سقوط ڈھاکہ تصویر کا دوسرا رخ…
1970ء کے عام انتخابات جب ہو رہے تھے تو یہ امید ہو چلی تھی کہ اب ان محرومیوں کا ازالہ بھی ہو سکے گا
1970ء کے عام انتخابات جب ہو رہے تھے تو یہ امید ہو چلی تھی کہ اب ان محرومیوں کا ازالہ بھی ہو سکے گا جو 1951ء میں اس وقت کے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان کے قتل کے بعد سیاسی عدم استحکام 1958ء سے 1970ء تک ایوب خان کی آمریت، بعد ازاں یحییٰ خان کی آمریت کے باعث پیدا ہوا تھا بہرکیف 1970ء کے انتخابات ہوئے جو کہ پاکستانی تاریخ کے واحد غیر متنازعہ انتخابات تھے ان انتخابات کے نتائج بھی تمام سیاسی جماعتوں نے تسلیم کر لیے تھے مگر فوج کے کمانڈر انچیف و صدر پاکستان یحییٰ خان، شیخ مجیب الرحمن کی قیادت میں 160 نشستیں حاصل کرنے والی جماعت عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہ کرسکے۔
عوامی لیگ نے یہ تمام نشستیں مشرقی پاکستان سے حاصل کی تھیں جب کہ مشرقی پاکستان کی کل نشستیں 162 تھیں جو دو نشستیں عوامی لیگ کی دسترس سے باہر رہی تھیں ان میں سے ایک نشست نورالامین نے جب کہ دوسری نشست چکمہ قبیلے کے راجہ تریدیو رائے نے حاصل کی تھی جب کہ مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی نے 132 نشستوں میں سے 86 نشستیں حاصل کی تھیں دیگر 46 نشستیں دوسری جماعتوں نے حاصل کیں۔
انصاف و حالات کا تقاضا یہ تھا کہ عوامی لیگ کو حکومت سازی کرنے دی جاتی مگر ایسا نہ ہو سکا اور انتقال اقتدار میں تاخیری حربے استعمال ہوتے رہے جس کے باعث مشرقی پاکستان کے لوگوں کے دلوں میں غم و غصے کی لہر شدت اختیار کرتی جا رہی تھی۔ خدا خدا کر کے 3 مارچ1971ء کو ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا گیا مگر بھٹو کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی نے ڈھاکہ اجلاس میں شرکت سے انکار کر دیا جس کے باعث یکم مارچ1971ء کو یہ اسمبلی کا اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔
اس کا ردعمل یہ ہوا کہ مشرقی پاکستان میں تشدد و احتجاج کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہو گیا جسے یحییٰ خان کی فوجی آمریت نے قوت سے کچلنے کا فیصلہ کیا اور 7 مارچ 1971ء کو جنرل ٹکا خان کو کمانڈر مشرقی چھاؤنی مارشل لا ایڈمنسٹریٹر و گورنر مشرقی پاکستان کے اختیارات سونپ کر ڈھاکہ روانہ کیا گیا مگر شیخ مجیب نے ٹکا خان سے ملاقات کرنے سے انکار کر دیا۔ ستم یہ کہ چیف جسٹس نے ٹکا خان کو حلف دلانے سے انکار کر دیا 14 مارچ 1971ء کو ذوالفقار علی بھٹو نے یحییٰ خان کو دو وزرا اعظم کا مشورہ دیا جو کہ ناقابل فہم تھا۔
15 مارچ 1971ء کو یحییٰ خان و ذوالفقار علی بھٹو ڈھاکہ روانہ ہوئے اور یحییٰ خان ذوالفقار علی بھٹو و شیخ مجیب الرحمن کے درمیان گفت و شنید ہوئی مگر اب دیر ہو چکی تھی۔ عوامی لیگ کے لیے اب واپسی ناممکن ہو چکی تھی 22 مارچ 1971ء کو مجیب الرحمن نے یحییٰ خان کو مشورہ دیا کہ اقتدار دونوں حصوں کو منتقل کر دیا جائے جیسا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی خواہش ہے جب کہ 23 مارچ 1971ء کو مشرقی حصے میں یوم پاکستان کی بجائے یوم مزاحمت منایا گیا۔ شیخ مجیب کے گھر و دیگر اہم عمارتوں پر بنگلہ دیشی پرچم آویزاں کر دیا گیا۔
25 مارچ و 26 مارچ 1971ء کی درمیانی شب ٹکا خان نے فوجی آپریشن شروع کر دیا۔ ٹکا خان نے جو حکم فوجیوں کو دیا وہ ناقابل تحریر ہے اسی طرح میجر جنرل فرمان علی نے اپنی ڈائری میں اس آپریشن کے حوالے سے جو لکھا وہ تحریر میں لانا نامناسب ہو گا اس ساری صورت حال کا بھارت باریک بینی سے جائزہ لے رہا تھا۔ چنانچہ اس نازک موقعے پر بھارت نے سرحدی جھڑپوں کا آغاز کر دیا اب پاکستانی فوجوں کے سامنے دو محاذ تھے۔
پاکستان مخالف شورش کا خاتمہ کرنا اور بھارتی سرحدی جھڑپوں کا جواب دینا۔ جب کہ 4 اپریل 1971ء کو لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی کو ڈھاکہ روانہ کیا گیا جہاں 10 اپریل 1971ء کو ٹکا خان نے فوجی کمان ان کے حوالے کر دی اور خود گورنر بن گئے۔ مئی 1971ء تک فوجی جوانوں نے شورش پر تو قابو پا لیا مگر اب مسئلہ مکتی باہنی کے ان ایک لاکھ لوگوں کا بھی تھا جو بھارت جا کر جنگی تربیت حاصل کر رہے تھے بلکہ 70 ہزار تو واپس آ کر فوج سے نبرد آزما تھے جب کہ 30 ہزار بھارتی کیمپوں میں زیر تربیت تھے۔ بھارت کی جانب سے سرحدی جھڑپیں جاری تھیں بلکہ اب وہ ایک مکمل جنگ کی جانب بڑھ رہا تھا۔
اس مقصد کے لیے اس نے تین سے پانچ لاکھ فوجیں ہمارے مشرقی محاذ پر لگا دی تھیں۔ نومبر 1971ء تک پاکستان و بھارت جنگ کے دہانے پر کھڑے تھے پاکستان کے لیے ضروری تھا کہ اس جنگ سے اجتناب کرتا کیونکہ پاکستانی فوج کے لیے یہ جنگ جیتنا ناممکن تھا کیونکہ پاکستانی فوج کے سامنے جو شدید تر مشکلات درپیش تھیں وہ مندرجہ ذیل ہیں اول پاکستانی فوج اپنی بیس (Base) سے ایک ہزار میل کی دوری پر تھی۔
دوئم مقامی لوگ سو فیصد پاکستانی فوج کے مخالف تھے عددی اعتبار سے جو مقابلہ تھا وہ ایک اور چار کا تھا جب کہ امریکن CIA نے یہ نسبت ایک اور چھ بتائی تھی۔ بھارتی فوج تازہ دم تھی جب کہ پاکستانی فوج گزشتہ 9 ماہ سے مشرقی پاکستان شورش ختم کرنے میں برسر پیکار تھی ان 9 ماہ میں 4 ہزار فوجی جوان شہید جب کہ 1900 زخمی ہو چکے تھے۔ یہ نومبر حملے سے قبل کے اعداد و شمار ہیں۔
سوئم بھارتی فوجی تمام قسم کے ہتھیاروں سے لیس تھے جب کہ پاک فوج کے پاس تو پوری طرح خوراک، یونیفارم و جوتے تک نہ تھے۔ سامان حرب کا تو ذکر ہی کیا۔ چہارم عالمی رائے عامہ سو فیصد بھارت کے حق میں تھی۔ پنجم حملہ کب کرنا ہے یہ اختیار بھی بھارتی فوج کے پاس تھا۔ ششم پاکستانی فوج کو صرف دفاع کا حق تھا بھارتی علاقے میں داخل ہونے کا حق نہ تھا۔ ان تمام مشکلات کے ہوتے ہوئے جنگ میں جیت کا فقط خواب ہی دیکھا جا سکتا تھا۔
بہرکیف ان تمام حالات میں 12 یوم میں فتح کا عزم لے کر بھارتی فوج 21 نومبر 1971 کو مشرقی پاکستان پر حملہ آور ہوئی۔ تمام تر جارحیت کے باوجود بھارتی فوج و قیادت کا جیت کا خواب 26 یوم میں بھی پورا نہ ہوسکا۔ پاکستانی قیادت کا یہ عالم تھا کہ جب بھارتی حملے کی اطلاع صدر پاکستان و فوج کے سپریم کمانڈر یحییٰ خان کو دی گئی تو ان کا جواب یہ تھا کہ میں ماسوائے دعا کے کیا کر سکتا ہوں۔
بالآخر 13 و 14 دسمبر کی درمیانی شب یہ فیصلہ کیا گیا کہ پاکستانی فوج مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈال دے گی۔ چنانچہ 16 دسمبر 1971ء کو عالمی میڈیا پر یہ خبر نشر و شایع کی گئی کہ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی نے بھارتی جنرل اروڑا کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی کی پیروی کرتے ہوئے 45 ہزار پاکستانی فوج کے جوانوں نے بھی ہتھیار ڈال دیے جب کہ پچاس ہزار عام شہری جن کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا جن میں خواتین و بچے بھی شامل تھے بھارتی کیمپوں میں اسیر بنا دیے گئے ان پچانوے ہزار لوگوں کی واپسی 28 ماہ بعد ممکن ہوسکی۔
آج مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنے 43 برس بیت چکے ہیں مگر بنگلہ دیش کے قیام کے وقت سے آج تک پاک فوج پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام عائد کیا جا رہا ہے الزامات کا یہ سلسلہ کسی مقام پر رکنے کا نام نہیں لے رہا اور ان الزامات میں مبالغے سے جس قدر کام لیا جا رہا ہے اس کی مثال انسانی تاریخ میں تلاش کرنا ناممکن ہے مثلاً یہ الزام کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی تحریک کے دوران 30 لاکھ افراد کو پاک فوج کے جوانوں نے ہلاک کیا۔
غور طلب بات یہ ہے کہ ایک جانب 70 ہزار مکتی باہنی کے تربیت یافتہ لوگ دوسری جانب پاکستان مخالف بنگالی، تیسری جانب بھارتی فوج کی سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ ان سب سے نبرد آزما پاک فوج کے لیے کیسے ممکن تھا کہ اس قدر قتل و غارت کرسکے؟ جب کہ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ پاکستان مخالف بنگالیوں نے محب وطن پاکستانیوں کو چن چن قتل کیا۔ انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں کیں ان خلاف ورزیوں میں کثرت کے ساتھ خواتین کی آبرو ریزی کے واقعات بھی شامل ہیں۔
قابل افسوس امر یہ ہے کہ ہمارے حکمران گزشتہ 43 برس سے بنگلہ دیشی حکمرانوں کے الزامات کا سامنا تو کر رہے ہیں مگر جو انسانیت سوز مظالم منحرف بنگالیوں نے کیے ان مظالم پر خاموش ہیں۔ کاش ہمارے حکمران بنگلہ دیشی حکمرانوں کے جھوٹ پر نادم ہونے کی بجائے سچائی بیان کرنے کا حوصلہ پیدا کر سکیں کیونکہ سچائی یہ ہے کہ 1970ء سے قبل تک حقوق سے محرومی کے باعث بنگالی ضرور مظلوم تھے مگر 1971ء میں بنگالیوں نے ان محب وطن پاکستانیوں پر بدترین مظالم کیے جو مشرقی پاکستان میں مقیم تھے۔