پاکستان ایک نظر میں پاکستان کا سب سے بڑا کتاب میلہ

ایک دورتھا چبہر گھر میں داداجان کی الگ لائبریری، ابا اور اماں جان کی الگ لائبریری جبکہ بچوں کا ذخیرہ الگ نظر آتا تھا۔


آزادی کے بعد ہم اتنے مصروف ہوگئے کہ ہمیں کتابیں پڑھنے کا موقع ہی نہ ملا۔ اس لیے ہمارا علم سطحی سا ہوگیا ہے۔ آج والدین کہتے ہیں کہ بچوں کے پاس وقت نہیں ہوتا جو وقت ملتا ہے وہ کمپیوٹر اور موبائل کی نذر ہوجاتا ہے۔ تو غلطی صرف بچوں کی نہیں والدین کی بھی ہوتی ہے! فوٹو: ایکسپریس

آپ کو اپنے اردگرد بے شمار ایسے لوگ ملیں گے جن کو کتابیں پڑھنے کا شغف ہوگا۔ ان کا بس چلے تو ایک ہی نشست کے اندر پوری کتاب چٹ کر جائیں لیکن معاملہ یہ ہے کہ یہ شغف اور انہماک انہیں دوسروں کے گھروں میں رکھی کتاب میں نظر آتا ہے۔ اپنی کتاب خریدتے ہوئے انہیں یہ احساس دامن گیر رہتا ہے کہ پڑھنے کے بعد اس کتاب کا کیا کرنا ہے۔ وہ کتاب کر پڑھ لینے کے بعد اسے ایک فضول شے سمجھنے لگتے ہیں۔

یہ المیہ اوسط پڑھے لکھے شخص سے لیکر اعلیٰ تعلیم یافتہ تک محیط ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ کتاب کے حوالے سے بڑی شاندار رہی ہے۔ خصوصا اندلس کے کتب خانوں کی پوری دنیا میں دھوم تھی۔ عراق میں بڑی بڑی لائبریریاں موجود تھیں جنھیں ہلاکو خان نے اپنے گھوڑوں کی سموں تلے روند ڈالا۔ جس کے باعث مسلمان اندھیر نگری کے مسافر بن بیٹھے۔ زیادہ دور مت جائیں برصغیر کو ہی لے لیں جہاں مسلمانوں کے دور ِحکومت اور انگریزوں کے آنے کے بعد بھی لوگوں میں کتابیں پڑھنے اور انھیں اپنی آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ رکھنے کا ایک قابل قدر اور شدید جذبہ نظر آتا ہے۔ اس دور میں شاید ہی کوئی ایسا گھر موجود ہو جہاں لوگوں کی لائبریریاں نظر نہ آتی ہوں۔ہر گھر میں دادا جان کی الگ لائبریری، ابا جان اور اماں جان کی الگ لائبریری۔۔۔ اور بچوں کی کتابوں کا ذخیرہ الگ نظر آتا تھا۔

لیکن۔۔۔!

آزادی کے بعد ہم اتنے مصروف ہوگئے کہ نہ ہمیں کتابیں پڑھنے کا موقع ملا اور نہ بچوں کے پاس کتابیں پڑھنے کا وقت ہے۔ اس لیے ان کا علم بھی سطحی سا ہوگیا ہے۔ ان کے خیالات کے اندر نہ گہرائی ہے اور نہ گیرائی۔۔۔ آج کے والدین کہتے ہیں کہ بچوں کے پاس وقت نہیں ہوتا جو وقت ملتا ہے وہ کمپیوٹر اور موبائل کی نذر ہوجاتا ہے۔ جب متعدد والدین نے مجھ سے اس بات کا شکوہ کیا کہ وہ اپنے دور میں بچوں کے رسائل بہت ذوق وشوق سے پڑھتے تھے لیکن اب ان کے بچے رسائل میں دلچسپی نہیں لیتے۔ میں سوچتا ہوں کہ یہ والدین اگر شکوہ کرنے کے بجائے ان وجوہ پر غور کریں جس کی وجہ سے بچے کتابوں سے دور ہوگئے ہیں تو شاید انھیں اپنے اس مسئلے کا حل نظر آجائے۔ ان کا کتاب سے دور ہونا۔۔۔رسالہ خرید کر نہ دینا۔۔۔اور اسکول میں نمبر کی دوڑ میں بچے کو مشین کی طرح استعمال کرنے سمیت بہت سی اور بھی وجوہات ہیں جس کی بنیاد پر بچہ کتاب سے دور۔۔۔دور اور بہت دور نکل گیا ہے۔

کراچی شہر میں ہر سال کی طرح اس سال بھی کتاب میلہ ایکسپو سینٹر میں جاری ہے۔ اس کتاب میلے میں بلاشبہ لاکھوں کی تعداد میں عام شہری آتے ہیں۔ پبلشرز بھی کتابوں کو ارزاں نرخوں پر فروخت کرتے ہیں۔ یہاں وہ لوگ بھی کتاب خرید ہی لیتے ہیں جو عموماً دوسروں کی خریدی ہوئی کتابیں پڑھتے ہیں ۔اس کتاب میلے میں ہر قسم کے لوگ آتے ہیں۔ یہ طبقہ مذہبی بھی ہوتا ہے اور سیکولر بھی۔۔۔یہاں کوئی تخصیص نہیں ہے۔ اس کتاب میلے سے جہاں کتابوں کو فروغ مل رہا ہے وہیں عوام بھی بڑا فائدہ اُٹھا رہا ہے۔ اس روایت کو فروغ ملنا چاہیے اور جو لوگ بھی اس کتاب میلے کو سجنے سنوارنے میں منہمک ہے وہ یقیناًپاکستانیوں کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہورہا ہے۔

کتاب میلے میں سب سے زیادہ چھوٹے بچوں کے حوالے سے کتابیں اور مصنوعات موجود ہوتی ہیں۔ بچوں کے چند رسائل تو اپنے مالی خسارے کے باوجود ہر سال اس کتب میلے میں شریک ہوتے ہیں۔ اگر آپ کراچی میں رہتے ہیں اور کتاب میلے میں شرکت نہ کی تو یقیناًآپ کو بدقسمت کہا جا سکتا ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں