المیہ اور مصالحت

پاکستانی بالعموم کہتے ہیں کہ ایک بار مسئلہ کشمیر حل ہوجائے تو پھر دونوں ملک دوستوں کی طرح رہ سکتے ہیں۔


Kuldeep Nayar December 18, 2014

پشاور میں اسکول کے بچوں کے وحشیانہ قتل عام کی بھارت میں بھی تکلیف محسوس کی گئی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے تمام اسکولوں کے بچوں کو پاکستان کے سانحے پر دو منٹ کی خاموشی کی ہدایت کی۔ انھوں نے وزیراعظم نواز شریف کو ہر قسم کے تعاون کی پیش کش بھی کی۔ میری خواہش ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین اس قسم کا مفاہمتی ماحول برقرار ہے۔ بدقسمتی سے بھارت اور پاکستان کی سول سوسائٹی اس طرح کی تشویش محسوس نہیں کرتی کہ ان کی نوجوان نسل ایک دوسرے کے خلاف دشمنی پال رہی ہے۔

یہ لوگ برصغیر کے باہر ایک دوسرے کے بہترین دوست ہیں لیکن اپنے اپنے ملک میں، وہ ہمیشہ ایک دوسرے پر سخت وار کرنے کی کوشش میں ہوتے ہیں اور ان کو اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ یہ دشمنیاں کس حد تک بڑھ سکتی ہیں۔ پاکستانی بالعموم کہتے ہیں کہ ایک بار مسئلہ کشمیر حل ہوجائے تو پھر دونوں ملک دوستوں کی طرح رہ سکتے ہیں لیکن مجھے اس میں شک ہے کیونکہ میرے نزدیک کشمیر بیماری کی علامت ہے۔ بیماری نہیں۔ بیماری وہ عدم اعتماد ہے جو دونوں کو ایک دوسرے پر ہے۔ اگر کسی کرامت سے کشمیر کا مسئلہ حل ہو بھی جائے تو شکوک و شبہات کوئی اور مسئلہ کھڑا کر دینگے۔ پاکستانی اور بھارتی ایک دوسرے کے خلاف پرانی دشمنی کو ہر جگہ اٹھائے پھرتے ہیں۔ جہاں پر بھی ان کا رابطہ ہوتا ہے یہ دشمنی عود آتی ہے۔ قابل افسوس بات ہے کہ ثقافتی تقریبات بھی اسی ذہنیت کا شکار ہو جاتی ہیں۔ پاکستانی قوال دہلی پریس کلب میں قوالی پیش نہ کر سکے حالانکہ وہ ایک لبرل جگہ ہے۔

دوسری طرف ہاکی میچ میں پاکستانی کھلاڑیوں نے بھارت کو شکست دینے کے بعد غیر اخلاقی حرکات کیں۔ بھارت کا دورہ کرنے والے پاکستانی اراکین پارلیمنٹ نے لوک سبھا کی اسپیکر سے ملاقات نہ کی حالانکہ جس رکن پارلیمنٹ نے اس ملاقات کا اہتمام کرایا تھا اس نے یہ دیکھا ہی نہیں تھا کہ آیا اس وقت بھارتی اسپیکر فارغ ہوں گی یا نہیں۔ بھارتی اراکین پارلیمنٹ کو پروگرام میں تبدیلی کر دینی چاہیے تھی لیکن رواداری کے طور پر بھی ایسا نہیں کیا گیا۔ ایسے واقعات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ تقسیم کے 70 سال بھی دونوں ملک معمول کے تعلقات قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں چہ جائیکہ دوستانہ تعلقات کی بات کی جائے۔ اس حوالے سے مستقبل روشن نظر نہیں آتا۔ جب ہندو کا نام سنتے ہی دشمنی عود آتی ہے۔

پہلے ہندوؤں کی زبان سنسکرت وجہ نزاع تھی اور آج مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنانے کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ بعض مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنانے سے دنیا کی نظروں میں بھارت کا مقام گر گیا ہے۔ بالخصوص پاکستان میں کیونکہ ہندو بنائے جانیوالوں نے کہا ہے کہ راشن کارڈ دینے کے وعدے پر زبردستی ان کا مذہب تبدیل کرایا گیا جس کو دکھا کر غریب لوگوں کو رعایتی قیمت میں کھانے پینے کی اشیاء مل جاتی ہیں۔ اور یہ کہ پاکستان میں بنیاد پرستی کا فروغ میرے لیے حیرت کی بات نہیں۔ ایک ایسا ملک جس میں پنجاب کا روشن خیال گورنر قتل کر دیا جائے لیکن اس کے قاتلوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جا سکے تو تاریکی کے سائے پھیلتے محسوس ہونے لگتے ہیں۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ جب آزاد خیال آوازوں کو خاموش کر دیا جائے تو پھر مذہبی جنونیوں کی تعداد اور ان کی قوت میں لامحالہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ بات بہت تشویشناک ہے کہ بھارت میں بھی یہی کچھ ہورہا ہے حالانکہ یہ ملک سیکولر جمہوری سیاست کی نمایندگی کرتا ہے اور اسی وجہ سے دنیا بھر میں اس کی ایک عزت بھی ہے۔ لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ نئی دہلی حکومت بڑی تیزی سے ہندوتوا کا گڑھ بن رہی ہے۔

جس سے نہ صرف دنیا مایوس ہو رہی ہے بلکہ یہ اقلیتوں کے لیے بڑی دہشت ناک بات ہے۔ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھگوت نے بلند بانگ دعویٰ کیا ہے کہ ہندو راج 800 سال کے بعد بھارت میں واپس آ گیا ہے۔ لیکن اس کے اس دعوے کو کسی کی طرف سے سنجیدگی کے ساتھ چیلنج نہیں کیا گیا حالانکہ یہ ہمارے سیکولرازم کے لیے بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ مجھے اس بات پر حیرت نہیں ہوئی کہ بی جے پی نے صرف دہلی میں 4 لاکھ نئے اراکین بنا لیے ہیں۔ کانگریس اس طرز عمل کی مزاحمت کر سکتی تھی لیکن وہ اپنی خاندانی سیاست میں الجھ کر رہ گئی ہے حالانکہ ماضی میں یہ پارٹی اپنی مساوات پسندی اور اجتماعیت کی سوچ کے حوالے سے اپنی ایک شناخت رکھتی تھی اور اسی حوالے سے جواہر لعل نہرو نے اپنی بیٹی اندرا گاندھی کو اور اندرا نے اپنے بیٹے راجیوگاندھی کو پروان چڑھایا تھا۔ لیکن آج کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کا جھکاؤ بھی دائیں بازو کی طرف ہے۔ بھارتی سیاست شخصیات میں گِھر چکی ہے۔

آج یہ نریندر مودی ہیں جو سیاست میں مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔ لوگ بھی نظریات کو نہیں دیکھتے بلکہ صرف شخصیت کو دیکھتے ہیں۔ مودی کا تعمیر و ترقی کے نعرہ بہت مبہم ہے، جس کی کوئی سمت واضح نہیں۔ انھیں تعمیر و ترقی کے حوالے سے پورے ملک کو پیش نظر رکھنا چاہیے لیکن جب سوچ تنگ نظری پر مبنی ہو تو اس میں مساوات کا کوئی امکان نہیں رہتا۔ ایک عام آدمی اب بھی اپنے آپ کو اتنا ہی الگ تھلگ محسوس کر رہا ہے جتنا کہ وہ آزادی کے بعد سے تھا۔حکمران جماعت مرکز میں بے شک تبدیل ہو چکی ہے لیکن سیاسی کلچر تبدیل نہیں ہوا۔ ہمارا انداز بدستور جاگیردارانہ ہے اور اسی انداز سے دیگر ترجیحات کو طے کیا جاتا ہے۔ حالانکہ ایک جمہوری معاشرے میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود صورت حال جوں کی توں ہے کیونکہ ماضی میں بھی اس طرز عمل میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی۔ جو اقتدار میں آتے ہیں وہ آمرانہ اسلوب اختیار کر لیتے ہیں۔

حتیٰ کہ جب وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اصل طاقت عوام کے پاس ہے لیکن اس کے باوجود وہ حکومتی طاقت کا بے محابا استعمال کرتے ہیں اور ان کے دل میں ملک و قوم کی خدمت کا قطعاً کوئی خیال نہیں ہوتا۔ مودی نے نہرو کے غیر وابستگی کے نظریے کو بہت گہرائی میں دفن کر دیا۔ اگرچہ وہ نظریہ بھی زیادہ کامیاب نہیں ہوا تھا لیکن پھر بھی اس میں کمیونسٹ اور جمہوری بلاک کی کشمکش نے قدرے مثبت کردار ادا کیا۔ 1990ء میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد کمیونسٹوں کو سرد جنگ میں شکست ہو گئی لیکن اس کے باوجود وہ تحریک اس اعتبار سے مثبت نتائج کی حامل تھی کہ چھوٹی قوموں کو بڑی اقوام سے محض اپنے حجم اور طاقت کی کمی کے باعث خوف نہیں تھا۔ مودی سرمایہ دار دنیا کی پیداوار ہیں۔ ان میں نہ نہرو کے دور کی سوشلزم کی طاقت ہے اور نہ مہاتما گاندھی کی خود انحصاری کا عزم ہے۔ مودی چاہتے ہیں کہ ملک ترقی کرے۔ انھیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ یہ ترقی کن ذرایع سے کی جائے اور نہ ہی اس بات کا احساس ہے کہ بڑی معیشت امیروں اور غریبوں میں فاصلے کو اور زیادہ بڑھا دیتی ہے۔ اپنی بات مکمل کرنے سے پہلے میں بتانا چاہتا ہوں کہ مجھے کس وجہ سے مایوسی ہوئی ہے۔

میرا اشارہ صدر پرناب مکھرجی کی کتاب کی طرف ہے جو انھوں نے ایمرجنسی کے دور کے بارے میںخاصے غیر محتاط انداز میں لکھی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ وہ جس منصب پر فائز ہیں اسے سیاسی تنقید کا نشانہ نہیں بننا چاہیے۔ اس کے باوجود انھوں نے اپنی حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان اقدامات کا دفاع کرنے کی کوشش کی ہے جو انھوں نے ایمرجنسی کے دوران کیے تھے۔ صدر مکھرجی اس وقت کی آمرانہ حکومت کا ایک جزو لاینفک تھے۔ وہ سنجے گاندھی کے معتمد خاص تھے حالانکہ سنجے گاندھی ماورائے آئین اتھارٹی تھے جنہوں نے ملک پر آمریت قائم کر دی تھی جب کہ مکھرجی کو آزاد خیال ہونا چاہیے تھا لیکن وہ سنجے کی مکمل تابعداری کرتے رہے جس پر ہمیشہ سوال اٹھائے جاتے رہیں گے خواہ اب وہ اپنی کتنی بھی صفائیاں کیوں نہ پیش کریں۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں