ہمارا سیاسی کلچر

ستم ظریفی یہ ہے کہ جمہوریت کے یہ دعوے دار وہ ہیں جو آمروں کی گود میں پل کر جوان ہوئے ہیں۔

S_afarooqi@yahoo.com

جمہوریت وہ خوب رو حسینہ ہے جس کے حسن کا وطن عزیز میں بڑا چرچا ہے۔ اس پر ہمیں ایک مشہور فلمی گانے کے یہ بول یاد آرہے ہیں:

آج پھر تیرے میرے پیار کے چرچے ہر زبان پر
سب کو معلوم ہے اور سب کو خبر ہوگئی

ہر کوئی جمہوریت کا راگ الاپتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ جمہوریت کے یہ دعوے دار وہ ہیں جو آمروں کی گود میں پل کر جوان ہوئے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ جمہوری مزاج اور جمہوری روایات اور کلچر سے انھیں دور پرے کا بھی کوئی واسطہ یا سروکار نہیں۔ جمہوریت کے جو اجزائے ترکیبی اور Prerequisites ہیں وہ ان کے یہاں ڈھونڈے سے بھی نظر نہیں آتے۔ توازن، برداشت اور فراخ دلی، جوکہ جمہوریت کے لیے لازم و ملزوم ہیں ان کے یہاں سرے سے ہی ناپید ہیں۔ انتہا تو یہ ہے کہ یہ لوگ بنیادی اخلاقی قدروں سے بھی عاری ہیں۔ ہر وقت کی تُو تُو، میں میں ان کی عادت و خصلت کا حصہ بن چکی ہے، جس کی بنا پر یہ کہنا پڑتا ہے کہ:

ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تُو کیا ہے
تم ہی کہو کہ یہ اندازِ گفت گُو کیا ہے

برصغیر کی آزادی سے قبل کی تاریخ اٹھاکر دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے مقاصد اور منشور میں قطبین کا بُعد موجود تھا۔ یہی نہیں بلکہ ان کے اہداف کے حصول کے تقاضے بھی قطعی مختلف اور متضاد تھے۔ برصغیر کی دو سب سے بڑی جماعتوں انڈین نیشنل کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کے درمیان بہت بڑی خلیج حائل تھی۔ دونوں جماعتوں کے چوٹی کے رہ نماؤں گاندھی جی اور قائد اعظم کی شخصیات بھی ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھیں حتیٰ کہ ان کا لباس بھی قطعی مختلف تھا۔

گاندھی جی اپنا جسم ایک چھوٹی سی چادر سے ڈھانپتے تھے اور ٹانگوں پر دھوتی پہنا کرتے تھے جب کہ قائد اعظم اولا بہترین اور بیش قیمت انگلش سوٹ اور بعدازاں شیروانی اور شلوار زیب تن کیا کرتے تھے۔ گاندھی جی احتراماً قائد اعظم کو جناح صاحب اور قائد اعظم گاندھی جی کو مسٹر گاندھی کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے اور دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف کبھی بھی کوئی غیر شائستہ یا ادب سے گرا ہوا لفظ استعمال نہیں کیا۔ اس حوالے سے ایک واقعہ قابل ذکر ہے۔

ہوا یوں کہ گاندھی جی کی پرارتھنا (عبادت) کے دوران میں کہیں سے یکایک ایک سانپ نکل آیا اور پھر آناً فاناً غائب ہوگیا۔ ہندو چونکہ ضعیف الاعتقاد ہوتے ہیں لہٰذا اسے گاندھی جی کے چمتکار (کرامت) سے تعبیر کیا گیا۔ ہندو پریس نے اس واقعے کی حد سے بڑھ کر تشہیر بھی کی جس کا مقصد گاندھی جی کے سیاسی امیج کو بلند تر کرنا اور ان کی شخصیت کی مخالفین پر دھاک جمانا تھا۔جب اس واقعے پر قائد اعظم سے اظہار خیال کرنے کو کہا گیا تو موصوف نے اس پر انتہائی مختصر اور جامع انداز میں صرف اتنا کہا کہ ''یہ باہمی آداب کا مظاہرہ تھا۔''

اس کے علاوہ ہم نے تحریک آزادی سے تعلق رکھنے والے دیگر کانگریسی اور مسلم لیگی قائدین کو بھی دیکھا اور سنا ہے۔ ان میں ہندوستان کے سب سے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو، مولانا ابوالکلام آزاد، سردار ولبھ بھائی پٹیل سمیت بہت سے لیڈران شامل ہیں۔ دوسری جانب مسلم لیگی لیڈروں میں نواب زادہ لیاقت علی خان، سردار عبدالرب نشتر اور چوہدری خلیق الزماں جیسے اکابرین شامل ہیں۔ مگر ہم نے انتہائی جوش و خروش کے عالم میں بھی ان میں سے کسی کو آپے سے باہر ہوکر اپنے مخالفین پر کیچڑ اچھالتے ہوئے نہ کبھی دیکھا اور نہ سنا۔ احترام باہمی اور شائستگی ان سب کا طرہ امتیاز تھا۔


ایک دوسرے کی عزت اور قدر و منزلت کو ان اکابرین کے درمیان قدر مشترک کا درجہ حاصل تھا۔ اس کے یہ معنی ہر گز نہیں کہ اس دور میں سیاسی گرما گرمی کا فقدان تھا۔ کانگریس اور مسلم لیگ دونوں کے جلسوں میں شعلہ بیان مقرر لاوا اگلنے والے آتش فشاں پہاڑوں کا منظر پیش کرتے تھے اور سامعین و حاضرین پر سحر طاری کردیتے تھے۔ مگر کیا مجال جو ایک لفظ بھی تہذیب سے گرا ہوا ہو۔ ان میں میر مشتاق احمد جیسے مقرر بھی شامل تھے جن کے منہ سے الفاظ نہیں شعلے نکلتے تھے۔ بعد میں جب میر صاحب نے کانگریس سے علیحدگی اختیار کرکے حزب اختلاف جوائن کرلی تو کانگریس کے خلاف منعقد کیے جانے والے دلی کے جلسوں میں ان کی تقریریں سننے کے لیے ایک جم غفیر امڈ آیا کرتا تھا اور کئی کئی گھنٹے گزر جانے کے باوجود حاضرین میں سے کوئی بھی شخص اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہوتا تھا۔

مگر غیر معمولی طویل دورانیے کے ان جلسوں میں بھی کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میر صاحب کے منہ سے کانگریس پارٹی یا اس کے کسی بھی لیڈر کے خلاف بھولے سے بھی کوئی اخلاق سے گرا ہوا لفظ ادا ہوا ہو۔ اسی طرح جب بزرگ سیاست داں سی راج گوپال آچاریہ نے کانگریس سے علیحدگی اختیار کرکے ''سوتنترا پارٹی'' کے نام سے اپنی علیحدہ سیاسی جماعت تشکیل دے دی اور حکمراں کانگریس پارٹی کے خلاف اپنی سیاسی مہم شروع کردی تو بھی انھوں نے سخت سے سخت بات کہنے کے دوران شائستگی کا دامن اپنے ہاتھ سے کبھی نہیں چھوڑا۔اس وقت ہمیں وہ واقعہ یاد آرہا ہے جب راجا جی دہلی کے مین ریلوے اسٹیشن کے بالمقابل کمپنی باغ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کر رہے تھے۔

راجا جی چونکہ جنوبی ہند سے تعلق رکھتے تھے اس لیے انھیں ہندی زبان نہیں آتی تھی۔ چناں چہ مجبوراً انھیں انگریزی کا ہی سہارا لینا پڑتا تھا۔ اس جلسے میں بھی وہ انگریزی میں ہی تقریر فرما رہے تھے اور کانگریس کی مخالفت ان کا مرکزی موضوع تھا۔وہ عوام کو یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ کانگریس کا زوال شروع ہوچکا ہے اور وہ اپنی آخری سانسیں لیتے ہوئے بہت جلد دم توڑ دے گی۔ راجا جی نے اپنا مدعا بیان کرنے کے لیے سورج کی جانب اشارہ کیا جو دن بھر اپنی آب و تاب دکھانے کے بعد بہت جلد مغرب میں غروب ہونے جا رہا تھا۔ عوام کی توجہ مبذول کرانے کے بعد راجا جی نے نہایت سادہ مگر معنی خیز انداز میں فرمایا "See! The Sun is setting. soon the sun of congress will also set"

عوام نے راجا جی کے ان خوبصورت الفاظ پر زوردار تالیاں بجائیں۔ موصوف نے اگرچہ کانگریس کی موت کی پیش گوئی کرکے مخالفت کی انتہا کردی مگر تہذیب اور شائستگی کے علم کو جھکنے نہیں دیا۔ واقعی یہ لوگ میدان سیاست کے ہیرے موتی، لعل و جواہر اور عزت و آبرو تھے۔ بہ قول شاعر:

ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں' ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

آج جب ہم 1940 کے سیاسی منظر نامے پر ایک نظر ڈالتے ہیں اور پھر اس کا موازنہ وطن عزیز کے موجودہ سیاسی منظر نامے سے کرتے ہیں تو ہمارا سر شرم کے مارے جھک جاتا ہے۔ قائد اعظم اور مولانا ابوالکلام آزاد کے سیاسی اختلاف سے بھلا کون واقف نہیں۔ دونوں ایک دوسرے کی ضد اور poles apart تھے۔ لیکن اس کے باوجود قائد اعظم نے مولانا کے خلاف جو انتہائی سخت فقرہ کہا وہ بھی تہذیب کے دائرے سے ذرا بھی باہر نہ تھا۔ قائد نے مولانا کو کانگریس کا ''شو بوائے'' کہا جس کے معنی تھے کانگریس نے انھیں محض دنیا دکھاوے کے لیے ایک نمائشی شخص کے طور پر اپنی پارٹی میں شامل کیا ہوا ہے اور کانگریس کی فیصلہ سازی میں ان کی کوئی حیثیت اور اہمیت نہیں ہے۔قائد کے منہ سے نکلی ہوئی یہ بات اس وقت Cabinet Mission کے موقع پر حرف بہ حرف درست ثابت ہوگئی جب پنڈت نہرو نے مولانا آزاد کو اپنے راستے سے ہٹا کر کانگریس کی سربراہی بذات خود سنبھال لی۔

برصغیر کی تقسیم سے قبل کی سیاست میں بھی بڑے بڑے اتار چڑھاؤ آئے۔ شدید ترین اختلافات کے مظاہرے بھی خوب ہوئے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے بھی بہت سے حربے آزمائے گئے۔ تاہم بدزبانی اور دشنام طرازی کی نوبت پھر بھی نہیں آئی جس کی بنیادی وجہ ضابطہ اخلاق کی پابندی تھی کیونکہ ہر کوئی اس بات کا قائل تھا کہ:

دشمنی کے بھی کچھ آداب ہوا کرتے ہیں

وطن عزیز کی سیاست میں بھی ایک عرصے تک شرافت کا بول بالا رہا۔ لیکن جب جنرل ایوب خان نے میدان سیاست میں قدم رنجہ فرمایا تو سیاست شرافت کے دائرے سے اس وقت باہر نکل گئی جب حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے معزز ارکان کو نازیبا اور بازاری لفظ سے مخاطب کیا جانے لگا۔ اس کے بعد جب ذوالفقار علی بھٹو کا دور آیا تو رہی سہی کسر بھی پوری کردی گئی اور موصوف نے اصغر خان کو ''آلو خان'' اور خان عبدالقیوم خان جیسے محترم قائدین کو ''ڈبل بیرل خان'' جیسے القابات سے نوازنا شروع کردیا۔

نہایت افسوس کا مقام ہے کہ ہمارا سیاسی کلچر بڑی تیزی کے ساتھ زوال کی طرف جا رہا ہے۔ اعلیٰ اقدار بشمول شرافت، تہذیب و شائستگی، توازن، تحمل، ضبط و برداشت اور حسن سلوک کے بندھن ٹوٹتے جا رہے ہیں اور ہمارے قائدین کرام ایک ایسے سیاسی کلچر کو پروان چڑھا نے میں دانستہ یا نادانستہ طور پر مصروف ہیں جو اخلاقیات کے صریحاً خلاف ہے۔ خدارا! اس روش پر نظرثانی کریں اور ہماری آیندہ نسلوں کے حق میں کانٹے بونے سے گریز کریں۔ خدارا! سیاست کے تقدس کو پامال نہ کریں۔
Load Next Story