنگلہ دیش کا ماضی تھا اور ہے۔
Load Next Story