سانحہ آرمی پبلک اسکول اور ملکی حالات
شیخ رشید کا گراف غریبوں میں بڑھا ہے اور ان کی ذاتی ہمت اور تحریک چلانے کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے۔
FAISALABAD:
پاکستان میں سیاسی کشمکش تو ایک عرصے سے جاری ہے اور دہشت گردی نے دوسری جانب اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ مگر 16 دسمبر کو پشاور میں دن کے گیارہ بجے جو سانحہ آرمی پبلک اسکول میں پیش آیا اس نے پورے ملک کی سیاسی سوچ میں ایک زبردست تبدیلی پیدا کردی۔ اسکول آڈیٹوریم میں پروگرام جاری تھا، اسکول کے بچے ہال میں موجود تھے، اچانک دہشت گردوں نے کمسن اور بڑے بچوں پر ہینڈ گرینڈ، اے کے 47 رائفل اور دیگر ہتھیاروں سے نہ صرف قتل کیا بلکہ اساتذہ کو زندہ بھی جلایا گیا۔ انسانی تاریخ میں ایسا سفاکی کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا، اس سانحے نے پاکستان کی سیاسی زندگی اور سوچ پر گہرے اثرات ثبت کیے ہیں نہ صرف یہ بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک اس سفاکی اور بربریت کے خلاف متحد نظر آئے۔ امریکا سے لے کر بھارت تک لوگوں کے دل دہلانے والے مظالم دیکھے گئے اور افسوس کا اظہار کیا گیا۔
تقریباً 150 بچے قتل کیے گئے اور اتنے ہی زخمی ہوئے حملہ آوروں کا مقصد کسی مطالبے کو منوانا نہ تھا اور نہ ہی کسی قسم کی سیاسی گفتگو کا آغاز کرنا تھا بلکہ ضرب عضب کے خلاف انتقامی کارروائی تھی ،حملہ آوروں نے جتنے بچے قتل کرسکتے تھے قتل کیے اور ہولناکی کے انداز میں کہ جو بچے بچ گئے وہ بھی ذہنی طور پر مفلوج ہوگئے۔ خوف ان کے دلوں میں بیٹھ گیا۔ والدین پر جو ذہنی دباؤ پڑنا تھا وہ پڑا۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف اس وقت کوئٹہ کی ایک پروقار پاسنگ آؤٹ پریڈ میں موجود تھے اپنا دورہ مختصر کرکے پشاور پہنچے۔ دن کے 11 بجے سے شام 6 بجے تک یہ ہولناک مناظر بچوں نے دیکھے۔ عمران خان اور وزیر اعظم نواز شریف اس موقعے پر پشاور پہنچے۔
ظاہر ہے اس موقعے پر نواز شریف اور عمران خان کے درمیان 4 حلقوں کے بیلٹ باکس کھلنے کا مسئلہ تھا جو معاملات کو پیچیدہ کرتا چلا گیا تھا، اس کی اہمیت بھی جاری رہی۔ ڈی چوک اسلام آباد کا دھرنا بھی عمران خان نے ختم کردیا۔ حالانکہ اسلام آباد میں نوجوان گاڑی کے سامنے لیٹ گئے۔ عمران خان کا راستہ روکا گیا مگر عمران خان دلاسا دے کر نکل گئے گوکہ اب پی ٹی آئی کی کال مستقبل میں اتنی موثر ثابت نہ ہوگی کیونکہ انقلاب مارچ سے مایوس ہونے والے آزادی مارچ میں ساتھ آئے۔ مگر یہاں بھی ان کو دماغی سکون نہ مل سکا جو لوگ تبدیلی کے لیے جمع ہوئے وہ لیڈر ان کو منزل تک نہیں لے جاسکے۔
مگر یہ پی ٹی آئی کی مجبوری بھی تھی اور جہانگیر ترین، شاہ محمود قریشی کے گروپ کی فتح مگر یہ تمام واقعات موجودہ صورتحال میں عمران خان کی مجبوری تھی کیونکہ ملک کے سنجیدہ لوگوں کے سامنے عمران خان کو اپنی عزت بنانی تھی اور قومی یکجہتی کا ثبوت دینا تھا ۔ اتنے بڑے حملے کے بعد جہاں اس قدر بچے شہید ہوئے آخر دھرنا ختم کرنا ضروری ہوگیا تھا یا اس کو ایک ہفتے کے لیے ختم کرنا تھا۔ کیونکہ شیخ رشید نے جو سخت گیر موقف اپنایا ہوا تھا اس کی شکست بھی ہوئی۔ اسی لیے شیخ رشید پورے سین سے آؤٹ دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ دھرنے کے خاتمے نے عمران خان کی تحریک کو شدید ضرب لگائی ، قوم کی یکجہتی کی خاطر اور موجودہ سیٹ اپ کی بقا کے لیے یہ ضروری عمل تھا۔
اب نئے پاکستان کا خواب علامہ اقبال اور قائد اعظم کا خواب بھی حالات کی نذر ہوگیا۔ آرمی پبلک اسکول پشاور کا واقعہ کوئی معمولی سانحہ نہ تھا، تاریخ انسانی میں شاید ہی کبھی ایسے مقام آئے ہوں جہاں بے گناہ بچوں کو اس طرح لہولہان کیا گیا ہو ، جو بچے شہید ہوئے وہ تو راہ عدم کو چلے گئے ، خوابوں کو مٹھی میں بند کر کے سو گئے مگر جو بچ گئے کوئی ان سے جا کے پوچھے کہ وہ کس ڈراؤنے خواب کی لپیٹ میں ہیں، اپنے بچپن کے ساتھیوں کو انھوں نے کس طرح تڑپتے دیکھا، ان بچوں کے ذہن پہ نقش کرب و ستم کس طرح مٹ سکتے ہیں، یہ یادیں بچپن کی ہیں، بڑھاپے تک پیچھا کریں گی ۔ البتہ وقت کا مرہم زخموں کو کسی حد تک مندمل کردیتا ہے۔
آخر وہ زخم جو آزادی اور انقلاب مارچ سے قبل گزرے ، قتل گاہوں سے یہ قافلے چلے اور کس موڑ پر آکے رکے ان سوالوں کا جواب لیڈروں کے پاس بھی نہیں ہے کہ آیندہ آنے والے وقت میں پاکستان کی سیاست کس رخ پہ جاتی ہے ۔ اس خونیں داستان کو دیکھنے والوں نے 6 جنوری 2014 کو ہنگو کے علاقے ابراہیم زئی کے اسکول کے بچوں کو بچانے کے لیے خود بم سے اڑ جانے والے اعتزاز حسن کو بھی یاد کیا جس نے سیکڑوں بچوں کو بچا کر خود کو ریزہ ریزہ کردیا۔ بہت سی یادیں ہیں جو دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں تاریخ کا حصہ بن گئیں اور ابھی علم نہیں کہ اس سفر میں کن کن مقامات پر قوم کو کیا کیا قربانیاں دینی ہوں گی۔ 16 دسمبر کا واقعہ کوئی معمولی نہ تھا۔ پوری دنیا کے میڈیا کی یہ سرخی تھی، ہر ملک کے بچوں اور بڑوں نے سوگ منایا۔ پڑوسی ملک بھارت کے تعلیمی اداروں نے بھی دیے جلائے مذمتی قراردادیں اور ایک منٹ کی خاموشی کی گئی ۔
کراچی کے گلی کوچے ویران، سوگ طاری تھے، آرٹس کونسل کے ممبران نے بھی دیے جلائے اہل قلم نے سیاہ پٹیاں بازوؤں پر باندھیں مگر ابھی یہ جنگ کافی طویل ہے اس جنگ کے تانے بانے اپنے ساتھ تاریخی اور سیاسی اختلافات کے حامل ہیں ۔
بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا ملک جس بدامنی کا شکار ہے، یہ ویسا ہی ہے جیسا کہ امریکا تھا اور ایسی ہی قتل و غارت کی صورتحال پیدا تھی۔ مجرم مسلح اور عام آدمی غیر مسلح تو پھر اپنی حفاظت کی خاطر اسلحے ہر شخص کے پاس کا قانون منظور ہوا، اب ہم اسی طرف بڑھ رہے ہیں کہ ہر آدمی کو اپنی حفاظت کے لیے اسلحہ رکھنے کی اجازت ہوگی کیونکہ ہر شخص باڈی گارڈ نہیں رکھ سکتا۔ اب اسی طرح سے عام آدمی محفوظ رہ سکتا ہے، اتنے بڑے اسکول میں اگر اساتذہ مسلح ہوتے تو یہ واقعہ ہوسکتا تھا مگر اتنا آسان نہ ہوتا، یہ اسکول تو نہایت ہی سوفٹ ٹارگٹ (Soft Target) ہیں، ابھی ملک میں اور بھی اسکول ہیں ان کی حفاظت اور بچوں کی حفاظت حکومتی فرض ہے ۔
اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ پہلا اور آخری حملہ تھا اور آیندہ کسی اسکول پر ایسا حملہ نہ ہوگا۔ جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے جنگ کا دائرہ وسیع تر ہوتا جا رہا ہے، شقاوت کے نت نئے طریقے ایجاد ہو رہے ہیں اور ابھی اس جنگ میں مزید شدت آئے گی کیونکہ موت کی سزا پر عمل درآمد کا قانون منظور ہوگیا ہے لہٰذا عمل اور ردعمل کے امکانات میں اضافہ ممکن ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس کے امکانات بھی ہیں کہ جرائم کی تعداد میں کمی واقع ہوگی مگر ان سب معاملات کو کس طرح ختم کیا جائے اور اس کا دائمی حل کیا ہے اس کو تو حکومت وقت اور اصل حزب مخالف یعنی عمران خان اور شیخ رشید کو سوچنا ہوگا کیونکہ موجودہ تحریک نے جہاں پی ٹی آئی کو مقبول بنایا ہے۔
شیخ رشید کا گراف غریبوں میں بڑھا ہے اور ان کی ذاتی ہمت اور تحریک چلانے کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ صورتحال میں جب کہ سب میز پر بیٹھ چکے ہیں ماسوائے شیخ رشید احمد کے مگر یہ میز کی کہانی کتنے روز کی ہے؟ جو لوگ تحریکوں میں قتل ہوئے ان کا کیا ہوگا؟ جوڈیشل کمیشن کب بنے گا اس کا فیصلہ کب آئے گا؟ یہ تو سیاسی بحران اور پھر عوامی ڈیمانڈ کرپشن مہنگائی کا کیا ہوگا، میرٹ یا ڈی میرٹ کا کیا ہوگا؟ عمران خان کو ایسی صورت حال میں کیا کرنا ہوگا؟ موجودہ حکومت بھی اس وقفے میں کیا کرتی ہے؟
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں