43 برس بعد
یہ اس نظم کی کچھ لائنیں ہیں جو 16 اور 17 دسمبر 1971 کی درمیانی رات میں لکھی گئی،
آج کی رات بہت سرد بہت کالی ہے
زندگی ایسے لپٹتی ہے ہوائے غم سے
اپنے بچھڑے ہوئے ساجن سے ملی ہے جیسے
مشعل خواب کچھ اس طور بجھی ہے جیسے
درد نے جاگتی آنکھوں کی چمک کھا لی ہے
شوق کا نام نہ خواہش کا نشاں ہے کوئی
برف کی سل نے مرے دل کی جگہ پا لی ہے۔
نہ کوئی دوست نہ تارا کہ جسے بتلاؤں
اس طرح ٹوٹ کے بکھرا ہے انا کا شیشہ
میرا پندار' مرے دل کے لیے گالی ہے
نبض تاروں کی طرح ڈوب رہی ہے' جیسے
آنکھ صحراؤں کے دامن کی طرح خالی ہے۔
یہ اس نظم کی کچھ لائنیں ہیں جو 16 اور 17 دسمبر 1971 کی درمیانی رات میں لکھی گئی، اس کی ایک ایک سطر نے دل و دماغ سے کاغذ پر منتقل ہونے میں جو وقت لیا اس کا شمار شاید ممکن ہی نہیں کہ جب کوئی کیفیت آپ کو زمان اور مکان سے بیگانہ کر دے تو گھڑی کی سوئیاں اور کیلنڈروں پر چھپے ہندسے وقتی طور پر ہی سہی اپنا مطلب اور مفہوم کھو دیتے ہیں۔
شکست خواب کا وہ مرحلہ ایسا دل گداز تھا کہ اگر اس کی چوٹ پتھر پر پڑتی تو وہ بھی ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جاتا۔ قیام پاکستان اور سقوط ڈھاکا تک کے چوبیس برس اس رات ایک ایسے خواب فراموش کی شکل اختیار کر گئے تھے جو ایک آسیب کی طرح چاروں طرف مسلط ہو گیا تھا جس کی تفصیل اور تجزیوں میں لاکھوں ورق سیاہ کر دیے گئے مگر عملی طور پر اس سے ذرہ برابر سبق نہیں لیا گیا نہ دکھے دل کی مرثیہ خوانی کسی کام آئی اور نہ طنز کے نشتر نے موٹی کھالوں پر کچھ اثر کیا پہلا رنگ یہ تھا کہ
دیکھو تو کتنے چین سے' کس درجہ مطمئن
بیٹھے ہیں ارض پاک کو آدھا کیے ہوئے
اور اس بے حسی کا دوسرا منظرنامہ کچھ اس طرح سے ہے کہ
کس طرح کا احساس زیاں ہے جو ہوا گم
کس طرح کا احساس زیاں ہے جو بچا ہے
ملک آدھا گیا ہاتھ سے اور چپ سی لگی ہے
اک لونگ گواچا ہے تو کیا شور مچا ہے
فوری ردعمل کے طور پر ادب اور صحافت میں ''گزشتہ را صلٰوۃ آیندہ را احتیاط'' سے بھرپور بے شمار تحریریں سامنے آئیں لیکن وقت کے ساتھ سب کی سب طاق نسیاں کا رزق ہو گئیں خود میں نے بھی اس موضوع پر کئی نظمیں لکھیں ایک نظم ''فریب خوردہ نسل کا عہد نامہ'' کے صرف دو بند۔ مثال کے طور پر
ہم گنہگار ہیں
اے زمین وطن ہم گنہگار ہیں
ہم نے نظموں میں تیرے چمکتے ہوئے بام و در کے جہاں تاب قصے لکھے
پھول چہروں پہ شبنم سی غزلیں کہیں' خواب آنکھوں کے خوشبو قصیدے لکھے
تیرے کھیتوں کی فصلوں کو سونا گنا' تیری گلیوں میں دل کے جریدے لکھے
جن کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھا نہیں ہم نے تیری جبیں پروہ لمحے لکھے
جو تصور کے لشکر میں لڑتے رہے ہم وہ سالار ہیں
اے زمین وطن ہم گنہگار ہیں۔
اے زمین وطن ہم گنہگار ہیں ہم ترے دکھ سمندر سے غافل رہے
تیرے چہرے کی رونق دھواں ہو گئی' ہم رہین حدیث غم دل رہے
ظلم کے روبرو لب کشائی نہ کی اس طرح ظالموں میں بھی شامل رہے
حشر آور دنوں میں جو سوئے رہے ہم وہ بیدار ہیں
اے زمین وطن ہم گنہگار ہیں
اس رات کو گزرے 43 برس ہو چلے ہیں لیکن کبھی کبھی یوں لگتا ہے جیسے نہ صرف یہ کہ ہم نے اس سے کچھ سیکھا نہیں بلکہ شاید ان دنوں کی فضا کو پہلے سے بھی زیادہ شدت اور غفلت سے دوہرا رہے ہیں اس وقت تمام تر خرابی کے باوجود مایوسی کا گھیرا اس قدر مضبوط نہیں تھا جتنا اب ہے کہ ٹی وی کا تقریباً ہر ٹاک شو دیکھنے اور سننے کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم نے پاکستان غلط چلایا نہیں بلکہ بنایا ہی غلط تھا اور یہ کہ جو بھیڑ قیام پاکستان کے وقت ایک قافلے کی شکل میں ڈھلی تھی وہ کوئی حادثہ یا واہم تھا۔
دینی مسلک ہو یا کوئی دنیاوی طرز حیات ہر دو صورتوں میں ہمارا سرمایا نفاق اور عدم برداشت کے علاوہ کچھ نہیں۔ عمران خان ہو' میاں نواز شریف یا آصف زرداری یا کوئی اور سب کے سب اپنا اپنا تماشہ دکھا رہے ہیں اور کوئی دوسرے کی بات سننے' ماننے یا سمجھنے کے لیے تیار نہیں خلق خدا کے مقدر میں بے بسی' ذلت' بے سمتی اور ایک دوسرے کے خون پر پلنے کے سوا کچھ نہیں اور ہر ڈوبتا ہوا تنکوں کا سہارا ڈھونڈ رہا ہے۔
بنگلہ دیش میں چند بچے کھچے بوڑھوں کو ان جرائم کی سزا دی جا رہی ہے جو پاکستان کے اتحاد کے نام پر کیے گئے جب کہ باقی پاکستان میں اسی کھیل کے دوسرے پارٹ کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ آئیے سقوط ڈھاکا کو یاد کرتے اور اس کی تکرار سے اللہ کی پناہ مانگتے ہوئے 43 برس پیچھے چلتے ہیں۔ اگر یہ نظم آپ کو ''آج'' کی لگے تو اسے میرے کمال فن کے بجائے اس اجتماعی بے حسی اور بے جہتی کا ایک منظرنامہ تصور کیجیے گا جس کے ہم سب مصنف بھی ہیں اور کردار بھی۔
ان زمینوں کی ہوا تند ہے بچ کر چلنا
خون کا نشہ نگاہوں میں اتر آیا ہے
ہر حقیقت کا گماں
خوف اور طیش کی راہوں میں اتر آیا ہے۔
بستیاں راکھ ہوئی ہیں لیکن
کس پہ الزام دھریں؟
جلنے والوں میں ہی شامل ہیں جلانے والے
مرنے والے ہی جہاں مارنے والے ہوں' وہاں
کون بتلائے کہاں ظلم ہوا؟
کس پہ ہوا؟ کس نے کیا؟
تیغ بردوش ہیں سب زخم دکھانے والے!
سرخی خوں سے مبرا کوئی دامان نہیں
اب یہاں ظالم و مظلوم کی پہچان نہیں
مولا کریم ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
زندگی ایسے لپٹتی ہے ہوائے غم سے
اپنے بچھڑے ہوئے ساجن سے ملی ہے جیسے
مشعل خواب کچھ اس طور بجھی ہے جیسے
درد نے جاگتی آنکھوں کی چمک کھا لی ہے
شوق کا نام نہ خواہش کا نشاں ہے کوئی
برف کی سل نے مرے دل کی جگہ پا لی ہے۔
نہ کوئی دوست نہ تارا کہ جسے بتلاؤں
اس طرح ٹوٹ کے بکھرا ہے انا کا شیشہ
میرا پندار' مرے دل کے لیے گالی ہے
نبض تاروں کی طرح ڈوب رہی ہے' جیسے
آنکھ صحراؤں کے دامن کی طرح خالی ہے۔
یہ اس نظم کی کچھ لائنیں ہیں جو 16 اور 17 دسمبر 1971 کی درمیانی رات میں لکھی گئی، اس کی ایک ایک سطر نے دل و دماغ سے کاغذ پر منتقل ہونے میں جو وقت لیا اس کا شمار شاید ممکن ہی نہیں کہ جب کوئی کیفیت آپ کو زمان اور مکان سے بیگانہ کر دے تو گھڑی کی سوئیاں اور کیلنڈروں پر چھپے ہندسے وقتی طور پر ہی سہی اپنا مطلب اور مفہوم کھو دیتے ہیں۔
شکست خواب کا وہ مرحلہ ایسا دل گداز تھا کہ اگر اس کی چوٹ پتھر پر پڑتی تو وہ بھی ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جاتا۔ قیام پاکستان اور سقوط ڈھاکا تک کے چوبیس برس اس رات ایک ایسے خواب فراموش کی شکل اختیار کر گئے تھے جو ایک آسیب کی طرح چاروں طرف مسلط ہو گیا تھا جس کی تفصیل اور تجزیوں میں لاکھوں ورق سیاہ کر دیے گئے مگر عملی طور پر اس سے ذرہ برابر سبق نہیں لیا گیا نہ دکھے دل کی مرثیہ خوانی کسی کام آئی اور نہ طنز کے نشتر نے موٹی کھالوں پر کچھ اثر کیا پہلا رنگ یہ تھا کہ
دیکھو تو کتنے چین سے' کس درجہ مطمئن
بیٹھے ہیں ارض پاک کو آدھا کیے ہوئے
اور اس بے حسی کا دوسرا منظرنامہ کچھ اس طرح سے ہے کہ
کس طرح کا احساس زیاں ہے جو ہوا گم
کس طرح کا احساس زیاں ہے جو بچا ہے
ملک آدھا گیا ہاتھ سے اور چپ سی لگی ہے
اک لونگ گواچا ہے تو کیا شور مچا ہے
فوری ردعمل کے طور پر ادب اور صحافت میں ''گزشتہ را صلٰوۃ آیندہ را احتیاط'' سے بھرپور بے شمار تحریریں سامنے آئیں لیکن وقت کے ساتھ سب کی سب طاق نسیاں کا رزق ہو گئیں خود میں نے بھی اس موضوع پر کئی نظمیں لکھیں ایک نظم ''فریب خوردہ نسل کا عہد نامہ'' کے صرف دو بند۔ مثال کے طور پر
ہم گنہگار ہیں
اے زمین وطن ہم گنہگار ہیں
ہم نے نظموں میں تیرے چمکتے ہوئے بام و در کے جہاں تاب قصے لکھے
پھول چہروں پہ شبنم سی غزلیں کہیں' خواب آنکھوں کے خوشبو قصیدے لکھے
تیرے کھیتوں کی فصلوں کو سونا گنا' تیری گلیوں میں دل کے جریدے لکھے
جن کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھا نہیں ہم نے تیری جبیں پروہ لمحے لکھے
جو تصور کے لشکر میں لڑتے رہے ہم وہ سالار ہیں
اے زمین وطن ہم گنہگار ہیں۔
اے زمین وطن ہم گنہگار ہیں ہم ترے دکھ سمندر سے غافل رہے
تیرے چہرے کی رونق دھواں ہو گئی' ہم رہین حدیث غم دل رہے
ظلم کے روبرو لب کشائی نہ کی اس طرح ظالموں میں بھی شامل رہے
حشر آور دنوں میں جو سوئے رہے ہم وہ بیدار ہیں
اے زمین وطن ہم گنہگار ہیں
اس رات کو گزرے 43 برس ہو چلے ہیں لیکن کبھی کبھی یوں لگتا ہے جیسے نہ صرف یہ کہ ہم نے اس سے کچھ سیکھا نہیں بلکہ شاید ان دنوں کی فضا کو پہلے سے بھی زیادہ شدت اور غفلت سے دوہرا رہے ہیں اس وقت تمام تر خرابی کے باوجود مایوسی کا گھیرا اس قدر مضبوط نہیں تھا جتنا اب ہے کہ ٹی وی کا تقریباً ہر ٹاک شو دیکھنے اور سننے کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم نے پاکستان غلط چلایا نہیں بلکہ بنایا ہی غلط تھا اور یہ کہ جو بھیڑ قیام پاکستان کے وقت ایک قافلے کی شکل میں ڈھلی تھی وہ کوئی حادثہ یا واہم تھا۔
دینی مسلک ہو یا کوئی دنیاوی طرز حیات ہر دو صورتوں میں ہمارا سرمایا نفاق اور عدم برداشت کے علاوہ کچھ نہیں۔ عمران خان ہو' میاں نواز شریف یا آصف زرداری یا کوئی اور سب کے سب اپنا اپنا تماشہ دکھا رہے ہیں اور کوئی دوسرے کی بات سننے' ماننے یا سمجھنے کے لیے تیار نہیں خلق خدا کے مقدر میں بے بسی' ذلت' بے سمتی اور ایک دوسرے کے خون پر پلنے کے سوا کچھ نہیں اور ہر ڈوبتا ہوا تنکوں کا سہارا ڈھونڈ رہا ہے۔
بنگلہ دیش میں چند بچے کھچے بوڑھوں کو ان جرائم کی سزا دی جا رہی ہے جو پاکستان کے اتحاد کے نام پر کیے گئے جب کہ باقی پاکستان میں اسی کھیل کے دوسرے پارٹ کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ آئیے سقوط ڈھاکا کو یاد کرتے اور اس کی تکرار سے اللہ کی پناہ مانگتے ہوئے 43 برس پیچھے چلتے ہیں۔ اگر یہ نظم آپ کو ''آج'' کی لگے تو اسے میرے کمال فن کے بجائے اس اجتماعی بے حسی اور بے جہتی کا ایک منظرنامہ تصور کیجیے گا جس کے ہم سب مصنف بھی ہیں اور کردار بھی۔
ان زمینوں کی ہوا تند ہے بچ کر چلنا
خون کا نشہ نگاہوں میں اتر آیا ہے
ہر حقیقت کا گماں
خوف اور طیش کی راہوں میں اتر آیا ہے۔
بستیاں راکھ ہوئی ہیں لیکن
کس پہ الزام دھریں؟
جلنے والوں میں ہی شامل ہیں جلانے والے
مرنے والے ہی جہاں مارنے والے ہوں' وہاں
کون بتلائے کہاں ظلم ہوا؟
کس پہ ہوا؟ کس نے کیا؟
تیغ بردوش ہیں سب زخم دکھانے والے!
سرخی خوں سے مبرا کوئی دامان نہیں
اب یہاں ظالم و مظلوم کی پہچان نہیں
مولا کریم ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔