احترام سب کا…مسئلے کا حل

جب تک انتخابات پر کثیر رقم خرچ کرنے کی بیخ کنی نہیں ہوتی اس وقت تک ’’عام آدمی‘‘ بھلا ایوانوں میں کس طرح پہنچ سکتا ہے۔


نجمہ عالم December 18, 2014
[email protected]

گزشتہ ہفتے راؤ منظر حیات صاحب کا کالم بعنوان ''الیکشن'' پڑھ کر اندازہ ہوا کہ اگر نیت صاف اور ارادہ نیک ہو تو صرف ایک شخص پورے نظام کو تبدیل کرسکتا ہے اور اس کے لیے نہ کسی اضافی فنڈ کی اور نہ قانون و آئین میں ترمیم کی ضرورت پیش آتی ہے۔ مگر ہمارا المیہ وہی ہے جو راؤ صاحب نے اپنے کالم کے پہلے پیرا گراف میں بیان کیا ہے کہ ہم میں سے شاید ''کوئی بھی کچھ کرنا ہی نہیں چاہتا'' اور اگر چاہتا ہے تو صرف اور صرف اپنے لیے، ملک و قوم کے بارے میں سوچنے کی کسی کو فرصت ہی نہیں۔

یہ جو شور مچایا جا رہا ہے کہ انتخابی اصلاحات بے حد ضروری ہیں، ہمارا خیال ہے (ضروری نہیں کہ درست ہو) کہ آئین میں سب کچھ موجود ہے مگر عمل کرنے والے آئین کا احترام کریں تب ناں۔ لہٰذا اصل ضرورت خود سیاستدانوں کی اصلاح کی ہے، جو خود نہیں چاہتے کہ دھاندلی ختم ہو جو بظاہر دھاندلی اور بدعنوانی کے خلاف برسر پیکار ہیں دراصل وہ چاہتے ہیں کہ دھاندلی کا ہر موقع خود ان کے ہاتھ لگ جائے۔ قارئین اس بات کا یقیناً برا بھی منائیں گے۔

مگر حالات کا بغور مطالعہ ہی ہماری اس رائے کے اظہار کا ذریعہ بنا۔ دیکھیے کہ 2013 کے انتخابات پر تقریباً ہر جماعت نے (سوائے چند کے) دھاندلی کے امکانات بلکہ خدشے کا اظہار کیا کہ ہماری نشستوں پر ڈاکہ ڈالا گیا البتہ ہمارے ہاتھ بالکل صاف ہیں یعنی جہاں ہم جیتے وہاں سب کچھ درست ہوا اور جہاں ہم جیت نہ سکے وہاں دھاندلی ہوئی عجیب منطق ہے۔

اس صورتحال میں سیاسی جماعتیں بجائے عوامی خدمت، فلاح و بہبود اور معاشرتی اصلاح کے جلسے جلوس، دھرنوں اور ہڑتالوں کے ساتھ اپنے مخالفین کو بدنام و بدعنوان ثابت کرنے پر پورا زور صرف کرتی ہیں، وجہ صاف ظاہر ہے کہ وہ ایک شخص جو آئین، قاعدے قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے سب سے اپنی بات مثبت دلائل کے ذریعے منوا سکے ہمیں کہیں دستیاب ہی نہیں۔ ہمارے یہاں حکمرانی کو عوامی و قومی خدمت کا ذریعہ کبھی سمجھا ہی نہیں گیا، اقتدار میں لوگ آتے ہیں تو خود کو بنانے کے لیے ملک و قوم کی خدمت کے لیے نہیں۔

یہ طرز فکر دراصل علاقائی عصبیت کے ساتھ ہی پروان چڑھا ہے جس کی جڑیں جاگیردارانہ نظام میں پیوست ہیں۔ تمام سیاسی پارٹیاں ان ہی کی پشت پناہی سے ایوانوں تک پہنچتی ہیں تو ظاہر ہے کہ وہ ان کے ہی مفادات کو مدنظر بھی رکھتی ہیں، جب کہ ووٹ عوام سے لیتی ہیں، مگر عوام اپنا ووٹ اپنی مرضی سے کب استعمال کرتے ہیں جو ان کے وڈیرے، جاگیردار، پیر صاحب، مخدوم، سردار چاہیں گے اس کو ہی ووٹ دیا جائے گا۔ پارٹی ٹکٹ جب کروڑوں میں بکتے ہوں چاہے اس شخص میں کوئی صلاحیت ہو یا نہ ہو مگر ٹکٹ خریدنے کے قابل، خوشامد اور چاپلوسی میں ماہر ہو تو وہ ممبر اسمبلی بننے کا اہل ہے۔

جب تک انتخابات پر کثیر رقم خرچ کرنے کی بیخ کنی نہیں ہوتی اس وقت تک ''عام آدمی'' بھلا ایوانوں میں کس طرح پہنچ سکتا ہے؟ کیونکہ انتخابات کے اخراجات کوئی عام شخص برداشت کر ہی نہیں سکتا۔ بظاہر اگر کسی مڈل کلاس شخص کو کسی پارٹی کا ٹکٹ مل بھی جائے تو درپردہ اس کے تمام اخراجات تو کوئی وڈیرہ، جاگیردار یا صنعت کار ہی برداشت کر رہا ہوتا ہے، چنانچہ جب وہ ایوان میں پہنچ جائے گا تو وہ اپنے جیسے عام لوگوں کے لیے کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہوگا ہی نہیں، وہ تو اپنے اس محسن کے مفاد کے لیے ہی کام کرے گا۔

آج کل کئی سیاسی جماعتیں مڈل کلاس لوگوں کو ایوان میں پہنچانے کی بات کر رہی ہیں۔ اچھی بات کی تقلید کرنا بھی اچھی بات ہے مگر اس کا کھلے دل سے اقرار کرنا مزید اچھی بات ہوگی۔ کیونکہ یہ جماعتیں آیندہ انتخابات میں ووٹ کے حصول کے لیے یہ نعرہ لگا رہی ہیں اب تک انھوں نے ایسا کیا نہیں تھا البتہ اب تک جو مڈل کلاس کے تعلیم یافتہ باصلاحیت افراد ایوان تک پہنچے ہیں وہ صرف ایم کیو ایم کے کارکن ہیں الطاف حسین نے اپنے ایک بیان میں اس کی نشاندہی بھی کی ہے کہ ''میں نے سب سے پہلے ''عام آدمی'' کو ایوان میں پہنچایا'' اور شاید ایم کیو ایم کے خلاف جو پروپیگنڈا ملکی سطح پر اور تعصب کا اظہار کیا جاتا ہے وہ اسی لیے ہے کہ ہمارے دو فیصد مراعات یافتہ (بڑے خاندان مالی طور پر) لوگوں کے پہلو بہ پہلو ایک عام شخص اسمبلی کی نشست پر بیٹھے انھیں کیونکر گوارہ ہوسکتا ہے۔

مگر ان کم مایہ افراد نے نہ صرف اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا بلکہ ملک پر قابض افراد کو بتا بھی دیا کہ اگر ملک میں مثبت تبدیلی کبھی آئے گی تو ہمارے دم قدم سے۔ ہم بات کر رہے تھے ایوان کی نشستوں کے حصول کے لیے زرکثیر خرچ کرنے کی تو ایم کیو ایم کے کئی ممبران نے ٹی وی چینلز اور اپنے انٹرویوز میں برملا بتایا کہ ہمیں یہاں تک آنے میں اپنا ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کرنا پڑا تمام اخراجات خود پارٹی نے کیے۔ کیونکہ ہمارے یہاں امیدوار کی ذاتی تشہیر کے بجائے پارٹی کی بنیاد پر ووٹ ڈالے جاتے ہیں، تمام امیدوار پارٹی کے نظریاتی حامیوں کے ووٹ سے کامیاب ہوتے ہیں ذاتی حیثیت میں نہیں، امیدوار کی اہلیت و صلاحیت کی جانچ پڑتال کرنا پارٹی کا کام ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ ذرایع ابلاغ نے اس پارٹی کی کبھی اس طرح تشہیر اور طرف داری نہیں کی جس طرح دوسری پارٹیوں کی ہوتی ہے، ٹاک شوز میں بھی عموماً ان کے نمایندوں کو کم بولنے کا وقت دیا جاتا ہے اور اکثر بات درمیان ہی میں کاٹ دی جاتی ہے۔ جب کہ ان کے نمایندوں کا جواب سوال کے عین مطابق بھرپور معلومات پر مبنی ہوتا ہے اس بات کا اظہار ہمارے کئی غیر جانبدار صحافی و تجزیہ نگار بھی کرچکے ہیں۔ ذرایع ابلاغ کے اس رویے کی بھی ایک وجہ ہے کہ دوسری پارٹیاں اپنی تشہیر پر زر کثیر خرچ کرتی ہیں جب کہ یہ جماعت محدود وسائل میں رہتے ہوئے انتخابات میں حصہ لیتی ہے کیونکہ ان کی پشت پر کوئی جاگیردار یا سرمایہ دار نہیں اس لیے ملک گیر مقبولیت (کیونکہ ان کا منشور ملک کے 98 فیصد عوام کے دل کی آواز ہے) کے باوجود جتنے بھی نمایندے ایوان میں پہنچتے ہیں وہ تہذیب و شائستگی، رواداری، آئین کا بھرپور احترام کرتے ہیں، مکمل معلومات، ادبی ذوق ان سب کا خاصا ہے۔

ایوان کے تقدس کا مکمل خیال رکھتے ہوئے تمام جماعتوں کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہیں۔ اس جماعت کے قائد سے لے کر عام کارکن تک سب کے دکھ درد میں ہمیشہ سب سے پہلے شریک ہوتے ہیں، عمران خان کا انتخابی مہم کے دوران حادثہ ہوا تو الطاف حسین نے بیک وقت تین شہروں میں اپنے جلسے ملتوی کردیے۔ بارہ دسمبر کو کراچی میں پی ٹی آئی کے احتجاج سے قبل طرح طرح کے اندیشوں کا اظہار کیا جا رہا تھا، مگر الطاف حسین نے سب سے پہلے بیان دیا کہ کراچی کیا پورے ملک میں احتجاج کرنا پی ٹی آئی کا جمہوری حق ہے۔

اس کے باوجود ''کیا کراچی میں مظاہرے کے لیے ایم کیو ایم سے اجازت کی ضرورت ہے''جیسے بیانات داغے گئے اگرچہ کوئی مانے یا نہ مانے ایم کیو ایم کراچی ہی نہیں بلکہ سندھ کے تمام شہروں کی نمایندہ اور ملک بھر کی مقبول (مظلوم عوام میں) جماعت ہے۔ اس کے قائد تا کارکنان مہذب پڑھے لکھے ہر کسی کا حق تسلیم کرنے اور سب کا احترام کے علاوہ مساوات و احترام انسانیت پر یقین رکھنے والے ہیں، یہ ضرور ہے کہ آج کے بدعنوان معاشرے میں یہ تمام صلاحیتیں انھیں کیا نظر آئیں گی جن کی آنکھیں دولت کی چمک سے چندھیا گئیں اور دل سیاہ ہوچکے ہیں۔

ضرورت انتخابی اصلاحات سے زیادہ انداز فکر اور سیاسی رویہ درست کرنے کی ہے، سب کے حق کو تسلیم کرکے سب کا احترام کرتے ہوئے آگے بڑھنے، ذاتی مفاد کے بجائے ملکی مفاد کو مدنظر رکھنے کی، تو انشا اللہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں