سانحہ مشرقی پاکستان کے دن سانحہ پشاور

دنیا کا کوئی بھی مذہب کوئی بھی عقیدہ اور کوئی بھی فلسفہ حیات بچوں پر ظلم کرنے کا اختیار کسی فرد کو نہیں دے سکتا۔

سانحہ پشاور پر دل شدت غم سے پھٹ رہا ہے۔ دہشت گردوں کی بربریت پر خیبر پختونخوا سمیت ملک کا ہر گھر نوحہ کناں ہے۔ ملک بھر کی فضا سوگوار ہے۔ آہ! خون میں لت پت اپنے معصوم بچوں کے لاشے دیکھ کر ان ماؤں پر کیا گزری ہوگی؟ جنھوں نے اپنے جگر گوشوں کو اسکول کے یونیفارم میں پڑھنے بھیجا تھا، مگر ان کی واپسی ایسی حالت میں ہوئی کہ ان کے ہر ہر عضو سے خون رس رہا تھا۔ بچوں کو اسکول بھیجتے وقت انھیں کیا پتا ہو گا کہ آج کے بعد ہم انھیں زندہ نہیں دیکھ سکیں گے۔

خوشی سے جھومتے اور شاداں وفرحاں اسکول جانے والوں کوکب معلوم تھا کہ آج وہ وحشی درندوں کی سفاکی کا شکار ہوجائیں گے؟ کیا کوئی اس ماں کے درد و کرب کا اندازہ لگا سکتا ہے؟ ہاں! ہم صرف محسوس کرسکتے ہیں، مگر اس درد کی گہرائی اس ماں سے جاکر پوچھیے، جسے زخم لگا ہے، جس کا دل چھلنی چھلنی اور شدت غم سے نڈھال ہے، جس کا لخت جگر اس سے چھین لیا گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ پتھر جسے لگے اسے ہی معلوم ہوتا ہے کہ کتنا درد ہورہا ہے۔ دہشت گردوں کی بربریت نے انسانیت کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیں، معصوم بچوں کو نشانہ بنانے والے درندوں نے بچوں کا خیال رکھا اور نہ ہی تعلیمی ادارے کے تقدس کو ملحوظ رکھا۔ دہشت گردوں نے 142 گھروں میں صف ماتم بچھا دی۔

انھوں نے ایک پل کے لیے بھی یہ نہ سوچا کہ اس سے 142 افراد نہیں بلکہ 142 خاندان اجڑ کر رہ جائیں گے؟ جب کوئی فرد دہشت گردی کا شکار بنتا ہے تو وہ تنہا فرد نہیں ہوتا بلکہ ایک خاندان ہوتا ہے۔ وہ کسی کا باپ، کسی کا بیٹا، کسی کا خاوند، کسی کا بھائی اور کسی کی آنکھ کا تارا ہوتا ہے۔ جیسے ہی یہ سانحہ رونما ہوا پوری پاکستانی قوم چیخ اٹھی، ہر آنکھ اشکبار ہوگئی، ہر طرف کہرام مچ گیا۔ یہ سانحہ جگا دینے اور جھنجھوڑ دینے والا ہے۔

اس صدمے سے سنبھلنے میں دہائیاں لگ جائیں گی۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب کوئی بھی عقیدہ اور کوئی بھی فلسفہ حیات بچوں پر ظلم کرنے کا اختیار کسی فرد کو نہیں دے سکتا۔ پتا نہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا کیا بنے گا۔ وہ ملک جو ہمارے آباؤاجداد نے اسلام کے نام پر بنایا تھا، مگر آج ہم اسی اسلام کے نام پر ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں۔ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے ہیں۔ ہر طرف خون ہی خون بکھرا ہے۔ لاشیں ہی لاشیں نظر آتی ہیں۔ بدامنی و ناامیدی کے سائے مزید گہرے ہوتے چلے جارہے ہیں۔ پتا نہیں اس تاریک رات کی روشن صبح کبھی نمودار ہوگی بھی کہ نہیں؟


اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سولہ دسمبر کا انتخاب اتفاقی تھا؟ دہشت گردوں نے ہماری تاریخ کے سیاہ ترین دن ہی کو بدترین درندگی کے لیے منتخب کیا۔ 16 دسمبر 1971 کو ہمیشہ پاکستان کے دولخت ہونے کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے، ٹھیک 43 سال بعد اسی دن 136 بچوں کو شہیدکیا گیا۔ سولہ دسمبر 2014 کا لہورنگ ، سیا ہ دن پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رہے گا۔

ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق عراق کے بعد دہشت گردوں کی بربریت کا نشانہ بننے والے ممالک میں سے پاکستان کا نام سرفہرست ہے۔ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے حکومت پاکستان نے ایک پالیسی بنائی جسے انٹرنل سیکیورٹی پالیسی 2013-2018 کا نام دیا گیا۔ اس سیکیورٹی پالیسی میں امریکی نیشنل کنسورشیم کے زیر اہتمام ہونے والی ایک اسٹڈی کا حوالہ بھی دیا گیا ہے جس کے مطابق 2014 تک دہشت گردی کے 1523 واقعات رونما ہوئے، جب کہ اس عرصے میں عراق میں ایسے واقعات کی تعداد 1271 ہے، یہاں تک کہ افغانستان میں بھی اس عرصہ کے دوران 1023 واقعات رونما ہوئے۔

ان دھماکوں کے اعداد و شمار کا تجزیہ کیا جائے تو کل ہوئے دھماکوں میں سب سے زیادہ ظالمانہ کارروائیاں خیبر پختونخوا میں ہوئیں جو کہ کل تعداد کی 33 فیصد بنتی ہیں۔ بلوچستان میں ایسی کارروائیاں 23 فیصد، فاٹا میں 9.6 فیصد، سندھ میں 18 اور پنجاب میں 13.9 فیصد ہوئی ہیں۔ نیشنل انٹرنل سیکیورٹی پالیسی کی دستاویزات کے مطابق 2014 تک ہونے والے شہدا کی تعداد 48994 ہے جن میں 5272 افراد قانون نافذ کرنے والے اہلکار ہیں۔ ان شہدا میں بیشتر پچھلے تین برسوں میں دہشت گردی کا نشانہ بنائے گئے۔

یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ جنوری 2014 سے نومبر 2014 تک 1042 الرٹس اور 672 انفارمیشن رپورٹس جاری کی گئیں، لیکن ان سب کے باوجود دہشت گرد ہمیشہ اپنے عزائم میں کامیاب رہے۔ یہ ہماری انٹیلی جنس کی ناکامی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم آئے دن یہ سنتے ہیں کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی، ان کا نیٹ ورک ختم ہوگیا، وغیرہ وغیرہ۔ اس قسم کے دہشت گردانہ حملوں سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اب تک ایسا نہیں ہوپایا۔

پاکستان کی سالمیت اور یکجہتی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ اب پولیس اور ایجنسیوں کو موثر طریقے سے بروئے کار لانا ہوگا۔ شہروں میں نیٹ ورک توڑنے کے لیے ہمیں اپنے روایتی پولیسنگ سسٹم کو مضبوط اور موثر بنانا ہوگا۔ اس کو کاؤنٹر کرنے کے لیے ہمیں انٹیلی جنس شئیرنگ، دہشت گردوں کی سپورٹ بیس توڑنے اور حفاظتی نظام کو ہر حال میں موثر بنانا ہوگا۔ جب تک دہشت گردوں کی ٹولیاں جدید ترین اسلحے سے لیس ہو کر کسی ہدف تک پہنچنے اور وہاں داخل ہوجانے میں کامیاب ہوتی رہیں گی، تب تک ایسے واقعات ہوتے رہیں گے، تب تک ہم ان کا سدباب نہیں کرسکتے۔ اس لیے اب اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ حکومت سمیت تمام قومی اداروں اور مقتدر حلقوں کو دہشت گردی کے خلاف جانفشانی سے کام کرنا ہوگا، بصورت دیگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری مشکلات میں اضافہ ہوتا رہے گا۔
Load Next Story