دہشت گردوں سے کوئی رعایت نہ برتی جائے
قوم دہشت گردوں سے سخت نفرت کرتی ہے اور چاہتی ہے کہ پاکستان سے دہشت گردوں کا قلع قمع کیا جائے۔
KARACHI:
سانحہ پشاور کے بعد دہشت گردی کے حوالے سے اعلیٰ سطحی پر ہنگامی سرگرمیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔گزشتہ روز وزیراعظم میاں محمد نواز شریف جی ایچ کیو گئے جہاں ان کی اعلیٰ فوجی حکام سے بات چیت ہوئی۔ ادھر چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے چھ خطرناک دہشت گردوں کے ڈیتھ وارنٹس پر دستخط کر دیے ہیں۔
ان افراد کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی طرف سے سزائے موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ گزشتہ روز ہی چیف جسٹس آف پاکستان پشاور گئے اور وہاں ہائی کورٹ کا دورہ کیا اور بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام تعزیتی تقریب میں شرکت کی۔وہ کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل ہدایت الرحمن کے ہمراہ سی ایم ایچ پشاور میں زیر علاج زخمی بچوں کی عیادت کے لیے بھی گئے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے سانحہ پشاور کو قومی سانحہ قرار دیا۔چیف جسٹس آف پاکستان نے میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ پھانسی کی سزاؤں پر قانون کے مطابق عملدآمد کیا جائے گا ،اس سلسلے میں ججز کا اجلاس طلب کر لیاگیا ہے جس میں فیصلے کیے جائیں گے۔ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے بنائی گئی نیشنل پلان آف ایکشن کمیٹی کا پہلا اجلاس گزشتہ روز پارلیمنٹ کمیٹی روم میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کی زیر صدارت ہوا۔یہ اطلاع بھی سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف ،،نیشنل ایکشن پلان ،، کی تیاری کے لیے امریکا سے تعاون مانگا ہے۔
یہ سرگرمیاں خوش آیند ہیں اور ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ پہلی بار پاکستان میں دہشت گردی کے ایشو کو سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔ پاکستان برسوں سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ یہ معاملہ پیچیدہ اور سنگین اس لیے ہوا کہ مقتدر حلقوں میں اس کے حوالے سے ڈھل مل پالیسی بنتی رہی۔ سیاسی حکومتیں اپنے مفادات کے لیے بعض ایسی قوتوں کو بھی اپنے ساتھ رکھتی رہیں جو دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائی کی راہ میں بڑی رکاوٹ تھیں۔ادھر اسٹیبلشمنٹ بھی اچھے اور برے طالبان کے نظریے پر عمل پیرا رہے۔اس صورت حال میں اعلیٰ سطح پر سستی اور حقائق سے چشم پوشی کے کلچر کو فروغ دیا۔ بدقسمتی سے پاکستانی معاشرے کے مختلف طبقات میں دہشت گردی کے حوالے سے ابہام موجود رہا۔
خصوصاً دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتوں کی قیادت نے موقع پرستی کا مظاہرہ کیا اور اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے بعض ایسے اقدامات اٹھائے جس کا فائدہ دہشت گردوں کو پہنچا۔ ملک کی مذہبی قیادت کی کم فہمی کے باعث بھی حالات سنگین ہوئے ۔دینی جماعتوں کی قیادت دہشت گردی کے ہر واقعہ پر افسوس کا اظہار تو کرتی رہیں لیکن یہ افسوس کا اظہار ہمیشہ اگر مگر اور چونکہ چنانچہ کے تناظر میں رہا۔ ملک میں دائیں بازو کے اہل قلم نے بھی صورت حا ل کو پیچیدہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بیوروکریسی میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے بھی درپردہ ان قوتوں کا ساتھ دیا جو دہشت گردوں کا ہم نوالہ ہم پیالہ تھیں۔ ان تمام عوامل نے مل کر پاکستان کو ایسے ملک کا روپ دیا جہاں دہشت گرد جسے چاہیں نشانہ بنا لیں۔انھی عوامل نے ریاست کو دہشت گردوں کے سامنے کمزور کیا۔
سانحہ پشاور نے پوری قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ دہشت گرد ہزاروں پاکستانیوں کو شہید کر چکے ہیں۔پشاور میں انھوں نے درندگی اور سفاکی کی ایسی مثال قائم کی جو جنگل کے معاشروں میں بھی مشکل سے ملتی ہے۔ پاکستان کی حکومت اوراسٹیبلشمنٹ کا امتحان شروع ہو گیا ہے۔ وفاقی حکومت کے سامنے اب کوئی سیاسی بحران نہیں ہے ۔تحریک انصاف کا دھرنا ختم ہو چکا ہے۔ ملک کی بڑی جمہوری پارٹیاں جن میں پیپلز پارٹی سرفہرست ہے وہ حکومت کے ساتھ ہے اور سندھ میں اس پارٹی کی حکومت بھی ہے۔ ملک کی دیگر سیاسی جماعتیں بھی حکومت کے ساتھ ہیں۔ حکومت کو اب دہشت گردی کے حوالے سے اپنا عزم ثابت کرنا ہو گا۔
اسی طرح ملک کی دینی سیاسی جماعتوں اور اہل قلم کو بھی یہ حقیقت سامنے رکھنی چاہیے کہ قوم دہشت گردوں سے سخت نفرت کرتی ہے اور چاہتی ہے کہ پاکستان سے دہشت گردوں کا قلع قمع کیا جائے۔دینی سیاسی جماعتوں کی قیادت اور دائیں بازو کے اہل قلم کو حالات کی نزاکت کا احساس کرنا چاہیے۔ پاکستان صرف اسی صورت میں قائم رہ سکتا ہے جب یہاں سے دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کا صفایا کر دیا جائے۔وزیراعظم نواز شریف اور ملک کی دیگر سیاسی جماعتیں دہشت گردی کے حوالے سے ایک پیج پر آ گئی ہیں۔ پاک فوج قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن کر رہی ہے ۔اب ملک کے سول اداروں پر بھاری ذمے داری آتی ہے کہ وہ بھی اپنی ذمے داری پوری کریں۔ پاکستان کے شہروں اور دیہات میں چھپے ہوئے دہشت گردوں کو قانون کی گرفت میں لایا جائے اور ان کے سرپرستوں کے ساتھ آہنی ہاتھ سے نمٹا جائے۔اسی طریقے سے پاکستان کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔
سانحہ پشاور کے بعد دہشت گردی کے حوالے سے اعلیٰ سطحی پر ہنگامی سرگرمیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔گزشتہ روز وزیراعظم میاں محمد نواز شریف جی ایچ کیو گئے جہاں ان کی اعلیٰ فوجی حکام سے بات چیت ہوئی۔ ادھر چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے چھ خطرناک دہشت گردوں کے ڈیتھ وارنٹس پر دستخط کر دیے ہیں۔
ان افراد کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی طرف سے سزائے موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ گزشتہ روز ہی چیف جسٹس آف پاکستان پشاور گئے اور وہاں ہائی کورٹ کا دورہ کیا اور بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام تعزیتی تقریب میں شرکت کی۔وہ کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل ہدایت الرحمن کے ہمراہ سی ایم ایچ پشاور میں زیر علاج زخمی بچوں کی عیادت کے لیے بھی گئے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے سانحہ پشاور کو قومی سانحہ قرار دیا۔چیف جسٹس آف پاکستان نے میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ پھانسی کی سزاؤں پر قانون کے مطابق عملدآمد کیا جائے گا ،اس سلسلے میں ججز کا اجلاس طلب کر لیاگیا ہے جس میں فیصلے کیے جائیں گے۔ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے بنائی گئی نیشنل پلان آف ایکشن کمیٹی کا پہلا اجلاس گزشتہ روز پارلیمنٹ کمیٹی روم میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کی زیر صدارت ہوا۔یہ اطلاع بھی سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف ،،نیشنل ایکشن پلان ،، کی تیاری کے لیے امریکا سے تعاون مانگا ہے۔
یہ سرگرمیاں خوش آیند ہیں اور ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ پہلی بار پاکستان میں دہشت گردی کے ایشو کو سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔ پاکستان برسوں سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ یہ معاملہ پیچیدہ اور سنگین اس لیے ہوا کہ مقتدر حلقوں میں اس کے حوالے سے ڈھل مل پالیسی بنتی رہی۔ سیاسی حکومتیں اپنے مفادات کے لیے بعض ایسی قوتوں کو بھی اپنے ساتھ رکھتی رہیں جو دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائی کی راہ میں بڑی رکاوٹ تھیں۔ادھر اسٹیبلشمنٹ بھی اچھے اور برے طالبان کے نظریے پر عمل پیرا رہے۔اس صورت حال میں اعلیٰ سطح پر سستی اور حقائق سے چشم پوشی کے کلچر کو فروغ دیا۔ بدقسمتی سے پاکستانی معاشرے کے مختلف طبقات میں دہشت گردی کے حوالے سے ابہام موجود رہا۔
خصوصاً دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتوں کی قیادت نے موقع پرستی کا مظاہرہ کیا اور اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے بعض ایسے اقدامات اٹھائے جس کا فائدہ دہشت گردوں کو پہنچا۔ ملک کی مذہبی قیادت کی کم فہمی کے باعث بھی حالات سنگین ہوئے ۔دینی جماعتوں کی قیادت دہشت گردی کے ہر واقعہ پر افسوس کا اظہار تو کرتی رہیں لیکن یہ افسوس کا اظہار ہمیشہ اگر مگر اور چونکہ چنانچہ کے تناظر میں رہا۔ ملک میں دائیں بازو کے اہل قلم نے بھی صورت حا ل کو پیچیدہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بیوروکریسی میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے بھی درپردہ ان قوتوں کا ساتھ دیا جو دہشت گردوں کا ہم نوالہ ہم پیالہ تھیں۔ ان تمام عوامل نے مل کر پاکستان کو ایسے ملک کا روپ دیا جہاں دہشت گرد جسے چاہیں نشانہ بنا لیں۔انھی عوامل نے ریاست کو دہشت گردوں کے سامنے کمزور کیا۔
سانحہ پشاور نے پوری قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ دہشت گرد ہزاروں پاکستانیوں کو شہید کر چکے ہیں۔پشاور میں انھوں نے درندگی اور سفاکی کی ایسی مثال قائم کی جو جنگل کے معاشروں میں بھی مشکل سے ملتی ہے۔ پاکستان کی حکومت اوراسٹیبلشمنٹ کا امتحان شروع ہو گیا ہے۔ وفاقی حکومت کے سامنے اب کوئی سیاسی بحران نہیں ہے ۔تحریک انصاف کا دھرنا ختم ہو چکا ہے۔ ملک کی بڑی جمہوری پارٹیاں جن میں پیپلز پارٹی سرفہرست ہے وہ حکومت کے ساتھ ہے اور سندھ میں اس پارٹی کی حکومت بھی ہے۔ ملک کی دیگر سیاسی جماعتیں بھی حکومت کے ساتھ ہیں۔ حکومت کو اب دہشت گردی کے حوالے سے اپنا عزم ثابت کرنا ہو گا۔
اسی طرح ملک کی دینی سیاسی جماعتوں اور اہل قلم کو بھی یہ حقیقت سامنے رکھنی چاہیے کہ قوم دہشت گردوں سے سخت نفرت کرتی ہے اور چاہتی ہے کہ پاکستان سے دہشت گردوں کا قلع قمع کیا جائے۔دینی سیاسی جماعتوں کی قیادت اور دائیں بازو کے اہل قلم کو حالات کی نزاکت کا احساس کرنا چاہیے۔ پاکستان صرف اسی صورت میں قائم رہ سکتا ہے جب یہاں سے دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کا صفایا کر دیا جائے۔وزیراعظم نواز شریف اور ملک کی دیگر سیاسی جماعتیں دہشت گردی کے حوالے سے ایک پیج پر آ گئی ہیں۔ پاک فوج قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن کر رہی ہے ۔اب ملک کے سول اداروں پر بھاری ذمے داری آتی ہے کہ وہ بھی اپنی ذمے داری پوری کریں۔ پاکستان کے شہروں اور دیہات میں چھپے ہوئے دہشت گردوں کو قانون کی گرفت میں لایا جائے اور ان کے سرپرستوں کے ساتھ آہنی ہاتھ سے نمٹا جائے۔اسی طریقے سے پاکستان کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔