ایٹمی ہتھیار اور اشرف المخلوقات

بدلتے ہوئے عالمی اور علاقائی مفادات کی وجہ سے امریکا اور ایران کے درمیان دیرینہ دشمنی کی جگہ اب دوستی لے رہی ہے


Zaheer Akhter Bedari December 18, 2014
[email protected]

QUETTA: ویانا میں ''ایٹمی ہتھیاروں سے دنیا کو خطرہ'' کے موضوع پر منعقد ہونے والی کانفرنس میں پہلی بار امریکا اور برطانیہ نے شرکت کی، اس کانفرنس میں 160 ممالک کے 800 وفود شریک ہوئے، کانفرنس میں جوہری حملوں، ایٹم بم کے تجربات اور حادثاتی طورپر جوہری دھماکے سے ہونے والے اثرات کا جائزہ لیا گیا، اس کانفرنس میں ہیروشیما اور ناگا ساکی میں امریکی ایٹم بم سے بچ جانے والے جاپانی بھی شریک ہوئے۔

ناگا ساکی اور ہیرو شیما پر جو امریکی ایٹم بم استعمال ہوا تھا آج اس سے سوگنا زیادہ طاقت ور ایٹم بم ہزاروں کی تعداد میں روس، امریکا اور دوسرے ایٹمی ملکوں میں موجود ہیں، ایران ایک عرصے سے ایٹمی ملک بننے کی کوششوں میں مصروف ہے اور امریکا، روس،چین سمیت کئی ممالک ایران کو ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری سے روکنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس حوالے سے ایران سے مذاکرات کا ایک لا متناہی سلسلہ جاری ہے۔

بدلتے ہوئے عالمی اور علاقائی مفادات کی وجہ سے امریکا اور ایران کے درمیان دیرینہ دشمنی کی جگہ اب دوستی لے رہی ہے ۔ اس پس منظر میں یہ امید کی جارہی ہے کہ شاید امریکا اور اس کے دوست، ایران کو ایٹمی پروگرام روکنے کے لیے آمادہ کرلیں، پچھلے دنوں امریکی صدر اوباما نے فرمایا تھا کہ ایران اپنا ایٹمی پروگرام ترک کرنے پر راضی ہوگیا ہے لیکن ایران نے اوباما کے بیان کی تردید کرتے ہوئے کہاہے کہ ایران ایٹمی پروگرام کسی صورت ترک نہیں کرے گا۔

پوکھران کے مقام پر بھارت نے ایٹمی دھماکا کیا جس کے جواب میں پاکستان نے چاغی کے مقام پر جوابی دھماکے کیے یوں اب یہ دونوں غریب ملک جن کی آبادی کا 50 فی صد سے زیادہ حصہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہا ہے، ایٹمی ملک بن گئے ہیں جب بھارت نے جوہری دھماکا کیا تو مجھے ذاتی طور پر اس کا بڑا شاک ہوا، میں نے اپنے دوستوں سے کہاکہ اس بلائے عظیم کے پھلنے پھولنے سے پہلے اس کے خلاف رائے عامہ کو بیدار کرنے کی کوشش کی جائے، چنانچہ کرامت علی اور بی ایم مکئی نے دوڑ بھاگ کرکے ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف جد وجہد کے لیے ایک تنظیم ''پیس کولیشن'' بنائی جو کبھی کبھی متحرک ہوجاتی ہے لیکن یہ مسئلہ اس قدر خطرناک بلکہ ہولناک ہے کہ اس مسئلے پر ایک موثر اور مسلسل مہم کی ضرورت ہے۔

آج کی جدید، ترقی یافتہ اور مہذب دنیا تلواروں پرچموں، نیزوں کی دست بدست جنگوں کو قدامت پسندانہ اور غیر انسانی جنگیں اور چنگیز اور ہلاکو کی جنگوں کو وحشیانہ جنگوں کا نام دیتی ہے لیکن ان جنگوں کا نقصان آج کی مہذب دنیا کی جنگوں کے مقابلے میں بہت کم ہوتا تھا۔ لیکن مہذب دنیا جن جدید روایتی ہتھیاروں سے جنگیں لڑتی رہی ہے اور لڑ رہی ہے اس کے نقصان کا اندازہ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں مارے جانے والے کروڑوں انسانوں سے ہوسکتا ہے، ہیروشیما اور ناگاساکی میں امریکا کے دو ایٹم بموں سے جو جانی نقصان ہوا اس کا ماتم دنیا آج تک کررہی ہے، عراق اور افغانستان کی تازہ جنگوں میں 10 لاکھ سے زیادہ بے گناہ انسان مارے گئے ہیں اور ان ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں جنگیں کیوں ہوتی رہیں اور کیوں آج بھی ان کا سلسلہ جاری ہے؟ ماضی میں عموماً جنگیں طاقت کے اظہار کا ذریعہ تھیں، سکندر اعظم ہو یا دوسرے عالمی فاتحین ان کی شروع کردہ جنگوں میں کسی ''وجہ''کا ہونا ضروری نہیں ہوتا تھا ملکوں کو فتح کرنا بادشاہوں، راجوں، مہاراجوں کی ہابی تھی۔ حیرت ہے کہ آج کی ترقی یافتہ دنیا ان وحشیوں کو کیسے کیسے القاب سے یاد کرتی ہے۔ سکندر اعظم کا شمار دنیا کے فاتحین میں سرفہرست ہوتا ہے لیکن کیا سکندر اعظم نے کوئی جنگ کسی معقول وجہ اور جواز کے ساتھ لڑی؟ ان وحشیانہ جنگیں لڑنے والوں کو جو احترام اور تقدس دیا جاتا ہے کیا وہ اس کے مستحق تھے؟

دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کے آغاز کے ساتھ جنگوں کا وجود مسلسل شروع ہوا، اس کے پیچھے ہمیشہ اور ہر جگہ معاشی مفادات کار فرما رہے ہیں۔ عالمی جنگوں کو بھی منڈیوں پر قبضے کی جنگیں کہا جاتا ہے دنیا کے اہل دانش اور اہل علم نے اگرچہ جنگوں کی مخالفت اور مذمت کی ہے لیکن جنگوں کی وجوہات کو ختم کرنے پر غور کرنے کی اور ان وجوہات کو ختم کرنے پر توجہ نہیں دی۔مثال کے طور پر دو عالمی جنگوں اور ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم استعمال کرنے کی تو مذمت کی گئی اور کی جا رہی ہے لیکن عالمی جنگوں کا سبب بننے والے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے خلاف دنیا کے دانشور اور مفکر نہ کوئی تحریک چلا پا رہے ہیں نہ اس ظالمانہ نظام کے خلاف کسی حلقے سے کوئی موثر تحریک چلتی دکھائی دیتی ہے۔

ہوسکتا ہے میری سوچ کو رائج الوقت اخلاقیات کے حوالے سے احمقانہ قرار دیا جائے لیکن میں جب کسی ملک میں ہتھیاروں کی نمائش کا اہتمام دیکھتا ہوں تو میرے ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ اس قسم کی ''انسان دوست'' نمائشوں کا مقصد کیا ہے؟ ہتھیار خواہ وہ چھری، چاقو ہوں یا F-16 یا B-52، ٹی ٹی ہو یا کلاشنکوف کیا یہ سارے ہتھیار انسانوں کو مارنے کے علاوہ کوئی اور خدمت انجام دیتے ہیں؟ اگر ہتھیاروں کا مقصد ہی ہلاکت انگیزی ہے تو پھر ان کی نمائشیں منعقد کرکے ان کے لیے گاہک پیدا کرنا انسانیت کے زمرے میں آتا ہے۔ اس کا ایک جواب یہ ہوسکتاہے کہ ہتھیار دفاع کے لیے ضروری ہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ دفاع کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی ہے؟ اگر کہیں اس کا معقول سبب بھی ہے تو کیا انسان اس سبب یا اسباب کو بات چیت کے ذریعے پر امن طور پر حل کرنے کا اہل نہیں ہے؟

ہتھیاروں اور جنگوں کے اسباب خواہ کچھ بھی ہوں اگر آج کا انسان اپنے آپ کو مہذب کہتا ہے تو اس کی پہلی ذمے داری ہتھیاروں اور جنگوں کے خلاف جنگ کرنا ہوگی اور ان اسباب کا پر امن بات چیت کے ذریعے حل نکالنا ہوگا جو کسی بھی جنگ یا ہتھیاروں کی تیاری کا سبب بنتے ہیں۔ ماضی میں جنگیں عموماً ملکوں کو فتح کرنے کے جنون کی وجہ سے ہوتی تھیں لیکن اگر ذرا گہرائی سے جائزہ لیں تو ان جنگوں کے پیچھے بھی معاشی عوامل ہی کار فرما نظر آئیں گے۔

جنگوں کا دوسرا سبب مذہبی اختلافات رہے ہیں۔ صلیبی جنگیں ہوں یا 1947 کا قتل عام یا فلسطین اور کشمیر میں جاری قتل و غارت گری ان سب کے پیچھے مذہبی منافرت کار فرما نظر آتی ہے کیا ہماری جدید اور مہذب دنیا کے دانشور، مفکر، فلسفی ، ادیبوں اور شاعروں نے مذہبی منافرتوں کے خلاف کوئی دانشورانہ، فلسفیانہ حل پیش کرنے کی کوشش کی ہے؟

کہا جاتا ہے کرۂ ارض پر موجود ہر انسان کا جد امجد آدمؑ تھے، یہ فکر، یہ خیال کسی نہ کسی شکل میں ہر مذہب ملت میں موجود ہے اگر اس پر سب کا اتفاق ہے کہ دنیا کے سارے انسان اور اولاد آدم ہیں تو پھر کیا ان کے درمیان نفرتوں کی جگہ بھائی چارہ نہیں ہونا چاہیے اگر ہونا چاہیے تو اس حوالے سے دنیا کے اہل علم، اہل دانش، اہل قلم نے کیا عملی اور موثر کوششیں کیں؟

ہم نے کالم کا آغاز ویانا میں ایٹمی ہتھیاروں کے خطرات کے موضوع پر ہونے والی کانفرنس سے کیا تھا اور بات روایتی ہتھیاروں اور جنگوں تک پہنچ گئی۔ 1945 کے بعد ایٹمی جنگ کے دوبار خطرات پیدا ہوئے لیکن ایٹمی جنگ اس لیے نہیں ہوئی کہ دنیا کا ہر ملک خواہ وہ ایٹمی ملک ہو یا غیر ایٹمی اچھی طرح جانتا ہے کہ ایٹمی جنگ کا مطلب کرۂ ارض پر موجود جانداروں کی تباہی کے علاوہ کچھ نہیں جب ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے خطرات کم سے کم ہیں تو ہزاروں کی تعداد میں ایٹمی ہتھیاروں کے ذخائر کی افادیت کیا ہے؟

اگر ایٹمی ہتھیار رکھنے کا مقصد محض طاقت کے توازن کے نام پر ایک دوسرے کو بلیک میل کرنا ہے تو یہ ایسی خطرناک اور انسانیت سے گری ہوئی حرکت ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ امریکا اور روس کے پاس دنیا کے سب سے بڑے ایٹمی ذخائر ہیں کیا امریکا اور روس کے درمیان اعتماد باہمی کی ایسی فضا نہیں پیدا کی جاسکتی کہ ایٹمی ہتھیار رکھنے کی ضرورت ہی ختم ہوجائے؟ کیا ہندوستان اور پاکستان کے متنازعہ مسئلے مسئلہ کشمیر کو امریکا، روس وغیرہ مل کر حل نہیں کراسکتے؟ کیا فلسطین کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا کہ اسرائیل ایٹمی ہتھیاروں سے اور ایران ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری سے دست بردار ہوجائے۔ اگر ہم ایسا نہ کرسکے تو ہمارے اشرف المخلوقات ہونے کا کیا جواز رہ جائے گا؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں