شیطان کا مقابلہ
جس قسم کی دہشتگردی پاکستان میں ہو رہی ہے وہ غیر ملکی مالی امداد اور لاجسٹک سپورٹ کے بغیر ممکن نہیں۔
پشاور میں دو روز قبل ہونے والے ہولناک سانحے کے نتیجے میں شہید ہونے والوں میں 9 ٹیچرز اور 132 بچے شامل ہیں جب کہ 141 زخمی ہیں۔ اس میں افسوسناک بات یہ ہے کہ اسکول کے طلباء کے وحشی قاتل بھی خود کو طالبان یعنی طالب علم ہی کہلواتے ہیں حالانکہ انھیں طالبان نہیں بلکہ شیطان کہنا چاہیے جو وہ ہیں۔ اس قسم کے وحشی حیوانوں کا بھلا اسلام سے کیا تعلق ہو سکتا ہے۔ انھیں کسی بھی حساب سے مسلمان نہیں کہا جا سکتا۔
لیکن کیا یہ شیطان ناقص سیکیورٹی کی وجہ سے کامیاب ہوئے۔ آخر اس اندوہناک سانحہ کی ذمے داری کس پر عائد کی جا سکتی ہے۔ غالباً ہم سب ہی اس کے ذمے دار ہیں جس میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں اور ان کی سول اور پولیس انتظامیہ' مسلح افواج اور انٹیلی جنس ایجنسیاں' سیاستدان اور عام شہری وغیرہ سب کے سب شامل ہیں۔ لیکن کیا آپ اس درندے کو روک سکتے ہیں جو اپنے مقصد کے لیے اپنی جان داؤ لگانے کے لیے آیا ہو؟ اس وقت تک کسی قسم کا دفاع کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک کہ ان کی جڑیں کاٹنے کے لیے ہم خود میدان عمل میں نہ اتریں۔ جس قسم کی دہشتگردی پاکستان میں ہو رہی ہے وہ غیر ملکی مالی امداد اور لاجسٹک سپورٹ کے بغیر ممکن نہیں لہٰذا یہ ضروری ہے کہ ان کے غیر ملکی سپانسروں کو بے نقاب کیا جائے۔
دہشت گردوں کے خفیہ ٹھکانوں کے لیے لاجسٹکس' مالی امداد' اسلحے کی فراہمی' سرکاری اداروں کی وردیاں' گاڑیاں اور سڑکوں بازاروں پر محفوظ آمد و رفت وغیرہ کی ذمے داری بے شک صوبائی انتظامیہ کی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وفاقی حکومت اور وفاقی انٹیلی جنس ایجنسیاں بری الذمہ ہیں۔ بدقسمتی سے ان کی ہفتے کے ساتوں دن 24 گھنٹے جاری رہنے والی سرگرمیاں ان کی قانون نافذ کرنے کی صلاحیتوں پر منفی طور پر اثر انداز ہوتی ہیں جس کی وجہ سے قبل از وقت انتباہ کے بعد جوابی کارروائی سست ہو جاتی ہے۔
پولیس دہشت گردوں کو مختلف جگہوں پر تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ جمہوری طور پر منتخب ہونے والی سیاسی اشرافیہ پرائیویٹ سیکیورٹی کے اخراجات برداشت کر سکتی ہے کیونکہ اس کے پاس ناجائز ذرایع سے حاصل کی گئی دولت کی کوئی کمی نہیں ہوتی اور ان وی آئی پی لوگوں کی جھوٹی انا کے باعث تمام سڑکوں کے راستے مسدود ہو جاتے ہیں کیونکہ پولیس اور رینجرز بھی ان کے ساتھ چلتے ہیں۔ ان کی گاڑیوں پر فلیش لائٹس اور گونجتے ہوئے سائرن بج رہے ہوتے ہیں۔ اگر مقامی پولیس کی طرف سے کوئی اعتراض کیا جائے تو اعتراض کرنے والوں کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے، ان کی ٹرانسفر کرا دی جاتی ہے بلکہ انھیں نوکری سے بھی نکلوا دیا جاتا ہے۔ کراچی اور سندھ میں اس حوالے سے بڑی افسوسناک مثالیں دیکھی گئی ہیں۔ اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں رکاوٹ ڈالے جانے پر پولیس حکام بد دل ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کا اصل مقصد عام شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کرنا ہوتا ہے۔
کراچی ایئر پورٹ کے واقعے سے ہم نے مندرجہ ذیل سبق سیکھے۔-1 یونٹی آف کمانڈ موجود نہیں تھی۔ -2 انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان تعاون اور اشتراک عمل کا فقدان تھا۔ -3 مناسب ہتھیاروں' دیگر آلات' گاڑیوں' ہلکے ہیلی کاپٹروں وغیرہ کی بھی قلت تھی۔-4حساس مقامات کی حفاظت اور دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے والی تربیت یافتہ افرادی قوت بھی کم تھی۔-5 ایک جیسی کوششوں کا ایک سے زیادہ بار ہونا۔ -6 نوکر شاہی (بیوروکریسی) کی بے جا مداخلت اور قانون نافذ والی کوششوں کی مالیاتی ضروریات کے بارے میں بے حسی۔ قابل عمل انٹیلی جنس کے فوری طور پر اشتراک کے بغیر دہشت گردی کے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی نے ایک بہت اچھی قومی سلامتی پالیسی کا اعلان کیا لیکن پھر وہیں رک گئے۔ آخر کیوں؟ اس بات کا کسی کو کوئی علم نہیں کہ نیشنل کاؤنٹر ٹیرر ازم اتھارٹی جس کا مخفف این اے سی ٹی اے ہے آخر کیوں غیر متحرک ہے جب کہ سیاسی طور پر اس کے بارے میں بڑے بلند و بانگ دعوے کیے جاتے رہے ہیں۔آخر اسکولوں اور کالجوں کی سیکیورٹی کا کیا منصوبہ ہے؟ سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے جیسے کہ آرمی پبلک اسکول تھا یہ سب شیطانوں کے لیے بڑے آسان ہدف ہیں حالانکہ ریاست کو ملک کے تمام شہریوں کی سلامتی کا ذمے دار ہونا چاہیے۔ بہرحال یہ تمام افراد اور اداروں کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ اپنی سیکیورٹی کے انتظامات پر اور زیادہ توجہ دیں۔ آرمی پبلک اسکولوں کو ایسے حملوں کے بارے میں پہلے سے ہی خطرہ ہونا چاہیے تھا جو کہ آپریشن ضرب عضب کے ردعمل کے طور پر خارج از امکان نہیں۔ سرکاری اور پرائیویٹ اسکولز شیطانوں کے لیے آسان ہدف کی حیثیت رکھتے ہیں۔
لہٰذا انھیں چاہیے کہ وہ اپنی سیکیورٹی کے انتظامات پر فوری طور پر اور زیادہ توجہ دیں اور اس معاملے کو ریاست کی ذمے داری گردانتے ہوئے اپنی طرف سے کسی قسم کی غفلت کا مظاہرہ نہ کریں۔حساس مقامات جیسے بندر گاہوں، ہوائی اڈوں وغیرہ کی حفاظت متحدہ کمان کے پاس ہونی چاہیے جو تنظیم' منصوبہ بندی' تربیت اور انسداد دہشت گردی کے آلات وغیرہ کے معاملات کی ذمے دار ہو۔ فی الوقت ان تمام مقامات کی سیکیورٹی مکمل طور پر فول پروف قرار نہیں دی جا سکتی۔ حتٰی کہ آرمی ڈیفنس سیکیورٹی گارڈز (ڈی ایس جی) کا حصول بھی وقتی ضروریات کے تحت کیا جاتا ہے حالانکہ اس کا مستقل بنیادوں پر بندوبست ہونا چاہیے۔ سرحد اور داخلی سیکیورٹی فورسز جیسے کہ سندھ اور پنجاب میں رینجرز کے پی کے اور بلوچستان میں فرنٹیئر کور (ایف سی) اور امیگریشن کے لیے ایف آئی اے ہیں جو کہ وزارت داخلہ کو رپورٹ کرتی ہیں اے ایس ایف ایوی ایشن ڈویژن اور اینٹی نارکوٹکس فورس (اے این ایف) وزارت نارکوٹک کنٹرول کو رپورٹ کرتی ہیں۔ اگرچہ ان سب کا تعلق فوج سے ہوتا ہے لیکن ان کی ذمے داری مختلف النوع محکموں پر عائد کی گئی ہے ۔
جس کی وجہ سے ابہام پیدا ہوتا ہے اور ایک ہی کوشش بلا ضرورت طور پر ایک سے زیادہ بار کرنا پڑتی ہے۔ ایک ہوم لینڈ سیکیورٹی کمانڈ قائم کی جانی چاہیے جو ان تمام ایجنسیوں اور نظام کو کنٹرول کرے، اس کی سربراہی ایک تین ستاروں والے جنرل کے سپرد ہونی چاہیے۔ ترجیحی طور پر ایسا جرنیل جس کو حقیقی جنگ اور داخلی سلامتی کے بارے میں عملی تجربات حاصل ہوں۔ جسے فوری طور پر تمام بندر گاہوں ہوائی اڈوں فوجی اور بحری مستقروں وغیرہ کی حفاظت کی ذمے داری سونپ دی جانی چاہیے۔ رینجرز اور ایف سی داخلی سلامتی اور سرحد کی حفاظت کی ذمے داریوں کو علیحدہ علیحدہ کر دیں۔ اس کے علاوہ دہشت گردی کے مقابلے کے لیے بھی ایک فورس تشکیل دی جانی چاہیے۔ یہ ساری تنظیم نو جی ایچ کیو کے اندر کی جانی چاہیے لیکن اس کے بارے میں ادھر سے مکمل خاموشی ہی ہے۔
وزیراعظم نے سابق صدر آصف زرداری کی طرف سے سزائے موت پر پابندی کے فیصلے کو ختم کر کے بہت جرأت مندانہ اقدام کیا ہے۔ پہلے قدم کے طور پر دہشت گردوں کو پھانسیاں دی جانی چاہئیں اور اس حکم پر 48 گھنٹوں کے اندر اندر عملدرآمد ہو جانا چاہیے۔ پچھلی مرتبہ میاں نواز شریف نے سزائے موت پر پابندی کے فیصلے میں توسیع کر دی تھی کیونکہ ان کے خاندان کو دھمکی آمیز فیکس موصول ہوئی تھی۔ اب اس قسم کے سیاسی عزم کا اظہار ایک جرات مندانہ فیصلہ ہے۔ جس کی تعریف کی جانی چاہیے کیونکہ جو شخص کسی انسان کی جان لیتا ہے تو اس کے جواب میں قاتل کی جان بھی لی جانی چاہیے۔
جنرل راحیل شریف کی گزشتہ روز فوری طور پر کابل روانگی بے حد اہم تھی۔ ہمیں افغان صدر کے خلوص پر کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارے آرمی چیف حملوں میں ملوث عناصر کے بارے میں مکمل ثبوت اور شواہد ساتھ لے کر کابل گئے اور مطالبہ کیا کہ ذمے داروں کو ہمارے حوالے کیا جائے ورنہ وہ ملا فضل اللہ جیسے عناصر کو افغان سرزمین سے ہمارے خلاف کارروائیاں کرنے سے نہ روک سکیں گے۔ اب زبانی جمع خرچ کا وقت ختم ہو چکا ہے اب ہمیں شیطانوں کے خلاف سخت ایکشن لینا پڑے گا۔ میڈیا پر بھی ایک ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ لہٰذا انھیں شیطانوں کے نمایندوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں چھوڑنی چاہیے۔ کم از کم وہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو تحریک شیاطین پاکستان (ٹی ایس پی) کا نام لکھنا تو شروع کر سکتے ہیں جس میں حرف ٹی (T) کو ایس (S) سے بدلنا پڑے گا۔
پشاور کے واقعہ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہماری ذرا سی نرمی کس قدر ہولناک نتائج برپا کر سکتی ہے۔ آئیے ہم سب شیاطین کو کچلنے کے لیے متحد ہو جائیں۔