اتحاد کی منصوبہ بندی
ایک قدیمی مقولہ ہے کہ بہترین کی امید رکھو لیکن بدترین کے لیے منصوبہ بندی کرو
ایک قدیمی مقولہ ہے کہ بہترین کی امید رکھو لیکن بدترین کے لیے منصوبہ بندی کرو۔ مسلم لیگ ن نے پی ٹی آئی کے مطالبات منظور نہیں کیے لہٰذا اس نے اپنا احتجاج جاری رکھا۔ عمران خان نے اسلام آباد کے ڈی چوک پر اپنے دھرنے سے آغاز کر کے طویل المیعاد مزاحمت کا ثبوت دیا۔ پنجاب کے مختلف شہروں میں ریلیاں نکالنے کے ساتھ انھوں نے پیپلز پارٹی کے مضبوط گڑھ لاڑکانہ میں بھی جلسہ منعقد کر لیا اور یوں اندرون سندھ تک رسائی حاصل کرلی جب کہ مسلم لیگ کا خیال تھا کہ عمران کی یہ مہم بالاخر ناکام ہو جائے گی۔
پی ٹی آئی نے بھی اپنی حکمت عملی میں تبدیلیاں پیدا کیں اور پلان سی سے پلان ڈی کی طرف پیش رفت شروع کر دی۔ ان کا مقصد سڑکوں پر عام آدمی تک رسائی حاصل کرنا ہے جب کہ لاہور کے ماڈل ٹائون میں جو واقعہ ہوا اس کی بازگشت فیصل آباد میں بھیسنائی دی جس میں کسی نے پی ٹی آئی کے کارکن کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اس وقوعہ کی ویڈیو ریکارڈ شہادت موجود ہے لیکن اس کے باوجود یہ مسئلہ طے نہیں ہوسکا کہ گولی چلانے والاکون تھا۔اسی دوران پشاور کے ایک اسکول میں معصوم بچوں کے بہت بڑے پیمانے پر قتل و غارت کا اندوہناک سانحہ پیش آگیا۔
کوئی بھی بڑا شہر چند اہم سڑکوں اور چوکوں کو روک کر بڑی آسانی کے ساتھ بند کیا جا سکتا ہے جیسا کہ پی ٹی آئی کی ریلیوں کے ذریعے کیا گیا ہے۔ کراچی میں ایم کیو ایم کو بالادستی حاصل ہے لیکن وہاں پر ہونے والے احتجاج میں تشدد کا عنصر شامل نہیں ہوتا۔ لاہور شریف برادران کے اقتدار کا مرکز ہے جو مسلم لیگ ن کے علاوہ پی ٹی آئی کے لیے بھی اتنی ہی اہمیت رکھتا ہے۔ پنجاب پر وزیر اعظم کے بھائی وزیر اعلی شہباز شریف مضبوط گرفت رکھتے ہیں جو اس شہر میں کوئی مخالفانہ سرگرمی برداشت نہیں کرتے۔
ان کے صاحبزادے حمزہ شریف صرف لاہور ہی نہیں بلکہ پنجاب کے کسی بھی مقام پر احتجاج کرنے والوں کو چیلنج کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے حامیوں نے کئی مقامات پر شٹ ڈائون کرانے کے لیے قانون کو اپنے ہاتھ میں بھی لیا تاہم خواتین اور بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد عمران خان کی ریلیوں میں شامل ہونے کے لیے گھروں سے باہر نکل آئی۔ جن کو ڈرانے دھمکانے کے بعض واقعات بھی پرانی روایت کے مطابق پیش آئے۔ جن کے بارے میں تحقیقات کی جا رہی ہے کہ آیا یہ پی ٹی آئی کو بدنام کرنے کی کوئی سازش تو نہیں تھی کہ ان کے خلاف اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے جائیں۔
ان کی روک تھام کے لیے لازمی ہے کہ کڑی نظر رکھنے والے اسکواڈ قائم کیے جائیں اور انھیں مختلف مقامات پر تعینات کیا جائے۔ پی ٹی آئی کی قیادت مختلف شہروں کو بند کرا کے اپنی سیاسی اہمیت منوانا چاہتی ہے۔ 16 دسمبر کے دن کے ساتھ ایک بہت المناک یاد بھی وابستہ ہے لہٰذا اس دن سے ملک بھر میں مختلف شہروں کو بند کرنے کا اعلان بدقسمتی کی علامت سمجھا گیا۔ لہٰذا پی ٹی آئی نے جلد ہی اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے 16 دسمبر کی تاریخ کو 18 دسمبر میں تبدیل کر دیا لیکن پشاور میں ہونے والے المناک واقعہ کے باعث اب ملک گیر احتجاج کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔
اچھی خبر یہ ہے کہ مسلم لیگ ن نے بھی خیرسگالی کا اظہار کیا ہے۔ اگر یہ پہلے ہی پی ٹی آئی کے مطالبے کو تسلیم کر لیتی تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔ دوسری طرف پشاور میں 132 اسکول کے بچوں کی شہادت نے پی ٹی آئی کو بھی اپنی سوچ تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا ہے اور انھیں احساس ہو گیا ہے کہ آپس میں لڑنے جھگڑنے کے بجائے سب کو مل کر دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا چاہیے جو کہ ملک کے اصل دشمن ہیں۔
نواز شریف حکومت کا یہ دعویٰ بجا ہے کہ ملک میں موجودہ سیاسی ابتری براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کی آمد میں مانع ہے۔ پی ٹی آئی وزیر اعظم کے استعفے کے مطالبہ سے دست بردار ہو گئی ہے اور اس کے بجائے اس نے جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے گو کہ ملک میں اس قسم کے مطالبے کا ماضی میں کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ اب پی ٹی آئی پر لازم ہے کہ وہ اپنے مطالبات میں حقیقت پسندانہ تبدیلی کرے اور اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرے۔
ہمارے لیے دہشت گردی کی تمام اقسام کو جڑ سے اکھاڑنے کے علاوہ اور کوئی چیز اہم نہیں ہونی چاہیے۔ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی دونوں کو انتخابی نظام کی اصلاح پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے تا کہ انتخابات میں کسی قسم کے فراڈ کی گنجائش ختم ہو سکے جو کہ موجودہ احتجاج کے آغاز کا موجب بنی۔ اسپیکر ایاز صادق نے اپنے بیلٹ بکسوں کو کھولنے کے خلاف جو قانونی اقدام کیا ہے اس نے اس بات کی اہمیت کو اور زیادہ واضح کر دیا ہے کہ انتخابی اصلاحات کا عمل شروع کیا جانا چاہیے۔
اب ہمارے پاس ایک اچھے چیف الیکشن کمشنر (سی ای سی) جسٹس رضا کی صورت میں موجود ہیں ان کی جرات اور ہمت سے بہت سی توقعات وابستہ ہیں ۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے جسٹس رضا کو منتخب کر کے ایک اچھا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد چار الیکشن کمشنروں کی تبدیلی' جو کہ متنازع ہو گئے تھے ایک بہت مثبت اقدام ہے۔ اس ضمن میں کسی سیاسی وابستگی کو پیش نظر نہیں رکھا گیا۔ ایک دفعہ انتخابی اصلاحات پارلیمنٹ سے منظور ہو جائیں تو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی طرف سے یہ بہت اچھا اقدام ہو گا۔
مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے لیے یہ بہتر موقع ہے کہ اب پلان ڈی پر عملدرآمد کا ارادہ چھوڑ دیا جائے تا کہ کسی کو بھی معاملات کو مزید خراب کرنے کا موقع نہ ملے۔ کیا ہم نے 43 سال قبل ہونے والے المیے سے کوئی سیاسی سبق حاصل کیا ہے؟ 1947ء میں قیام پاکستان کے بعد ضد اور ہٹ دھرمی کے باعث 16 دسمبر 1971ء کا سانحہ پیش آیا۔ اب ہم 1971ء میں باقی رہ جانے والے پاکستان کے بارے میں مزید کوئی خسارہ برداشت نہیں کر سکتے۔
پشاور کے المناک سانحہ کے بعد وزیر اعظم کی طرف سے فوری طور پر آل پارٹیز کانفرنس طلب کرنے کے فیصلے کی تعریف کی جانی چاہیے اور عمران خان کی بھی یہ بات قابل تعریف ہے کہ انھوں نے وزیر اعظم کی دعوت کا مثبت جواب دیا ہے۔ فریقین کو یہی مشورہ دیا جا سکتا ہے کہ وہ معصوم لوگوں کا مزید خون بہانے کا کوئی موقع پیدا نہ ہونے دیں اور ایک نکتہ پر اکٹھے ہو جائیں۔
سارا ملک انتخابی اصلاحات کی حمایت کرتا ہے لہذا ملک کو چند ہزار فیوڈل لارڈز اور ان کے گماشتوں کے ہاتھوں یرغمال نہ بننے دیا جائے۔ لڑائی کرنے کا ایک وقت ہوتا ہے اور متحد ہونے کا بھی ایک وقت ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ لازمی ہے کہ تباہی اور موت کے لیے پلان ڈی بنانے کے بجائے پلان یو (U) بنایا جائے جو کہ یونٹی اور اتحاد کی علامت ہو۔
پی ٹی آئی نے بھی اپنی حکمت عملی میں تبدیلیاں پیدا کیں اور پلان سی سے پلان ڈی کی طرف پیش رفت شروع کر دی۔ ان کا مقصد سڑکوں پر عام آدمی تک رسائی حاصل کرنا ہے جب کہ لاہور کے ماڈل ٹائون میں جو واقعہ ہوا اس کی بازگشت فیصل آباد میں بھیسنائی دی جس میں کسی نے پی ٹی آئی کے کارکن کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اس وقوعہ کی ویڈیو ریکارڈ شہادت موجود ہے لیکن اس کے باوجود یہ مسئلہ طے نہیں ہوسکا کہ گولی چلانے والاکون تھا۔اسی دوران پشاور کے ایک اسکول میں معصوم بچوں کے بہت بڑے پیمانے پر قتل و غارت کا اندوہناک سانحہ پیش آگیا۔
کوئی بھی بڑا شہر چند اہم سڑکوں اور چوکوں کو روک کر بڑی آسانی کے ساتھ بند کیا جا سکتا ہے جیسا کہ پی ٹی آئی کی ریلیوں کے ذریعے کیا گیا ہے۔ کراچی میں ایم کیو ایم کو بالادستی حاصل ہے لیکن وہاں پر ہونے والے احتجاج میں تشدد کا عنصر شامل نہیں ہوتا۔ لاہور شریف برادران کے اقتدار کا مرکز ہے جو مسلم لیگ ن کے علاوہ پی ٹی آئی کے لیے بھی اتنی ہی اہمیت رکھتا ہے۔ پنجاب پر وزیر اعظم کے بھائی وزیر اعلی شہباز شریف مضبوط گرفت رکھتے ہیں جو اس شہر میں کوئی مخالفانہ سرگرمی برداشت نہیں کرتے۔
ان کے صاحبزادے حمزہ شریف صرف لاہور ہی نہیں بلکہ پنجاب کے کسی بھی مقام پر احتجاج کرنے والوں کو چیلنج کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے حامیوں نے کئی مقامات پر شٹ ڈائون کرانے کے لیے قانون کو اپنے ہاتھ میں بھی لیا تاہم خواتین اور بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد عمران خان کی ریلیوں میں شامل ہونے کے لیے گھروں سے باہر نکل آئی۔ جن کو ڈرانے دھمکانے کے بعض واقعات بھی پرانی روایت کے مطابق پیش آئے۔ جن کے بارے میں تحقیقات کی جا رہی ہے کہ آیا یہ پی ٹی آئی کو بدنام کرنے کی کوئی سازش تو نہیں تھی کہ ان کے خلاف اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے جائیں۔
ان کی روک تھام کے لیے لازمی ہے کہ کڑی نظر رکھنے والے اسکواڈ قائم کیے جائیں اور انھیں مختلف مقامات پر تعینات کیا جائے۔ پی ٹی آئی کی قیادت مختلف شہروں کو بند کرا کے اپنی سیاسی اہمیت منوانا چاہتی ہے۔ 16 دسمبر کے دن کے ساتھ ایک بہت المناک یاد بھی وابستہ ہے لہٰذا اس دن سے ملک بھر میں مختلف شہروں کو بند کرنے کا اعلان بدقسمتی کی علامت سمجھا گیا۔ لہٰذا پی ٹی آئی نے جلد ہی اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے 16 دسمبر کی تاریخ کو 18 دسمبر میں تبدیل کر دیا لیکن پشاور میں ہونے والے المناک واقعہ کے باعث اب ملک گیر احتجاج کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔
اچھی خبر یہ ہے کہ مسلم لیگ ن نے بھی خیرسگالی کا اظہار کیا ہے۔ اگر یہ پہلے ہی پی ٹی آئی کے مطالبے کو تسلیم کر لیتی تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔ دوسری طرف پشاور میں 132 اسکول کے بچوں کی شہادت نے پی ٹی آئی کو بھی اپنی سوچ تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا ہے اور انھیں احساس ہو گیا ہے کہ آپس میں لڑنے جھگڑنے کے بجائے سب کو مل کر دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا چاہیے جو کہ ملک کے اصل دشمن ہیں۔
نواز شریف حکومت کا یہ دعویٰ بجا ہے کہ ملک میں موجودہ سیاسی ابتری براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کی آمد میں مانع ہے۔ پی ٹی آئی وزیر اعظم کے استعفے کے مطالبہ سے دست بردار ہو گئی ہے اور اس کے بجائے اس نے جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے گو کہ ملک میں اس قسم کے مطالبے کا ماضی میں کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ اب پی ٹی آئی پر لازم ہے کہ وہ اپنے مطالبات میں حقیقت پسندانہ تبدیلی کرے اور اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرے۔
ہمارے لیے دہشت گردی کی تمام اقسام کو جڑ سے اکھاڑنے کے علاوہ اور کوئی چیز اہم نہیں ہونی چاہیے۔ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی دونوں کو انتخابی نظام کی اصلاح پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے تا کہ انتخابات میں کسی قسم کے فراڈ کی گنجائش ختم ہو سکے جو کہ موجودہ احتجاج کے آغاز کا موجب بنی۔ اسپیکر ایاز صادق نے اپنے بیلٹ بکسوں کو کھولنے کے خلاف جو قانونی اقدام کیا ہے اس نے اس بات کی اہمیت کو اور زیادہ واضح کر دیا ہے کہ انتخابی اصلاحات کا عمل شروع کیا جانا چاہیے۔
اب ہمارے پاس ایک اچھے چیف الیکشن کمشنر (سی ای سی) جسٹس رضا کی صورت میں موجود ہیں ان کی جرات اور ہمت سے بہت سی توقعات وابستہ ہیں ۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے جسٹس رضا کو منتخب کر کے ایک اچھا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد چار الیکشن کمشنروں کی تبدیلی' جو کہ متنازع ہو گئے تھے ایک بہت مثبت اقدام ہے۔ اس ضمن میں کسی سیاسی وابستگی کو پیش نظر نہیں رکھا گیا۔ ایک دفعہ انتخابی اصلاحات پارلیمنٹ سے منظور ہو جائیں تو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی طرف سے یہ بہت اچھا اقدام ہو گا۔
مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے لیے یہ بہتر موقع ہے کہ اب پلان ڈی پر عملدرآمد کا ارادہ چھوڑ دیا جائے تا کہ کسی کو بھی معاملات کو مزید خراب کرنے کا موقع نہ ملے۔ کیا ہم نے 43 سال قبل ہونے والے المیے سے کوئی سیاسی سبق حاصل کیا ہے؟ 1947ء میں قیام پاکستان کے بعد ضد اور ہٹ دھرمی کے باعث 16 دسمبر 1971ء کا سانحہ پیش آیا۔ اب ہم 1971ء میں باقی رہ جانے والے پاکستان کے بارے میں مزید کوئی خسارہ برداشت نہیں کر سکتے۔
پشاور کے المناک سانحہ کے بعد وزیر اعظم کی طرف سے فوری طور پر آل پارٹیز کانفرنس طلب کرنے کے فیصلے کی تعریف کی جانی چاہیے اور عمران خان کی بھی یہ بات قابل تعریف ہے کہ انھوں نے وزیر اعظم کی دعوت کا مثبت جواب دیا ہے۔ فریقین کو یہی مشورہ دیا جا سکتا ہے کہ وہ معصوم لوگوں کا مزید خون بہانے کا کوئی موقع پیدا نہ ہونے دیں اور ایک نکتہ پر اکٹھے ہو جائیں۔
سارا ملک انتخابی اصلاحات کی حمایت کرتا ہے لہذا ملک کو چند ہزار فیوڈل لارڈز اور ان کے گماشتوں کے ہاتھوں یرغمال نہ بننے دیا جائے۔ لڑائی کرنے کا ایک وقت ہوتا ہے اور متحد ہونے کا بھی ایک وقت ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ لازمی ہے کہ تباہی اور موت کے لیے پلان ڈی بنانے کے بجائے پلان یو (U) بنایا جائے جو کہ یونٹی اور اتحاد کی علامت ہو۔