پاکستان ایک نظر میں چھوٹے چھوٹے حادثے

یہ تھوڑے تھوڑے کرکے مرنے والے کیا بچے نہیں ہیں؟ کیا یہ معصوم و مظلوم نہیں ہیں؟


محمد عامر December 19, 2014
ہم وہ زندہ دل بہادر قوم ہیں جن پر چھوٹے چھوٹے حادثے اب اثر ہی نہیں کرتے۔ کیونکہ اِس ملک میں روزانہ کئی لوگ کسی نہ کسی لاپرواہی کی وجہ سے دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں لیکن چونکہ وہ کم ہوتے ہیں اِس لیے کوئی نہیں جاگتا۔ فوٹو: فائل

یہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہو گا کہ ہم اس وقت اجتماعی اخلاقی پستی کی آخری حدوں کی شکار وہ قوم ہیں کہ جنھیں آپ جس طرف چاہیں موڑ سکتے ہیں، میرے پیارے دیس میں عجب چال چلن ہے، یہاں انقلاب کی خواہش تو عام ہے مگر ہم اس بات سے نابلد ہیں کہ وہ قومیں جو اجتماعی اخلاقی پستی کی شکار ہوں وہاں کبھی انقلاب نہیں آتے اورنہ ہی کوئی مسیحا ان کے درمیان جنم لیتا ہےاور جنم لے ہی لے تو ایسی قومیں خود ہی اپنے مسیحا مار دیا کرتیں ہیں، ایسی قوم میں صرف خواہش ہوتی ہے مگر اس خواہش کو حقیقت میں بدلنے کے لئے نہ ان میں عملی فکر ہوتی ہے نہ زندہ ضمیر ، ان کی ہر منطق اور ان کی ہر پالیسی کے پیچھے آپ کوبس ایک ہی سوچ کارفرما نظر آئے گی اور وہ ہے " ڈنگ ٹپائو" ۔۔۔

ابھی کل ہی کی بات ہے میرے دیس کے شہر پشاور میں دہشت گردوں نے کتنے معصوم اور مظلوم بچوں کو وحشت و بربریت سے شہید کر دیا اور جب یہ خبر میڈیا پر آئی تو میرے دیس کی ہر آنکھ پُر نم، ہر کلیجہ شل تھا ۔ مجھ سمیت ہر کس و ناکس نے جس کی جہاں تک پہنچ تھی اس پر اپنے درد کا اظہار کیا، کسی نےسوشل میڈیا پر بلیک ڈےقرار دے کر دہشت گردوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا مطالبہ پیش کیا تو کسی نے الیکٹرک میڈیا پرسرِ عام پھانسی کی بات کی، کسی نے نجی محفل میں تو کسی نے ٹی وی سکرین کے سامنے گھر میں بیٹھ کر اسکی کھل کے مذمت کی۔ ہم سب دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے ان معصوم شہداء کے غم میں چُور ہیں اور ہم سب ان دہشت گردوں کے ٹکڑے کرنے کو بے چین ہیں اور ہمیں بے چین ہونا بھی چاہیے کیونکہ ہمارے معصوم شہید کیے گئے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ ان معصوموں کو شہید کرنے والوں اور انکے ساتھیوں کو سخت سے سخت سزائیں ملیں ۔

مگر رکیے یہاں ایک سوال مجھے پریشان کرتا ہے کہ تھر میں رواں برس اب تک بھوک سےمرنے والے 591 معصوم بچوں کے قاتلوں کا کیا؟ جو بھی ان کے قتل کے ذمہ دار ہیں انکو کیوں نظر انداز کیا جا رہا ہے؟ انھیں کوئی کیوں ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا نہیں کہہ رہا ؟ سرگودھا چلڈرن ہسپتال میں کیا ہوا، آکسیجن کی کمی سے کتنے دن تک کتنے بچوں کی جان گئی، کیا ہوا صرف نوٹس لے لیا گیا؟

سانحہ پشاور کے بعد ایک کمیٹی بنا دی گئی ہے جو سات دن میں لائحہ عمل پیش کرے گی، پتہ نہیں اب تک ایسی کتنی کمیٹیاں کتنی تجاویز پیش کر چکیں اور ان پر کیا عمل ہوا وہ تو اس سانحہ سے ہی سمجھا جا سکتا ہے۔

ہم وہ زندہ دل بہادر قوم ہیں جن پر چھوٹے چھوٹے حادثے اب اثر ہی نہیں کرتے، یہاں یاد داشت کے لئے بتا دوں کہ چار پانچ بچوں کا قتل یا اس معاملے میں لا پرواہی برتنے کو ہمارے ہاں چھوٹا حادثہ سمجھنے کی عادت ہو گئی ہےاورایسے معاملات میں امیرِ شہر کے نوٹس لے لینے کو ہی بڑی بات بلکہ عین غریب پروری سمجھا جاتا ہے ۔ روز ایک، ایک ، دو، دو کر کے ہمارے کتنے بچے ہماری نا اہلیوں کی بھینٹ چڑھ گئے، تھوڑے تھوڑے کر کے کتنے بچے مر گئے ؟کتنے مر رہے ہیں ؟کتنے مرنے والے ہیں ؟ مگر یہ چھوٹے چھوٹے حادثے ہماری گنتی میں آتے ہی نہیں۔ میں کسی بس حادثے کے شکار لوگوں کی بات نہیں کر رہا بلکہ نا اہلی کا شکار ہو کر مرنے والوں کی بات کر رہا ہوں، ہماری بے حسی کی اس سے بڑھ کے اور کیا نشانی ہو سکتی ہے کہ تھوڑے تھوڑے کر کے یا اکٹھے پانچ دس بچے جان سے چلے جائیں تو ہمیں کوئی بہت بڑی بات ہی نہیں لگتی، مجھے یقین ہے کہ اگر پشاور سانحے میں بھی دس پندرہ بچے شہید ہوتے تو ہم اس کو ' چھوٹے حادثہ' قرار دیکر نظر انداز کر دیتے،کوئی ان کے ذمہ داران سے بدلہ لینے اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا نہیں سوچتا ۔

یہ تھوڑے تھوڑے کر کے مرنے والے کیا بچے نہیں ہیں؟ کیا یہ معصوم و مظلوم نہیں ہیں ؟ان کے لئے ہم میں سے کسی کا بھی کلیجہ نہیں پھٹتا ، کوئی ان کے لئے شمعیں روشن نہیں کرتا ، بچے تو بچے ہیں صاحب تھوڑے ہوں یا زیادہ ، تھر کے ہوں یا پشاور کے، مائیں تو مائیں ہیں ان کی اپنی اولاد کے غم میں آہ و زاری اور تڑپ بھی ایک سی ہے چاہے ان کا تعلق جہاں سے بھی ہو۔ یہ سب حادثات نا اہلیوں کا شکار ہوئے ہیں ، اور یہ سارے بچے ہی مظلوم و معصوم تھے مگرافسوس ہم میں سے کسی کا کلیجہ نہیں پھٹا اورکوئی ان کے قتل کے ذمہ داران کو تباہ و برباد کرنے کو بے چین نہیں ہے۔ اور کہیں بھی تو کیوں کہیں کہ انکے قتل کے پیچھے امیرِ شہر کی ذاتی ہوس اور نااہلی ہے؟ان کے قتل کے ذمہ داران کو ڈھونڈنے کے لئے ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا پڑے گا اور جیسا کہ میں نے کہا اجتماعی اخلاقی پستی کی شکار قومیں صرف دوسروں کےہی گریبان میں جھانکنے کی خواہشمند ہوتی ہیں .......

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں