لمبی عمر پانے کے چھ گُر
دوا کے بجائے صحت بخش غذا سے خود کو تندرست رکھے اور بیماریاں نزدیک نہ پھٹکنے دے
SUKKUR:
سیموئیل ٹیلر کولرج (1772ء۔1834ء) انگریزی کا مشہور شاعر گزرا ہے۔ اس کا عمدہ قول ہے: ''نصیحت کو برف کے گالے کی طرح نرم و ملائم ہونا چاہیے۔ وہ جتنی زیادہ نرم ہوگی، انسان پر اتنے ہی زیادہ مثبت اثرات مرتب کرے گی۔''
انسانی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے، تو معلوم ہوتا ہے کہ انبیائے کرام سے لے کر بزرگان دین اور فلسفیوں تک، کئی لوگوں نے کوشش کی ہے کہ نصیحتوں کے ذریعے بنی نوع انسان کو سیدھا راستہ دکھایا جائے، مدعا یہی تھا کہ وہ روحانی و جسمانی اعتبار سے خوشگوار اور صحت مندانہ زندگی گزاریں اور طویل عمر پائیں۔
اس ضمن میں ماضی کے طبیبوں اور راہنماؤں نے انسانوں کو جو نصیحتیں کیں، ان کی افادیت، ندرت اور دلکشی آج بھی ماند نہیںپڑی۔ انہی میں سے چھ اقوال کا انتخاب درج ہے۔
(1) غذا کو دوا بنائیے اور صحت پائیے۔
یہ نصیحت یونان کے مشہور حکیم بقراط (460 ق م۔370 ق م) کی ہے جسے مغربی طب کا بانی سمجھا جاتا ہے اور اس کی سچائی میں کوئی کلام نہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ روزمرہ زندگی میں چمٹنے والی بہت سی چھوٹی بڑی طبی خرابیاں محض درست غذا کھانے سے دور ہوجاتی ہیں۔ خصوصاً موسم کی سبزی و پھل استعمال کیے جائیں، تو وہ نہ صرف ضروری معدنیات و حیاتین فراہم کرتے بلکہ صحت مند بھی بناتے ہیں۔
چناں چہ عاقل و فہیم وہ ہے جو دوا کے بجائے صحت بخش غذا سے خود کو تندرست رکھے اور بیماریاں نزدیک نہ پھٹکنے دے۔
(2) بیماری سے بچنے کے لیے کم کھائیے اور زندگی بڑھانے کی خاطر پریشانی سے بچیے۔
یہ قول مشہور چینی راہب، چو ہوئی وینگ کا ہے۔ اس کا شمار کنفیوشس ازم کے اہم راہبوں میں ہوتا ہے۔ قول کا پہلا ٹکڑا سولہ آنے سچ ہے۔ انسان زیادہ کھانے ہی سے سینکڑوں امراض کا نشانہ بنتا ہے۔ ازحد کھانا نہ صرف فربہ کرتا ہے بلکہ نظام ہضم پر بے پناہ دباؤ ڈالتا ہے۔ یہ دباؤ مسلسل رہے، تو نظام تلپٹ ہوجاتا ہے۔ لہٰذا عافیت اسی میں ہے کہ انسان زندہ رہنے کے لیے کھانا کھائے، نہ کہ اپنی قبر کھودنے کی خاطر!
دوسرا حصہ بھی ہمیشہ یاد رکھنے کے قابل ہے۔ جدید طب دریافت کرچکی ہے کہ عمر گھٹانے والی کئی بیماریاں پریشانی اور ذہنی و جسمانی دباؤ سے جنم لیتی ہیں۔ بدقسمتی سے دور جدید میں تیز رفتار زندگی کے باعث دباؤ میں اضافہ ہی ہوا ہے اور اسی سے نجات پانے کا ایک آسان طریقہ نماز پڑھنا و عبادت الٰہی کرنا ہے۔
(3) تندرستی معالج نہیں فطرت کی طرف سے ملتی ہے۔ لہٰذا ڈاکٹر علاج شروع کرتے وقت ہمیشہ پہلے فطرت سے رجوع کرے۔
یہ نصیحت مشہور جرمن نژاد سوئس طبیب، فارقلیط (Paracelsus) نے دیگر ڈاکٹروں کو کی تھی۔ یہ یورپی طبیب 1493ء کو پیدا ہوا اور 1541ء میں چل بسا۔ قول عیاں کرتا ہے کہ قدرت الٰہی نے انسان کو ان گنت ایسی جڑی بوٹیاں اور پودے عطا کیے ہیں جو ادویاتی خصوصیات رکھتے ہیں۔
مثال کے طور پر ہلدی کو ہی لیجئے جو کئی بیماریوں کا علاج ہے اور خصوصاً جوڑوں کے درد میں مفید۔ پودینے کی چائے بدہضمی دور کرتی ہے۔ ادرک کا مرہم دکھتے عضلات کو آرام دیتا ہے۔
(4) حرکت میں برکت ہے کے مصداق متحرک پن انسان کو ذہنی و جسمانی طور پر تندرست رکھتا ہے۔
یونانی فلسفی افلاطون کا یہ قول سدا بہار ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ متحرک رہنے اور وزش کرنے کے سینکڑوں فوائد ہیں۔ تاہم لاکھوں مردوزن ورزش سے رغبت نہیں رکھتے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ ورزش کو تفریح بنایا جائے۔ مثلاً شام کو کوئی کھیل کھیلئے، یوگا آزمائیے، تیراکی کیجئے، سائیکل چلائیے۔ نیز کوشش کریں کہ دفتر یا گھر کے کام چل کر کیجئے۔
(5) ذہن و بدن کی اچھی صحت کا راز یہ ہے کہ انسان ماضی پر ماتم نہ کرے، مستقبل کی فکر چھوڑ دے اور حال کے ہر لمحے سے دانش مندانہ طور پر فائدہ اٹھاتے۔
یہ نصیحت بدھ مت کے بانی، مہاتما بدھ نے انسانوں کودی جو سولہ آنے سچ ہے۔ پچھتاوا اور پریشانیاں انسانی صحت پر بڑے منفی اثرات مرتب کرتی ہیں۔ ان آفتوں سے بچنے کا تیر ہدف طریقہ عبادت کرنا ہے اور دوسرا یہ کہ خاموشی و تنہائی کی آغوش میں پناہ لیں۔ پریشان نہ ہوں، کام سے دو ہفتے کی چھٹیاں نہ لیں، بلکہ ابتداًہر ہفتے صرف دس منٹ نکالیے۔ ان دس منٹوں میں کسی پر سکون باغ میں چہل قدمی کیجئے اور فطرت سے قریب ہوں یا پھر اپنے گھر کے برآمدے یا بالکونی میں خاموش بیٹھے اور اردگرد کی زندگی کا جائزہ لیجئے۔
(6) ہزار میل کا سفر پہلے قدم سے شروع ہوتا ہے۔
چین کے معروف فلسفیانہ مذہب، تاؤمت کے بانی، لاؤنزو کا یہ قول اپنی مثال آپ ہے۔ یہ انسانی جوش و جذبے کو مہمیز دیتا اور عیاں کرتا ہے کہ منزل چاہے کتنی ہی کٹھن ہو، پہلا قدم اٹھانے سے سامنے دکھائی دینے لگتی ہے۔
سیموئیل ٹیلر کولرج (1772ء۔1834ء) انگریزی کا مشہور شاعر گزرا ہے۔ اس کا عمدہ قول ہے: ''نصیحت کو برف کے گالے کی طرح نرم و ملائم ہونا چاہیے۔ وہ جتنی زیادہ نرم ہوگی، انسان پر اتنے ہی زیادہ مثبت اثرات مرتب کرے گی۔''
انسانی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے، تو معلوم ہوتا ہے کہ انبیائے کرام سے لے کر بزرگان دین اور فلسفیوں تک، کئی لوگوں نے کوشش کی ہے کہ نصیحتوں کے ذریعے بنی نوع انسان کو سیدھا راستہ دکھایا جائے، مدعا یہی تھا کہ وہ روحانی و جسمانی اعتبار سے خوشگوار اور صحت مندانہ زندگی گزاریں اور طویل عمر پائیں۔
اس ضمن میں ماضی کے طبیبوں اور راہنماؤں نے انسانوں کو جو نصیحتیں کیں، ان کی افادیت، ندرت اور دلکشی آج بھی ماند نہیںپڑی۔ انہی میں سے چھ اقوال کا انتخاب درج ہے۔
(1) غذا کو دوا بنائیے اور صحت پائیے۔
یہ نصیحت یونان کے مشہور حکیم بقراط (460 ق م۔370 ق م) کی ہے جسے مغربی طب کا بانی سمجھا جاتا ہے اور اس کی سچائی میں کوئی کلام نہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ روزمرہ زندگی میں چمٹنے والی بہت سی چھوٹی بڑی طبی خرابیاں محض درست غذا کھانے سے دور ہوجاتی ہیں۔ خصوصاً موسم کی سبزی و پھل استعمال کیے جائیں، تو وہ نہ صرف ضروری معدنیات و حیاتین فراہم کرتے بلکہ صحت مند بھی بناتے ہیں۔
چناں چہ عاقل و فہیم وہ ہے جو دوا کے بجائے صحت بخش غذا سے خود کو تندرست رکھے اور بیماریاں نزدیک نہ پھٹکنے دے۔
(2) بیماری سے بچنے کے لیے کم کھائیے اور زندگی بڑھانے کی خاطر پریشانی سے بچیے۔
یہ قول مشہور چینی راہب، چو ہوئی وینگ کا ہے۔ اس کا شمار کنفیوشس ازم کے اہم راہبوں میں ہوتا ہے۔ قول کا پہلا ٹکڑا سولہ آنے سچ ہے۔ انسان زیادہ کھانے ہی سے سینکڑوں امراض کا نشانہ بنتا ہے۔ ازحد کھانا نہ صرف فربہ کرتا ہے بلکہ نظام ہضم پر بے پناہ دباؤ ڈالتا ہے۔ یہ دباؤ مسلسل رہے، تو نظام تلپٹ ہوجاتا ہے۔ لہٰذا عافیت اسی میں ہے کہ انسان زندہ رہنے کے لیے کھانا کھائے، نہ کہ اپنی قبر کھودنے کی خاطر!
دوسرا حصہ بھی ہمیشہ یاد رکھنے کے قابل ہے۔ جدید طب دریافت کرچکی ہے کہ عمر گھٹانے والی کئی بیماریاں پریشانی اور ذہنی و جسمانی دباؤ سے جنم لیتی ہیں۔ بدقسمتی سے دور جدید میں تیز رفتار زندگی کے باعث دباؤ میں اضافہ ہی ہوا ہے اور اسی سے نجات پانے کا ایک آسان طریقہ نماز پڑھنا و عبادت الٰہی کرنا ہے۔
(3) تندرستی معالج نہیں فطرت کی طرف سے ملتی ہے۔ لہٰذا ڈاکٹر علاج شروع کرتے وقت ہمیشہ پہلے فطرت سے رجوع کرے۔
یہ نصیحت مشہور جرمن نژاد سوئس طبیب، فارقلیط (Paracelsus) نے دیگر ڈاکٹروں کو کی تھی۔ یہ یورپی طبیب 1493ء کو پیدا ہوا اور 1541ء میں چل بسا۔ قول عیاں کرتا ہے کہ قدرت الٰہی نے انسان کو ان گنت ایسی جڑی بوٹیاں اور پودے عطا کیے ہیں جو ادویاتی خصوصیات رکھتے ہیں۔
مثال کے طور پر ہلدی کو ہی لیجئے جو کئی بیماریوں کا علاج ہے اور خصوصاً جوڑوں کے درد میں مفید۔ پودینے کی چائے بدہضمی دور کرتی ہے۔ ادرک کا مرہم دکھتے عضلات کو آرام دیتا ہے۔
(4) حرکت میں برکت ہے کے مصداق متحرک پن انسان کو ذہنی و جسمانی طور پر تندرست رکھتا ہے۔
یونانی فلسفی افلاطون کا یہ قول سدا بہار ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ متحرک رہنے اور وزش کرنے کے سینکڑوں فوائد ہیں۔ تاہم لاکھوں مردوزن ورزش سے رغبت نہیں رکھتے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ ورزش کو تفریح بنایا جائے۔ مثلاً شام کو کوئی کھیل کھیلئے، یوگا آزمائیے، تیراکی کیجئے، سائیکل چلائیے۔ نیز کوشش کریں کہ دفتر یا گھر کے کام چل کر کیجئے۔
(5) ذہن و بدن کی اچھی صحت کا راز یہ ہے کہ انسان ماضی پر ماتم نہ کرے، مستقبل کی فکر چھوڑ دے اور حال کے ہر لمحے سے دانش مندانہ طور پر فائدہ اٹھاتے۔
یہ نصیحت بدھ مت کے بانی، مہاتما بدھ نے انسانوں کودی جو سولہ آنے سچ ہے۔ پچھتاوا اور پریشانیاں انسانی صحت پر بڑے منفی اثرات مرتب کرتی ہیں۔ ان آفتوں سے بچنے کا تیر ہدف طریقہ عبادت کرنا ہے اور دوسرا یہ کہ خاموشی و تنہائی کی آغوش میں پناہ لیں۔ پریشان نہ ہوں، کام سے دو ہفتے کی چھٹیاں نہ لیں، بلکہ ابتداًہر ہفتے صرف دس منٹ نکالیے۔ ان دس منٹوں میں کسی پر سکون باغ میں چہل قدمی کیجئے اور فطرت سے قریب ہوں یا پھر اپنے گھر کے برآمدے یا بالکونی میں خاموش بیٹھے اور اردگرد کی زندگی کا جائزہ لیجئے۔
(6) ہزار میل کا سفر پہلے قدم سے شروع ہوتا ہے۔
چین کے معروف فلسفیانہ مذہب، تاؤمت کے بانی، لاؤنزو کا یہ قول اپنی مثال آپ ہے۔ یہ انسانی جوش و جذبے کو مہمیز دیتا اور عیاں کرتا ہے کہ منزل چاہے کتنی ہی کٹھن ہو، پہلا قدم اٹھانے سے سامنے دکھائی دینے لگتی ہے۔