الحاقِ کشمیر کی بھارتی خفیہ دستاویزات 68 برس سے پوشیدہ راز منظرعام پہ
نئی دہلی کے نیشنل آرکائیوز سینٹر میں محفوظ خفیہ خط و کتابت نے بھارتی حکمرانوں کی دروغ گوئی و عیاری آشکار کر دی
KARACHI:
راقم نے شعور سنبھالا' تو بزرگوں سے یہی سنا کہ بھارت نے ریاست جموں و کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔ چونکہ ریاست کا مہاراجا ہندو تھا لہٰذا اس نے بھارت سے الحاق کر لیا۔ حالانکہ کشمیری مسلمان جو آبادی کا 76 فیصد حصہ تھے' قدرتاً ریاست کا الحاق نوزائیدہ مسلم مملکت، پاکستان سے چاہتے تھے۔
بعض پاکستانی رہنمائوں نے اپنی آپ بیتیوں میں دعویٰ کیا ہے' بھارتی نائب وزیراعظم' پنڈت ولبھ بھائی پٹیل نے پاکستانی وزیراعظم' لیاقت علی خان کو پیشکش کی تھی: ''ہمیں ریاست حیدر آباد دکن دے دی جائے۔ ریاست جموں و کشمیر آپ رکھ لیجیے۔'' تاہم پاکستانی وزیراعظم نے یہ پیش کش رد کر دی۔ یہ ریاست کشمیر کے الحاق ِبھارت سے بعد کی بات ہے۔ بعدازاں پٹیل نے ریاست حیدر آباد دکن پر حملہ کرایا اور اس پر قابض ہو گیا۔
اگر درج بالا دعویٰ مان بھی لیا جائے' توکیا یہ بھارتی حکمران طبقے کو موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ بدستور مسلم اکثریتی ریاست ،جموں و کشمیر پر قابض رہے؟ یقینا عقل و شعور رکھنے والا ہر عاقل انسان یہ جواز مسترد کردے گا۔
جھوٹ کوئی مستقبل نہیں رکھتا
1947ء میں مہاراج' کشمیر' ہری سنگھ اور بھارتی حکومت کے مابین جو خط کتابت ہوئی' وہ نئی دہلی میں واقع سرکاری ادارے' نیشنل آرکائیوز آف انڈیا کی عمارت میں محفوظ ہے۔ خاص بات یہ کہ اسے بڑا خفیہ رکھا گیا ہے۔ صرف اعلیٰ سرکاری افسر اور قومی رہنما ہی ان دستاویزات کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس خط کتابت کو خفیہ رکھنے کی وجہ؟... ضرور دال میں کچھ کالا ہے، تبھی ان تاریخی دستاویز کو پوشیدہ رکھا جاتا ہے۔
بھارتی حکمران طبقے کا موجودہ استدلال یہ ہے کہ 1947ء میں ریاست جموں و کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق ہوا تو یہ ''غیر مشروط'' تھا... یعنی اس کے ساتھ کسی قسم کی شرط یا شرطیں موجود نہیں تھیں۔ اسی دعویٰـ کی بنا پر بھارتی حکومت طوطے کی طرح رٹ لگائے رکھتی ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ بین الاقوامی برادری کے سامنے بھی بطور دلیل یہ بات رکھی جاتی ہے کہ ریاست کشمیر کسی رکاوٹ کے بغیر بھارت کا حصہ بن گئی۔
معروف محاورہ ہے : سچ پردوں کے پیچھے بھی چھپا ہو، تو سامنے آ کر رہتا ہے۔ بھارتی حکمران طبقہ پچھلی نصف صدی سے جس سچ کو چھپائے ہوا تھا' وہ آخرکار سامنے آ چکا۔ دلچسپ بات یہ کہ گھر کے ایک بھیدی ہی نے لنکا ڈھائی۔ راقم کو تعجب ہے، پاکستانی میڈیا نے اس سچ کی تشہیر کیوں نہ کی تاکہ دودھ کا دودھ' پانی کا پانی ہو جاتا۔
آسٹریلوی کہاوت ہے: ''ایک جھوٹ حال تو اچھا کر سکتا ہے' مگر اس کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔'' 1947ء میں بھارتی حکمرانوں نے جھوٹ بول کر حال تو اچھا کر لیا' مگر اسے چھپانے کی خاطر آنے والے لیڈروں کو ہزار ہا جھوٹ بولنے پڑے۔ اور آپ نے یہ چشم کشا بات تو سنی ہو گی:'' ایک جھوٹ مسلسل بولا جائے تو وہ سچ بن جاتا ہے۔'' بھارتی حکمرانوں کے بولے گئے جھوٹ کی داستان بڑی عبرت انگیز ہے۔ صد افسوس' آج بھی وہ بڑے دھڑلے سے یہ جھوٹ بولتے ہیں اور انہوں نے مسئلہ کشمیر پہ دونوں ممالک کو متواتر جنگ کی حالت میں دھکیل رکھا ہے۔
گھر کا بھیدی
بھارتی حکمرانوں کی عیاری و مکاری سامنے لانے والے سرکاری افسر' اوتار سنگھ بھیسن 1935ء میں مشرقی پنجاب میں پیدا ہوئے۔ ایم اے تاریخ کرنے کے بعد سول سروس کا امتحان دیا اور منتخب ہو کر 1963ء میں وزارت خارجہ سے منسلک ہو گئے۔ اوتار سنگھ پھر مختلف اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ اس حیثیت سے انہیں کئی عمارات میں محفوظ امور خارجہ و داخلہ سے متعلق تاریخی دستاویز دیکھنے کا موقع ملا۔
اوتار سنگھ کو لکھنے لکھانے سے بھی دلچسپی تھی۔ اس لیے انہیں جو اہم دستاویز نظر آتی' اس کے نوٹس یا اہم نکات نوٹ کر لیتے۔ تب انہیں خبر نہ تھی کہ یہی نکتے اہم تحقیقی و انکشافات سے پُر کتب کا حصہ بن جائیں گے۔1993ء میں اوتار سنگھ ریٹائرڈ ہو گئے۔ تب وہ وزارت خارجہ میں ہسٹاریکل ڈویژن کے سربراہ تھے۔ وہ پھر مختلف علمی و تعلیمی اداروں سے وابستہ رہے۔ ساتھ ساتھ لیے گئے نوٹس کی بنیاد پر پاکستان' چین' بنگلہ دیش' نیپال اور سری لنکا سے خارجہ تعلقات پہ تحقیقی کتب لکھنے لگے۔
نومبر2012ء میں دس جلدوں اور دس ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ان کا ضخیم کارنامہ ''پاک' بھارت تعلقات: 1947ء تا 2007ء '' سامنے آیا۔ ان جلدوں میں پہلی بار اس خط کتابت کے نکات بھی بھارتی و پاکستانی عوام کے سامنے آئے جو 1947ء میں مہاراجہ کشمیر اور گورنر جنرل بھارت' لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے درمیان ہوئی تھی۔ یہ آشکار کرتی ہے کہ بھارت کے ساتھ ریاست جموں و کشمیر کا الحاق مشروط تھا اور بنیادی شرط کیا تھی... ریاست میں عوامی ریفرنڈم یا رائے شماری تاکہ کشمیری عوام اس الحاق کو منظور یا مسترد کر سکیں۔
الحاق کی دستاویز
جب بھارت اور پاکستان کا قیام یقینی ہو گیا' تو 18 جولائی 1947ء کو برطانوی پارلیمنٹ نے ''آزادی ہند ایکٹ'' منظور کیا۔ اس قانون کے ذریعے دونوں نوزائیدہ مملکتوں کے گورنر جنرلوں کو یہ اختیار مل گیا کہ وہ 1935ء کے قانون ہند کو عارضی طور پر اپنا آئین بنا سکیں۔ جب دونوں ممالک اپنا آئین تیار کر لیتے تو درج بالا قانون ہند ختم ہو جاتا۔
بھارتی حکومت نے جو قانون ہند 1935ء اختیار کیا' اس کے سیکشن (1)6میں وہ طریقہ کار رکھا گیا جس کے ذریعے ایک ہندوستانی ریاست بھارت کا حصہ ہو سکتی تھی۔ یہ سیکشن کچھ تشریح چاہتا ہے۔ اس میں بیان ہوا ہے:
1۔ ایک ہندوستانی ریاست کا حکمران اگر بھارتی حکومت کو ''الحاق کا راضی نامہ''(Instrument of Accession) پیش کرے اور گورنر جنرل اسے منظور کر لے' تو ریاست بھارت میں شامل ہو جائے گی۔(اے) تب ریاستی حکمران کی ذمہ داری ہو گی کہ وہ بھارتی حکومت کے تمام قوانین اور سرکاری اداروں کو تسلیم کرے گا۔(بی) اور الحاق کا راضی نامہ دینے کے بعد تمام بھارتی قوانین کو اپنی ریاست میں لاگو کرے گا۔
2۔ الحاق کے راضی نامہ میں ان تمام امور کا تذکرہ ہو گا جن کے ذریعے بھارت کی پارلیمنٹ ریاست کے لیے قوانین تشکیل دے گی اور یہ بھی طے ہو گا کہ ریاست میں وفاقی حکومت کا عمل دخل کہاں تک تک رہے گا۔
3۔ اس سیکشن کے تحت جب گورنر جنرل الحاق کا راضی نامہ اور اس سے وابستہ دیگر دستاویز منظور کرلے گا' تو راضی نامہ و متعلقہ دستاویز کی نقول اور گورنر جنرل کی منظوری کی دستاویزی نقل تمام ارکان پارلیمنٹ کو دی جائیں گی تاکہ وہ ہر لفظ پر غور وفکر کر سکیں۔ نیز تمام عدالتوں کو بھی یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ (درج بالا) دستاویز کا قانون کی روشنی میں جائزہ لے سکیں۔
گویا قانون ہند 1935کی رو سے کوئی بھی ''الحاق کا راضی نامہ'' چار شرائط پر پورا اتر کر ہی قابل قبول بنتا ہے۔ اول الحاق نامے کی دستاویز پر ریاستی حکمران کے دستخط ،دوم ازروئے قانون حکمران کی ذمہ داریوں کا تعین کیا گیا ہو' سوم گورنر جنرل الحاق نامے کو باقاعدہ طور پر تسلیم کر لے اور چہارم الحاق نامہ اور گورنر جنرل کا تسلیم نامہ۔نیز دونوں دستاویز ارکان پارلیمنٹ اور عدلیہ کے سامنے رکھی جائیں تاکہ ان پر غور وفکر اور مباحثہ ہو سکے۔
یہ یاد رہے کہ الحاق نام کے قوانین 1935ء میں قانون ہند تیار کرتے ہوئے ہی تشکیل دیئے گئے۔ مدعا یہ تھا کہ جو ریاستی حکمران اپنی ریاست کو برطانوی ہند کی وفاقی حکومت میں مدغم کرنا چاہیں ،وہ بہ مطابق قوانین عمل کر سکیں۔ صد افسوس کہ آزادی کے بعد بھارتی حکومت نے الحاق نامے کے قوانین پر عمل نہیں کیا' بلکہ ''جس کی لاٹھی اس کی بھینس '' والا وتیرہ اپنا لیا۔ طاقت کے زعم میں بھارتی حکومت نے تمام اخلاقی و قانونی اقدار پامال کر ڈالیں حالانکہ اس میں پنڈت نہرو' ڈاکٹر امبید کر' راج گوپال اچاریہ' مولانا ابوالکلام آزاد' رفیع احمد قدوائی جیسے بظاہر انصاف پسند' باشعور اور انسان دوست رہنما بہ حیثیت وزیر شامل تھے۔
پونچھ میں اعلان آزادی
1947ء میں ریاست جموں و کشمیر میں بیشتر آبادی مسلمان تھی۔ یہ مسلمان ہندو حکمرانوں سے سخت ناخوش تھے جنہوں نے ریاستی وسائل پر قبضہ کر رکھا تھا۔ چنانچہ جیسے ہی 3 جون 1947ء کو قیام پاکستان کا اعلان ہوا ریاست میں آباد باشعور مسلمانوں نے تحریک آزادی شروع کر دی۔ جموں میں مسلمان اقلیت میں تھے لہٰذا وہاں ڈوگرہ (شاہی) فوج نے مسلمانوں پر مظالم ڈھائے اور انہیں وادی کشمیر کی سمت ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا۔
جموں کے لٹے پٹے مسلمان وادی کشمیر پہنچے' تو ان کی دردناک کہانیاں سن کر مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ تب ریاست میں اصل بغاوت وادی پونچھ میں رونما ہوئی۔
وادی کشمیر سے متصل وادی پونچھ میں پہاڑوں کی کثرت ہے۔ یہ 29 اکتوبر 1993ء کی بات ہے، واشنگٹن میں مقیم بھارتی و پاکستانی اخبارات کے نامہ نگاروں کو اطلاع ملی، رابن رافیل فارن پریس سینٹر میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کریں گی۔ چنانچہ دنیا کی اکلوتی سپرپاور کے دارالحکومت میں مقیم تمام بھارتی و پاکستانی صحافی پریس سینٹر پہنچ گئے۔ چار ماہ قبل امریکی صدر، بل کلنٹن نے رابن رافیل کو پہلا اسسٹنٹ سیکرٹری خارجہ برائے جنوبی ایشیا مقرر کیا تھا اور صحافیوں کو یقین تھا کہ وہ دوران گفتگو اہم امور آشکارا کریں گی۔ حسب توقع انہوں نے ایک اہم انکشاف کیا جو بھارتی صحافیوں اور حکومت پر بم بن کر گرا۔
رابن رافیل نے جنوبی ایشین صحافیوں کو بتایا ''امریکا (مقبوضہ) کشمیر کو متنازع علاقہ سمجھتا ہے اور اس کے نزدیک ''الحاق کا راضی نامہ''بھی غیر قانونی ہے۔ اس باعث امریکا جموں و کشمیر کو بھارت کا حصّہ نہیں سمجھتا۔''
جب اگلے دن بھارتی اخبارات میں رابن رافیل کا درج بالا بیان شائع ہوا تو بھارت میں ہلچل مچ گئی۔ رافیل امریکی حکومت کی اعلیٰ عہدے دار تھیں، لہٰذا اس بیان کو سرکاری سمجھا گیا۔ تب کانگریسی رہنما، نرسیمہا رائو کی حکومت تھی۔ اس نے کشمیر کو بھارت کا ''اٹوٹ انگ'' قرار دیا۔ نیز بھارتی وزیراعظم کی ہدایت پر امریکا کے خلاف جلوس نکالے گئے۔ بھارتی سیاست دانوں نے رابن رافیل کو آڑے ہاتھوں لیا اور انہیں ''پاکستانی'' قرار دیا۔
رابن رافیل دراصل تاریخ کی پروفیسر ہونے کے ناتے مسئلہ کشمیر کے پس منظر سے واقف تھیں۔ انہیں خوب علم تھا کہ مہاراجہ ہری سنگھ کانگریسی رہنمائوں کی کٹھ پتلی تھا اور اسے کشمیر میں کوئی عوامی حمایت حاصل نہ تھی، وہ کشمیر جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ ماضی میں تو ہندو راجہ طاقت کے سہارے مسلمانوں پر حکومت کرتے رہے، مگر اب وقت بدل چکا تھا۔
مسئلہ کشمیر کو متنازع قرار دینے پر بھارتی حکمران طبقہ رابن رافیل کے پیچھے پڑگیا۔ اس نے خفیہ و عیاں طور پر کئی بار کوششیں کیں کہ اس امریکی خاتون کو نقصان پہنچایا جائے مگر ناکام رہا۔ اسی لیے پچھلے دنوں امریکی خفیہ ایجنسی ایف بی آئی رابن رافیل کے پیچھے پڑی تو بھارتیوں کی خوشی کا ٹھکانا نہیں رہا۔ بھارتی میڈیا نے کھل کر محترمہ پر لعن طعن کی اور انہیں پاکستان کی جاسوس قرار دیا۔
امریکی اخبار، نیویارک ٹائمز کا دعویٰ ہے کہ سال رواں میں کسی وقت دوران گفتگو ایک پاکستانی سفارت کار نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کو اپنے ''ایک ذریعے'' سے امریکی وزارت خارجہ کی خفیہ معلومات مل رہی ہیں۔ یہ دعویٰ ایف بی آئی تک پہنچ گیا اور وہ رابن رافیل کی نگرانی کرنے لگی۔ ماہ اکتوبر میں ایف بی آئی نے محترمہ کے گھر چھاپہ مارا اور وہاں سے وزارت خارجہ کی خفیہ معلومات برآمد کرلیں۔
تاہم یہ ثبوت نہیں مل سکا کہ رافیل ہی پاکستان کو اپنی وزارت کی خفیہ معلومات فراہم کرتی تھیں۔ مزید برآں جس طرح بھارتی میڈیا نے معاملے کو اچھالا اور رابن رافیل کے علاوہ پاکستان کو بھی بدنام کرنے کی کوشش کی، یہ امر دال میں کچھ کالا ہونے کا ثبوت ہے۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ امریکا میں بھارتی لابی بہت مضبوط ہوچکی۔ اس لابی کی خواہش ہے کہ پاکستان کے حامی امریکی سفارت کاروں اور سیاسی رہنمائوں کو کسی نہ کسی طرح نقصان پہنچایا جائے۔ چناںچہ رابن رافیل کو سازش میں پھنسانے کے تانے بانے بعید نہیں بھارتی لابی سے جاملتے ہوں۔
یاد رہے، ایف بی آئی دہشت گردی کے بعد جاسوسوں پہ نظر رکھنے یا کائونٹر انٹیلی جنس کو سب سے زیادہ اہمیت دیتی ہے۔ واشنگٹن میں تو ہر ملکی و غیر ملکی سفارت کار کے پیچھے ایف بی آئی کے اہل کار لگے ہوتے ہیں ۔لیکن انتہائی حساس معاملہ ہونے کے باعث ہر کام خفیہ انداز میں ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ جب کوئی امریکی یا غیر ملکی سفارت کار یا سیاست داں جاسوسی میں ملوث پایا جائے، تو اس کا کیس عدالت میں پہنچنے تک انتہائی خفیہ رکھا جاتا ہے۔
ایف بی آئی نے تادم تحریر رابن رافیل پہ کوئی الزام ہی نہیں لگایا، عدالت میں جانا تو دور کی بات ہے۔ اپنی وزارت کی خفیہ معلومات گھر لے جانا امریکا میں جرم ہے، مگر ایسے معاملات میں امریکی حکومت اپنے ملازمین پر کوئی مقدمہ کھڑا نہیں کرتی۔مثال کے طور پر 1999ء میں انکشاف ہوا کہ سی آئی اے کے ڈائریکٹر، جان ڈیوٹیچ نے گھر کے کمپیوٹر میں خفیہ معلومات جمع کررکھی ہیں۔ اسے معطل تو کردیا گیا مگر ڈیوٹیچ پر کوئی مقدمہ نہیں چلا۔
امید واثق ہے، امریکا میں پاکستان کی دیرینہ دوست، رابن رافیل اس بحران سے نکل آئیں گی اور بھارتی لابی کے عزائم خاک میں مل جائیں گے۔ یہ لابی امریکا میں پاکستان کا اثرورسوخ کم سے کم کرنا چاہتی ہے اور رابن رافیل جیسی باشعور و انصاف پسند امریکی ہی اس کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
٭٭
پاکستان دوست رابل رافیل مصیبت میں
رابن رافیل کا اصل نام رابن لائنن رابنسن ہے۔ قیام پاکستان کے ہی سال 1947ء میں پیدا ہوئیں۔ 1969ء میں تاریخ میں گریجویشن کی۔ 1970ء تا 1971ء تہران کے مشہور دماوند کالج میں ایرانی طلبہ و طالبات کو تاریخ پڑھائی۔ بعدازاں میری لینڈ یونیورسٹی سے معاشیات میں ایم اے کیا۔ 1974ء میں ماسٹرز کرنے کے بعد امریکی خفیہ ایجنسی، سی آئی اے میں بحیثیت تجزیہ کار (Analyst) کام کرنے لگیں۔ بعدازاں امریکی وزارت خارجہ سے وابستہ ہوئیں۔ اس حیثیت سے اسلام آباد بھی تعینات رہیں۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو کا دور تھا ۔تب رافیل بطور معاشی تجزیہ کار امریکی ادارے، یو ایس ایڈ سے منسلک تھیں۔
1991ء میں امریکی سفارت خانہ، نئی دہلی میں سیاسی کونسلر مقرر ہوئیں۔ اس زمانے میں مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی جنم لے چکی تھی۔ رابن رافیل نے مقبوضہ کشمیر کے کئی دورے کیے اور وہاں کشمیری رہنمائوں سے ملاقاتیں کیں۔ یوں انہیں مسئلہ کشمیر کی حقیقت سمجھنے کا موقع ملا۔ بھارتی حکومت کا دعویٰ ہے، یہ رابن رافیل ہی ہیں جنہوں نے مختلف نظریے و مزاج رکھنے والے کشمیری رہنمائوں کو آل پارٹیز حریت کانفرنس کے پلیٹ فارم پر جمع کر دیا۔ نیز مقبوضہ کشمیر کے لیے ''متنازع علاقہ''(Disputed Territory) کی اصطلاح کو مقبول بنایا ۔
گویا رابن رافیل کی کوششوں سے عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر دوبارہ زندہ ہوگیا جسے بھارتی بہ مشکل تمام سرد خانے میں ڈالنے میں کامیاب رہے تھے۔ مسئلہ کشمیر کے ازسرنو جنم ہی نے بھارتی حکمران طبقے کو رابن رافیل کا دشمن بنادیا اور وہ ان سے نفرت کرنے لگے۔ مگر پاکستانی و کشمیری نقطہ نظر سے رافیل ہماری محسن ہیں ۔چونکہ وہ صدر بل کلنٹن کے ساتھ زیر تعلیم رہی تھیں اس لیے رافیل کے دبائو پر کچھ عرصہ امریکا نے بھی مقبوضہ کشمیر کو متنازعہ علاقہ تسلیم کیے رکھا۔ یہ حقیقتاً پاکستان اور کشمیری مسلمانوں کی بہت بڑی کامیابی تھی۔
امید ہے، پاکستانی حکومت اپنی اس عظیم محسن کو امریکا میں بھارتی لابی کے خفیہ و عیاں واروں سے بچانے کی بھر پور کوشش کرے گی۔ رابن رافیل نے ہماری اور سچ و انصاف کی خاطر بھارتیوں کی مخالفت و دشمنی مول لی۔ اب ان پر بُرا وقت آیا ہے، تو ہمیں انہیں تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے۔
کھیتی باڑی کا علاقہ کم ہونے کے باعث ماضی میں ہزار ہا اہل پونچھ سپاہی بن کر گزارا کرتے رہے۔ بیشتر برطانوی ہند کی فوج میں جا شامل ہوئے۔ لہٰذا وادی پونچھ جنگجوؤں کے علاقے کی حیثیت سے مشہور تھی۔
آسٹریلیا کے ممتاز مورخ' کرسٹوفر سنیڈن نے مسئلہ کشمیر پر چشم کشا کتاب"Kashmir: The Unwritten History" تحریر کی ہے۔ اس میں ''بغاوت پونچھ'' کی تفصیل ملتی ہے۔ آسٹریلوی مورخ لکھتے ہیں: ''1947ء میں وادی پونچھ میں کم از کم پچاس ہزار سابقہ فوجی موجود تھے جو برطانوی ہند کی فوج میں شامل رہے ۔ انہوں نے 18 اگست کو مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف بغاوت کر دی اور وادی سے ڈوگرہ فوج کو مار بھگایا۔ پونچھ کے لوگ پنجاب اور صوبہ سرحد جاتے رہتے تھے تاکہ اسلحہ خرید سکیں۔ ان دونوں صوبوں میں اہل پونچھ کی رشتے داریاں بھی تھیں۔ اس لیے صوبہ سرحد سے پٹھان اہل پونچھ کی مدد کرنے ریاست کشمیر آ پہنچے۔
''بھارتی حکومت کا استدلال ہے کہ جب پاکستانی حکومت کے حمایت یافتہ پٹھان لشکر نے 22 اکتوبر 1947ء کو ریاست پر حملہ کیا' تو اسے بطور جوابی کارروائی بھارتی فوج بھیجنی پڑی۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاست میں آباد کشمیری مسلمان بہت پہلے جنگ آزادی شروع کر چکے تھے۔ مجھے سمجھ نہیں آتا' حکومت پاکستان نے یہ امر کیوں تسلیم کر لیا کہ ایک پٹھان لشکر سری نگر پہ حملہ آور ہوا؟
''میں سمجھتا ہوں، پٹھان لشکر کی تشکیل میں حکومت پاکستان کا کردار بہت کم تھا۔ وجہ یہی کہ پٹھان دراصل ہندو حکمران کے خلاف جنگ میں اپنے مسلمان بھائیوں کا ساتھ دینے آئے تھے۔ اگر انہیں حکومت پاکستان کی مدد حاصل رہی بھی تو یقیناً وہ بہت کم تھی۔ کیونکہ اس وقت پاکستانی حکومت مختلف مسائل... مہاجرین کی آمد' سرمائے کی شدیدکمی' انتظامی ڈھانچے کی تشکیل نو،افسروں کی قلت وغیرہ میں بری طرح پھنسی ہوئی تھی۔''
حکومت پاکستان کی لاچاری کا اندازہ اس امر سے بھی لگایئے کہ 15اگست کو ریاست جونا گڑھ کے مسلمان مہاراجہ ' مہابت خانجی نے پاکستان سے الحاق نامے کی دستاویز پر دستخط کیے اور اسے کراچی بھجوا دیا۔ گورنر جنرل پاکستان' قائداعظم محمد علی جناح نے 15 ستمبر کو الحاق قبول کر لیا۔ لیکن اس الحاق پر گاندھی جی اور سردار پٹیل نے شور مچا دیا۔ چنانچہ تمام اخلاقی اور قانونی اصول پیروں تلے روندتے ہوئے بھارتی فوج نے 9 نومبر 1947ء کو ریاست جونا گڑھ پر قبضہ کر لیا۔ حکومت پاکستان سنگین مسائل میں پھنسی تھی' وہ ریاست کا دفاع نہیں کر سکی۔
رائے شماری سے مشروط الحاق
اُدھر کشمیری و پٹھان مجاہدین سری نگر کے نزدیک پہنچے' تو مہاراجہ ہری سنگھ 85 گاڑیوں میں سارا خزانہ لادے جموں فرار ہو گیا۔ یوں بھگوڑے ہری سنگھ نے اپنی جان تو بچالی' مگر عوام و خواص کی نظروں میں اب وہ مہاراجہ کشمیر نہیں رہا۔ وہ پھر بھارتی حکومت کی منتیں ترلے کرنے لگا کہ اپنی فوج بھجواؤ تاکہ اس کا اقتدار بچ سکے۔ سردار پٹیل تو فوراً فوج بھجوانا چاہتا تھا مگر گورنر جنرل بھارت' لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور وزیراعظم پنڈت نہرو کسی قسم کی پریشانی و خفت سے بچنے کے لیے کوئی قانونی راستہ چاہتے تھے۔ چنانچہ مہاراجہ ہری سنگھ سے کہا گیا کہ وہ ریاست کا بھارت سے الحاق کر دے۔
اقتدار بچانے کے لیے ہری سنگھ نے 26 اکتوبر کو الحاق نامہ تیار کرایا، اس پر دستخط کیے اور بھارتی گورنر جنرل کو بھجوا دیا۔ یہ الحاق نامہ پنڈت نہرو کے شاطر دست راست، وی پی مینن کی راہنمائی میں تیار ہوا۔ 27 اکتوبر کو مائونٹ بیٹن نے اسے تسلیم کرلیا۔ انہوں نے مہاراجہ ہری سنگھ کو درج ذیل خط کے ذریعے منظوری کی اطلاع دی:
''مجھے وی پی مینن کے توسط سے ریاست جموں و کشمیر کے الحاق کی دستاویز موصول ہوئی۔ چونکہ آپ خصوصی حالات سے دوچار ہیں لہٰذا میری حکومت ریاست کا الحاق قبول کرنے کو تیار ہے۔ لیکن قوانین کی رو سے یہ الحاق متنازع ہے، اس لیے جیسے ہی ریاست میں امن و امان قائم ہوا، عوامی رائے شماری کے ذریعے یہ طے ہوگا کہ وہ بھارت کے ساتھ ریاست جموں و کشمیر کا الحاق چاہتے ہیں یا نہیں۔''(حوالہ: وائٹ پیپر آن جموں و کشمیر، شائع کردہ حکومت بھارت، 1947ء، صفحہ 46)
بھارت کے پہلے گورنر جنرل، لارڈ مائونٹ بیٹن کا درج بالا خط دو چشم کشا حقائق رکھتا ہے: اول یہ کہ ریاست جموں و کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق ''متنازع'' تھا۔ دوم صرف کشمیری عوام ہی یہ فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں کہ بھارت کے ساتھ الحاق کیا جائے یا نہیں؟
اسی لیے تب کی بھارتی حکومت نے تمام سرکاری دستاویزات میں ریاست جموں و کشمیر کے الحاق کو ''عارضی'' اور ''عبوری'' قرار دیا۔ چناں چہ حکومت کے وائٹ پیپر میں اسے ''خالصتاً عارضی'' لکھا گیا۔ بھارتی آئین کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرنے والے سر بی این رائو نے 7 فروری 1951ء کو بیان دیا ''کشمیر کا الحاق، مشروط ہے اور یہ امتحاناً ہوا۔''
ہیری ہوڈسن (Harry Hodson) 1939ء تا 1941ء برطانوی ہند میں ریفارمز کمشنر تھے۔ پھر برطانیہ واپس پہنچ کر 1950ء تا 1961ء مشہور اخبار، دی سنڈے ٹائمز کے مدیر رہے۔ انہوں نے 1969ء میں مائونٹ بیٹن کے کاغذات کی بنیاد پر ایک کتاب"The Great Divide: Britain-India-Pakistan" تصنیف کی۔اس میں ہیری ہوڈسن لکھتے ہیں:
''26 اکتوبر کو بھارتی کابینہ کی ڈیفنس کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ اس میں مائونٹ بیٹن، پنڈت نہرو، سردار پٹیل، وی پی مینن اور دیگر بھارتی وزراء شریک تھے۔ اسی میں طے پایا کہ جب بھی ریاست جموں و کشمیر میں امن قائم ہوا، وہاں رائے شماری کرائی جائے۔ مائونٹ بیٹن نے تجویز دی، رائے شماری میں کشمیری عوام کے سامنے تین تجویزیں رکھی جائیں :-1 وہ بھارت کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں،-2 پاکستان سے ملنا پسند کریں گے -3 اپنی ریاست کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے یہ تجویز بھی دی کہ رائے شماری سے قبل پاکستان اور بھارت مشترکہ اجلاس طلب کریں۔ اس میں مستقبل میں کشمیر کے دفاع کا فیصلہ کیا جائے۔ تب پنڈت نہرو نے کہا، اگر ریاست جموں و کشمیر بھارت کے دائرہ اثر میں رہتی ہے، تو انہیں اسے آزاد و خود مختار بنانے پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔''
''انصاف پسند'' پنڈت نہرو کے وعدے
درج بالا اقتباس کا آخری جملہ بڑا اہم اور چشم کشا ہے۔ یہ عیاں کرتا ہے، بھارتی حکمران طبقہ ہر قیمت پر جموں و کشمیر کو اپنی چھتری تلے لانا چاہتا تھا، چاہے اس کی خاطر مسلسل جھوٹ بولنا پڑے۔
25 اکتوبر 1947ء کو بھارتی وزیراعظم، پنڈت نہرو نے برطانوی وزیراعظم، کلیمنٹ انٹیلی اور پاکستانی وزیراعظم، لیاقت علی خان کو یہ تار بھجوایا: ''میں یہ بات واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ (ہری سنگھ کی) حکومتِ کشمیر کی مدد کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ریاست کا الحاق بھارت سے کرنا چاہتے ہیں۔ ہم نے اعلانیہ کئی بار کہا ہے کہ ہم اپنے قول پہ صادق رہیں گے کہ ریاست کے متنازع علاقے کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام کی خواہش کے مطابق ہوگا۔''
31 اکتوبر 1947ء کے دن پنڈت نہرو نے لیاقت علی خان کو ایک اور تار بھجوایا اور اس میں یہ پیغام دیا: '' میں آپ کو یقین دلاتا ہوں، جیسے ہی کشمیر میں امن قائم ہوا، وہاں سے ہماری فوجیں نکل جائیں گی۔ اس کے بعد کشمیری عوام ہی ریاست کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔ میں یہ ضمانت حکومت پاکستان ہی نہیں کشمیری عوام اور پوری دنیا کو بھی دیتا ہوں۔''
8 نومبر 1947ء کو لیاقت علی خان کے نام ہی پنڈت نہرو نے ایک اور تار میں لکھا: ''میری خواہش ہے کہ ہم دونوں ممالک میں خوشگوار تعلقات قائم ہوں۔ لہٰذا جس ریاست میں حکمران اور عوام الگ الگ مذہب و نسل سے تعلق رکھیں گے، اکثریتی عوام کی خواہش پر عمل ہوگا۔ ہم اسی اصول کو تسلیم کرتے ہیں۔''
درج بالا اصول کی رو سے حیدر آباد دکن اور جونا گڑھ کی ریاستیں بھارت اور ریاست جموں و کشمیر پاکستان میں شامل ہونا چاہیے تھی۔ لیکن ہوا یہ کہ بھارت نے تینوں ریاستوں پر بالجبر قبضہ کرلیا۔ یہی نہیں، پنڈت نہرو طویل عرصہ علی الاعلان کہتے رہے کہ ریاست جموں و کشمیر میں رائے شماری ہوگی، مگر وہ دنیا سے رخصت ہو گئے، یہ وعدہ پورا نہیں ہوا۔
بھارتی حکمران طبقے نے کشمیری عوام، پاکستان اور دنیا والوں کو چکمہ دینے کی خاطر مسلم کشمیری رہنما، شیخ عبداللہ سے سازباز کر لی۔ شیخ عبداللہ ریاست کا مطلق العنان حاکم بننے کے لالچ میں بھارتی حکومت کے ساتھ جا ملا۔ یوں ریاست اور بھارت کے الحاق کی پہلی اینٹ رکھ دی گئی۔پنڈت نہرو نے شیخ عبداللہ کو مطمئن کرنے کی خاطر ریاست جموں و کشمیر کو بھارتی آئین کی رو سے خصوصی حیثیت دی اور اسے نیم خود مختار علاقہ بنادیا۔ چنانچہ شیخ عبداللہ نے ریاست کا اقتدار سنبھال لیا۔ یہ دیکھ کر مہاراجہ ہری سنگھ بہت تلملایا مگر اس کے اقتدار کا سورج غروب ہوچکا تھا۔
منصوبے کے مطابق 1953ء میں بھارتی حکمران طبقہ یہ واویلا مچانے لگا کہ شیخ عبداللہ ریاست جموں و کشمیر کو آزاد و خودمختار بنانا چاہتا ہے۔ چناں چہ پنڈت نہرو نے اپنے ''دیرینہ'' دوست کو قید کیا اور ریاست میں اپنی کٹھ پتلی حکومت قائم کردی۔ یوں ریاست میں بھارتی اقتدار مستحکم ہوگیا۔ اس کے بعد بھارتی حکومت جموں و کشمیر میں رائے شماری کرانے کے وعدے سے نہ صرف پھرگئی بلکہ دعویٰ کرنے لگی کہ ریاست اسی کا اٹوٹ اننگ ہے۔
اس طرح بھارتی حکمران طبقے نے جھوٹ بولنے اور مکاری دکھانے کا نیا ریکارڈ قائم کردیا۔ عیاری کی منفرد مثال قائم کرنے والوں میں پنڈت نہرو سرفہرست تھے جنہیں کئی لوگ منصف مزاج، انسان دوست اور مہذب کہتے ہوئے نہیں تھکتے۔
راقم نے شعور سنبھالا' تو بزرگوں سے یہی سنا کہ بھارت نے ریاست جموں و کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔ چونکہ ریاست کا مہاراجا ہندو تھا لہٰذا اس نے بھارت سے الحاق کر لیا۔ حالانکہ کشمیری مسلمان جو آبادی کا 76 فیصد حصہ تھے' قدرتاً ریاست کا الحاق نوزائیدہ مسلم مملکت، پاکستان سے چاہتے تھے۔
بعض پاکستانی رہنمائوں نے اپنی آپ بیتیوں میں دعویٰ کیا ہے' بھارتی نائب وزیراعظم' پنڈت ولبھ بھائی پٹیل نے پاکستانی وزیراعظم' لیاقت علی خان کو پیشکش کی تھی: ''ہمیں ریاست حیدر آباد دکن دے دی جائے۔ ریاست جموں و کشمیر آپ رکھ لیجیے۔'' تاہم پاکستانی وزیراعظم نے یہ پیش کش رد کر دی۔ یہ ریاست کشمیر کے الحاق ِبھارت سے بعد کی بات ہے۔ بعدازاں پٹیل نے ریاست حیدر آباد دکن پر حملہ کرایا اور اس پر قابض ہو گیا۔
اگر درج بالا دعویٰ مان بھی لیا جائے' توکیا یہ بھارتی حکمران طبقے کو موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ بدستور مسلم اکثریتی ریاست ،جموں و کشمیر پر قابض رہے؟ یقینا عقل و شعور رکھنے والا ہر عاقل انسان یہ جواز مسترد کردے گا۔
جھوٹ کوئی مستقبل نہیں رکھتا
1947ء میں مہاراج' کشمیر' ہری سنگھ اور بھارتی حکومت کے مابین جو خط کتابت ہوئی' وہ نئی دہلی میں واقع سرکاری ادارے' نیشنل آرکائیوز آف انڈیا کی عمارت میں محفوظ ہے۔ خاص بات یہ کہ اسے بڑا خفیہ رکھا گیا ہے۔ صرف اعلیٰ سرکاری افسر اور قومی رہنما ہی ان دستاویزات کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس خط کتابت کو خفیہ رکھنے کی وجہ؟... ضرور دال میں کچھ کالا ہے، تبھی ان تاریخی دستاویز کو پوشیدہ رکھا جاتا ہے۔
بھارتی حکمران طبقے کا موجودہ استدلال یہ ہے کہ 1947ء میں ریاست جموں و کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق ہوا تو یہ ''غیر مشروط'' تھا... یعنی اس کے ساتھ کسی قسم کی شرط یا شرطیں موجود نہیں تھیں۔ اسی دعویٰـ کی بنا پر بھارتی حکومت طوطے کی طرح رٹ لگائے رکھتی ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ بین الاقوامی برادری کے سامنے بھی بطور دلیل یہ بات رکھی جاتی ہے کہ ریاست کشمیر کسی رکاوٹ کے بغیر بھارت کا حصہ بن گئی۔
معروف محاورہ ہے : سچ پردوں کے پیچھے بھی چھپا ہو، تو سامنے آ کر رہتا ہے۔ بھارتی حکمران طبقہ پچھلی نصف صدی سے جس سچ کو چھپائے ہوا تھا' وہ آخرکار سامنے آ چکا۔ دلچسپ بات یہ کہ گھر کے ایک بھیدی ہی نے لنکا ڈھائی۔ راقم کو تعجب ہے، پاکستانی میڈیا نے اس سچ کی تشہیر کیوں نہ کی تاکہ دودھ کا دودھ' پانی کا پانی ہو جاتا۔
آسٹریلوی کہاوت ہے: ''ایک جھوٹ حال تو اچھا کر سکتا ہے' مگر اس کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔'' 1947ء میں بھارتی حکمرانوں نے جھوٹ بول کر حال تو اچھا کر لیا' مگر اسے چھپانے کی خاطر آنے والے لیڈروں کو ہزار ہا جھوٹ بولنے پڑے۔ اور آپ نے یہ چشم کشا بات تو سنی ہو گی:'' ایک جھوٹ مسلسل بولا جائے تو وہ سچ بن جاتا ہے۔'' بھارتی حکمرانوں کے بولے گئے جھوٹ کی داستان بڑی عبرت انگیز ہے۔ صد افسوس' آج بھی وہ بڑے دھڑلے سے یہ جھوٹ بولتے ہیں اور انہوں نے مسئلہ کشمیر پہ دونوں ممالک کو متواتر جنگ کی حالت میں دھکیل رکھا ہے۔
گھر کا بھیدی
بھارتی حکمرانوں کی عیاری و مکاری سامنے لانے والے سرکاری افسر' اوتار سنگھ بھیسن 1935ء میں مشرقی پنجاب میں پیدا ہوئے۔ ایم اے تاریخ کرنے کے بعد سول سروس کا امتحان دیا اور منتخب ہو کر 1963ء میں وزارت خارجہ سے منسلک ہو گئے۔ اوتار سنگھ پھر مختلف اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ اس حیثیت سے انہیں کئی عمارات میں محفوظ امور خارجہ و داخلہ سے متعلق تاریخی دستاویز دیکھنے کا موقع ملا۔
اوتار سنگھ کو لکھنے لکھانے سے بھی دلچسپی تھی۔ اس لیے انہیں جو اہم دستاویز نظر آتی' اس کے نوٹس یا اہم نکات نوٹ کر لیتے۔ تب انہیں خبر نہ تھی کہ یہی نکتے اہم تحقیقی و انکشافات سے پُر کتب کا حصہ بن جائیں گے۔1993ء میں اوتار سنگھ ریٹائرڈ ہو گئے۔ تب وہ وزارت خارجہ میں ہسٹاریکل ڈویژن کے سربراہ تھے۔ وہ پھر مختلف علمی و تعلیمی اداروں سے وابستہ رہے۔ ساتھ ساتھ لیے گئے نوٹس کی بنیاد پر پاکستان' چین' بنگلہ دیش' نیپال اور سری لنکا سے خارجہ تعلقات پہ تحقیقی کتب لکھنے لگے۔
نومبر2012ء میں دس جلدوں اور دس ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ان کا ضخیم کارنامہ ''پاک' بھارت تعلقات: 1947ء تا 2007ء '' سامنے آیا۔ ان جلدوں میں پہلی بار اس خط کتابت کے نکات بھی بھارتی و پاکستانی عوام کے سامنے آئے جو 1947ء میں مہاراجہ کشمیر اور گورنر جنرل بھارت' لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے درمیان ہوئی تھی۔ یہ آشکار کرتی ہے کہ بھارت کے ساتھ ریاست جموں و کشمیر کا الحاق مشروط تھا اور بنیادی شرط کیا تھی... ریاست میں عوامی ریفرنڈم یا رائے شماری تاکہ کشمیری عوام اس الحاق کو منظور یا مسترد کر سکیں۔
الحاق کی دستاویز
جب بھارت اور پاکستان کا قیام یقینی ہو گیا' تو 18 جولائی 1947ء کو برطانوی پارلیمنٹ نے ''آزادی ہند ایکٹ'' منظور کیا۔ اس قانون کے ذریعے دونوں نوزائیدہ مملکتوں کے گورنر جنرلوں کو یہ اختیار مل گیا کہ وہ 1935ء کے قانون ہند کو عارضی طور پر اپنا آئین بنا سکیں۔ جب دونوں ممالک اپنا آئین تیار کر لیتے تو درج بالا قانون ہند ختم ہو جاتا۔
بھارتی حکومت نے جو قانون ہند 1935ء اختیار کیا' اس کے سیکشن (1)6میں وہ طریقہ کار رکھا گیا جس کے ذریعے ایک ہندوستانی ریاست بھارت کا حصہ ہو سکتی تھی۔ یہ سیکشن کچھ تشریح چاہتا ہے۔ اس میں بیان ہوا ہے:
1۔ ایک ہندوستانی ریاست کا حکمران اگر بھارتی حکومت کو ''الحاق کا راضی نامہ''(Instrument of Accession) پیش کرے اور گورنر جنرل اسے منظور کر لے' تو ریاست بھارت میں شامل ہو جائے گی۔(اے) تب ریاستی حکمران کی ذمہ داری ہو گی کہ وہ بھارتی حکومت کے تمام قوانین اور سرکاری اداروں کو تسلیم کرے گا۔(بی) اور الحاق کا راضی نامہ دینے کے بعد تمام بھارتی قوانین کو اپنی ریاست میں لاگو کرے گا۔
2۔ الحاق کے راضی نامہ میں ان تمام امور کا تذکرہ ہو گا جن کے ذریعے بھارت کی پارلیمنٹ ریاست کے لیے قوانین تشکیل دے گی اور یہ بھی طے ہو گا کہ ریاست میں وفاقی حکومت کا عمل دخل کہاں تک تک رہے گا۔
3۔ اس سیکشن کے تحت جب گورنر جنرل الحاق کا راضی نامہ اور اس سے وابستہ دیگر دستاویز منظور کرلے گا' تو راضی نامہ و متعلقہ دستاویز کی نقول اور گورنر جنرل کی منظوری کی دستاویزی نقل تمام ارکان پارلیمنٹ کو دی جائیں گی تاکہ وہ ہر لفظ پر غور وفکر کر سکیں۔ نیز تمام عدالتوں کو بھی یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ (درج بالا) دستاویز کا قانون کی روشنی میں جائزہ لے سکیں۔
گویا قانون ہند 1935کی رو سے کوئی بھی ''الحاق کا راضی نامہ'' چار شرائط پر پورا اتر کر ہی قابل قبول بنتا ہے۔ اول الحاق نامے کی دستاویز پر ریاستی حکمران کے دستخط ،دوم ازروئے قانون حکمران کی ذمہ داریوں کا تعین کیا گیا ہو' سوم گورنر جنرل الحاق نامے کو باقاعدہ طور پر تسلیم کر لے اور چہارم الحاق نامہ اور گورنر جنرل کا تسلیم نامہ۔نیز دونوں دستاویز ارکان پارلیمنٹ اور عدلیہ کے سامنے رکھی جائیں تاکہ ان پر غور وفکر اور مباحثہ ہو سکے۔
یہ یاد رہے کہ الحاق نام کے قوانین 1935ء میں قانون ہند تیار کرتے ہوئے ہی تشکیل دیئے گئے۔ مدعا یہ تھا کہ جو ریاستی حکمران اپنی ریاست کو برطانوی ہند کی وفاقی حکومت میں مدغم کرنا چاہیں ،وہ بہ مطابق قوانین عمل کر سکیں۔ صد افسوس کہ آزادی کے بعد بھارتی حکومت نے الحاق نامے کے قوانین پر عمل نہیں کیا' بلکہ ''جس کی لاٹھی اس کی بھینس '' والا وتیرہ اپنا لیا۔ طاقت کے زعم میں بھارتی حکومت نے تمام اخلاقی و قانونی اقدار پامال کر ڈالیں حالانکہ اس میں پنڈت نہرو' ڈاکٹر امبید کر' راج گوپال اچاریہ' مولانا ابوالکلام آزاد' رفیع احمد قدوائی جیسے بظاہر انصاف پسند' باشعور اور انسان دوست رہنما بہ حیثیت وزیر شامل تھے۔
پونچھ میں اعلان آزادی
1947ء میں ریاست جموں و کشمیر میں بیشتر آبادی مسلمان تھی۔ یہ مسلمان ہندو حکمرانوں سے سخت ناخوش تھے جنہوں نے ریاستی وسائل پر قبضہ کر رکھا تھا۔ چنانچہ جیسے ہی 3 جون 1947ء کو قیام پاکستان کا اعلان ہوا ریاست میں آباد باشعور مسلمانوں نے تحریک آزادی شروع کر دی۔ جموں میں مسلمان اقلیت میں تھے لہٰذا وہاں ڈوگرہ (شاہی) فوج نے مسلمانوں پر مظالم ڈھائے اور انہیں وادی کشمیر کی سمت ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا۔
جموں کے لٹے پٹے مسلمان وادی کشمیر پہنچے' تو ان کی دردناک کہانیاں سن کر مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ تب ریاست میں اصل بغاوت وادی پونچھ میں رونما ہوئی۔
وادی کشمیر سے متصل وادی پونچھ میں پہاڑوں کی کثرت ہے۔ یہ 29 اکتوبر 1993ء کی بات ہے، واشنگٹن میں مقیم بھارتی و پاکستانی اخبارات کے نامہ نگاروں کو اطلاع ملی، رابن رافیل فارن پریس سینٹر میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کریں گی۔ چنانچہ دنیا کی اکلوتی سپرپاور کے دارالحکومت میں مقیم تمام بھارتی و پاکستانی صحافی پریس سینٹر پہنچ گئے۔ چار ماہ قبل امریکی صدر، بل کلنٹن نے رابن رافیل کو پہلا اسسٹنٹ سیکرٹری خارجہ برائے جنوبی ایشیا مقرر کیا تھا اور صحافیوں کو یقین تھا کہ وہ دوران گفتگو اہم امور آشکارا کریں گی۔ حسب توقع انہوں نے ایک اہم انکشاف کیا جو بھارتی صحافیوں اور حکومت پر بم بن کر گرا۔
رابن رافیل نے جنوبی ایشین صحافیوں کو بتایا ''امریکا (مقبوضہ) کشمیر کو متنازع علاقہ سمجھتا ہے اور اس کے نزدیک ''الحاق کا راضی نامہ''بھی غیر قانونی ہے۔ اس باعث امریکا جموں و کشمیر کو بھارت کا حصّہ نہیں سمجھتا۔''
جب اگلے دن بھارتی اخبارات میں رابن رافیل کا درج بالا بیان شائع ہوا تو بھارت میں ہلچل مچ گئی۔ رافیل امریکی حکومت کی اعلیٰ عہدے دار تھیں، لہٰذا اس بیان کو سرکاری سمجھا گیا۔ تب کانگریسی رہنما، نرسیمہا رائو کی حکومت تھی۔ اس نے کشمیر کو بھارت کا ''اٹوٹ انگ'' قرار دیا۔ نیز بھارتی وزیراعظم کی ہدایت پر امریکا کے خلاف جلوس نکالے گئے۔ بھارتی سیاست دانوں نے رابن رافیل کو آڑے ہاتھوں لیا اور انہیں ''پاکستانی'' قرار دیا۔
رابن رافیل دراصل تاریخ کی پروفیسر ہونے کے ناتے مسئلہ کشمیر کے پس منظر سے واقف تھیں۔ انہیں خوب علم تھا کہ مہاراجہ ہری سنگھ کانگریسی رہنمائوں کی کٹھ پتلی تھا اور اسے کشمیر میں کوئی عوامی حمایت حاصل نہ تھی، وہ کشمیر جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ ماضی میں تو ہندو راجہ طاقت کے سہارے مسلمانوں پر حکومت کرتے رہے، مگر اب وقت بدل چکا تھا۔
مسئلہ کشمیر کو متنازع قرار دینے پر بھارتی حکمران طبقہ رابن رافیل کے پیچھے پڑگیا۔ اس نے خفیہ و عیاں طور پر کئی بار کوششیں کیں کہ اس امریکی خاتون کو نقصان پہنچایا جائے مگر ناکام رہا۔ اسی لیے پچھلے دنوں امریکی خفیہ ایجنسی ایف بی آئی رابن رافیل کے پیچھے پڑی تو بھارتیوں کی خوشی کا ٹھکانا نہیں رہا۔ بھارتی میڈیا نے کھل کر محترمہ پر لعن طعن کی اور انہیں پاکستان کی جاسوس قرار دیا۔
امریکی اخبار، نیویارک ٹائمز کا دعویٰ ہے کہ سال رواں میں کسی وقت دوران گفتگو ایک پاکستانی سفارت کار نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کو اپنے ''ایک ذریعے'' سے امریکی وزارت خارجہ کی خفیہ معلومات مل رہی ہیں۔ یہ دعویٰ ایف بی آئی تک پہنچ گیا اور وہ رابن رافیل کی نگرانی کرنے لگی۔ ماہ اکتوبر میں ایف بی آئی نے محترمہ کے گھر چھاپہ مارا اور وہاں سے وزارت خارجہ کی خفیہ معلومات برآمد کرلیں۔
تاہم یہ ثبوت نہیں مل سکا کہ رافیل ہی پاکستان کو اپنی وزارت کی خفیہ معلومات فراہم کرتی تھیں۔ مزید برآں جس طرح بھارتی میڈیا نے معاملے کو اچھالا اور رابن رافیل کے علاوہ پاکستان کو بھی بدنام کرنے کی کوشش کی، یہ امر دال میں کچھ کالا ہونے کا ثبوت ہے۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ امریکا میں بھارتی لابی بہت مضبوط ہوچکی۔ اس لابی کی خواہش ہے کہ پاکستان کے حامی امریکی سفارت کاروں اور سیاسی رہنمائوں کو کسی نہ کسی طرح نقصان پہنچایا جائے۔ چناںچہ رابن رافیل کو سازش میں پھنسانے کے تانے بانے بعید نہیں بھارتی لابی سے جاملتے ہوں۔
یاد رہے، ایف بی آئی دہشت گردی کے بعد جاسوسوں پہ نظر رکھنے یا کائونٹر انٹیلی جنس کو سب سے زیادہ اہمیت دیتی ہے۔ واشنگٹن میں تو ہر ملکی و غیر ملکی سفارت کار کے پیچھے ایف بی آئی کے اہل کار لگے ہوتے ہیں ۔لیکن انتہائی حساس معاملہ ہونے کے باعث ہر کام خفیہ انداز میں ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ جب کوئی امریکی یا غیر ملکی سفارت کار یا سیاست داں جاسوسی میں ملوث پایا جائے، تو اس کا کیس عدالت میں پہنچنے تک انتہائی خفیہ رکھا جاتا ہے۔
ایف بی آئی نے تادم تحریر رابن رافیل پہ کوئی الزام ہی نہیں لگایا، عدالت میں جانا تو دور کی بات ہے۔ اپنی وزارت کی خفیہ معلومات گھر لے جانا امریکا میں جرم ہے، مگر ایسے معاملات میں امریکی حکومت اپنے ملازمین پر کوئی مقدمہ کھڑا نہیں کرتی۔مثال کے طور پر 1999ء میں انکشاف ہوا کہ سی آئی اے کے ڈائریکٹر، جان ڈیوٹیچ نے گھر کے کمپیوٹر میں خفیہ معلومات جمع کررکھی ہیں۔ اسے معطل تو کردیا گیا مگر ڈیوٹیچ پر کوئی مقدمہ نہیں چلا۔
امید واثق ہے، امریکا میں پاکستان کی دیرینہ دوست، رابن رافیل اس بحران سے نکل آئیں گی اور بھارتی لابی کے عزائم خاک میں مل جائیں گے۔ یہ لابی امریکا میں پاکستان کا اثرورسوخ کم سے کم کرنا چاہتی ہے اور رابن رافیل جیسی باشعور و انصاف پسند امریکی ہی اس کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
٭٭
پاکستان دوست رابل رافیل مصیبت میں
رابن رافیل کا اصل نام رابن لائنن رابنسن ہے۔ قیام پاکستان کے ہی سال 1947ء میں پیدا ہوئیں۔ 1969ء میں تاریخ میں گریجویشن کی۔ 1970ء تا 1971ء تہران کے مشہور دماوند کالج میں ایرانی طلبہ و طالبات کو تاریخ پڑھائی۔ بعدازاں میری لینڈ یونیورسٹی سے معاشیات میں ایم اے کیا۔ 1974ء میں ماسٹرز کرنے کے بعد امریکی خفیہ ایجنسی، سی آئی اے میں بحیثیت تجزیہ کار (Analyst) کام کرنے لگیں۔ بعدازاں امریکی وزارت خارجہ سے وابستہ ہوئیں۔ اس حیثیت سے اسلام آباد بھی تعینات رہیں۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو کا دور تھا ۔تب رافیل بطور معاشی تجزیہ کار امریکی ادارے، یو ایس ایڈ سے منسلک تھیں۔
1991ء میں امریکی سفارت خانہ، نئی دہلی میں سیاسی کونسلر مقرر ہوئیں۔ اس زمانے میں مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی جنم لے چکی تھی۔ رابن رافیل نے مقبوضہ کشمیر کے کئی دورے کیے اور وہاں کشمیری رہنمائوں سے ملاقاتیں کیں۔ یوں انہیں مسئلہ کشمیر کی حقیقت سمجھنے کا موقع ملا۔ بھارتی حکومت کا دعویٰ ہے، یہ رابن رافیل ہی ہیں جنہوں نے مختلف نظریے و مزاج رکھنے والے کشمیری رہنمائوں کو آل پارٹیز حریت کانفرنس کے پلیٹ فارم پر جمع کر دیا۔ نیز مقبوضہ کشمیر کے لیے ''متنازع علاقہ''(Disputed Territory) کی اصطلاح کو مقبول بنایا ۔
گویا رابن رافیل کی کوششوں سے عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر دوبارہ زندہ ہوگیا جسے بھارتی بہ مشکل تمام سرد خانے میں ڈالنے میں کامیاب رہے تھے۔ مسئلہ کشمیر کے ازسرنو جنم ہی نے بھارتی حکمران طبقے کو رابن رافیل کا دشمن بنادیا اور وہ ان سے نفرت کرنے لگے۔ مگر پاکستانی و کشمیری نقطہ نظر سے رافیل ہماری محسن ہیں ۔چونکہ وہ صدر بل کلنٹن کے ساتھ زیر تعلیم رہی تھیں اس لیے رافیل کے دبائو پر کچھ عرصہ امریکا نے بھی مقبوضہ کشمیر کو متنازعہ علاقہ تسلیم کیے رکھا۔ یہ حقیقتاً پاکستان اور کشمیری مسلمانوں کی بہت بڑی کامیابی تھی۔
امید ہے، پاکستانی حکومت اپنی اس عظیم محسن کو امریکا میں بھارتی لابی کے خفیہ و عیاں واروں سے بچانے کی بھر پور کوشش کرے گی۔ رابن رافیل نے ہماری اور سچ و انصاف کی خاطر بھارتیوں کی مخالفت و دشمنی مول لی۔ اب ان پر بُرا وقت آیا ہے، تو ہمیں انہیں تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے۔
کھیتی باڑی کا علاقہ کم ہونے کے باعث ماضی میں ہزار ہا اہل پونچھ سپاہی بن کر گزارا کرتے رہے۔ بیشتر برطانوی ہند کی فوج میں جا شامل ہوئے۔ لہٰذا وادی پونچھ جنگجوؤں کے علاقے کی حیثیت سے مشہور تھی۔
آسٹریلیا کے ممتاز مورخ' کرسٹوفر سنیڈن نے مسئلہ کشمیر پر چشم کشا کتاب"Kashmir: The Unwritten History" تحریر کی ہے۔ اس میں ''بغاوت پونچھ'' کی تفصیل ملتی ہے۔ آسٹریلوی مورخ لکھتے ہیں: ''1947ء میں وادی پونچھ میں کم از کم پچاس ہزار سابقہ فوجی موجود تھے جو برطانوی ہند کی فوج میں شامل رہے ۔ انہوں نے 18 اگست کو مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف بغاوت کر دی اور وادی سے ڈوگرہ فوج کو مار بھگایا۔ پونچھ کے لوگ پنجاب اور صوبہ سرحد جاتے رہتے تھے تاکہ اسلحہ خرید سکیں۔ ان دونوں صوبوں میں اہل پونچھ کی رشتے داریاں بھی تھیں۔ اس لیے صوبہ سرحد سے پٹھان اہل پونچھ کی مدد کرنے ریاست کشمیر آ پہنچے۔
''بھارتی حکومت کا استدلال ہے کہ جب پاکستانی حکومت کے حمایت یافتہ پٹھان لشکر نے 22 اکتوبر 1947ء کو ریاست پر حملہ کیا' تو اسے بطور جوابی کارروائی بھارتی فوج بھیجنی پڑی۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاست میں آباد کشمیری مسلمان بہت پہلے جنگ آزادی شروع کر چکے تھے۔ مجھے سمجھ نہیں آتا' حکومت پاکستان نے یہ امر کیوں تسلیم کر لیا کہ ایک پٹھان لشکر سری نگر پہ حملہ آور ہوا؟
''میں سمجھتا ہوں، پٹھان لشکر کی تشکیل میں حکومت پاکستان کا کردار بہت کم تھا۔ وجہ یہی کہ پٹھان دراصل ہندو حکمران کے خلاف جنگ میں اپنے مسلمان بھائیوں کا ساتھ دینے آئے تھے۔ اگر انہیں حکومت پاکستان کی مدد حاصل رہی بھی تو یقیناً وہ بہت کم تھی۔ کیونکہ اس وقت پاکستانی حکومت مختلف مسائل... مہاجرین کی آمد' سرمائے کی شدیدکمی' انتظامی ڈھانچے کی تشکیل نو،افسروں کی قلت وغیرہ میں بری طرح پھنسی ہوئی تھی۔''
حکومت پاکستان کی لاچاری کا اندازہ اس امر سے بھی لگایئے کہ 15اگست کو ریاست جونا گڑھ کے مسلمان مہاراجہ ' مہابت خانجی نے پاکستان سے الحاق نامے کی دستاویز پر دستخط کیے اور اسے کراچی بھجوا دیا۔ گورنر جنرل پاکستان' قائداعظم محمد علی جناح نے 15 ستمبر کو الحاق قبول کر لیا۔ لیکن اس الحاق پر گاندھی جی اور سردار پٹیل نے شور مچا دیا۔ چنانچہ تمام اخلاقی اور قانونی اصول پیروں تلے روندتے ہوئے بھارتی فوج نے 9 نومبر 1947ء کو ریاست جونا گڑھ پر قبضہ کر لیا۔ حکومت پاکستان سنگین مسائل میں پھنسی تھی' وہ ریاست کا دفاع نہیں کر سکی۔
رائے شماری سے مشروط الحاق
اُدھر کشمیری و پٹھان مجاہدین سری نگر کے نزدیک پہنچے' تو مہاراجہ ہری سنگھ 85 گاڑیوں میں سارا خزانہ لادے جموں فرار ہو گیا۔ یوں بھگوڑے ہری سنگھ نے اپنی جان تو بچالی' مگر عوام و خواص کی نظروں میں اب وہ مہاراجہ کشمیر نہیں رہا۔ وہ پھر بھارتی حکومت کی منتیں ترلے کرنے لگا کہ اپنی فوج بھجواؤ تاکہ اس کا اقتدار بچ سکے۔ سردار پٹیل تو فوراً فوج بھجوانا چاہتا تھا مگر گورنر جنرل بھارت' لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور وزیراعظم پنڈت نہرو کسی قسم کی پریشانی و خفت سے بچنے کے لیے کوئی قانونی راستہ چاہتے تھے۔ چنانچہ مہاراجہ ہری سنگھ سے کہا گیا کہ وہ ریاست کا بھارت سے الحاق کر دے۔
اقتدار بچانے کے لیے ہری سنگھ نے 26 اکتوبر کو الحاق نامہ تیار کرایا، اس پر دستخط کیے اور بھارتی گورنر جنرل کو بھجوا دیا۔ یہ الحاق نامہ پنڈت نہرو کے شاطر دست راست، وی پی مینن کی راہنمائی میں تیار ہوا۔ 27 اکتوبر کو مائونٹ بیٹن نے اسے تسلیم کرلیا۔ انہوں نے مہاراجہ ہری سنگھ کو درج ذیل خط کے ذریعے منظوری کی اطلاع دی:
''مجھے وی پی مینن کے توسط سے ریاست جموں و کشمیر کے الحاق کی دستاویز موصول ہوئی۔ چونکہ آپ خصوصی حالات سے دوچار ہیں لہٰذا میری حکومت ریاست کا الحاق قبول کرنے کو تیار ہے۔ لیکن قوانین کی رو سے یہ الحاق متنازع ہے، اس لیے جیسے ہی ریاست میں امن و امان قائم ہوا، عوامی رائے شماری کے ذریعے یہ طے ہوگا کہ وہ بھارت کے ساتھ ریاست جموں و کشمیر کا الحاق چاہتے ہیں یا نہیں۔''(حوالہ: وائٹ پیپر آن جموں و کشمیر، شائع کردہ حکومت بھارت، 1947ء، صفحہ 46)
بھارت کے پہلے گورنر جنرل، لارڈ مائونٹ بیٹن کا درج بالا خط دو چشم کشا حقائق رکھتا ہے: اول یہ کہ ریاست جموں و کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق ''متنازع'' تھا۔ دوم صرف کشمیری عوام ہی یہ فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں کہ بھارت کے ساتھ الحاق کیا جائے یا نہیں؟
اسی لیے تب کی بھارتی حکومت نے تمام سرکاری دستاویزات میں ریاست جموں و کشمیر کے الحاق کو ''عارضی'' اور ''عبوری'' قرار دیا۔ چناں چہ حکومت کے وائٹ پیپر میں اسے ''خالصتاً عارضی'' لکھا گیا۔ بھارتی آئین کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرنے والے سر بی این رائو نے 7 فروری 1951ء کو بیان دیا ''کشمیر کا الحاق، مشروط ہے اور یہ امتحاناً ہوا۔''
ہیری ہوڈسن (Harry Hodson) 1939ء تا 1941ء برطانوی ہند میں ریفارمز کمشنر تھے۔ پھر برطانیہ واپس پہنچ کر 1950ء تا 1961ء مشہور اخبار، دی سنڈے ٹائمز کے مدیر رہے۔ انہوں نے 1969ء میں مائونٹ بیٹن کے کاغذات کی بنیاد پر ایک کتاب"The Great Divide: Britain-India-Pakistan" تصنیف کی۔اس میں ہیری ہوڈسن لکھتے ہیں:
''26 اکتوبر کو بھارتی کابینہ کی ڈیفنس کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ اس میں مائونٹ بیٹن، پنڈت نہرو، سردار پٹیل، وی پی مینن اور دیگر بھارتی وزراء شریک تھے۔ اسی میں طے پایا کہ جب بھی ریاست جموں و کشمیر میں امن قائم ہوا، وہاں رائے شماری کرائی جائے۔ مائونٹ بیٹن نے تجویز دی، رائے شماری میں کشمیری عوام کے سامنے تین تجویزیں رکھی جائیں :-1 وہ بھارت کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں،-2 پاکستان سے ملنا پسند کریں گے -3 اپنی ریاست کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے یہ تجویز بھی دی کہ رائے شماری سے قبل پاکستان اور بھارت مشترکہ اجلاس طلب کریں۔ اس میں مستقبل میں کشمیر کے دفاع کا فیصلہ کیا جائے۔ تب پنڈت نہرو نے کہا، اگر ریاست جموں و کشمیر بھارت کے دائرہ اثر میں رہتی ہے، تو انہیں اسے آزاد و خود مختار بنانے پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔''
''انصاف پسند'' پنڈت نہرو کے وعدے
درج بالا اقتباس کا آخری جملہ بڑا اہم اور چشم کشا ہے۔ یہ عیاں کرتا ہے، بھارتی حکمران طبقہ ہر قیمت پر جموں و کشمیر کو اپنی چھتری تلے لانا چاہتا تھا، چاہے اس کی خاطر مسلسل جھوٹ بولنا پڑے۔
25 اکتوبر 1947ء کو بھارتی وزیراعظم، پنڈت نہرو نے برطانوی وزیراعظم، کلیمنٹ انٹیلی اور پاکستانی وزیراعظم، لیاقت علی خان کو یہ تار بھجوایا: ''میں یہ بات واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ (ہری سنگھ کی) حکومتِ کشمیر کی مدد کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ریاست کا الحاق بھارت سے کرنا چاہتے ہیں۔ ہم نے اعلانیہ کئی بار کہا ہے کہ ہم اپنے قول پہ صادق رہیں گے کہ ریاست کے متنازع علاقے کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام کی خواہش کے مطابق ہوگا۔''
31 اکتوبر 1947ء کے دن پنڈت نہرو نے لیاقت علی خان کو ایک اور تار بھجوایا اور اس میں یہ پیغام دیا: '' میں آپ کو یقین دلاتا ہوں، جیسے ہی کشمیر میں امن قائم ہوا، وہاں سے ہماری فوجیں نکل جائیں گی۔ اس کے بعد کشمیری عوام ہی ریاست کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔ میں یہ ضمانت حکومت پاکستان ہی نہیں کشمیری عوام اور پوری دنیا کو بھی دیتا ہوں۔''
8 نومبر 1947ء کو لیاقت علی خان کے نام ہی پنڈت نہرو نے ایک اور تار میں لکھا: ''میری خواہش ہے کہ ہم دونوں ممالک میں خوشگوار تعلقات قائم ہوں۔ لہٰذا جس ریاست میں حکمران اور عوام الگ الگ مذہب و نسل سے تعلق رکھیں گے، اکثریتی عوام کی خواہش پر عمل ہوگا۔ ہم اسی اصول کو تسلیم کرتے ہیں۔''
درج بالا اصول کی رو سے حیدر آباد دکن اور جونا گڑھ کی ریاستیں بھارت اور ریاست جموں و کشمیر پاکستان میں شامل ہونا چاہیے تھی۔ لیکن ہوا یہ کہ بھارت نے تینوں ریاستوں پر بالجبر قبضہ کرلیا۔ یہی نہیں، پنڈت نہرو طویل عرصہ علی الاعلان کہتے رہے کہ ریاست جموں و کشمیر میں رائے شماری ہوگی، مگر وہ دنیا سے رخصت ہو گئے، یہ وعدہ پورا نہیں ہوا۔
بھارتی حکمران طبقے نے کشمیری عوام، پاکستان اور دنیا والوں کو چکمہ دینے کی خاطر مسلم کشمیری رہنما، شیخ عبداللہ سے سازباز کر لی۔ شیخ عبداللہ ریاست کا مطلق العنان حاکم بننے کے لالچ میں بھارتی حکومت کے ساتھ جا ملا۔ یوں ریاست اور بھارت کے الحاق کی پہلی اینٹ رکھ دی گئی۔پنڈت نہرو نے شیخ عبداللہ کو مطمئن کرنے کی خاطر ریاست جموں و کشمیر کو بھارتی آئین کی رو سے خصوصی حیثیت دی اور اسے نیم خود مختار علاقہ بنادیا۔ چنانچہ شیخ عبداللہ نے ریاست کا اقتدار سنبھال لیا۔ یہ دیکھ کر مہاراجہ ہری سنگھ بہت تلملایا مگر اس کے اقتدار کا سورج غروب ہوچکا تھا۔
منصوبے کے مطابق 1953ء میں بھارتی حکمران طبقہ یہ واویلا مچانے لگا کہ شیخ عبداللہ ریاست جموں و کشمیر کو آزاد و خودمختار بنانا چاہتا ہے۔ چناں چہ پنڈت نہرو نے اپنے ''دیرینہ'' دوست کو قید کیا اور ریاست میں اپنی کٹھ پتلی حکومت قائم کردی۔ یوں ریاست میں بھارتی اقتدار مستحکم ہوگیا۔ اس کے بعد بھارتی حکومت جموں و کشمیر میں رائے شماری کرانے کے وعدے سے نہ صرف پھرگئی بلکہ دعویٰ کرنے لگی کہ ریاست اسی کا اٹوٹ اننگ ہے۔
اس طرح بھارتی حکمران طبقے نے جھوٹ بولنے اور مکاری دکھانے کا نیا ریکارڈ قائم کردیا۔ عیاری کی منفرد مثال قائم کرنے والوں میں پنڈت نہرو سرفہرست تھے جنہیں کئی لوگ منصف مزاج، انسان دوست اور مہذب کہتے ہوئے نہیں تھکتے۔