پاکستان ایک نظر میں امّی یہاں بہت ٹھنڈ ہے

امّی؟ اُٹھ جائیں نا پلیز، امّی بہت ڈر لگ رہا ہے، امّی آپ مجھے لینے کیوں نہیں آئیں؟

امّی؟ اُٹھ جائیں نا پلیز، امّی بہت ڈر لگ رہا ہے، امّی آپ مجھے لینے کیوں نہیں آئیں؟ ۔ فوٹو رائٹرز

PESHAWAR:
امّی؟ اُٹھ جائیں نا پلیز، امّی بہت ڈر لگ رہا ہے، امّی آپ مجھے لینے کیوں نہیں آئیں؟ مجھے پتا ہے آپ تھکی ہوئی ہیں، سارا دن لیڈی ریڈنگ میں ماری ماری پھری ہیں، میں وہاں کیوں جاتا امّی؟ میں تو بالکل ٹھیک ہوں، پکّا وعدہ! میں یہاں سی ایم ایچ میں ہوں، آپ یہاں آجائیں ورنہ کوئی 126کے لواحقین مجھے یہاں سے لے جائیں گے۔

امّی اُٹھ کے دیکھیں تو سہی میں بالکل ٹھیک ہوں، میرے سینے پر گولی ضرور لگی تھی پر ڈاکٹر نے اُس میں کوئی سفید سا پاؤڈر بھر دیا تھا تو خون نکلنا بند ہوگیا اور درد بھی نہیں ہورہا اب تو، دیکھیں میں آج فجر کے لئے پہلے سے اُٹھا ہوا ہوں، آج تو آپ کو ڈانٹنا بھی نہیں پڑے گا،
امّی جب مجھے یہاں لا رہے تھے تو ایک لڑکے نے میرے ہاتھ سے ابّو کی گھڑی اُتار لی۔ وعدہ میں نے اُسے دی نہیں تھی، میں نے بہت کوشش کی پر میں اُسے روک ہی نہیں سکا، یہاں پہنچا تو ایک انکل گود میں اُٹھا کر اندر کی طرف دوڑنے لگے، میں نے کہا انکل جلدی کیا ہے میں ٹھیک ہوں خود آجاؤں گا پر پتا نہیں ایسا لگ رہا تھا اُنہیں آواز نہیں آرہی میری۔

امّی کل تو آپ کے کہنے پر میں وہ اون کی ہری ٹوپی بھی پہن کر گیا تھا۔ بلال، سلمان اور ثاقب نے بہت مزاق اُڑایا پر وعدہ میں نے نہیں اُتاری، شام بستر پر لیٹا تھا تونیلے کپڑے پہنے دو انکل آئے اور میرے کپڑے اُتار کر ایک عجیب سی چادر میں لپیٹ دیا،میں بہت چیخا چلّایا پر اُنہوں نے میری ایک نہ سنی۔ پھرانہوں نے میرے سینے پر ایک رقّعہ چسپاں کیا جس پر 126 لکھا تھا، نہ جانے کیوں اُنہوں نے پھر اچھے بھلے بستر سے اُٹھا کر ایک لکڑی کے ڈبے میں بند کردیا۔


امّی بہت دم گُھٹ رہا تھا پر میں کچھ کر ہی نہیں پا رہا تھا، کئی گھنٹے ایسے ہی پڑا رہا۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد کچھ شور کی آواز آتی پھر یکدم خاموشی ہوجاتی، پھر کچھ قدموں کی آواز آئی اور ایک لڑکی بولی سر 126 کے لواحقین کا کچھ پتا نہیں چلا، پھر کچھ لوگوں کے باتیں کرنے کی آواز آئی پر سمجھ نہیں آیا کیا کہہ رہے ہیں۔ یہ سننا تھا کہ دو آدمیوں نے ڈبے کو کھولا اور مجھے اُٹھائے ایک کمرے میں آگئے جو بہت سرد تھا۔ وہاں دیوار کے ساتھ لوہے کی ایک الماری تھی۔ اُنہوں نے اس الماری کی ایک دراز کھولی اور مجھے اس میں لٹا کر واپس بند کردی۔

امّی میں رات سے اس گھپ اندھیرے میں پڑا ہوں۔ سردی اس قدر ہے کہ ہاتھ پاؤں محسوس نہیں ہو رہے، پر پتا نہیں کیوں کافی وقت سے میرے منہ سے خون رس رہا تھا جو یہاں آکر خود بخود بند ہوگیا۔ امّی بہت ڈر لگ رہا ہے، یہ 126 کے لواحقین کون ہیں؟ آپ رکشہ کرکے آجائیں پلیز، میں آج سے حرا کو کبھی نہیں ستاؤں گا، جب تک سردیاں ہیں روز ہری ٹوپی سے کان ڈھک کر اسکول جاؤں گا، آپ آجائیں بس۔ امّی میں یہاں نہیں رہ سکتا۔ میں مرجاؤں گا۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story