کشکول فری پاکستان
بجلی ہے تو پانی ہے، بجلی اگر ہے تو اس کے دام سونے کے داموں سے بھی زیادہ ہیں جو غریب عوام کے لیے ناقابل برداشت ہے۔
پاکستان کی برطانوی طرز کی طاقتور بیورو کریسی کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت کا کام عوامی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے ماضی، حال، مستقبل کے پیش نظر مستحکم داخلی اور خارجی پالیسیوں کی ترتیب اور ان کا موثر نفاذ ہے۔ کاروبار کرنا حکومت کے فرائض منصبی نہیں۔ کاروبار کرنا صرف غیر حکومتی ''پرائیوٹ'' لوگوں کا کام ہے۔
چلیے مان لیا یہ تو بہت اچھی اور تعمیری بات ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر عوام کے ووٹوں سے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے والوں کے فرائض منصبی اور ذمے داریاں کیا ہیں؟ یہی ایک اہم نقطہ ہے جو ہر عام آدمی جاننا چاہتا ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے عوامی نمایندگان یا عوامی خادمان جن کے ماتحت ملک میں تعلیم یافتہ، ذہین، تربیت یافتہ، بیدار مغز طاقتور افراد کی ایک مضبوط ٹیم کام کرتی ہے، جس کو عرف عام میں بیورو کریسی کہیں گے۔ یہ گروپ ملکی اور غیر ملکی حالات سے بغور واقف ہوتے ہیں انھی کے ذریعے سلطنت کی باگ ڈور چلتی ہے اور ان ایوانوں میں پہنچنے والے عوامی خادمان ملک میں رہنے والے عوام کے مسائل سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔
انھی مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے ایوانوں میں ان مسائل کے حل کے لیے آواز بلند کی جاتی ہے۔ حکومت میں شامل کابینہ کے ارکان (وزراء کا گروپ) ان بیورو کریٹس افراد کی مدد سے ان مسائل کے حل کے لیے مربوط پالیسیاں تیار کرواتی ہیں اور ان کے نفاذ کو ممکن بناتی ہے۔
بہرحال اس تمہید کو باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ منتخب حکومتوں کا کام صرف اور صرف عوامی فلاح و بہبود کے کام بجا لانا ہے نہ کہ ان کے لیے مسائل پیدا کرنا۔ منتخب حکومتوں کا عوام کی فلاح و بہبود اور ان کی خدمت، ان کے مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے کچھ عوامی خدمت سے متعلق شعبہ جات کو اپنے کنٹرول میں رکھنے پڑتے ہیں، تاکہ عوام کو کسی قسم کی خدمات کی فراہمی میں خلل پیدا نہ ہو پائے۔ ان اداروں کو براہ راست اپنی تحویل میں رکھنا ان کی ترجیحات میں شامل ہیں۔ بجلی، گیس، پانی کی فراہمی، صحت، بلدیاتی اور شہری خدمات، ریلوے کا نظام، یہ ایسے عوامی خدمات کے شعبہ جات ہیں جن کا تعلق عوام سے براہ راست ہے مگر صد افسوس ان میں سے کچھ شعبوں کو نجی شعبوں کے حوالے کرنا عوام کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔
بلاشبہ بجلی عام آدمی کی معاشی ، معاشرتی ، سماجی زندگی کی تکمیل کی بنیاد ہے ۔ بجلی ہے تو پانی ہے، بجلی اگر ہے تو اس کے دام سونے کے داموں سے بھی زیادہ ہیں جو غریب عوام کے لیے ناقابل برداشت ہے ۔ بجلی کی چوری کی روک تھام کے لیے ایک مربوط پالیسی یا نظام کی اشد ضرورت ہے ۔ بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ جو عوام کی بلڈ شیڈنگ سے کم نہیں ہے ۔ اس سلسلے میں حکومت کی طرف سے رعایتی نرخوں پر Subsidiary بنیاد پر بجلی کے ریٹ مخصوص کیے جانے چاہیے تاکہ بلوں کی مد میں واجبات کی ادائیگی کو آسان اور چوری کی روک تھام ہوسکے ۔ بجلی کے محکموں کونجی شعبوں کے حوالے کرنا کسی بھی منتخب حکومت کا قابل فخر کارنامہ نہیں ہوتا۔
سن رہے ہیں کہ گیس کا محکمہ بھی عنقریب نجی شعبے کے حوالے کردیے جانے کی تیاری ہورہی ہے۔پیٹرولیم اور بجلی کی مصنوعات میں کمی حکومت کی طرف سے ایک خوش آیند عمل ہے جو یقینا قابلِ تعریف ہے عوام کو حکومت کے اس عمل سے کسی حد تک ریلیف ملا ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مہنگائی کی شرح میں بھی اُسی انداز سے کمی ہو جو نہ ہوسکی۔ ریلوے عوام کی ایک شہر سے دوسرے شہر تک رسائی کا ایک اہم اور محفوظ ذریعہ ہے ہمیں یہ بات جانتے ہوئے بڑی خوشی محسوس ہوتی ہے کہ اس محکمے کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کا حکومتی پروگرام ملتوی کرکے کچھ ٹرینز نجی شعبے کے حوالے کرنے کا ایک اچھا تجربہ ہے جس کی وجہ سے ٹرینوں کی بروقت آمدورفت ممکن ہوسکی۔ حکومت مبارکباد کی مستحق ہے بالخصوص ریلوے کے وفاقی وزیر جناب خواجہ سعد رفیق کی ذاتی کوششوں سے ریلوے کے بحران کو کسی حد تک قابو پالیا گیا ہے ۔
حال ہی میں موصوف وزیر نے ایک مقامی چینل پر خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے فوری طور پر لیے گئے اقدامات کا تذکرہ کرتے ہوئے واضح کیا کہ ریلوے کی 2600 ایکڑزمین پر مختلف اداروں اور افراد کا قبضہ ہے جس کے حصول کے لیے سپریم کورٹ میں کیسز زیرِ سماعت ہیں ۔ملازمین اور عملے کو 100% لائف انشورڈ کیا جائے گا اور کرائے میں کسی قسم کا اضافہ نہیں کیا جائیگا ۔ٹرینوں کی رفتار میں بھی اضافہ کیاجائے گا ۔اس کے علاوہ 518 ایکڑ زمین جو ریلوے کی ملکیت ہے واگزار کرائی جائے گی۔ ریلوے میں ٹرین منیجر کا سسٹم فوری طور پر متعارف کروا دیا گیا ہے ۔ پینشنرز کو آٹو مشن پر لایا جارہا ہے ۔ موصوف وزیر کے ان اقدامات پر ہم مبارکباد پیش کرتے ہیں۔
ہم تو صرف ایک بات جانتے ہیں کہ افسر یا وزیر کوئی برا نہیں ہوتا برا بناتے ہیں اُس کے ارد گرد کے سپورٹنگ عملہ اور پالیسی ساز ارکان ۔ یہ ایک حقیقت ہے جو سچا اور مخلص کام کرنے والا ہوگا فطری طور پر اُس کے مخالفین بھی بے شمار ہونگے۔
ہمارا ملک پاکستان قدرتی معدنیات، وسائل کی وجہ سے پوری دنیا میں اول نمبر پر ہے، ہمارے ہاں کسی بھی چیز کی کمی نہیں، کمی ہے تو صرف اس کا طریقے سے استعمال کرنا۔ اگر ان وسائل کو ہم مخصوص قدرگردانتے ہوئے اس کو بروئے کار لائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ پوری دنیا میں ایک ''کشکول فری'' قوم کی حیثیت میں ہمارا نام شمار ہو۔
حالیہ پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں ہونے والا افسوس ناک واقعہ جس نے قوم کے ہر فرد کو ذہنی کوفت میں مبتلا کردیا ہے جس میں معصوم 152 بچوں سمیت خواتین اساتذہ جنھیں بے دلی رحمی سے شہید کیا گیا جو پوری دنیا کی انسانیت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا ہے۔ حیوانیت کے اس عمل کی روک تھام ترقی یافتہ دنیا بالخصوص اقوام متحدہ کو اس انسانی مسئلہ کو ترجیحی بنیاد پر لینا وقت کی اہم ضرورت ہے ورنہ اس بربریت سے دنیا کا کوئی شخص محفوظ نہیں رہے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس ناگہانی سے محفوظ رکھے۔ (آمین ثم آمین)
چلیے مان لیا یہ تو بہت اچھی اور تعمیری بات ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر عوام کے ووٹوں سے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے والوں کے فرائض منصبی اور ذمے داریاں کیا ہیں؟ یہی ایک اہم نقطہ ہے جو ہر عام آدمی جاننا چاہتا ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے عوامی نمایندگان یا عوامی خادمان جن کے ماتحت ملک میں تعلیم یافتہ، ذہین، تربیت یافتہ، بیدار مغز طاقتور افراد کی ایک مضبوط ٹیم کام کرتی ہے، جس کو عرف عام میں بیورو کریسی کہیں گے۔ یہ گروپ ملکی اور غیر ملکی حالات سے بغور واقف ہوتے ہیں انھی کے ذریعے سلطنت کی باگ ڈور چلتی ہے اور ان ایوانوں میں پہنچنے والے عوامی خادمان ملک میں رہنے والے عوام کے مسائل سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔
انھی مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے ایوانوں میں ان مسائل کے حل کے لیے آواز بلند کی جاتی ہے۔ حکومت میں شامل کابینہ کے ارکان (وزراء کا گروپ) ان بیورو کریٹس افراد کی مدد سے ان مسائل کے حل کے لیے مربوط پالیسیاں تیار کرواتی ہیں اور ان کے نفاذ کو ممکن بناتی ہے۔
بہرحال اس تمہید کو باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ منتخب حکومتوں کا کام صرف اور صرف عوامی فلاح و بہبود کے کام بجا لانا ہے نہ کہ ان کے لیے مسائل پیدا کرنا۔ منتخب حکومتوں کا عوام کی فلاح و بہبود اور ان کی خدمت، ان کے مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے کچھ عوامی خدمت سے متعلق شعبہ جات کو اپنے کنٹرول میں رکھنے پڑتے ہیں، تاکہ عوام کو کسی قسم کی خدمات کی فراہمی میں خلل پیدا نہ ہو پائے۔ ان اداروں کو براہ راست اپنی تحویل میں رکھنا ان کی ترجیحات میں شامل ہیں۔ بجلی، گیس، پانی کی فراہمی، صحت، بلدیاتی اور شہری خدمات، ریلوے کا نظام، یہ ایسے عوامی خدمات کے شعبہ جات ہیں جن کا تعلق عوام سے براہ راست ہے مگر صد افسوس ان میں سے کچھ شعبوں کو نجی شعبوں کے حوالے کرنا عوام کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔
بلاشبہ بجلی عام آدمی کی معاشی ، معاشرتی ، سماجی زندگی کی تکمیل کی بنیاد ہے ۔ بجلی ہے تو پانی ہے، بجلی اگر ہے تو اس کے دام سونے کے داموں سے بھی زیادہ ہیں جو غریب عوام کے لیے ناقابل برداشت ہے ۔ بجلی کی چوری کی روک تھام کے لیے ایک مربوط پالیسی یا نظام کی اشد ضرورت ہے ۔ بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ جو عوام کی بلڈ شیڈنگ سے کم نہیں ہے ۔ اس سلسلے میں حکومت کی طرف سے رعایتی نرخوں پر Subsidiary بنیاد پر بجلی کے ریٹ مخصوص کیے جانے چاہیے تاکہ بلوں کی مد میں واجبات کی ادائیگی کو آسان اور چوری کی روک تھام ہوسکے ۔ بجلی کے محکموں کونجی شعبوں کے حوالے کرنا کسی بھی منتخب حکومت کا قابل فخر کارنامہ نہیں ہوتا۔
سن رہے ہیں کہ گیس کا محکمہ بھی عنقریب نجی شعبے کے حوالے کردیے جانے کی تیاری ہورہی ہے۔پیٹرولیم اور بجلی کی مصنوعات میں کمی حکومت کی طرف سے ایک خوش آیند عمل ہے جو یقینا قابلِ تعریف ہے عوام کو حکومت کے اس عمل سے کسی حد تک ریلیف ملا ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مہنگائی کی شرح میں بھی اُسی انداز سے کمی ہو جو نہ ہوسکی۔ ریلوے عوام کی ایک شہر سے دوسرے شہر تک رسائی کا ایک اہم اور محفوظ ذریعہ ہے ہمیں یہ بات جانتے ہوئے بڑی خوشی محسوس ہوتی ہے کہ اس محکمے کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کا حکومتی پروگرام ملتوی کرکے کچھ ٹرینز نجی شعبے کے حوالے کرنے کا ایک اچھا تجربہ ہے جس کی وجہ سے ٹرینوں کی بروقت آمدورفت ممکن ہوسکی۔ حکومت مبارکباد کی مستحق ہے بالخصوص ریلوے کے وفاقی وزیر جناب خواجہ سعد رفیق کی ذاتی کوششوں سے ریلوے کے بحران کو کسی حد تک قابو پالیا گیا ہے ۔
حال ہی میں موصوف وزیر نے ایک مقامی چینل پر خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے فوری طور پر لیے گئے اقدامات کا تذکرہ کرتے ہوئے واضح کیا کہ ریلوے کی 2600 ایکڑزمین پر مختلف اداروں اور افراد کا قبضہ ہے جس کے حصول کے لیے سپریم کورٹ میں کیسز زیرِ سماعت ہیں ۔ملازمین اور عملے کو 100% لائف انشورڈ کیا جائے گا اور کرائے میں کسی قسم کا اضافہ نہیں کیا جائیگا ۔ٹرینوں کی رفتار میں بھی اضافہ کیاجائے گا ۔اس کے علاوہ 518 ایکڑ زمین جو ریلوے کی ملکیت ہے واگزار کرائی جائے گی۔ ریلوے میں ٹرین منیجر کا سسٹم فوری طور پر متعارف کروا دیا گیا ہے ۔ پینشنرز کو آٹو مشن پر لایا جارہا ہے ۔ موصوف وزیر کے ان اقدامات پر ہم مبارکباد پیش کرتے ہیں۔
ہم تو صرف ایک بات جانتے ہیں کہ افسر یا وزیر کوئی برا نہیں ہوتا برا بناتے ہیں اُس کے ارد گرد کے سپورٹنگ عملہ اور پالیسی ساز ارکان ۔ یہ ایک حقیقت ہے جو سچا اور مخلص کام کرنے والا ہوگا فطری طور پر اُس کے مخالفین بھی بے شمار ہونگے۔
ہمارا ملک پاکستان قدرتی معدنیات، وسائل کی وجہ سے پوری دنیا میں اول نمبر پر ہے، ہمارے ہاں کسی بھی چیز کی کمی نہیں، کمی ہے تو صرف اس کا طریقے سے استعمال کرنا۔ اگر ان وسائل کو ہم مخصوص قدرگردانتے ہوئے اس کو بروئے کار لائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ پوری دنیا میں ایک ''کشکول فری'' قوم کی حیثیت میں ہمارا نام شمار ہو۔
حالیہ پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں ہونے والا افسوس ناک واقعہ جس نے قوم کے ہر فرد کو ذہنی کوفت میں مبتلا کردیا ہے جس میں معصوم 152 بچوں سمیت خواتین اساتذہ جنھیں بے دلی رحمی سے شہید کیا گیا جو پوری دنیا کی انسانیت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا ہے۔ حیوانیت کے اس عمل کی روک تھام ترقی یافتہ دنیا بالخصوص اقوام متحدہ کو اس انسانی مسئلہ کو ترجیحی بنیاد پر لینا وقت کی اہم ضرورت ہے ورنہ اس بربریت سے دنیا کا کوئی شخص محفوظ نہیں رہے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس ناگہانی سے محفوظ رکھے۔ (آمین ثم آمین)