روشن خیالی اور نسلی امتیازات

براؤن اپنی دوست ڈورین جانسن کے ساتھ تھا۔ اُن کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ گلی کے درمیان میں چل رہے تھے۔


Shaikh Jabir December 18, 2014
[email protected]

لاہور: براؤن اپنی دوست ڈورین جانسن کے ساتھ تھا۔ اُن کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ گلی کے درمیان میں چل رہے تھے۔ ولسن پولیس کی گاڑی میں وہاں پہنچتا ہے اور انھیں سڑک کی ایک جانب چلنے کا حکم دیتا ہے۔ بات فوراً ہی تلخ کلامی اور ہاتھا پائی تک جا پہنچتی ہے۔ شاید پولیس والے ولسن نے اُس کی گردن دبوچنے کی کوشش کی تھی۔ وہ آدھے دھڑ سے پولیس وین کے اندر تھا۔ پولیس والا گولی چلا دیتا ہے۔ گولی براؤن کے بازو کو چھید دیتی ہے۔

براؤن اور ڈورین وحشت زدہ ہو کر جان بچانے کے لیے مختلف اطراف میں دوڑتے ہیں۔ پولیس والا گاڑی سے اتر کر مسلسل براؤن کے تعاقب میں بھاگتا ہے۔ وہ مسلسل فائر بھی کر رہا ہے۔ براؤن گھبرا کر کسی گاڑی کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتا ہے۔ ناکام رہتا ہے۔ پولیس والا فائرنگ کرتا ہوا اُس کی جانب آ رہا ہے۔ براؤن ہاتھ اُٹھا کر کھڑا ہو جاتا ہے لیکن پولیس والے کے پستول سے نکلنے والی گولیاں اُسے دنیا ہی سے اُٹھا دیتی ہیں۔ یہ تمام وقوعہ 90 سیکنڈ کی مدت میں انجام پذیر ہو جا تا ہے۔

اِس دوران پولیس والے ڈورین ڈِین وِلسن نے 12 گولیاں چلائیں۔ مائیکل براؤن جونئیر کو 7 یا 8 گولیاں لگیں۔ یہ بتانے کی بات نہیں کہ نتیجہ کیا نکلا ہو گا۔ یہ واقعہ پاکستان یا تیسری دنیا کے کسی ملک میں پیش نہیں آیا بلکہ آزادی، روشن خیالی اور انسانی حقوق کے پرچارک امریکا بہادر کی سر زمین پر پیش آیا۔ یہ و اقعہ ''پولیس گردی'' ہے یا سیاہ فاموں کی نسل کُشی اور استحصال یہ فیصلہ کرنا قارئین کا کام ہے۔ فرگوسن کے نام سے موسوم یہ علاقہ سیاہ فام اکثریت پر مشتمل ہے۔ لیکن یہاں کی پولیس میں سیاہ فام ملازم نہ ہونے کے برابر ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق، فرگوسن پولیس ڈپارٹمنٹ کے53 کمیشنڈ آفیسروں میں سے محض4 سیاہ فام ہیں۔ قتل کے فوراً بعد علاقے میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ یہ قتل 9 اگست کو ہوا تھا۔ اور ہنگامے مہینوں چلتے رہے۔ نہ صرف فرگو سن اور مِزوری میں بلکہ ان کا دائرہ وسیع ہوتا گیا۔ یہ احتجاج اور ہنگامے بھی ایک طرح کے نسلی فسادات کا رنگ اختیار کرنے لگے۔ اِس میں ایک جانب سیاہ فام تو دوسری جانب پولیس تھی۔

اِس احتجاج کے لیے گزشتہ دنوں مہمیز کا کام کیا گرینڈ جیوری کے فیصلے نے۔ انھیں یہ فیصلہ کرنا تھا کہ پولیس والے ولسن کو کیس میں شامل کرنا ہے یا علیحدہ رکھا جائے۔ جیوری نے فیصلہ دیا کہ ولسن کو شامل نہیں کیا جا سکتا۔ اس فیصلے کو براؤن کے گھر والوں اور سیاہ فام اکثریت نے انصاف کی موت اور متعصبانہ قرار دیا۔ یہاں سے احتجاج اور فسادات کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا، جس کے دوران نہ صرف یہ کہ املاک کو بھی نقصان پہنچا بلکہ لوٹ مار بھی ہوئی۔

وقوعے کے حوالے سے روزنامے ''دی ہفنگٹن پوسٹ'' کے نامہ نگار ساکی نافو کا کہنا ہے کہ حادثے کی رپورٹ تفصیلات سے خالی تھی۔ صرف وقوعے کی جگہ کا پتہ، نام اور مقام وغیرہ درج تھا۔ نافو کا کہنا ہے کہ رپورٹ عام طور پر جرم کی نوعیت، جائے وقوعہ کی تفصیلات، عینی شاہدین کے بیانات، ملوث افراد و اہل کاروں کے ناموں اور دیگر شواہد پر مبنی ہوتی ہے۔ ''امریکن سِول لبرٹیز یونین'' کی ڈائریکٹر ونیتا گُپتا نے کہا کہ پولیس نے جو اطلاعات فراہم کیں، اُن میں شفافیت اور معلومات کی کمی تھی۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حقوقِ انسانی کے مشاہدین، تربیت کنندگان اور تحقیق کاروں پر مشتمل ایک ٹیم فرگوسن بھیجی۔ یہ پہلا موقع تھا جب ایمنسٹی انٹرنیشل کی جانب سے امریکا میں ایسی کوئی ٹیم بھیجی گئی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے امریکی ڈائریکٹر اسٹیون ڈبلیو ہاکنزکا کہنا ہے کہ امریکا میں یہ سلسلہ جاری نہیں رہ سکتا کہ ایسے افراد کو مکینوں پر مسلط کر دیا جائے جن سے انھیں سب سے زیادہ خوف ہو۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل 24 اکتوبر کو ایک رپورٹ شایع کرتی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فرگوسن میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی گئیں۔ طاقت کا بے جا استعمال براؤن کی موت کا سبب بنا۔ پولیس نسلی تعصب کا شکار نظر آئی۔ لوگوں کے احتجاج کے حق کو روندا گیا۔ اُن پر آنسو گیس اور ربر کی گولیاں چلائی گئیں۔ اُن پر دور ما آکوسٹک آلات استعمال کیے گئے۔ یہ سب حقوقِ انسانی کی سنگین خلاف ورزیاں تھیں۔

مائیکل براؤن جونئیر 9 اگست 2014کو ایک گورے پولیس والے کے ہاتھوں قتل ہوا تھا۔ اُس سے کچھ ہی دن قبل یعنی17جولائی2014ء ایک اور سیاہ فام نوجوان ایرک گارنر، ٹام کِنز وِل کے علاقے میں ایک گورے پولیس اہل کار کے ہاتھوں بڑی بے چارگی کی موت کا شکار ہو چکا تھا۔ یہ واقعہ بھی بڑا عبرت ناک ہے۔یہ 202 بے اسٹریٹ ہے شام4:45 کا وقت ہے ۔ پولیس والوں نے ایک سیاہ فام کو گھیر رکھا ہے۔ اور وہ سیاہ فام ہاتھ جھٹک جھٹک کے چیخ رہا ہے۔ ''مجھ سے دور رہو، جب بھی تم مجھے دیکھتے ہو پریشان کرنے آ جاتے ہو، میں تنگ آ گیا ہوں''۔

پولیس افسران کو ایک مرتبہ پھر اس کالے موٹے چھ بچوں کے باپ پر شبہ تھا کہ وہ بغیر ٹیکس کی سگریٹیں بیچ رہا ہے۔ وہ پھر چیختا ہے ''میں نے کچھ نہیں کیا، اگر تمھیں یقین نہیں تویہاں موجود کسی بھی فرد سے پوچھ لو، تم لوگ جب بھی مجھے دیکھتے ہو ہراساں کرنے کی کوشش کرتے ہو، آفیسر خدا کے لیے مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔'' وہ چیختا رہا لیکن پولیس والوں نے اسے مضبوطی سے گرفت میں لے لیا۔ وہ اُسے جکڑتے چلے گئے۔

''مجھے ہاتھ مت لگاؤ مجھے چھوڑ دو'' وہ چیختا رہا۔ لیکن پولیس آفیسر ڈینئیل پینٹالیو نے عقب سے اُس کی گردن جکڑ لی۔ گارنر کا دَم گھٹنے لگا۔ وہ پھر بمشکل چلایا۔ میرا دم گُھٹ رہا ہے، مجھے سانس نہیں آ رہا۔ لیکن کالے کی چیخ و پکار آہ و بُکا کون سنتا ہے۔ گورا پولیس والا اُسے ایک جانب گھسیٹنے کی کوشش کرتا رہا۔ یہاں تک کہ ۔۔۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ آنجہانی گارنر نے کم و بیش 11 مرتبہ یہ کہا ہو گا کہ میرا دم گُھٹ رہا ہے، مجھے سانس نہیں آ رہا۔ لیکن نہ تو پولیس آفیسر ڈینئیل پینٹالیو نے اُس کی گردن کے گرد اپنی گرفت ڈھیلی کی نہ ہی اُسے زمین پر گِرا کر اُس پر سوار پولیس والوں نے ہلنے کی زحمت کی۔3 دسمبر 2014ء کو''اسٹیٹن آئی لینڈ'' کی گرینڈ جیوری فیصلہ دیتی ہے کہ گلا گھونٹ کر قتل کرنے والے گورے پولیس والے کو کیس میں ملوث بھی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ہے گوروں کا انصاف؟ کہ قتل کرنے والے پولیس والوں پر مقدمہ چلانا اور انھیں کیفرِ کردار تک پہنچانا تو در کنار اُنھیں تو شاملِ تفتیش بھی نہیں کیا جا سکتا۔

گزشتہ ماہ کے اواخر میں اقوامِ متحدہ حقوقِ انسانی کے ہائی کمشنر جناب زید رعد الحسین اپنے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہتے ہیں ''مجھے امریکا میں سیاہ فاموں کے پولیس افسران کے ہاتھوں بڑھتے ہوئے قتل، جیلوں میں نیز سزائے موت کے منتظر کالوں کی غیر متناسب تعداد پر گہری تشویش ہے۔'' انھوں نے مزید کہا کہ ''آبادی کے کئی حصوں میں نظامِ نفاذِ قانون اور انصاف کی شفافیت کے بارے میں عدمِ اعتماد پایا جاتا ہے۔''

نیویارک میں پولیس جن افراد کو روکتی ہے اُن میں 80 فی صد کالے اور رنگ دار ہوتے ہیں۔ روکے جانے والے افراد میں سے گوروں کے مقابلے میں سیاہ فاموں کو33 فی صد زیادہ حراست میں لیا جاتا ہے۔ 2010ء میں امریکی کمیشن برائے حراست رپورٹ دیتا ہے کہ وفاقی نظم کے تحت ایک ہی جرم کی سزا کالوں کو10 فی صد تک زیادہ ملتی ہے۔2009ء کی رپورٹ بتاتی ہے کہ عمر قید کی سزا پانے والے2/3 مجرم رنگ دار نسلوں سے تھے۔ نیویارک میں یہ تعداد83 فی صد تھی۔

یہ تو صرف ایک جھلک ہے۔ ورنہ گوروں کے ہاتھوں سیاہ فاموں اور رنگ دار نسلوں پر ہونے والے مظالم کی ایک طول طویل اور ہولناک تاریخ ہے۔ یہ مظالم باوجود تمام تر سائنسی ترقی اور روشن خیالی کے آج تک جاری ہیں۔ ہمیں سمجھایا جاتا ہے کہ نسل امتیازات کا سبب معاشی ناہمواریاں و پس ماندگیاں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر کامیاب معیشتوں میں اس تفاخر کا سدباب کر کے نسلی امتیازات کو ختم کیوں نہ کیا جا سکا؟ نیز یہ کہ امریکی تاریخ کے پہلے سیاہ فام صدر بھی اگر سیاہ فاموں پر ہونے والے ظالمانہ نظام کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے تو کیا یہاں یہ سوال غیر مناسب ہو گا کہ جمہوریت میں طاقت کا اصل مرکز و محور و منبع کون ہوتا ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں