دہشت گردی اور ریاست کا بیانیہ
کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب اورخلیجی ممالک طالبان اوردوسرے انتہا پسند گروپ کو وافر مقدارمیں مالیاتی امداد فراہم کرتے ہیں۔
آرمی پبلک اسکول اینڈ کالج برائے طلباء پشاور یکم اپریل 1994میں قائم ہوا ، اس درسگاہ میں 1600طالب علم زیر تعلیم ہیں۔ اساتذہ کی تعداد 110ہے جن میںبعض خواتین اساتذہ بھی شامل ہیں ۔70فیصد طلبہ سویلین گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں ۔
طالبان کے قائد ملا فضل اللہ کے دہشت گردوں نے16دسمبر کو اسکول پر حملہ کیا اس حملے میں 144کے قریب طلبہ شہید ہوئے اور اتنی ہی تعداد میں زخمی ہوئے ۔ اسکول کی پرنسپل طاہرہ قاضی کو زندہ جلا کر شہید کردیا۔ بچوں کا قتل تاریخ کا بدترین سانحہ ہے ، پورا ملک صدمے کی حالت میں ہے ، پوری دنیا میں اس قتل عام کی مذمت ہورہی ہے ۔ بھارت میں تمام اسکولوں میں شہید ہونے والے بچوں کی یاد میں 2منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی ۔ وزیر اعظم نواز شریف نے موجودہ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی جس میں دہشت گردوں کو دی جانے والی سزائے موت پر عملدرآمد کا فیصلہ ہوااور ایک ہفتے میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پلان کی تیاری پر اتفاق ہوا ۔
عمران خان نے اس قومی سانحے کی بناء پر 14اگست سے جاری دھرنے کے خاتمے کا اعلان کیا۔ فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف مختصر دورے پر کابل گئے اور افغانستان کے صوبے کنڑمیں روپوش فضل اللہ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ۔ مگر کیا ریاست کا بیانیہ(Narrative) تبدیل کیے بغیر مذہبی انتہا پسندوں کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ جذباتی صورتحال سے ہٹ کر اس بنیادی نکتہ پر غور کی فوری ضرورت ہے ۔ اس سانحے کی وجوہات میں انتظامی نااہلی دہشت گردوں کے معاملے کو سنجیدہ نہ لینا اور ریاستی اداروں کی جانب سے انتہا پسندعناصر کی حوصلہ افزائی شامل ہیں۔ پشاورسن دو ہزار سے مسلسل دہشت گردی کی زد میں ہے۔ ہر ماہ پشاور میں خود کش دھماکے معمول کی بات بن گئی ہے ۔
جب آپریشن ضرب عضب شروع ہوا تو قبائلی علاقوں میں آپریشن کی اطلاعات آئیں ، پشاور سے متصل قبائلی علاقے میں دہشت گردوں کی کمین گاہیں موجود رہیں، ان عناصر نے پشاور ایئر پورٹ کو کئی دفعہ نشانہ بنایا ۔ پشاور ایئرپورٹ کے اطراف سے ہونے والی فائرنگ سے ایک مسافر طیارے کی مسافر خاتون زخمی ہوئی تھی، پھر غیر ملکی فضائی ایجنسیوں نے پشاور آنے جانے والی پروازیں منسوخ کردی تھی۔
حکومت نے چند دنوں بعد اعلان کیا کہ پشاور کے مضافاتی علاقے کو دہشت گردوں سے خالی کرایا گیا ہے، یوں پشاور ایئر پورٹ پر صورتحال معمول پر آگئی ہے مگر اب حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائی نہیں ہوئی، آرمی پبلک اسکول پر حملہ کرنے والے دہشت گرد پوری تیاری سے آئے تھے۔ انھوں نے اسکول کا پچھلا دروازہ استعمال کیا جو قبرستان سے متصل ہے ۔ بعض اخبارات میں شایع ہونے والی خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ دہشت گردوں کے پاس ان طالب علموں کی فہرستیں تھیں جن کے والدین کا تعلق فوج سے ہے ۔
کراچی اور ملک کے شہروں سے جاری ہونے والے طالبان کے غیر سرکاری اخبار میں شایع ہونے والی خبر میں کہا گیا ہے کہ اسکول کی لیب کے اہلکار حملہ آوروں کی رہنمائی کررہے تھے، یہ بات ان دہشت گردوں کے رابطوں کو ظاہر کرتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں میں ضرور کچھ لوگ ہیں جنہوں نے ان دہشت گردوں کی رہنمائی کی ۔اسی طرح سول اور عسکری انٹلیجنس نیٹ ورک مکمل طور پر ناکام رہا۔ اب یہ خبریں آرہی ہیں کہ کالعدم طالبان کے متعدد گروہوں کا اجلاس پاک افغانستان سرحد پر ایک ہفتہ قبل ہوا ، اور اگر پاک افغان سرحد پر واقعی یہ اجلاس ہوا تو انٹلیجنس اداروں کو اس کی اطلاع ہونی چاہیے تھی، یوں دوسرا اہم معاملہ ان دہشت گردوں کی سپلائی لائن کا ہے ۔
طالبان نے اس آپریشن پر خاطر خواہ رقم خرچ کی ہے، یہ رقم لاکھوں سے کروڑوں روپوں پر محیط ہوسکتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب اورخلیجی ممالک طالبان اور دوسرے انتہا پسند گروپ کو وافر مقدار میں مالیاتی امداد فراہم کرتے ہیں، پھر ان ممالک میں مقیم پاکستان بھی اس مالیاتی سپلائی لائن سے منسلک ہیں ۔ ملک میں روزانہ لاکھوں روپے صدقہ فطرہ خیرات کے نام پر مختلف طریقوں سے جمع ہوتے ہیں ۔ انتہا پسندتنظیمیں بھتے اور اغواء برائے تاوان کی وارداتوں کے ذریعے کروڑوں روپے حاصل کرتی ہیں اگرچہ امریکا نے کچھ کالعدم تنظیموں کے اثاثے ضبط کیے تھے اور بینک اکاؤنٹ منجمد کیے تھے مگر حکومت پاکستان نے اس معاملے میں کیوں دلچسپی نہیں لی ۔ کالعدم تنظیموں کے کارکن مساجد کے باہر بازاروں میں چندا جمع کرتے ہیں، پولیس اور دیگر ادارے اس بات پر توجہ نہیں دیتے ہیں۔
یوں مالیاتی سپلائی لائن برقراررہنے سے ان عناصر کو اپن مذموم مقاصد کو پورا کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی، پھر یہ پاکستان کی تاریخ کی واحد جنگ ہے جس میں دشمن کو تنہا نہیں کیا جاسکا ہے ۔ سابق صدر پرویز مشرف نے گزشتہ دنوں یہ تسلیم کیا تھا کہ طالبان کو عسکری مقتدرہ نے منظم کیا تھا اور طالبان کو منظم کرنے کا مقصد Strategic Depthکی پالیسی کے تحت مقاصد حاصل کرنا تھا ۔ فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اس پالیسی کو متروک قرار دے چکے ہیں مگر محسوس ہوتا ہے کہ بعض عناصر اس پالیسی کو ضروری سمجھتے ہیں ۔
ایک تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ غیر ریاستی کرداروں Non State Actorsکی کچھ عناصر سرپرستی کرتے ہیں یہ وہ عناصر ہیں جو ملک میں جنونیت کی فضا کو کم کرنے میں مسلسل مزاحمت کرتے ہیں ۔ دائیں بازوکی مذہبی جماعتیں بعض ذرایع ابلاغ کے ادارے اس بیانیہ(Narrative) کی مستقل ترویج کرتے ہیں ۔ جماعت اسلامی کے سابق امیرسید منور حسن نے قتال فی سبیل اللہ کا نعرہ جہادی بیانیہ(Narrative) کو تقویت دینے کے لیے لگایا تھا۔ اگرچہ وزیر اعظم نواز شریف ان عناصر کی مذمت کرتے ہیں مگر حکومت پنجاب کے بعض اہلکار مشکل صورتحال میں ان عناصر کی مدد حاصل کرتے ہیں ۔
تحریک انصاف ، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام تو آپریشن ضرب عضب کی مخالفت کرکے ان انتہا پسندوں کی کھلے عام حوصلہ افزائی کا فریضہ انجام دے چکے ہیں ۔ دائیں بازو کی یہ قوتیں نوجوانوں کے مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرکے حکومتی کوششوں کے خلاف مسلسل مزاحمت کرتی ہیں ۔ یہ لوگ نہ تو مدارس کے نظام میں اصلاحات ہونے دیتے ہیں نہ ہی جدید تعلیم کے مراکز یعنی اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نصاب سے جنونی مواد نکالنے دیتے ہیں، خیبرپختونخوا میں اے این پی کے دور میں اسکولوں کالجوں کے نصاب سے جنونی مواد کو حذف کیا گیا تھا مگر تحریک انصاف کی حکومت نے پھر نصاب کو تبدیل کیا ۔ وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے یہ فیصلہ اپنی اتحادی جماعت اسلامی کے دباؤ پر کیا تھا، ایسی ہی صورتحال پنجاب میں ہے۔
یوں نوجوانوں کے جنونیت پیدا کرنے والے مواد کے ذریعے ایک ایسے بیانیہ(Narrative) کو قبول کرنے پر تیار یا جارہا ہے جس کا نتیجہ معاشرے میں مذہبی عصبیت بڑھنے اور انتہا پسندوں کو افرادی قوت ملنے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے ۔ اس صورتحال میں صرف قبائلی علاقے ہی نہیں بلکہ وسطی اور جنوبی پنجاب کراچی کے مضافاتی علاقے شکار پور، گھوٹکی ، جیکب آباد اور بلوچستان کے کئی شہر انتہا پسندوں کی محفوظ پناہ گاہوں میں تبدیل ہوچکے ہیں ۔
ایک سینئر صحافی نے پشاور کے سانحے کے بعد حکومت کے اقدامات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پھانسی کی سزا پر عملدرآمد سے انتہا پسندی کا خاتمہ ممکن نہیں ہے کیونکہ دہشت گرد تو آتے ہی خود کشی کے لیے ہیں۔ اس مسئلے کا حل قائد اعظم کی 11اگست 1947 کی آئین ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس میں پالیسی تقریر میں مضمر ہے مگر بانی پاکستان کی اس تقریر پر عمل کرنے سے پہلے ریاست کا بیانیہ(Narrative) تبدیل ہونا ضروری ہے اس کے بغیر صورتحال تبدیل نہیں ہوسکتی ۔