پاکستان ایک نظر میں جانے کب ہوں گے کم
سب میری وجہ سے ہوا ہے، میں نے اُسے اسکول کیوں بھیجا؟ آخر میں نے کیوں بھیجا؟
سب کام مکمل ہے؟ نقاب پوش نے اپنے ساتھی سے پوچھا
ایک بار دہراؤ پھر؟
ہاں ہاں یاد ہے سب مجھے،اسکول میں پیچھے والی بلڈنگ سے گھسنا ہے،جو سامنے آیا اس کو اڑانا ہے،ٹیچرز کو یرغمال بنا کر رکھنا ہے اور جو بھاگے اُس کو اوپر پہنچا دینا ہے
پر سر چھوٹے بچے اُن کا کیا قصور؟
ابے قصور جس کا بھی ہو،ہمیں اپنا مفاد دیکھنا ہے،ملکی سطح پر کون ہمارا سوچتا ہے
اور جب بچے اور ٹیچرز بھاگتے ہوئے باہر کی طرف تو تم نے کیا کرنا ہے؟ یاد ہے نا
ہاں ہاں!یاد ہے
٭٭٭٭٭
سنیں آج مصطفی کی برتھ ڈے ہے، جب وہ اسکول سے آئے گا تب اس کے لئے سپرائز رکھیں گے کیسا؟ مریم نے اپنے شوہر سے کہا
ہاں ہاں میں بھی اُس کے لئے کیک لے آؤں گا ۔اور کچھ؟ ارسلان نے مسکراتے ہوئے کہا۔
نہیں بس یہی ، آج پورا 9 سال کا ہو جائے گا ،کب سے پوچھ رہا تھاکہ مجھے کیا گفٹ دے گی ماما؟
اچھا چلو میں جارہا ہوں،اُس کو بتانا نہیں کہ میں جلدی آؤ ں گا ،اُس کے لئے میں نے سائیکل بھی لے لی ہے۔ارسلان نے کہا۔
٭٭٭٭
اُٹھ جاؤ !اسکول نہیں جانا ،شاباش بی اے گڈ گڑل،ماریہ کی امی نے سر پر ہاتھ پھیرا۔
نئیں نا امی مینے نئی(نہیں جانا)۔ گندی ٹیچرز ڈانٹی ہیں نا مجھے ۔ ماریہ نے ضد کرتے ہوئے کہا۔
چلے جاؤ نا ،واپسی پر تمہارے لئے مزے کا سوپ بناؤں گی میں۔ امی نے لالچ دیتے ہوئے کہا۔
چلو اٹھو وین آنے والی ہے۔
٭٭٭٭
چلو بچوں آج ہم پڑھیں گے۔ ٹیچر نے پڑھانے کے لئے کہا ہی تھا کہ نیچے سے تڑ تڑ فائرنگ کی آواز سنائی دی اوراسکول چیخوں سے گونج اٹھا۔
ٹیچرنے بھاگ کر باہر دیکھا تو کچھ کالے کپڑوں میں ملبوس آدمی اسپورٹس گراؤنڈ میں معصوم بچوں کے سروں اور ٹانگوں پر گولیاں مارتے جارہے تھے۔ دور آڈیٹوریم میں بھی بھاگم دوڑی کا سماں تھا۔
ٹیچرنے خوفزدہ اندازمیں بچوں کو بچانے کا سوچا۔
میری جان چلے جائے مگر اَن معصوم بچوں کو کچھ نہیں ہونے دونگی۔ 40 بچوں کو سنبھالنا ایک ٹیچر کے بس کی بات نہ تھی۔
سب بچوں جلدی سے کرسی کے نیچے چھپ جاؤ۔ میں دروازے کو لاک کردیتی ہوں۔ اس نے گھبرائے ہوئے اندازمیں کہا
بچے خوفزدہ انداز میں ایک دوسرے سے چمٹے ہوئے تھے۔
میں نہیں کھولوں گی۔ ہرگز نہیں! ٹیچر نے کہا
دُھس دُھس! کالے کپڑے میں ملبوس آدمی نے ٹیچر کو یرغمال بنا لیا۔باقی ساتھیوں کی جدید رائفل شعلہ اگلنے لگی۔ جو بچہ یا بچی ہلتی اُس کے سر اور ٹانگ پر گولی مار کر ٹھنڈا کردیا جاتا۔ تھوڑی دیر میں آدھے سے زیادہ بچے شہید ہوچکے تھے۔
٭٭٭٭
پاکستان آرمی دہشتگردوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوچکی تھی۔ ڈی جی رینجرز کی ہدایات پر دہشتگردوں کو جہنم رسید کرنے کا مشن شروع ہوچکا تھا۔اب تک کئی مارے جاچکے تھے۔ ایمبولینس والے معصوم لوگوں کی زندگی بچانے میں کوشاں تھے۔ ایمرجنسی نافذ ہوچکی تھی۔100 سے زائد بچے شہید کردئیے گئے تھے۔ قیامت کا سماں تھا۔
٭٭٭٭
مصطفی کی ٹانگ ایک طرف پڑی ہوئی تھی، اس کا جسم ایک طرف تھا۔ وہ ساری زندگی کے لئے مفلوج ہوچکا تھا۔ زندگی تو بچ چکی تھی۔ مگر سائیکل چلانے والے پاؤں نے اُس سے بے وفائی کرلی ۔ اُس کا برٹھ ڈے گفت یہی تھا کہ وہ ساری زندگی کے لئے مفلوج ہوچکا تھا۔مصطفی کی امی اس کی حالت دیکھ کر نیم پاگل ہوچکی تھیں۔
٭٭٭٭
دوسری طرف ننھی ماریہ کا جوتا مل گیا تھا ، لیکن باقی جسم نہ مل سکا ۔جوتا بھی اُس کے والدین کو اُس کی کلاس سے ملا ،جس کا رنگ گلاب کے پھول کی طرح لال ہوچکا تھا۔اُس کی امی بار بار دریافت کرتی جاتی اورہذیانی کیفیت میں سر پیٹیتی
''سب میری وجہ سے ہوا ہے، میں نے اُسے اسکول کیوں بھیجا؟ جب وہ جانے سے منع بھی کررہی تھی، آخر میں نے کیوں بھیجا؟''
جانے کب ہوں گے کم
اِس دنیا کے غم
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ایک بار دہراؤ پھر؟
ہاں ہاں یاد ہے سب مجھے،اسکول میں پیچھے والی بلڈنگ سے گھسنا ہے،جو سامنے آیا اس کو اڑانا ہے،ٹیچرز کو یرغمال بنا کر رکھنا ہے اور جو بھاگے اُس کو اوپر پہنچا دینا ہے
پر سر چھوٹے بچے اُن کا کیا قصور؟
ابے قصور جس کا بھی ہو،ہمیں اپنا مفاد دیکھنا ہے،ملکی سطح پر کون ہمارا سوچتا ہے
اور جب بچے اور ٹیچرز بھاگتے ہوئے باہر کی طرف تو تم نے کیا کرنا ہے؟ یاد ہے نا
ہاں ہاں!یاد ہے
٭٭٭٭٭
سنیں آج مصطفی کی برتھ ڈے ہے، جب وہ اسکول سے آئے گا تب اس کے لئے سپرائز رکھیں گے کیسا؟ مریم نے اپنے شوہر سے کہا
ہاں ہاں میں بھی اُس کے لئے کیک لے آؤں گا ۔اور کچھ؟ ارسلان نے مسکراتے ہوئے کہا۔
نہیں بس یہی ، آج پورا 9 سال کا ہو جائے گا ،کب سے پوچھ رہا تھاکہ مجھے کیا گفٹ دے گی ماما؟
اچھا چلو میں جارہا ہوں،اُس کو بتانا نہیں کہ میں جلدی آؤ ں گا ،اُس کے لئے میں نے سائیکل بھی لے لی ہے۔ارسلان نے کہا۔
٭٭٭٭
اُٹھ جاؤ !اسکول نہیں جانا ،شاباش بی اے گڈ گڑل،ماریہ کی امی نے سر پر ہاتھ پھیرا۔
نئیں نا امی مینے نئی(نہیں جانا)۔ گندی ٹیچرز ڈانٹی ہیں نا مجھے ۔ ماریہ نے ضد کرتے ہوئے کہا۔
چلے جاؤ نا ،واپسی پر تمہارے لئے مزے کا سوپ بناؤں گی میں۔ امی نے لالچ دیتے ہوئے کہا۔
چلو اٹھو وین آنے والی ہے۔
٭٭٭٭
چلو بچوں آج ہم پڑھیں گے۔ ٹیچر نے پڑھانے کے لئے کہا ہی تھا کہ نیچے سے تڑ تڑ فائرنگ کی آواز سنائی دی اوراسکول چیخوں سے گونج اٹھا۔
ٹیچرنے بھاگ کر باہر دیکھا تو کچھ کالے کپڑوں میں ملبوس آدمی اسپورٹس گراؤنڈ میں معصوم بچوں کے سروں اور ٹانگوں پر گولیاں مارتے جارہے تھے۔ دور آڈیٹوریم میں بھی بھاگم دوڑی کا سماں تھا۔
ٹیچرنے خوفزدہ اندازمیں بچوں کو بچانے کا سوچا۔
میری جان چلے جائے مگر اَن معصوم بچوں کو کچھ نہیں ہونے دونگی۔ 40 بچوں کو سنبھالنا ایک ٹیچر کے بس کی بات نہ تھی۔
سب بچوں جلدی سے کرسی کے نیچے چھپ جاؤ۔ میں دروازے کو لاک کردیتی ہوں۔ اس نے گھبرائے ہوئے اندازمیں کہا
بچے خوفزدہ انداز میں ایک دوسرے سے چمٹے ہوئے تھے۔
میں نہیں کھولوں گی۔ ہرگز نہیں! ٹیچر نے کہا
دُھس دُھس! کالے کپڑے میں ملبوس آدمی نے ٹیچر کو یرغمال بنا لیا۔باقی ساتھیوں کی جدید رائفل شعلہ اگلنے لگی۔ جو بچہ یا بچی ہلتی اُس کے سر اور ٹانگ پر گولی مار کر ٹھنڈا کردیا جاتا۔ تھوڑی دیر میں آدھے سے زیادہ بچے شہید ہوچکے تھے۔
٭٭٭٭
پاکستان آرمی دہشتگردوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوچکی تھی۔ ڈی جی رینجرز کی ہدایات پر دہشتگردوں کو جہنم رسید کرنے کا مشن شروع ہوچکا تھا۔اب تک کئی مارے جاچکے تھے۔ ایمبولینس والے معصوم لوگوں کی زندگی بچانے میں کوشاں تھے۔ ایمرجنسی نافذ ہوچکی تھی۔100 سے زائد بچے شہید کردئیے گئے تھے۔ قیامت کا سماں تھا۔
٭٭٭٭
مصطفی کی ٹانگ ایک طرف پڑی ہوئی تھی، اس کا جسم ایک طرف تھا۔ وہ ساری زندگی کے لئے مفلوج ہوچکا تھا۔ زندگی تو بچ چکی تھی۔ مگر سائیکل چلانے والے پاؤں نے اُس سے بے وفائی کرلی ۔ اُس کا برٹھ ڈے گفت یہی تھا کہ وہ ساری زندگی کے لئے مفلوج ہوچکا تھا۔مصطفی کی امی اس کی حالت دیکھ کر نیم پاگل ہوچکی تھیں۔
٭٭٭٭
دوسری طرف ننھی ماریہ کا جوتا مل گیا تھا ، لیکن باقی جسم نہ مل سکا ۔جوتا بھی اُس کے والدین کو اُس کی کلاس سے ملا ،جس کا رنگ گلاب کے پھول کی طرح لال ہوچکا تھا۔اُس کی امی بار بار دریافت کرتی جاتی اورہذیانی کیفیت میں سر پیٹیتی
''سب میری وجہ سے ہوا ہے، میں نے اُسے اسکول کیوں بھیجا؟ جب وہ جانے سے منع بھی کررہی تھی، آخر میں نے کیوں بھیجا؟''
جانے کب ہوں گے کم
اِس دنیا کے غم
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔