کمال کے فنکار
ہم ہر دلدل میں پھنسنے سے پہلے خود کو بہت شاطر سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ اب کی بار ہماری درگت نہیں بنے گی۔
فن کار کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ جو لوگوں کو دکھانا چاہتا ہے لوگ وہ ہی دیکھیں۔ وہ جو لوگوں کو سُنانا چاہتا ہے لوگ بس وہ ہی سُنیں۔ وہ اگر چاہتا ہے کہ لوگ ظلم کو بھی مظلومیت کے طور پر یاد کریں تو آنکھیں کھلی رکھ کر نابیناؤں کی طرح چلنے والے صرف اور صرف ظالموں کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ یہ اُن کی بازی گری ہوتی ہے کہ وہ اس قدر خوبصورتی سے دوزخ کا نقشہ کھینچتا ہے کہ شکل و صورت سے خود کو عقل مند ثابت کرنے والا ہوشیار بھی آگ میں کود جاتا ہے۔ وہ ایسا کرشمہ ساز خود کو ظاہر کرتا ہے کہ رات کی تاریکی میں بھی لوگ خود کو سورج کے نیچے تصور کرتے ہیں۔ اور کبھی اُسے کہیں ہوائیں اپنے خلاف چلتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں تو وہ ہوا کے وجود کو ہی تسلیم کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ مجھے یاد نہیں لیکن کسی لیڈر نے کہا تھا کہ اگر حقائق مقاصد سے تصادم کر رہے ہوں تو حقائق بدل دو ۔۔ لیکن اس فن کار کا جادو جب کھونے لگتا ہے تو کیا ہوتا ہے۔ فرد نہیں بلکہ قومیں خود کو ایک بھنور میں محسوس کرتی ہیں۔ ایسا بھنور جو انھیں ایک اور تیز چکر میں ڈال دیتا ہے ایسی دلدل جو ہر دھوکے کے بعد اور گہری ہو جاتی ہے۔
ہم ہر دلدل میں پھنسنے سے پہلے خود کو بہت شاطر سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ اب کی بار ہماری درگت نہیں بنے گی۔ اس مرتبہ ہم قربانی کا بکر ا نہیں بنیں گے۔ اس بار ہم اتنے شاطر ہو گئے ہیں کہ کوئی ہمیں دھوکہ نہیں دے سکتا۔ اور اس بار کیا جانے والا ہمارا فیصلہ ہمارے پچھلے سارے غلط اقدام کا کفارا ادا کر دے گا۔ میں پاکستان کے قیام اور اُس کے بعد آتے جاتے وزیر اعظم کا ذکر نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن جب گلاب کا پھول لیے ایوب خان آیا تو ہمیں سمجھایا گیا کہ اس بار ہمیں وہ مقصد اور منزل حاصل ہو جائے گی جس کا خواب سجائے ہم نے پاکستان بنایا تھا۔ اور لوگوں کو یہ گمان تھا کہ اس بار انھوں نے بہت ہی شاندار فیصلہ کیا ہے۔ کچھ سالوں بعد جب عقل ٹھکانے آنے لگی تو ہم نے جان لیا کہ اب ہم بہت زیادہ عقلمند ہو گئے ہیں اب ہم جمہوریت کے سائے تلے اپنے سارے خوابوں کو پورا کر دینگے ۔ روٹی کپڑا اور مکان ہی تو ہمارا سب کچھ ہے۔ اور عقلمندی کا فیصلہ بھی یہ ہی ہے کہ ہم ہر صورت میں جمہوریت کا ساتھ دیں۔ ہم اسی صورت میں برابری حاصل کر سکتے ہیں کہ ہم اسلام، جمہوریت اور سوشلزم کو ساتھ لے کر چلیں ۔۔ گاڑی چھن چھن کر کے چلنے لگی اور ہمیں فخر ہونے لگا کہ ہم واقعی بہت عقل مند ہے ۔
پھر ایک طوفان سا اٹھایا گیا اور ہمیں احساس دلایا گیا کہ ہم تو سوشلزم کے نام پر بے وقوف بن گئے اب کی بار ہم زیادہ عقلمند ہو گئے ہیں۔ اور اب ہم نظام مصطفی تحریک کا حصہ ہو کر اپنی عقلمندی کا ثبوت دینگے ۔ ہم نے بھٹو کو چلتا کیا اور پھر ضیاء کی تاریکی میں چلے گے ۔یہ ہی سمجھتے رہے کہ اصل مسئلہ کا حل تو اب ہو جائیگا ۔ وہاں بھی ہم نے خود کو بے وقوف ثابت کیا اور پھر ہم عقلمندی سے جمہوریت کی باریاں لگانے لگے ۔ ایک دن اچانک ہمیں احساس ہوا کہ جس شخص کو ہم نے بہت بڑی اکثریت دے کر مسند پر بٹھایا ہے وہ ہماری نادانی کا فیصلہ ہے اور ایک بار پھر پیارے عزیز ہم وطنوں ہو گیا۔
ہم سیاست دانوں، اور آمروں کے ہاتھوں ہر بار یہ ثابت کرنے لگے کہ ہم عقلمند ہیں لیکن بعد میں اندازہ ہوا کہ ہمیں بے وقوف بنا دیا گیا ۔ تو اب ہم نے ایک اور دانش مندی کا فیصلہ کیا ۔ اور سوچا کہ اب ایک جج پر اعتبار کرتے ہیں ۔ لمبے لمبے جلوس دکھا کر ہم نے ثابت کرنے کی کوشش کی اس بار ہم کوئی غلطی نہیں کرینگے ۔اور ہم انھیں لے کر آگئے ۔ پھر ۔ پھر کیا ہوا ۔ جب وہ مسند پر بیٹھ کر قلم سے زیادہ زبان چلانے لگے تو ہمیں پھر اپنی ہوشیاری پر شک گزرا ۔ لیکن آپ مایوس مت ہوں اس بار ہم ایک بار پھر خود کو سب سے زیادہ ذہین ثابت کرنے جا رہے ہیں۔ یا ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ بہترین فیصلہ یہ ہی کہ جہاں ہوا چل رہی ہے اُسی طرف چلتے رہو ۔
جہاں ہم خود کو ہر بار عقلمند، ہوشیار، سیانا اور چالاک ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں وہی ہمارا یہ تصور ہوتا ہے کہ جس شخص پر ہم اعتبار کرنے جا رہے ہیں وہ انتہائی معصوم ہے۔ یہاں ہم ''عقل مند'' جس کے پیچھے چل رہے ہیں انھیں معصوم اور جن کے ساتھ ہم پہلے تھے انھیں ظالم ثابت کرنے لگ جاتے ہیں ۔ آئیے اس کو بھی سمجھ لیں۔ ایوب خان کے پیچھے چلنے والے یہ کہتے تھے کہ وہ معصوم کیا کریں یہاں تو سیاست دانوں نے باری لگائی ہوئی ہے ایسے میں اُس بیچارے نے عوام کے لیے اقتدار سنبھالا ۔ اور جب بھٹو کی طرف لپکے تو چاہنے والے کہنے لگے کہ بھٹو تو معصوم تھا وہ تو ہمارے لیے وزارت سے گھر بھیجا گیا ۔ ایوب خان ہی ظالم ہے ۔ اور پھر چند سالوں بعد مظلوم بھٹو کو ظالم بنا کر پیش کیا جانے لگا۔ وہ ہی ضیاء تھا جسے کچھ لوگ روشنی کا انبار کہتے تھے آج اُس کا نام اپنے ساتھ لینا نہیں چاہتے۔ ایک بار پھر جسے لوگ اپنی عقلندی میں مظلوم سمجھتے تھے اُسے ظالم قرار دینے لگے ۔
وہ ہی جمہوریت میں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے والوں پر مشرف آ کر بیٹھ گیا ۔ تو آپ اُن لوگوں کے ہاتھ گن سکتے ہیں جو اُسے مظلوم کہہ کر اُس کے ریفرنڈم میں آگے آگے اپنی تصویریں بنوا رہے تھے۔ مخصوص لوگوں کی زبانیں نہیں تھکتی تھیں مشرف کے سات نکات کے قصیدے پڑھتے پڑھتے۔ چند سالوں بعد ہی ایک اور مظلوم ظالم بن گیا اور پھر چیف جسٹس کی صورت میں جسٹس نظر آنے لگا۔ کہنے کو اور دینے کو بہت ساری مثالیں ہیں لیکن صرف تین نفسیاتی اور معاشرتی خوبیوں یا خامیوں کا ذکر چھیڑا ہے ۔ اول یہ کہ ہم ہمیشہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم سے زیادہ عقلمند کوئی بھی نہیں ہے اور ہم جسے منتخب کر رہے ہیں وہ تما م خرابیوں سے پاک ہے ۔
اُس وقت یہ بازی گر یہ فنکار نا جانے ہماری آنکھوں میں کون سا سُرمہ لگا دیتے ہیں کہ ہمیں جلتے ہوئے انگارے بھی پھول محسوس ہوتے ہیں ۔ وہ کون سی دوا ان کے پاس ہوتی ہے جو ہمیں وہ پلا دیتے ہیں اور اُس کے بعد ہمارا نیا رہنما ہمیں سب سے زیادہ مظلوم اور بے بس محسوس ہوتا ہے اور میں اُس جادوئی پانی کی تلاش میں ہوں جو چند سالوں بعد ہی مظلوم کو ظالم بنا دیتا ہے۔ آخر یہ ہمارے نظام، ہمارے جسموں میں کوئی خرابی ہے یا خوبی ہے جو ہمیں کوئی راس نہیں آتا۔ یا پھر اس پوری تاریخ میں ہمیں جو ملا وہ فنکار ہی ملا ۔جس نے اپنا شو بیچا ۔
ایسا کون سا نظریہ ہے جس کا یہاں خواب نہیں دکھایا گیا۔ کسی نے لبرل ہونے کا جھنڈا اٹھایا تو کسی نے مذہب کو سامنے رکھا ۔ کسی نے جمہوریت کا راگ سُنایا تو کسی نے سوشلزم کو ہر زخم کا مرہم قرار دیا ۔ مجھے ڈر اس بات کا ہے کہ ایک بار پھر کہیں ہم خود کو بہت زیادہ عقلمند تو ثابت نہیں کر رہے۔ اور ہم ایک بار پھر کچھ عرصے بعد اپنی دانش کا ماتم کرنے سڑکوں پر تو نہیں ہونگے ۔ ایسے میں اُس زمانے کے فنکار کو بہت داد ملتی ہے جیسے آج کل مل مل رہی ہے ۔ لیکن آج کا مظلوم کل کا ظالم بن گیا تو دلدل اور گہرا ہو جائیگا۔ جس میں ہماری ایک اور نسل تباہ ہو جائے گی۔ اور مجھے لگ رہا ہے کہ وہ وقت اب دور نہیں۔ میں بھی بلا وجہ مایوسی پھیلانے لگ گیا ۔ چھوڑیں کچھ چٹخاروں کی باتیں کرتے ہیں۔ اچھے اچھے چہروں کی ۔ اور اچھی اچھی فلموں کی ۔ یہ پرائم ٹائم میں ششکوں سے بھرے پروگراموں کے درمیان میں نے کہا سے آلو بیچنا شروع کر دیے ۔ آپ ٹی وی دیکھیں ۔۔