غیر ملکی فلمیںڈرامے اور قومی ثقافت
پاکستانی فلموں کے مقابلے میں انڈین فلموں سے زیادہ آمدنی کی وجہ سے پاکستانی فلموں کو نظر انداز کیا جانے لگا ہے۔
پاکستان میں ہندوستانی فلموں کی نمائش پر 1963 سے پابندی تھی۔ 2008 سے ہندوستانی فلموں کی نمائش کا سلسلہ شروع ہوا پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ فلمیں پاکستانی سینماؤں پر چھاگئی۔ شائقین نے ایک مرتبہ پھر سینماؤں کا رخ کیا تو ان فلموں کی نمائش سے ان کے درآمد کنندگان و نمائش کنند گان کو کثیر آمدنی حاصل کرنے کا ذریعہ میسر آگیا۔ گزشتہ دو سال میں سینما انڈسٹری کو مثالی ترقی حاصل ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت سینما انڈسٹری سب سے زیادہ منافع بخش انڈسٹری بن چکی ہے، جدید ٹیکنالوجی اور سہولیات سے آراستہ سینما گھروں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہاہے، بڑی تعداد میں سینما گھر تکمیل کے مراحل میں ہے، جدید سینماؤں میں فلم بینوں کو گھر بیٹھے اپنی پسندیدہ فلم کی بکنگ کرانے کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔
اب فلمیں مہینوں کا بزنس دنوں میں حاصل کررہی ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان جدید سینما گھروں کے ٹکٹ روایتی سینما گھروں کے مقابلے میں سوگنا تک زیادہ ہیں جس سے سستی تفریح کا ذریعہ ختم ہوکر صرف متمول افراد تک محدود ہوگیا ہے دوسری جانب پاکستانی فلموں کی نمائش میں مزید کمی اور رکاوٹیں رونما ہوئی ہیں، پاکستانی فلموں کے مقابلے میں انڈین فلموں سے زیادہ آمدنی کی وجہ سے پاکستانی فلموں کو نظر انداز کیا جانے لگا ہے، اس صورت حال سے فلم درآمد کنندگان، فلمسازوں اور سینما مالکان میں اختلافات بڑھے ہیں۔ اس یقین دہانی کے باوجود کہ خاص طور پر عید و تہواروں کے موقع پر پاکستانی فلموں کی نمائش کو ترجیح دی جائے گی، وعدہ خلافی کی گئی، بعض پاکستانی فلمیں دو روز میں اتاردی گئی۔ ایسی صورت حال میں پاکستانی فلم سازوں کو بہت سے خدشات اور تحفظات لاحق ہیں کہ مستقبل میں کہیں پاکستانی فلموں کو بالکل نظر انداز نہ کردیا جائے۔
حال ہی میں اے بی پکچر کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی گئی ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ پاکستان میں بھارتی فلموں کی اسمگلنگ کی جارہی ہے اور درآمد کے نام پر جعلی دستاویزات جمع کرائی جارہی ہیں جو دھوکا ہے۔ فلم سینسر بورڈ غیر قانونی طور پر ان فلموں کی نمائش کے سرٹیفکیٹ جاری کر رہا ہے۔ درآمد کنندگان خود کو ان فلموں کے ڈائریکٹرز اور پروڈیوسرز ظاہر کررہے ہیں جب کہ قانوناً بھارت میں بنائی گئی فلموں پر پابندی عائد ہے بھارتی فلموں کی متحدہ عرب امارات سے در آمد ظاہر کی جاتی ہے اور فلموں کی ریل میں ترمیم کردی جاتی ہے جو جعلسازی اور دھوکا دہی کے زمرے میں آتا ہے۔
پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ قانونی طور پر بھارتی فلم جس کی شوٹنگ بھارت میں کی گئی ہو پاکستانی سینماؤں پر نمائش کے لیے پیش نہیں کی جاسکتی۔ سینماؤں کو صرف ایسی فلمیں چلانے کی اجازت ہے جن کی عکس بندی بھارت کے علاوہ کسی بھی ملک یا شہر میں کی گئی ہو۔ پاکستانی فلمیں جو زیادہ بزنس نہیں کرتی مالکان سینما انھیں من مانے اور یکطرفہ طور پر اتاردیتے ہیں بعض فلمیں تو محض ایک یا دو شو کے بعد اچانک اتار دی گئی جس سے فلمساز و تقسیم کار شدید مالی نقصانات کا سامنا کررہے ہیں۔
اے بی پکچر کے منیجر گل حمید بلوچ کا کہنا ہے کہ پاکستانی فلموں کے مقابلے میں انڈین فلموں کی نمائش کو ترجیح دی جاتی ہے جب کہ پاکستانی فلموں کو بھارت تو درکنار متحدہ عرب امارات میں بھی نمائش کے حوالے سے گریز کا مظاہرہ کیا جاتا ہے نامعلوم افراد کی بلاک بسٹر کامیابی کے باوجود بین الاقوامی طور پر اس کی نمائش نہیں کی گئی جب کہ انڈین فلموں کی نمائش کر کے قوم کو بگاڑا جا رہاہے انھوں نے کہاکہ بعض لوگوں کا موقف ہے کہ بھارتی فلموں نے سینماؤں کو فروغ دیا ہے، سراسر غلط ہے اصل حقیقت اس کے برعکس ہے یہ سینما گھر صرف اور صرف بھارتی غیر قانونی ذرایع سے حاصل کی جانے والی فلموں کی نمائش کے لیے تیار کیے گئے ہیں۔
پاکستان میں انڈین فلموں کی درآمد اور نمائش سے متعلق فلمی صنعت سے وابستہ لوگ دو حصوں میں منقسم نظر آتے ہیں۔ یہی رجحان عام پاکستانی فلم بینوں میں بھی ہے، نئی نسل خاص طور پر طلبا، خواتین اور بچے انڈین فلموں، موسیقی، ڈراموں اور ٹی وی چینلز سے بے متاثر نظر آتے ہیں ان کے آئیڈیل اور موضوع گفتگو بھی کترینہ، کرینہ، شاہ رخ اور عامر خان وغیرہ ہوتے ہیں کیوں کہ پاکستان فلمیں ڈرامے اور موسیقی معیار اور تعداد میں بھی کم ہیں۔ ہر جگہ دستیاب بھی نہیں جب کہ بالی وڈ کی رسائی دنیا کے کونے کونے میں ہے۔ دنیا بھر میں اس کا اثر و رسوخ اور وسیع مارکیٹ ہے، شہرت اور دولت کی ریل پیل اور چکا چوند نے پاکستانی شوبزنس سے وابستہ افراد کی نظریں بھی خیرہ کر دی ہیں۔
اس لیے فلمی صنعت، ڈراموں اور موسیقی و قوالی کے شعبوں سے وابستہ افراد کے لیے ہندوستان ایک مرغوب ملک بن چکا ہے جہاں انھیں شہرت، ترقی اور کیریئر کے وسیع مواقع نظر آتے ہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سے پاکستانی فنکار یہاں رہتے ہوئے اپنا کوئی مقام یا شناخت نہ بناسکے۔ سلمیٰ آغا، عدنان سمیع، نازیہ حسن وغیرہ کو بالی وڈ نے ہی پاکستانیوں سے روشناس کرایا۔ فلمی صنعت سے وابستہ افراد کی بالی وڈ کی فلموں کی نمائش کے حامی یا مخالف ہونے میں ان کے مالی مفادات کا بڑا دخل ہے جس کی وجہ سے قومی مفادات اور پاکستانی معاشرت اور فلمی صنعت پر پڑنے والے منفی اثرات ان کی نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔
یہ بات وزن رکھتی ہے کہ مکمل پابندی سے بھارتی رد عمل سامنے آگیا اور پاکستانی فنکار جو انڈین فلموں اور چینلز پر جگمگا رہے ہیں ان کے راستے بند اور سینما انڈسٹری متاثر ہوگی اور پابندی کے باوجود دیگر ذرایع سے بھارتی فلمیں، ڈرامہ اور ٹی وی چینلز پاکستان میں دیکھے جاتے رہیں گے ۔ بات صرف پاکستان کے معاشی مفاد یا نقصان کی نہیں ہے بلکہ اس کا نظریاتی پہلو سب سے اہم ہے ۔ جب ہم جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے بجٹ کا کثیر حصہ خرچ کرسکتے ہیں تو کیا ہمیں اس کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لیے تھوڑے سے مال مفاد کی قربانی نہیں دینی چاہیے؟ پاکستانی فنکار، فلم ساز، بینڈز اور ٹی وی چینلز بہتر سے بہتر کارکردگی کے ذریعے معیار کو بہتر بناکر عوام ان کی پذیرائی اور حکومت معاونت اور مالی امداد کے ذریعے بھارتی یلغار کا مقابلہ کرنے کی کوششیں تو کرسکتے ہیں۔
اس صورت حال پر امجد اسلام امجد کا کہناہے کہ ٹی وی ڈرامہ سارے خاندان کے لیے ہوتا تھا جسے منظم طریقے سے تقسیم کردیاگیا ہے، مرد نیوز چینلز اور خواتین انٹرٹینمنٹ چینلز میں تقسیم ہوگئے ہیں۔ ڈراموں میں ریٹنگ اور اخباروں میں مارکیٹنگ رہ گئی ہے پاکستان کے سماج میں کیا ہونا چاہیے اس کا فیصلہ دانشور طبقے یا متعلقہ شعبے کے ماہرین نہیں بلکہ ملکی و غیر ملکی تاجر کرتے ہیں کہ پاکستان کے سماج کو کیا دیاجائے اور کیا نہ دیاجائے ٹی وی ایک سماجی کردار ادا کرتا ہے جو ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں دے دیاگیا ہے جنھیں آنے والے وقت کا ادراک نہیں وہ آنے والے طوفان کا مقابلہ نہیں کرسکے اور نہ کرسکتے ہیں جسنے سماج کے تار پود کو جڑوں سے ہلاکر رکھ دیا ہے۔
پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے آئین کے تحت اسلام معاشرے کا قیام، اسلامی اقدار و تشخص کا تحفظ اور ایک ایسے معاشرے کا قیام جہاں مسلمان انفرادی و اجتماعی طور پر اپنی زندگیاں اسلامی اصولوں اور اقدار کے مطابق بسر کرسکیں۔ حکومت کی آئینی ذمے داری ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کی فلموں کی زبان ایک ہے دونوں ملکوں کے عوام کے مزاج اور ثقافت میں بھی کافی حد تک یکسانیت ہے جس کی وجہ سے ان کے فوری اور دور رس اثرات پاکستانی ناظرین پر براہ راست مرتب ہوتے ہیں۔
سونیا گاندھی تو یہ کہہ چکی ہیں کہ ہم نے پاکستان سے ثقافتی جنگ جیت لی ہے۔ انڈین فلموں میں جو کچھ دکھایاجاتا ہے وہ پاکستانی معاشرہ تو درکنار خود ہندوستانی معاشرے سے بھی تعلق نہیں رکھتی، ہماری عام گفتگو، پروگراموں، ڈراموں اور خبروں تک میں ہندی کے الفاظ جا بجا بلاوجہ اور بھونڈے طریقے سے استعمال کیے جارہے ہیں۔ آتمائیں، آسیب و جادو اور گھریلو سازشیں اور نقالی ہمارے پروگراموں کا حصہ بنتے جارہے ہیں ۔ شوبزنس سے وابستہ افراد اور حکومت کو ان پہلوؤں کا سنجیدگی سے جائزہ لے کر اپنا قومی کردار اور ذمے داریاں نبھانی چاہئیں۔
اب فلمیں مہینوں کا بزنس دنوں میں حاصل کررہی ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان جدید سینما گھروں کے ٹکٹ روایتی سینما گھروں کے مقابلے میں سوگنا تک زیادہ ہیں جس سے سستی تفریح کا ذریعہ ختم ہوکر صرف متمول افراد تک محدود ہوگیا ہے دوسری جانب پاکستانی فلموں کی نمائش میں مزید کمی اور رکاوٹیں رونما ہوئی ہیں، پاکستانی فلموں کے مقابلے میں انڈین فلموں سے زیادہ آمدنی کی وجہ سے پاکستانی فلموں کو نظر انداز کیا جانے لگا ہے، اس صورت حال سے فلم درآمد کنندگان، فلمسازوں اور سینما مالکان میں اختلافات بڑھے ہیں۔ اس یقین دہانی کے باوجود کہ خاص طور پر عید و تہواروں کے موقع پر پاکستانی فلموں کی نمائش کو ترجیح دی جائے گی، وعدہ خلافی کی گئی، بعض پاکستانی فلمیں دو روز میں اتاردی گئی۔ ایسی صورت حال میں پاکستانی فلم سازوں کو بہت سے خدشات اور تحفظات لاحق ہیں کہ مستقبل میں کہیں پاکستانی فلموں کو بالکل نظر انداز نہ کردیا جائے۔
حال ہی میں اے بی پکچر کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی گئی ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ پاکستان میں بھارتی فلموں کی اسمگلنگ کی جارہی ہے اور درآمد کے نام پر جعلی دستاویزات جمع کرائی جارہی ہیں جو دھوکا ہے۔ فلم سینسر بورڈ غیر قانونی طور پر ان فلموں کی نمائش کے سرٹیفکیٹ جاری کر رہا ہے۔ درآمد کنندگان خود کو ان فلموں کے ڈائریکٹرز اور پروڈیوسرز ظاہر کررہے ہیں جب کہ قانوناً بھارت میں بنائی گئی فلموں پر پابندی عائد ہے بھارتی فلموں کی متحدہ عرب امارات سے در آمد ظاہر کی جاتی ہے اور فلموں کی ریل میں ترمیم کردی جاتی ہے جو جعلسازی اور دھوکا دہی کے زمرے میں آتا ہے۔
پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ قانونی طور پر بھارتی فلم جس کی شوٹنگ بھارت میں کی گئی ہو پاکستانی سینماؤں پر نمائش کے لیے پیش نہیں کی جاسکتی۔ سینماؤں کو صرف ایسی فلمیں چلانے کی اجازت ہے جن کی عکس بندی بھارت کے علاوہ کسی بھی ملک یا شہر میں کی گئی ہو۔ پاکستانی فلمیں جو زیادہ بزنس نہیں کرتی مالکان سینما انھیں من مانے اور یکطرفہ طور پر اتاردیتے ہیں بعض فلمیں تو محض ایک یا دو شو کے بعد اچانک اتار دی گئی جس سے فلمساز و تقسیم کار شدید مالی نقصانات کا سامنا کررہے ہیں۔
اے بی پکچر کے منیجر گل حمید بلوچ کا کہنا ہے کہ پاکستانی فلموں کے مقابلے میں انڈین فلموں کی نمائش کو ترجیح دی جاتی ہے جب کہ پاکستانی فلموں کو بھارت تو درکنار متحدہ عرب امارات میں بھی نمائش کے حوالے سے گریز کا مظاہرہ کیا جاتا ہے نامعلوم افراد کی بلاک بسٹر کامیابی کے باوجود بین الاقوامی طور پر اس کی نمائش نہیں کی گئی جب کہ انڈین فلموں کی نمائش کر کے قوم کو بگاڑا جا رہاہے انھوں نے کہاکہ بعض لوگوں کا موقف ہے کہ بھارتی فلموں نے سینماؤں کو فروغ دیا ہے، سراسر غلط ہے اصل حقیقت اس کے برعکس ہے یہ سینما گھر صرف اور صرف بھارتی غیر قانونی ذرایع سے حاصل کی جانے والی فلموں کی نمائش کے لیے تیار کیے گئے ہیں۔
پاکستان میں انڈین فلموں کی درآمد اور نمائش سے متعلق فلمی صنعت سے وابستہ لوگ دو حصوں میں منقسم نظر آتے ہیں۔ یہی رجحان عام پاکستانی فلم بینوں میں بھی ہے، نئی نسل خاص طور پر طلبا، خواتین اور بچے انڈین فلموں، موسیقی، ڈراموں اور ٹی وی چینلز سے بے متاثر نظر آتے ہیں ان کے آئیڈیل اور موضوع گفتگو بھی کترینہ، کرینہ، شاہ رخ اور عامر خان وغیرہ ہوتے ہیں کیوں کہ پاکستان فلمیں ڈرامے اور موسیقی معیار اور تعداد میں بھی کم ہیں۔ ہر جگہ دستیاب بھی نہیں جب کہ بالی وڈ کی رسائی دنیا کے کونے کونے میں ہے۔ دنیا بھر میں اس کا اثر و رسوخ اور وسیع مارکیٹ ہے، شہرت اور دولت کی ریل پیل اور چکا چوند نے پاکستانی شوبزنس سے وابستہ افراد کی نظریں بھی خیرہ کر دی ہیں۔
اس لیے فلمی صنعت، ڈراموں اور موسیقی و قوالی کے شعبوں سے وابستہ افراد کے لیے ہندوستان ایک مرغوب ملک بن چکا ہے جہاں انھیں شہرت، ترقی اور کیریئر کے وسیع مواقع نظر آتے ہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سے پاکستانی فنکار یہاں رہتے ہوئے اپنا کوئی مقام یا شناخت نہ بناسکے۔ سلمیٰ آغا، عدنان سمیع، نازیہ حسن وغیرہ کو بالی وڈ نے ہی پاکستانیوں سے روشناس کرایا۔ فلمی صنعت سے وابستہ افراد کی بالی وڈ کی فلموں کی نمائش کے حامی یا مخالف ہونے میں ان کے مالی مفادات کا بڑا دخل ہے جس کی وجہ سے قومی مفادات اور پاکستانی معاشرت اور فلمی صنعت پر پڑنے والے منفی اثرات ان کی نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔
یہ بات وزن رکھتی ہے کہ مکمل پابندی سے بھارتی رد عمل سامنے آگیا اور پاکستانی فنکار جو انڈین فلموں اور چینلز پر جگمگا رہے ہیں ان کے راستے بند اور سینما انڈسٹری متاثر ہوگی اور پابندی کے باوجود دیگر ذرایع سے بھارتی فلمیں، ڈرامہ اور ٹی وی چینلز پاکستان میں دیکھے جاتے رہیں گے ۔ بات صرف پاکستان کے معاشی مفاد یا نقصان کی نہیں ہے بلکہ اس کا نظریاتی پہلو سب سے اہم ہے ۔ جب ہم جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے بجٹ کا کثیر حصہ خرچ کرسکتے ہیں تو کیا ہمیں اس کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لیے تھوڑے سے مال مفاد کی قربانی نہیں دینی چاہیے؟ پاکستانی فنکار، فلم ساز، بینڈز اور ٹی وی چینلز بہتر سے بہتر کارکردگی کے ذریعے معیار کو بہتر بناکر عوام ان کی پذیرائی اور حکومت معاونت اور مالی امداد کے ذریعے بھارتی یلغار کا مقابلہ کرنے کی کوششیں تو کرسکتے ہیں۔
اس صورت حال پر امجد اسلام امجد کا کہناہے کہ ٹی وی ڈرامہ سارے خاندان کے لیے ہوتا تھا جسے منظم طریقے سے تقسیم کردیاگیا ہے، مرد نیوز چینلز اور خواتین انٹرٹینمنٹ چینلز میں تقسیم ہوگئے ہیں۔ ڈراموں میں ریٹنگ اور اخباروں میں مارکیٹنگ رہ گئی ہے پاکستان کے سماج میں کیا ہونا چاہیے اس کا فیصلہ دانشور طبقے یا متعلقہ شعبے کے ماہرین نہیں بلکہ ملکی و غیر ملکی تاجر کرتے ہیں کہ پاکستان کے سماج کو کیا دیاجائے اور کیا نہ دیاجائے ٹی وی ایک سماجی کردار ادا کرتا ہے جو ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں دے دیاگیا ہے جنھیں آنے والے وقت کا ادراک نہیں وہ آنے والے طوفان کا مقابلہ نہیں کرسکے اور نہ کرسکتے ہیں جسنے سماج کے تار پود کو جڑوں سے ہلاکر رکھ دیا ہے۔
پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے آئین کے تحت اسلام معاشرے کا قیام، اسلامی اقدار و تشخص کا تحفظ اور ایک ایسے معاشرے کا قیام جہاں مسلمان انفرادی و اجتماعی طور پر اپنی زندگیاں اسلامی اصولوں اور اقدار کے مطابق بسر کرسکیں۔ حکومت کی آئینی ذمے داری ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کی فلموں کی زبان ایک ہے دونوں ملکوں کے عوام کے مزاج اور ثقافت میں بھی کافی حد تک یکسانیت ہے جس کی وجہ سے ان کے فوری اور دور رس اثرات پاکستانی ناظرین پر براہ راست مرتب ہوتے ہیں۔
سونیا گاندھی تو یہ کہہ چکی ہیں کہ ہم نے پاکستان سے ثقافتی جنگ جیت لی ہے۔ انڈین فلموں میں جو کچھ دکھایاجاتا ہے وہ پاکستانی معاشرہ تو درکنار خود ہندوستانی معاشرے سے بھی تعلق نہیں رکھتی، ہماری عام گفتگو، پروگراموں، ڈراموں اور خبروں تک میں ہندی کے الفاظ جا بجا بلاوجہ اور بھونڈے طریقے سے استعمال کیے جارہے ہیں۔ آتمائیں، آسیب و جادو اور گھریلو سازشیں اور نقالی ہمارے پروگراموں کا حصہ بنتے جارہے ہیں ۔ شوبزنس سے وابستہ افراد اور حکومت کو ان پہلوؤں کا سنجیدگی سے جائزہ لے کر اپنا قومی کردار اور ذمے داریاں نبھانی چاہئیں۔