ڈوبتی کشتی کے مسافر
1930ء کا معاشی بحران پوری دنیا کے لیے خوفناک تھا، لیکن امریکا کے پاؤں نہ ڈگمگائے۔
ISLAMABAD:
چراغ جب بجھنے لگتا ہے تو آخری بار اپنے پاس موجود تیل سے شعلے کو یوں بھڑکاتا ہے کہ پورے ماحول میں روشنی چھا جاتی ہے۔ ٹمٹماتی لو کے عادی لوگ ایک دم چونک پڑتے ہیں، لیکن یہ روشنی صرف چند سیکنڈ کے لیے ہوتی ہے، پھر اس کے بعد گھپ اندھیرا چھا جاتا ہے۔ گزشتہ تقریباً ایک صدی سے دنیا کی سیاست، معیشت اور طرزِ زندگی پر راج کرتے امریکا نے2008ء کے معاشی بحران کے بعد اپنے قدموں میں جو لڑکھڑاہٹ پائی، اسے ہزار جتن سے سنبھالنے کی کوشش کی لیکن سنبھل نہیں پا رہی۔
بیسویں صدی کے آغاز سے بھی چند سال پہلے اس نے دنیا پر سیاسی، معاشی اور فوجی بالادستی کا آغاز کر دیا تھا۔ فلپائن کو اسپین کی غلامی سے نجات دلانے کے بہانے1998ء میں داخل ہوا، وہاں اپنے اڈے قائم کیے، پورے ملک کو خانہ جنگی کا تحفہ دیا اور اپنے فوجیوں کی عیاشی کے لیے منیلا کو دنیا بھر کے لیے قحبہ گری اور جسم فروشی کا مرکز بنا دیا۔ اس کے بعد اس دنیا کا کونسا خطہ ہے جہاں اس معاشی اور سیاسی عفریت نے اپنے پنجے نہیں پھیلائے۔1917ء میں روس میں کیمونسٹ انقلاب آیا تو امریکا نے دنیا کو اس کی دست برد سے بچانے کا ٹھیکہ لے لیا۔ ابھی تو جنگِ عظیم اوّل ختم ہوئی تھی۔
اپنے ارد گرد جنوبی امریکا کے ممالک پر امریکا کی خونخوار نظریں جمی ہوئی تھیں۔1930ء کا معاشی بحران پوری دنیا کے لیے خوفناک تھا، لیکن امریکا کے پاؤں نہ ڈگمگائے۔ جنگِ عظیم دوم تک اس کی معاشی، سیاسی اور فوجی طاقت میں بے پناہ اضافہ ہو چکا تھا۔ وہ ایک عفریت بن چکا تھا۔ جاپان پر ایٹم بم گرا کر اس نے دنیا کو خوفزدہ کیا اور یورپ کوتباہ حالی سے بچانے کے لیے مارشل پلان کے ذریعے امداد دے کر نیٹو کی پابندیوں میں جکڑ لیا۔ پورا مغرب امریکی معیشت کا غلام بن گیا۔ اس غلامی کی تصویر دنیا کے سامنے اسوقت آئی جب فرانس کے صدر نے1971ء میں امریکی صدر نکسن سے مطالبہ کیا کہ اس کے بینکوں میں جو فرانس کے دو ارب ڈالر پڑے ہوئے ہیں اس کے بدلے میں سونا دیا جائے کہ یہ ایک معاہدے کا حصہ ہے جو جنگِ عظیم دوئم کے بعد 1945ء میں برٹن ووڈ میں ہوا تھا اور یہ کہا گیا تھا کہ تمام ممالک اپنی کرنسی کی مالیت کے برابر سونا اپنے پاس محفوظ رکھیں گے تا کہ مانگنے پر ادا کیا جا سکے۔
اس مطالبے پر صدر نکسن نے زور کا قہقہ لگایا اور کہا تم کیا سمجھتے ہو یہ وعدہ پورا کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ اس کے بعد امریکا نے سونا کے متبادل یعنی گولڈ اسٹینڈرڈ کو ختم کر دیا اور اس کی جگہ ''حکومتی ساکھ (Good will of Country) کا لفظ ایجاد کیا گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اسی معاشی قوت کے بل بوتے پر امریکا نے پوری دنیا کو ایک ہیجانی جنگ کا شکار کر رکھا تھا۔یہ جنگ کیمونسٹ شدت پسندی کے خلاف تھی۔ مشرق میں دیت نام سے شروع ہو کر مغرب میں چلّی تک کتنے ملک تھے جو اس شدت پسندی کی جنگ میں خون میں نہا رہے تھے۔ امریکی اسلحہ ساز فیکٹریاں دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہی تھیں اور خانہ جنگی کے شکار ممالک کے وسائل امریکا اور اس کے حواریوں کے ہاتھ کوڑیوں کے مول بک رہے تھے۔
ان وسائل میں ایک اہم اور شاید سب سے بڑا اثاثہ تیل ہے جو دنیا بھر کی توانائی کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ مسلم امہ کی قسمت ہے کہ اس اثاثے کا بڑا حصہ اس کے پاس ہے۔ اسی تیل کی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ سے عالمی معیشت کی ترقی وابستہ ہے۔ اس کی خرید و فروخت سے وابستہ کرنسی کی ساکھ مضبوط ہوتی ہے اور اس کی ترسیل کو یقینی بنانے کے لیے جنگ کے میدان کھولے اور سمیٹے جاتے ہیں۔
کیمونسٹ روس کے زوال کے بعد جو میدان سجایا گیا وہ اسلامی شدت پسندی کا تھا جسے دہشت گردی کا نام دیا گیا۔ کیمونسٹ روس کے ہم خیال ممالک یا علاقوں میں لڑی جانے والی جنگ اور اس جنگ میں ذرا برابر بھی فرق نہیں۔ نہ تکنیک مختلف ہے اور نہ ہی حربے۔ اس جنگ میں بھی افواج کو امریکا میں تربیت دی جاتی، ان سے مراسم بڑھائے جاتے اور پھر ان کے جرنیلوں کے ذریعے چلی اور نکاراگوا جیسے بے شمار ملکوں میں فوجی انقلاب لایا جاتا، ہزاروں افراد لاپتہ ہوتے، لاکھوں قتل کیے جاتے۔
اذیت رسانی اور ٹارچر کے طریقوں کی تربیت باقاعدہ سی آئی اے ہیڈ کوارٹر میں دی جاتی۔ اس جنگ میں کیمونسٹ گوریلوں کا خوف پوری دنیا پر مسلط کیا گیا تھا اور آج کل اسلامی شدت پسندی کے خلاف جنگ میں اسلامی دہشت گردوں سے دنیا کو ڈرایا جاتا ہے۔ کیمونسٹ گوریلوں کو سوویت روس یا دیگر ہم خیال ممالک سے امداد ملتی تھی لیکن اسلامی دہشت گرد تو نیٹو کے مقابلے میں بالکل اکیلے ہیں۔ بہت سی تھیوریاں پیش ہوئیں، ہم نے خود انھیں پروان چڑھایا ہے، ان کو منشیات کے کاروبار سے پیسہ ملتا ہے، چند ممالک اپنے مسلکی مفاد کی خاطر انھیں سرمایہ فراہم کرتے ہیں۔ دنیا نے یہ ساری منطقیں تسلیم کر لیں اور طے کر لیا کہ دنیا کے امن کو اسلامی دہشت گردی سے خطرہ ہے۔ افغانستان اور عراق میں افواج اتریں، پڑوسی ملکوں نے اس خطرے سے بچنے کے لیے امریکا کی امداد کی اپنی زمین امریکا کے لیے پیش کی۔13 سال کی اس جنگ نے جہاں لاکھوں انسانوں کا خون کیا وہیں دنیا کی معیشت کے پاؤں بھی ڈگمگا دیے۔
شروع شروع میں عراق کے تیل اور عرب ریاستوں کی اسلحے کی خریداری نے اسے سہارا دیا لیکن2008ء میں یہ ایسے ڈوبی جیسے شدید طوفان میں نرم شاخیں ڈوبتی ہیں۔ امیدیں قائم تھیں مشرقِ وسطیٰ میں جنگ جاری تھی، شام اور عراق کی خانہ جنگی امریکی معیشت کا خواب پورا کر سکتی تھی۔ لیکن دس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے پانچ لاکھ عراقی فوج جسے امریکا دنیا کی بہترین تربیت یافتہ فوج تصور کرتا تھا صرف دس بارہ ہزار افراد کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست کھا گئی اور ایسے افراد کے ہاتھ تیل کے کنویں لگے جہاں سے بیس لاکھ ڈالر کا تیل روزانہ مارکیٹ میں آنے لگا۔ لیکن یہ کیا ہو گیا، تیل کی قیمتیں اچانک گرنے لگیں۔ کیا اس لیے کہ وہ لوگ تیل سستا بیج رہے ہیں۔
نہیں۔ بلکہ امریکا نے اپنی گرتی ہوئی معیشت کو سنبھالنے کے لیے اپنے ترکش کا آخری تیر چلایا ہے، ترپ کا آخری پتہ کھیلا ہے۔ ترکش کا یہ آخری تیر صرف معیشت کو سنبھالنے کے لیے ہی نہیں بلکہ اس جنگ میں تھوڑی سی مخالف قوتوں کی معیشت تباہ کرنے کے لیے بھی چلایا گیا ہے۔
امریکا کی سرزمین میں تیل کے ذخائر کی بہت بڑی مقدار موجود ہے جسے Shale تیل کہا جاتا ہے۔ اس تیل کو امریکا نے برے وقتوں کے لیے سنبھال کر رکھا ہوا تھا۔ اس لیے کہ اس کو نکالنے کے لیے جو لاگت صرف ہوتی ہے اور جس طرح کی ٹیکنالوجی کا استعمال درکار ہوتا ہے اس سے تیل کی قیمت میں منافع کی امید بہت کم رہ جاتی ہے۔ اس کے باوجود اوکلو ہاما کے وہ تیل کے کنویں اور شمالی ڈکوٹا اور ٹیکساس کے تیل کے سرمایہ کار اس تیل کو نکال کر مارکیٹ میں لا رہے ہیں۔ انھوں نے تقریباً بیس ہزار کے قریب ایسے کنویں کھودے ہیں جو سعودی عرب کے کنوؤں کی تعداد سے دس گناہ زیادہ ہیں۔ اس قدر تیل مارکیٹ میں آنے سے تیل کی قیمت 40 فیصد کم ہو گئی ہے۔
جون میں ایک بیرل تیل کی قیمت110 ڈالر تھی جو گر کر68 ڈالر ہو چکی ہے، جسے امریکا پچاس ڈالر کی قیمت پر لانا چاہتا ہے تا کہ مرتی ہوئی معیشت کو پاؤں پر کھڑا کیا جائے اور ان ملکوں کو تباہی کی طرف دھکیلا جائے جن کا سارا دارومدار تیل کی برآمد پر ہے۔ ان میں روس ہے جس کی کرنسی روبل 30 فیصد گر چکی، ایران جس کو اپنا بجٹ مستحکم رکھنے کے لیے تیل136 ڈالر بیرل کی قیمت چاہیے، اس نے یکم دسمبر کو روٹی کی قیمت میں30 فیصد اضافہ کیا، نائجیریا جس نے دو دسمبر کو تمام سبسڈی ختم کر دی اور وینز یلا نے28 نومبر کو تنخواہوں میں کمی کا اعلان کر دیا۔
Shale تیل کے مارکیٹ میں آنے سے وہ تمام عرب ریاستیں بھی متاثر ہوں گی لیکن اس کا ایک فائدہ یہ تصور کیا جا رہا ہے کہ دنیا بھر کا جی ڈی پی بڑھ جائے گا، معیشت مستحکم ہو گی۔ یہ ایک ایسا جواء ہے کہ اگر مارکیٹ نے تیل کی قیمت پچاس ڈالر فی بیرل سے نیچے گرا دی تو یہ دنیا ایک بہت بڑے بحران کا شکار ہو جائے گی جو اس پوری سودی معیشت کی عمارت کو دھڑام سے گرا دے گا۔ ایسے میں وہ تمام منصوبے، فتح کے وہ تمام افسانے، امریکا اور نیٹو کی دہ بالا دستیاں سب خواب ہو کر رہ جائیں۔
چاروں جانب بحران ہے، خوف سے بھاگتے امریکا اور نیٹو کو اس معاشی معجزے کا یقین ہے۔ یہ ڈوبتی کشتی ہے جس پر ہم ایک دفعہ پھر سوار ہونے جاتے رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ امریکا، افغانستان اور بھارت سے مل کر ہماری بقا ہے، ہم امن کی زندگی گزار سکیں گے۔ لیکن شاید اس سے بڑا سراب اور کوئی نہیں۔ ڈوبتی معیشت اور ہچکولے کھاتی کشتی پر سوار ہونا۔ چلو چند سال بعد اس کا ماتم کریں گے۔
نوٹ: درویش خدامست، نسیم انور بیگ کی سوانح پر ملک بھر کے دانشوروں اور ان کی محفل کے خوشہ چینوں نے جو کچھ تحریر کیا، اس کتاب کی رونمائی 21 دسمبر کو گیارہ بجے دن قائداعظم لائبریری میں ہو گی۔ درویش کی یاد میں محفل بپا ہو گی۔
چراغ جب بجھنے لگتا ہے تو آخری بار اپنے پاس موجود تیل سے شعلے کو یوں بھڑکاتا ہے کہ پورے ماحول میں روشنی چھا جاتی ہے۔ ٹمٹماتی لو کے عادی لوگ ایک دم چونک پڑتے ہیں، لیکن یہ روشنی صرف چند سیکنڈ کے لیے ہوتی ہے، پھر اس کے بعد گھپ اندھیرا چھا جاتا ہے۔ گزشتہ تقریباً ایک صدی سے دنیا کی سیاست، معیشت اور طرزِ زندگی پر راج کرتے امریکا نے2008ء کے معاشی بحران کے بعد اپنے قدموں میں جو لڑکھڑاہٹ پائی، اسے ہزار جتن سے سنبھالنے کی کوشش کی لیکن سنبھل نہیں پا رہی۔
بیسویں صدی کے آغاز سے بھی چند سال پہلے اس نے دنیا پر سیاسی، معاشی اور فوجی بالادستی کا آغاز کر دیا تھا۔ فلپائن کو اسپین کی غلامی سے نجات دلانے کے بہانے1998ء میں داخل ہوا، وہاں اپنے اڈے قائم کیے، پورے ملک کو خانہ جنگی کا تحفہ دیا اور اپنے فوجیوں کی عیاشی کے لیے منیلا کو دنیا بھر کے لیے قحبہ گری اور جسم فروشی کا مرکز بنا دیا۔ اس کے بعد اس دنیا کا کونسا خطہ ہے جہاں اس معاشی اور سیاسی عفریت نے اپنے پنجے نہیں پھیلائے۔1917ء میں روس میں کیمونسٹ انقلاب آیا تو امریکا نے دنیا کو اس کی دست برد سے بچانے کا ٹھیکہ لے لیا۔ ابھی تو جنگِ عظیم اوّل ختم ہوئی تھی۔
اپنے ارد گرد جنوبی امریکا کے ممالک پر امریکا کی خونخوار نظریں جمی ہوئی تھیں۔1930ء کا معاشی بحران پوری دنیا کے لیے خوفناک تھا، لیکن امریکا کے پاؤں نہ ڈگمگائے۔ جنگِ عظیم دوم تک اس کی معاشی، سیاسی اور فوجی طاقت میں بے پناہ اضافہ ہو چکا تھا۔ وہ ایک عفریت بن چکا تھا۔ جاپان پر ایٹم بم گرا کر اس نے دنیا کو خوفزدہ کیا اور یورپ کوتباہ حالی سے بچانے کے لیے مارشل پلان کے ذریعے امداد دے کر نیٹو کی پابندیوں میں جکڑ لیا۔ پورا مغرب امریکی معیشت کا غلام بن گیا۔ اس غلامی کی تصویر دنیا کے سامنے اسوقت آئی جب فرانس کے صدر نے1971ء میں امریکی صدر نکسن سے مطالبہ کیا کہ اس کے بینکوں میں جو فرانس کے دو ارب ڈالر پڑے ہوئے ہیں اس کے بدلے میں سونا دیا جائے کہ یہ ایک معاہدے کا حصہ ہے جو جنگِ عظیم دوئم کے بعد 1945ء میں برٹن ووڈ میں ہوا تھا اور یہ کہا گیا تھا کہ تمام ممالک اپنی کرنسی کی مالیت کے برابر سونا اپنے پاس محفوظ رکھیں گے تا کہ مانگنے پر ادا کیا جا سکے۔
اس مطالبے پر صدر نکسن نے زور کا قہقہ لگایا اور کہا تم کیا سمجھتے ہو یہ وعدہ پورا کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ اس کے بعد امریکا نے سونا کے متبادل یعنی گولڈ اسٹینڈرڈ کو ختم کر دیا اور اس کی جگہ ''حکومتی ساکھ (Good will of Country) کا لفظ ایجاد کیا گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اسی معاشی قوت کے بل بوتے پر امریکا نے پوری دنیا کو ایک ہیجانی جنگ کا شکار کر رکھا تھا۔یہ جنگ کیمونسٹ شدت پسندی کے خلاف تھی۔ مشرق میں دیت نام سے شروع ہو کر مغرب میں چلّی تک کتنے ملک تھے جو اس شدت پسندی کی جنگ میں خون میں نہا رہے تھے۔ امریکی اسلحہ ساز فیکٹریاں دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہی تھیں اور خانہ جنگی کے شکار ممالک کے وسائل امریکا اور اس کے حواریوں کے ہاتھ کوڑیوں کے مول بک رہے تھے۔
ان وسائل میں ایک اہم اور شاید سب سے بڑا اثاثہ تیل ہے جو دنیا بھر کی توانائی کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ مسلم امہ کی قسمت ہے کہ اس اثاثے کا بڑا حصہ اس کے پاس ہے۔ اسی تیل کی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ سے عالمی معیشت کی ترقی وابستہ ہے۔ اس کی خرید و فروخت سے وابستہ کرنسی کی ساکھ مضبوط ہوتی ہے اور اس کی ترسیل کو یقینی بنانے کے لیے جنگ کے میدان کھولے اور سمیٹے جاتے ہیں۔
کیمونسٹ روس کے زوال کے بعد جو میدان سجایا گیا وہ اسلامی شدت پسندی کا تھا جسے دہشت گردی کا نام دیا گیا۔ کیمونسٹ روس کے ہم خیال ممالک یا علاقوں میں لڑی جانے والی جنگ اور اس جنگ میں ذرا برابر بھی فرق نہیں۔ نہ تکنیک مختلف ہے اور نہ ہی حربے۔ اس جنگ میں بھی افواج کو امریکا میں تربیت دی جاتی، ان سے مراسم بڑھائے جاتے اور پھر ان کے جرنیلوں کے ذریعے چلی اور نکاراگوا جیسے بے شمار ملکوں میں فوجی انقلاب لایا جاتا، ہزاروں افراد لاپتہ ہوتے، لاکھوں قتل کیے جاتے۔
اذیت رسانی اور ٹارچر کے طریقوں کی تربیت باقاعدہ سی آئی اے ہیڈ کوارٹر میں دی جاتی۔ اس جنگ میں کیمونسٹ گوریلوں کا خوف پوری دنیا پر مسلط کیا گیا تھا اور آج کل اسلامی شدت پسندی کے خلاف جنگ میں اسلامی دہشت گردوں سے دنیا کو ڈرایا جاتا ہے۔ کیمونسٹ گوریلوں کو سوویت روس یا دیگر ہم خیال ممالک سے امداد ملتی تھی لیکن اسلامی دہشت گرد تو نیٹو کے مقابلے میں بالکل اکیلے ہیں۔ بہت سی تھیوریاں پیش ہوئیں، ہم نے خود انھیں پروان چڑھایا ہے، ان کو منشیات کے کاروبار سے پیسہ ملتا ہے، چند ممالک اپنے مسلکی مفاد کی خاطر انھیں سرمایہ فراہم کرتے ہیں۔ دنیا نے یہ ساری منطقیں تسلیم کر لیں اور طے کر لیا کہ دنیا کے امن کو اسلامی دہشت گردی سے خطرہ ہے۔ افغانستان اور عراق میں افواج اتریں، پڑوسی ملکوں نے اس خطرے سے بچنے کے لیے امریکا کی امداد کی اپنی زمین امریکا کے لیے پیش کی۔13 سال کی اس جنگ نے جہاں لاکھوں انسانوں کا خون کیا وہیں دنیا کی معیشت کے پاؤں بھی ڈگمگا دیے۔
شروع شروع میں عراق کے تیل اور عرب ریاستوں کی اسلحے کی خریداری نے اسے سہارا دیا لیکن2008ء میں یہ ایسے ڈوبی جیسے شدید طوفان میں نرم شاخیں ڈوبتی ہیں۔ امیدیں قائم تھیں مشرقِ وسطیٰ میں جنگ جاری تھی، شام اور عراق کی خانہ جنگی امریکی معیشت کا خواب پورا کر سکتی تھی۔ لیکن دس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے پانچ لاکھ عراقی فوج جسے امریکا دنیا کی بہترین تربیت یافتہ فوج تصور کرتا تھا صرف دس بارہ ہزار افراد کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست کھا گئی اور ایسے افراد کے ہاتھ تیل کے کنویں لگے جہاں سے بیس لاکھ ڈالر کا تیل روزانہ مارکیٹ میں آنے لگا۔ لیکن یہ کیا ہو گیا، تیل کی قیمتیں اچانک گرنے لگیں۔ کیا اس لیے کہ وہ لوگ تیل سستا بیج رہے ہیں۔
نہیں۔ بلکہ امریکا نے اپنی گرتی ہوئی معیشت کو سنبھالنے کے لیے اپنے ترکش کا آخری تیر چلایا ہے، ترپ کا آخری پتہ کھیلا ہے۔ ترکش کا یہ آخری تیر صرف معیشت کو سنبھالنے کے لیے ہی نہیں بلکہ اس جنگ میں تھوڑی سی مخالف قوتوں کی معیشت تباہ کرنے کے لیے بھی چلایا گیا ہے۔
امریکا کی سرزمین میں تیل کے ذخائر کی بہت بڑی مقدار موجود ہے جسے Shale تیل کہا جاتا ہے۔ اس تیل کو امریکا نے برے وقتوں کے لیے سنبھال کر رکھا ہوا تھا۔ اس لیے کہ اس کو نکالنے کے لیے جو لاگت صرف ہوتی ہے اور جس طرح کی ٹیکنالوجی کا استعمال درکار ہوتا ہے اس سے تیل کی قیمت میں منافع کی امید بہت کم رہ جاتی ہے۔ اس کے باوجود اوکلو ہاما کے وہ تیل کے کنویں اور شمالی ڈکوٹا اور ٹیکساس کے تیل کے سرمایہ کار اس تیل کو نکال کر مارکیٹ میں لا رہے ہیں۔ انھوں نے تقریباً بیس ہزار کے قریب ایسے کنویں کھودے ہیں جو سعودی عرب کے کنوؤں کی تعداد سے دس گناہ زیادہ ہیں۔ اس قدر تیل مارکیٹ میں آنے سے تیل کی قیمت 40 فیصد کم ہو گئی ہے۔
جون میں ایک بیرل تیل کی قیمت110 ڈالر تھی جو گر کر68 ڈالر ہو چکی ہے، جسے امریکا پچاس ڈالر کی قیمت پر لانا چاہتا ہے تا کہ مرتی ہوئی معیشت کو پاؤں پر کھڑا کیا جائے اور ان ملکوں کو تباہی کی طرف دھکیلا جائے جن کا سارا دارومدار تیل کی برآمد پر ہے۔ ان میں روس ہے جس کی کرنسی روبل 30 فیصد گر چکی، ایران جس کو اپنا بجٹ مستحکم رکھنے کے لیے تیل136 ڈالر بیرل کی قیمت چاہیے، اس نے یکم دسمبر کو روٹی کی قیمت میں30 فیصد اضافہ کیا، نائجیریا جس نے دو دسمبر کو تمام سبسڈی ختم کر دی اور وینز یلا نے28 نومبر کو تنخواہوں میں کمی کا اعلان کر دیا۔
Shale تیل کے مارکیٹ میں آنے سے وہ تمام عرب ریاستیں بھی متاثر ہوں گی لیکن اس کا ایک فائدہ یہ تصور کیا جا رہا ہے کہ دنیا بھر کا جی ڈی پی بڑھ جائے گا، معیشت مستحکم ہو گی۔ یہ ایک ایسا جواء ہے کہ اگر مارکیٹ نے تیل کی قیمت پچاس ڈالر فی بیرل سے نیچے گرا دی تو یہ دنیا ایک بہت بڑے بحران کا شکار ہو جائے گی جو اس پوری سودی معیشت کی عمارت کو دھڑام سے گرا دے گا۔ ایسے میں وہ تمام منصوبے، فتح کے وہ تمام افسانے، امریکا اور نیٹو کی دہ بالا دستیاں سب خواب ہو کر رہ جائیں۔
چاروں جانب بحران ہے، خوف سے بھاگتے امریکا اور نیٹو کو اس معاشی معجزے کا یقین ہے۔ یہ ڈوبتی کشتی ہے جس پر ہم ایک دفعہ پھر سوار ہونے جاتے رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ امریکا، افغانستان اور بھارت سے مل کر ہماری بقا ہے، ہم امن کی زندگی گزار سکیں گے۔ لیکن شاید اس سے بڑا سراب اور کوئی نہیں۔ ڈوبتی معیشت اور ہچکولے کھاتی کشتی پر سوار ہونا۔ چلو چند سال بعد اس کا ماتم کریں گے۔
نوٹ: درویش خدامست، نسیم انور بیگ کی سوانح پر ملک بھر کے دانشوروں اور ان کی محفل کے خوشہ چینوں نے جو کچھ تحریر کیا، اس کتاب کی رونمائی 21 دسمبر کو گیارہ بجے دن قائداعظم لائبریری میں ہو گی۔ درویش کی یاد میں محفل بپا ہو گی۔