احتجاج کا مہذب طریقہ

بد قسمتی سے مسائل سے گھرے اور غربت کے مارے ہمارے ملک میں ہر جگہ اور ہر قسم کی دہشتگردی کا خطرہ ہمیشہ منڈلاتا رہتا ہے۔

پاکستان کے سوا دنیا کے تقریبا تمام جمہوری ملکوں میں ماحولیاتی موسموں کی طرح سیاسی موسم بھی ہوتے ہیں،جو اپنے وقت پرآتے اور وقت ہی پر ختم ہوجاتے ہیں گویا وہاں سیاسی زندگی بھی مشین کی طرح کام کرتی ہے اور انتخابات کے بعد ہر قسم کی سیاسی سرگرمیاں شجر ممنوعہ کی طرح پارلیمنٹ تک محدود ہوکر رہ جاتی ہیں۔جلسے جلوس نہ مظاہرے اور نہ احتجاج نہ دھرنے نہ مارچ۔ شاید ان کی روز افزوں ترقی وخوشحالی اور عزت و وقار کا سبب بھی یہی ہے کہ انھوں نے ہمارے قائداعظم کے قول کام، کام اور صرف کام کو اپنا اصول زندگی بنا لیا ہے اور ہمارے یہاں سیاست دن کے چوبیس گھنٹے اور سال کے تین سو پینسٹھ دن مسلسل جاری رہتی ہے۔

یہاں انتخابات کا وقت مقررہ پر انعقاد ضروری ہے نہ حکومت کو آئین کے تحت حاصل میعاد پوری کرنے کی ضمانت حاصل ہے۔ بد قسمتی سے مسائل سے گھرے اور غربت کے مارے ہمارے ملک میں ہر جگہ اور ہر قسم کی دہشتگردی کا خطرہ ہمیشہ منڈلاتا رہتا ہے لیکن ہمارے یہ نام نہاد سیاستدان اپنی سیاسی بوالہوسی کی تسکین کی خاطر لوگوں کی جان کو خطرے میں ڈالنے اور شہر کے شہر مفلوج کر کے رکھ دینے سے باز آتے ہیں اور نہ اپنے حق اجتماع کے نام پر بشمول مریض، طلبا ، سرکاری اور نجی اداروں کے ملازمین، وکیل اور ڈاکٹر عام لوگوں کو چلنے پھرنے اور حصول روزگار کے بنیادی حق سے محروم کردینے میں شرماتے ہیں۔

گولی کے اثر سے محفوظ گاڑیوں میں چھپے یہ سیاسی لوگ اپنے جلوس شاہانہ کی حفاظت کے لیے پولس اور رینجرزکے ہزاروں جوانوں کو لگا کر قو می خزانے پر کروڑوں روپے کا بار ڈال دیتے ہیں۔بیرونی قرضوں کے بھاری بوجھ تلے دبے اس ملک کے سیاسی بہروپیوں کوچاہیے کہ وہ ازخود اس سیاسی شعبدہ بازی سے باز آجائیں اور ملک کو مزید زیر بار نہ کریں بصورت دیگرحکومت کو قانون سازی کے ذریعے سوائے انتخابات کے دنوں کے اس قسم کی تمام سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا دینی چاہیے اس لیے کہ ہم ہی نہیں، دنیا کے ترقی یافتہ اور متمول ملک بھی ایسی عوام دشمن سیاسی عیاشی کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔

جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ہمارے سیاستداں جلسے جلوس، مظاہرے ریلیاں بلکہ ریلوں یعنی ملین مارچ کے شوقین تو ہیں ہی صنعتی اور چھوٹے بڑے کاروباری ادارے اور ذرایع آمد و رفت کی بندش بھی ان کا پسندیدہ کھیل ہے۔ ہم معمولی معمولی باتوں کو بہانہ بناکر بازار، ٹرانسپورٹ، تعلیمی ادارے ، سرکاری اور نجی دفاتر ہی نہیں عدالتیں حتیٰ کہ اسپتال تک بند کروا دیتے ہیں۔ بلکہ اب تو خود وکیل اور ڈاکٹراپنے طور پر بھی ہڑتالیں کرنے لگے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ اپنے جائز یا ناجائز مطالبوں کو تسلیم کروانے کی غرض سے ہم لاشوں تک کو سڑکوں یا چوراہوں پر رکھ کر بیٹھ جاتے ہیں جو افسوس ناک ہے۔ مسلمان میت کا تو یہ حق ہے کہ عزت و احترام کے ساتھ جتنا جلد ہو سکے اس کی تدفین عمل میں لائی جائے نہ کہ تماشہ بنا کر اس کی توہین کی جائے اور اسے سیاست چمکانے کا ذریعہ بنایا جائے ۔

ہڑتا لوں کے نتیجے میں ہونے والے مالی نقصانات کے اعداد وشمار تواکثر بتائے جاتے رہے ہیں لیکن کسی نے یہ بتانے کی کبھی کوشش نہیں کی کہ ایک دن کی ہڑتال کے نتیجے میں کتنے بچے اور بڑے بھوکے سوئے، کتنے مریض دوا نہ ملنے کے سبب تڑپتے رہے اور ان کے مرض میں اضافہ ہوا اور کتنے مریض اسپتال یا ڈاکٹروں تک پہنچ نہ پانے کے سبب اللہ کو پیارے ہوگئے ، نہ کبھی یہ بتایا جاتا ہے کہ جیل سے زیر سماعت قیدیوں کو عدالت میں پیش نہ کیے جانے یا وکیلوں کی ہڑتال کے سبب کتنے ملزم فیصلے یا ضمانتیں حاصل نہ کر سکے جس کی وجہ سے ان کی جیل کی زندگی میں اضافہ ہوگیا ۔


ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ کتنے بیروزگار انٹرویو کے لیے نہ جا سکے اور وہ ملازمت سے محروم رہ گئے۔ اس طرح کے بہت سے چھوٹے بڑے سوال ہیں جن کا کسی کے پاس نہ جواب ہے نہ اس محرومی کا کوئی جواز۔ہڑتال کے اچانک اعلان کی وجہ سے شہریوں کو جن میں خاص طور پر بچے،خواتین اور بزرگ شامل ہیں جس اذیت سے دوچار ہونا پڑتا ہے اس کا تو تصور ہی تکلیف دہ ہے۔ یہ تو یقینی امر ہے کہ ہمارے سیاستدان خاص طور پر بونے سڑکوں، چوراہوں اور میدانوں میں اپنی فتنہ انگیزی، کذب بیانی، بہتان تراشی اور فحش کلامی سے باز تو آنے کے نہیں اس لیے مشورہ نہیں ان سے مودبانہ بلکہ عاجزانہ درخواست ہی کی جاسکتی ہے کہ آپ اپنی سیاسی سرگرمیوں کو اس طرح منظم کریں کہ عام لوگوں کو تکلیف پہنچے نہ ان کے روز مرہ معاملات میں خلل اندازی ہو نہ صنعتی اور تجارتی سرگرمیاں بند ہوں ۔

ایسا کرنے سے ملک اور قوم کا فائدہ تو ہے ہی لیکن خود ان سیاستدانوں کا بھی فائدہ ہے کہ ان کے حامیوں کی تعداد میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوسکتا ہے ۔ جلسہ اور دھرنوں کے لیے شاہراہوں سے ہٹ کر کسی ایسے میدان کا انتخاب کیا جائے کہ لوگوں کی آزادانہ آمدورفت کسی طور بھی متاثر نہ ہو ۔ جلسوں میں شرکت کے لیے لوگ قافلوں یا ٹولیوں کی صورت میں آنے کی بجائے انفرادی طور پر یا گاڑیوں کے ذریعے آئیں تاکہ امن و امان کا مسٔلہ پیدا ہو نہ ذرایٔع آمدورفت میں رکاوٹ ۔ جلوس، ریلی یا مارچ سے حتی الامکان اجتناب برتا جائے لیکن کسی کو اس کا شوق پورا ہی کرنا ہو تو دو رویہ سڑک کے صرف ایک طرف ایسا کیا جائے اور ایک حصہ آمد و رفت کے لیے پوری طرح کھلا رکھا جائے۔

خوشی ہو یا غمی، احتجاج ہوں یا مظاہرے، ریلیاں ہوں یا ریلے ۔ جلسے ہوں یا جلوس ہر حال میں اس امر کو یقینی بنایاجائے کہ ہر سطح کی درسگاہیں، امتحانات، اسپتال ، سرکاری اور نجی دفاتر، چھوٹے بڑے صنعتی وکاروباری اداروں کی سرگرمیوں اور ذرایع آمد و رفت میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔ اخلاق اور قانون بھی اس کی اجازت نہیں دیتا کہ کوئی اپنے ذاتی یا گروہی مفادات یا خواہشات کی تکمیل کی خاطر عام لوگوںکی آزادی میں خلل انداز ہو یا ان کے لیے تکلیف کا باعث بنے۔اگر کسی تجارتی یا صنعتی ادارے کے ملازمین کو احتجاج یا مظاہرہ کرنا ہو تو اس کا بہترین وقت کھانے کا وقفہ ہے یا پھر شفٹ سے فارغ ہونے والے ایسا کریں تاکہ صنعتی پیداوار میں رکاوٹ پیدا نہ ہو اگر پیداوار کم ہو گی اور مقامی مارکیٹ میں یا بیرون ملک مال کی فراہمی میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے اور ادارہ جس سے ان کا روزگار وابستہ ہے نقصان سے محفوظ رہے۔

تسلیم کہ آئین ہمیں احتجاج کا حق دیتا ہے لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ اس حق کو آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ہی استعمال کیا جائے ۔ یعنی جہاں دوسرے کی ناک شروع ہوتی ہے وہاں میری آزادی ختم ہوجاتی ہے۔ اساتذۂ کرام کے بعد وکیل اور ڈاکٹر معاشرہ کا سب سے زیادہ معزز اور اہم طبقہ ہے ان کی ہڑتال اور مظاہروں کے سبب بے گناہ سمیت ملزموں اور مجرموں کی سزا میں غیر ضروری طوالت اور مریضوں کے مرض میں اضافہ حتیٰ کہ کچھ کی موت بھی واقع ہونے کا خطرہ ہوتا ہے ۔اس لیے اگروکیلوں، ڈاکٹروں یا نرسوں وغیرہ کواحتجاج یا ہڑتال کرنا ہی ہو تو اس کا بہترین اور انسانیت دوست طریقہ یہ ہے کہ جو فارغ ہوں وہ احتجاج میں شامل ہوجائیں اور جس کا مقدمہ ہو یا جو ڈاکٹر ڈیوٹی پر ہو وہ اپنے فرائض بدستور انجام دیتا رہے اورجب کام سے فارغ ہو ں تو وہ بھی احتجا ج میں شامل ہوجائیں اس سے زیر سماعت قیدی یا دیگر موکلین متاثر ہوں گے نہ مریض پریشان ۔ اگر ہمارے رہنما فی الحقیقت عوام دوست اور ذمے دار ہوں تو ہڑتال کو بھی اذیت سے پاک بناسکتے ہیں اور وہ اس طرح کہ اس کے اوقات مقرر کردیے جائیں۔

مثلا صبح نو سے چار بجے سہ پہر تک ہڑتال ہو ۔اس سے تعلیمی ، صنعتی ، سرکاری اور نجی دفتری سرگرمیاں بھی جاری رہیں گی ۔گھریلوملازمین اور ایسے بیروزگار افراد جو روزانہ تلاش روزگار میں نکلتے ہیں وہ بھی کچھ کام حاصل کر سکیں گے اور رکشا ٹیکسی والے بھی کچھ کما لیں گے تاکہ شام کو ان سب کے چولہے جل پائیں ۔ آ زاد وخود مختار اور زندہ و بیدار قوم کے افراد ہونے کا ثبوت دے کر ہی ہم اپنے مستقبل کو روشن و تابناک اور خوشحال و ترقی یافتہ بنا اور ملک کو باعزت مقام دلا سکتے ہیں اور ایسا ہر قسم کی سیاسی عیاشی کو یکسر ترک کرکے ہی ممکن ہے۔
Load Next Story