بات کچھ اِدھر اُدھر کی ابو مجھے پستول چاہئے
ابو میں نے فیصلہ کرلیا ہے جب میرے اسکول میں بھی طالبان آئیں گے تو میں انہیں ماروں گا۔
صبح جب بیٹے کو اسکول لے جانے نکلا تو بیٹے نے فرمائش کردی کہ ابو مجھے آج پستول دلائیں۔ میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا بیٹا بری بات ہے کوئی کھیل کا دوسرا سامان لے لینا، پستول کیوں؟ ابو میں نے فیصلہ کرلیا ہے جب میرے اسکول میں بھی طالبان آئیں گے تو میں انہیں ماروں گا، آپ بیٹ بال مت لائیے گا اب میں بڑا ہوگیا ہوں، یہ کہہ کر میرا بیٹا اسکول کے اندر چلا گیا، لیکن میں باہر کھڑا اس کی ہمت اور جرأت کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکا۔
میرا بیٹا تو اپنا فیصلہ دے کر چلا گیا، لیکن میں اسے کیا کہتا کہ ہمارے ملک میں ہمشیہ سے ہی فیصلوں کا فقدان رہا ہے، اور اس کی بنیادی وجہ صرف اور صرف لیڈرشپ کی کمزوری اور بزدلی ہے۔ تاریخ کے عظیم رہنماؤں میں سے شاید ہی کسی نے جیب سے پرچہ نکال کر رک رک کر پڑھتے ہوئے اعلان جنگ کیا ہو، ایسے فیصلے دلیری سے کئے جاتے ہیں، ان میں اگر مگر چونکہ اور چناچہ کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ اور ہماری لیڈرشپ کا یہ عالم ہے کہ دشمن کا نام لیتے ہوئے یوں شرماتے ہیں جیسے بھلے وقتوں میں عورت شوہر کا نام لیتے ہوئے شرماتی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمیں نہ جینا آیا نہ لڑنا نہ مرنا آیا۔ ہم مرنے والوں کا سوگ بھی مسکراتے ہوئے ناک پہ چشمہ رکھ کے تصاویر اتروا کے منایا۔ ہم اس بات پر خوش ہیں کہ 960 افراد کی جان بچالی گئی، لیکن جو140 سے زائد شہید ہوئے ان کا کیا؟
ڈوبی ہیں میری انگلیاں خود اپنے لہو میں
یہ کانچ کے ٹکڑوں کو اٹھانے کی سزا ہے
مجھے اس بات کا یقین نہیں ہے لیکن میرے چند دوست بضد ہیں کہ سانحہ پشاور نے ہمیں ایک قوم کی صورت میں ڈھال دیا ہے، خدا کرے ایسا ہی ہو۔ کیونکہ اگر زندہ رہنا ہے تو ہمیں ایک قوم بننا ہوگا، اپنے جنونی پن پہ قابو پانا ہوگا، اپنی سیاسی جہالت ختم کرنی ہوگی،ریاست کے تمام ستونوں کومل کر کام کرنا ہوگا۔ عوام الناس کی جان و مال کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے جسے پورا کرنے میں ابھی تک وہ ناکام رہی ہے، لہذا ریاست کو چاہئے کہ اپنے فرائض پورے کرے اور عوام بھی اپنے طور پر مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائیں۔
اور سب سے اہم بات یہ کہ ہمیں اپنے دشمن کا نام لینا سیکھنا ہوگا۔ وہ قتل کرکے نہیں چھپتے لیکن ہم قتل ہونے کے باوجود قاتل کا نام اس وقت تک نہیں لیتے جب تک وہ خود اعلان نہ کردے، جب تک ریاست دشمن کا نام لے کر عوام پر اعتماد کرتے ہوئے اعلان جنگ نہیں کرے گی تب تک ہم یہ جنگ کیسے جیت سکتے ہیں۔ اگر اس جنگ کو جیتنا ہے تو ہمیں اپنی نئی نسل کو بتانا ہوگا کہ دشمن کون ہے۔ ہمیں ریاست پر اور ریاست کو ہم پر اعتماد کرنا ہوگا۔ اگر وقت کے حکمرانوں کو خوف خدا ہےاور شہیدوں کے لہو سے وفاداری نبھانی ہے تو بم دھماکوں کے تمام ملزمان کو فوری تختہ دار پہ لٹکانا ہوگا۔
لیکن دوسری طرف مجھے اپنی اولاد کی نظر میں وطن پاک اور اس کی ریاست کے ستونوں کا بھرم رکھنا بھی ضروری تھا۔ سو اپنے بیٹے کو میں نے سمجھا دیا کہ اب پشاور دھماکے کے نتیجے میں ہم ایک بے ہنگم ہجوم سے قوم بن چکے ہیں، اب ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرے گی اور انشاءاللہ تمہیں پستول خریدنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ بس بیٹا دعا کرو کہ ہمارے آباؤ اجداد کا وطن سے کیا گیا وعدہ ہم نبھا سکیں، انہوں نے پاکستان بنایا تھا ہم پاکستان بچا ج۔ (آمین)
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
میرا بیٹا تو اپنا فیصلہ دے کر چلا گیا، لیکن میں اسے کیا کہتا کہ ہمارے ملک میں ہمشیہ سے ہی فیصلوں کا فقدان رہا ہے، اور اس کی بنیادی وجہ صرف اور صرف لیڈرشپ کی کمزوری اور بزدلی ہے۔ تاریخ کے عظیم رہنماؤں میں سے شاید ہی کسی نے جیب سے پرچہ نکال کر رک رک کر پڑھتے ہوئے اعلان جنگ کیا ہو، ایسے فیصلے دلیری سے کئے جاتے ہیں، ان میں اگر مگر چونکہ اور چناچہ کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ اور ہماری لیڈرشپ کا یہ عالم ہے کہ دشمن کا نام لیتے ہوئے یوں شرماتے ہیں جیسے بھلے وقتوں میں عورت شوہر کا نام لیتے ہوئے شرماتی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمیں نہ جینا آیا نہ لڑنا نہ مرنا آیا۔ ہم مرنے والوں کا سوگ بھی مسکراتے ہوئے ناک پہ چشمہ رکھ کے تصاویر اتروا کے منایا۔ ہم اس بات پر خوش ہیں کہ 960 افراد کی جان بچالی گئی، لیکن جو140 سے زائد شہید ہوئے ان کا کیا؟
ڈوبی ہیں میری انگلیاں خود اپنے لہو میں
یہ کانچ کے ٹکڑوں کو اٹھانے کی سزا ہے
مجھے اس بات کا یقین نہیں ہے لیکن میرے چند دوست بضد ہیں کہ سانحہ پشاور نے ہمیں ایک قوم کی صورت میں ڈھال دیا ہے، خدا کرے ایسا ہی ہو۔ کیونکہ اگر زندہ رہنا ہے تو ہمیں ایک قوم بننا ہوگا، اپنے جنونی پن پہ قابو پانا ہوگا، اپنی سیاسی جہالت ختم کرنی ہوگی،ریاست کے تمام ستونوں کومل کر کام کرنا ہوگا۔ عوام الناس کی جان و مال کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے جسے پورا کرنے میں ابھی تک وہ ناکام رہی ہے، لہذا ریاست کو چاہئے کہ اپنے فرائض پورے کرے اور عوام بھی اپنے طور پر مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائیں۔
اور سب سے اہم بات یہ کہ ہمیں اپنے دشمن کا نام لینا سیکھنا ہوگا۔ وہ قتل کرکے نہیں چھپتے لیکن ہم قتل ہونے کے باوجود قاتل کا نام اس وقت تک نہیں لیتے جب تک وہ خود اعلان نہ کردے، جب تک ریاست دشمن کا نام لے کر عوام پر اعتماد کرتے ہوئے اعلان جنگ نہیں کرے گی تب تک ہم یہ جنگ کیسے جیت سکتے ہیں۔ اگر اس جنگ کو جیتنا ہے تو ہمیں اپنی نئی نسل کو بتانا ہوگا کہ دشمن کون ہے۔ ہمیں ریاست پر اور ریاست کو ہم پر اعتماد کرنا ہوگا۔ اگر وقت کے حکمرانوں کو خوف خدا ہےاور شہیدوں کے لہو سے وفاداری نبھانی ہے تو بم دھماکوں کے تمام ملزمان کو فوری تختہ دار پہ لٹکانا ہوگا۔
لیکن دوسری طرف مجھے اپنی اولاد کی نظر میں وطن پاک اور اس کی ریاست کے ستونوں کا بھرم رکھنا بھی ضروری تھا۔ سو اپنے بیٹے کو میں نے سمجھا دیا کہ اب پشاور دھماکے کے نتیجے میں ہم ایک بے ہنگم ہجوم سے قوم بن چکے ہیں، اب ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرے گی اور انشاءاللہ تمہیں پستول خریدنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ بس بیٹا دعا کرو کہ ہمارے آباؤ اجداد کا وطن سے کیا گیا وعدہ ہم نبھا سکیں، انہوں نے پاکستان بنایا تھا ہم پاکستان بچا ج۔ (آمین)
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔