ہر سانحے اور المیے کے بعد
ج ہر پاکستانی اپنے گلے میں بربادیوں کا طوق پہنے اپنےآپ کو پیٹ رہا ہےاپنا جنازہ اپنےکندھوں پراٹھائے اٹھائے پھر رہا ہے۔
بسمارک نے کہا تھا بڑے بڑے مسئلے تقریروں اور ووٹو ں کی طاقت سے طے نہیں ہوتے بلکہ جنگ و جدل سے طے ہوتے ہیں۔ جب کہ افلاطون کہتا ہے کسی شخص پر اس سے بڑی اور کوئی مصیبت نازل نہیں ہو سکتی وہ عقل و خرد کی مخالفت کرنے لگے۔ ہمارے حکمرانوں کا ہر سانحے اور المیے کے بعد دعوؤ ں اور بڑی بڑی بڑھکیں مارنا وتیرہ بن کے رہ گیا ہے ان کی بے حسی دیکھ کر انسان کو ملک سے بھا گ جانے کو دل کرتا ہے نہ جانے قوم سے ایسے کون سے گنا ہ سر زد ہو گئے کہ اس طرح کے حکمران ہمارے نصیب بن گئے ہیں۔
یاد رکھو معصوم بچوں کا خون تمہارا پیچھا مرنے کے بعد بھی نہیں چھوڑے گا جب یہ معصوم بچے رو رو کر خدا کو اپنے ساتھ ہونے والے مظالم سنائیں گے تو تم خود ہی سو چ لو کس منہ سے خدا کا سامنا کر پاؤ گے۔ یاد رکھو تم حکمران وقت ہو لوگوں کی جان کی حفاظت کی ذمے داری تم پر عائد ہوتی ہے تم کسی بھی صورت میں اپنی ذمے داری سے بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔ تم اپنے عیش و آرام، تخت و تاج کو جلا دینے کے لیے معصوم انسانوں اور بچوں کو ایندھن بناتے جا رہے ہو بچے اور بڑے جل رہے ہیں سلگ رہے ہیں راکھ بن بن کر فضا میں اڑ رہے ہیں اور اب فضا اتنی گر د آلو د ہو گئی ہے کہ تمہیں اپنے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔
آج ہر پاکستانی اپنے گلے میں بربادیوں کا طوق پہنے اپنے آپ کو پیٹ رہا ہے اپنا جنازہ اپنے کندھوں پر اٹھائے اٹھائے پھر رہا ہے ایسی بزدل قیادت خدا دشمن کو بھی نصیب نہ کرے قوم نے تمہارے لیے سب کچھ کیا خدا کے واسطے بتاؤ اب قوم تمہارے لیے اور کیا کرے جب تم قوم کے لیے کچھ کروگے بے حسی کی ایک حد ہوتی ہے صرف اپنے متعلق سو چنے اور لوٹ کھسوٹ کی بھی ایک حد ہوتی ہے تم کب قوم کے متعلق سو چو گے قوم مشکل میں ہے اور مشکل کشا بے نیاز بے پروا عیاشیوں اور لوٹ مار میں غرق ہیں۔ پاکستان کے عوام اور مسلح افواج قربانیوں کی نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں تو آپ ہی بتا دیں کہ آپ نے ملک اور قوم کے لیے کیا کیا قربانیاں دیں ہیں۔
60 ہزار معصوم و بے گناہ پاکستانیوں کی روحیں آپ سے سوال کر رہی ہیں آپ ان خوش نصیبوں میں شامل ہیں جن کے کندھوں نے اپنوں کے جنازے نہیں اٹھائے ہیں لیکن ہم کیا کریں جن کے کندھے اپنوں کے جنازے اٹھا اٹھا کر شل ہو گئے ہیں ملک کے ہر محلے میں آہ و بکا کی صدائیں گونج رہی ہیں۔ مسجدوں، مندروں، گر جاؤں، امام بارگاہوں، اسکولوں، کے در و دیواروں پہ بکھرا خون مٹائے سے نہیں مٹ رہا ہے ہمارے پاس اب صرف لاشیں اٹھانے کے علاوہ کسی اور چیز کے لیے فرصت ہی نہیں رہی ہے یاد رکھو دنیا بھر کے قبرستان ان لوگوں سے بھرے پڑے ہیں جو خود کو زمینی خدا سمجھ بیٹھے تھے۔ آج ان کی تاریک، اجڑی اور برباد قبریں نشان عبرت بنی پڑی ہیں۔
اٹھو اور جاؤ ان قبروں کی وحشت کو اپنی آنکھوں سے جا کر خود دیکھ لو اور اگر تمہیں فرصت مل جائے تو زندگی کے فلسفے کو آسمانی کتابوں میں تلا ش کر لو۔ آج نہیں تو کل تمہیں اپنے ہر عمل کا حساب دینا ہی ہو گا مظلوموں، بے کسوں کی فریادیں، آہیں، سسکیاں، بددعائیں، آنسو تمہارا پیچھا مرنے کے بعد بھی کریں گے۔ خدا کے قہر اور عذاب سے ڈرو انسان اگر خدا کے حکم کی نا فرمانی کرتا ہے تو یہ معاملہ خدا اور انسان کے درمیان ہے لیکن اگر انسان انسان کی بربادی کا ذمے دار ہے تو پھر خدا کہتا ہے جب تک وہ انسان تمہیں معاف نہ کر دے میں ہر گز معاف نہیں کروں گا۔
والٹیر کہتا تھا میرا مسلک یہ ہے ''کہ ریا کاری کو کچل کے رکھ دو'' بزدلی، ڈر خو ف کا نتیجہ ہمیشہ اجتماعی خودکشی کی شکل میں نکلتا ہے جو شخص یقین اور ایمان رکھتا ہے اس کے لیے ہر چیز ممکن ہے اگر آپ زندہ رہنے کا جواز کھو دیں گے تو پھر آپ کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔ اگر انسان غور کر ے تو دنیا کی ہر چیز سے عمل و ہمت کا نعرہ سنائی دیتا ہے اگر خود آپ اپنے راستے میں حائل نہ ہوں تو اور کوئی چیز آپکے ارادے میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتی اس لیے میرے ہم وطنوں قاتلوں، ظالموں، لٹیروں، دہشت گردوں، کے خلاف اٹھ کھڑے ہو اس سے پہلے کہ تمہاری باری آئے ان کے خلاف جو اپنے علاوہ دوسروں کو مسلمان ہی نہیں مانتے ہیں جو اپنے علاوہ کسی اور کو انسان ہی نہیں تسلیم کرتے ہیں۔
ان وحشیوں اور درندوں کے خلاف جن کے نزدیک باقی سب کافر ہیں تم اٹھنے میں جتنی دیر کرو گے اتنی ہی تکلیف میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ملک میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کو فروغ 9/11 کے بعد حاصل ہوا اور یہ جنگ ہماری جنگ نہیں ہے بلکہ یہ ہم پر مسلط کی گئی ہے۔ یاد رکھو مذہبی انتہاپسندی کو ملک میں فروغ ایک روز میں نہیں اور نہ ہی 9/11 کے بعد ہوا بلکہ ہمارے معاشرے میں انتہاپسندی نے جڑیں ملک کے آغاز سے ہی پکڑنا شروع کر دی تھیں۔ یاد رہے پہلے مدرسے اور مساجد غیر سیاسی تھیں مذہب اور سیاست الگ الگ تھے جب سے ہمارے مذہبی رہنما سیاسی بننا شروع ہوئے اسی روز سے انتہاپسندی کا آغاز ہو گیا۔
ہمارے مذہبی رہنماؤں کے مقاصد اب مذہبی کم اور سیاسی زیادہ ہیں انھیں اب اسلام کی نہیں بلکہ اسلام آباد کی فکر رہتی ہے، اور سارا کھیل اسلام کی آڑ میں اسلام آباد کے لیے کھیلا جا رہا ہے اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی تاریخ اپنے رویو ں کا بے رحم تجزیہ روز اول سے شروع کر دیں اس کے بغیر ہم ہرگز ہرگز منزل پر نہیں پہنچ سکیں گے۔ ہم آج مکمل ناکامی سے دو چار ہو چکے ہیں پہلے یہ ضروری ہے کہ ناکامی کے مفہو م کو سمجھا جائے یہ اصطلاح حالیہ دور میں ان ریاستوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو اپنے شہریوں کی بنیادی ترین ضروریات کو پورا نہ کر سکیں ناکامی کی کم از کم اقسام مندرجہ ذیل ہیں (۱) اپنی یا دوسروں کی ماضی کی توقعات پر پورا نہ اترنا (۲) بصیرت کی ناکامی '(۳) معاشی ناکامی (۴) قیادت کی ناکامی۔
بدقسمتی سے ہم چاروں اقسام کی ناکامی سے دو چار رہے ہیں اسی لیے ہم آج انتہاپسندی اور دہشتگر دی کی آگ میں جل رہے ہیں۔ انسان تلخ حالات سے گھبرا کر دو سمتوں میں بھاگ سکتا ہے ماضی میں یا مستقبل میں۔ اس کا چناؤ کردار اور نظریے پر منحصر ہے حقیقت سے نظر چرانا بزدلی اور خو د کو دھوکے میں رکھنے والی بات ہے ہم تمام شد کی جانب تیزی سے دوڑ ے جا رہے ہیں جب تک ہمیں یہ احساس نہیں ہو گا کہ ہم مکمل تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔
اس وقت تک ہم میں تبدیلی حالات کی خواہش نہیں جاگے گی تبدیلی کبھی خارجی عوامل کی بنیاد پر نہیں آتی بلکہ تبدیلی کا سارا دارومدار اندرونی خواہش پر ہوتا ہے اس کے لیے احساس کا ہونا ضروری ہے اور پھر اس کو زیر بحث لانا لازمی ہے پھر خرابی اور برائیوں کی بنیاد پر اتفا ق ہونا ضروری ہے اس کے بعد پھر احساس، اتفاق اور خواہش مل کر تبدیلی کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ سقراط کہتا تھا میں کسی کو نہ کچھ سکھاتا ہوں اور نہ ہی مجھے کچھ معلوم ہے میرا صرف یہ کہنا ہے کہ آپ سوچیں اور بار بار سوچیں آئیں ہم سب کچھ دیر کے لیے ٹھہر کر سوچیں اور پھر سوچیں اور پھر اٹھ کھڑے ہوں اپنے لیے اپنے پیاروں کے لیے ورنہ کل کیا ہونے والا ہے سب کو معلوم ہے۔