خیالی پلاؤ نظم نہ جانے کون مائیں ہیں
شور وشین کرتی ہیں،بلا کے بین کرتی ہیں، بہت بے چین کرتی ہیں، ارے یہ کون مائیں ہیں ؟
دسمبر کی ٹھٹرتی رات میں، یہ کون مائیں ہیں؟
جوبچوں کے سوئیٹراپنے سینے سے لگائے روتی جاتی ہیں
بہت آنسو بہاتی ہیں
نہ جانے کون مائیں ہیں؟
جو یہ ویران کمروں کے درودِیوار سے لگ کر
شور وشین کرتی ہیں،بلا کے بین کرتی ہیں
بہت بے چین کرتی ہیں
ارے یہ کون مائیں ہیں ؟
جو بچوں کے کھلونوں کو سجا کر مسکراتی ہیں
کِھلونوں کو بہ حسرت دیکھ کر "چندا" بلاتی ہیں
کلیجے سے لگاتی ہیں
کبھی کچھ یاد کرتی ہیں ،کبھی کچھ بھول جاتی ہیں
بھلا یہ کون مائیں ہیں؟
جو بستر پر کتابوں کو بکھیرے بارہا ترتیب دیتی ہیں
ہر اِک لمحہ یہ کہتی ہیں
ابھی تو استری کرنی ہے نہ بچوں کے کپڑوں پر
ابھی پالش بھی باقی ہے
کہ جوتوں پر لگی مٹی ذرا اچھی نہیں لگتی
ابھی تو کام اتنے ہیں، سویرے جلد اٹھنا ہے
سویرے اٹھ کے بچوں کے لئے پھر لنچ بنانا ہے
اُنہیں اسکول جانا ہے
سنو اے بے خبر شاعر
یہ مائیں وہ ہی مائیں ہیں
کہ جن کے پھولوں کو بادِقضا نے روند ڈالا ہے
ستم کا بول بالا ہے
سو اب ہر گز نہ تم اس بات کی تکرار کرنا نہ کہ
یہ مائیں کون مائیں ہیں؟
چلو اب جا کے ان ماؤں کو تھوڑا حوصلہ تو دو
انہیں جاکر ذرا کہہ دو
جو کپڑے خون میں ڈوبے ہوں اُن پر استری
ممکن نہیں شاید
یہ جوتوں پر جمی مِٹّی نہیں ہے خوں کے دھبّے ہیں
جو دنیا کی کسی پالش کی کالک سے کبھی بھی مٹ نہیں سکتے
اگر کچھ بھی نہ کہہ پاؤ
تو بس ،اتنا ہی کہہ دینا
کچھ نہ پیتی ہیں اور نہ کھاتی ہیں
لاشیں اسکول نہیں جاتی ہیں
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
جوبچوں کے سوئیٹراپنے سینے سے لگائے روتی جاتی ہیں
بہت آنسو بہاتی ہیں
نہ جانے کون مائیں ہیں؟
جو یہ ویران کمروں کے درودِیوار سے لگ کر
شور وشین کرتی ہیں،بلا کے بین کرتی ہیں
بہت بے چین کرتی ہیں
ارے یہ کون مائیں ہیں ؟
جو بچوں کے کھلونوں کو سجا کر مسکراتی ہیں
کِھلونوں کو بہ حسرت دیکھ کر "چندا" بلاتی ہیں
کلیجے سے لگاتی ہیں
کبھی کچھ یاد کرتی ہیں ،کبھی کچھ بھول جاتی ہیں
بھلا یہ کون مائیں ہیں؟
جو بستر پر کتابوں کو بکھیرے بارہا ترتیب دیتی ہیں
ہر اِک لمحہ یہ کہتی ہیں
ابھی تو استری کرنی ہے نہ بچوں کے کپڑوں پر
ابھی پالش بھی باقی ہے
کہ جوتوں پر لگی مٹی ذرا اچھی نہیں لگتی
ابھی تو کام اتنے ہیں، سویرے جلد اٹھنا ہے
سویرے اٹھ کے بچوں کے لئے پھر لنچ بنانا ہے
اُنہیں اسکول جانا ہے
سنو اے بے خبر شاعر
یہ مائیں وہ ہی مائیں ہیں
کہ جن کے پھولوں کو بادِقضا نے روند ڈالا ہے
ستم کا بول بالا ہے
سو اب ہر گز نہ تم اس بات کی تکرار کرنا نہ کہ
یہ مائیں کون مائیں ہیں؟
چلو اب جا کے ان ماؤں کو تھوڑا حوصلہ تو دو
انہیں جاکر ذرا کہہ دو
جو کپڑے خون میں ڈوبے ہوں اُن پر استری
ممکن نہیں شاید
یہ جوتوں پر جمی مِٹّی نہیں ہے خوں کے دھبّے ہیں
جو دنیا کی کسی پالش کی کالک سے کبھی بھی مٹ نہیں سکتے
اگر کچھ بھی نہ کہہ پاؤ
تو بس ،اتنا ہی کہہ دینا
کچھ نہ پیتی ہیں اور نہ کھاتی ہیں
لاشیں اسکول نہیں جاتی ہیں
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے نظم لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔