اب وقت آگیا ہے

جب حکمران اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کے بجائے ان پر اصرار کرنے لگیں تو پھرقوم کو ایسے ہی سانحات کا سامنا کرناپڑتا ہے۔


Muqtida Mansoor December 21, 2014
[email protected]

عقل ماؤف ہے، کلیجہ پھٹ رہا ہے، سوچ کے دھارے منجمد ہو چکے ہیں۔ لگتا ہے جیسے آنکھیں پتھرا گئی ہوں۔ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کہاں سے شروع کروں اور کیسے شروع کروں۔ الفاظ ساتھ چھوڑ چکے ہیں، جملے بے ربطگی کا شکار ہیں۔ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ سانحہ عظیم کو کس نام سے پکاروں۔ 16 دسمبر ویسے ہی پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا، اب مزید داغدار ہو گیا۔

وہ عناصر جو بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے روک کر پاکستان کے مستقبل کو مفلوج بنانے کے درپے تھے، انھوں نے 16 دسمبر کو پشاور میں معصوم کلیوں کو مسل کر وطن عزیز کے مستقبل کو تاریک کرنے کی اپنی پوری سی کوشش کر ڈالی۔ سفاکیوں کی داستانیں کتابوں میں تو پڑھی تھیں، مگر شومی قسمت ان آنکھوں کو یہ اندوہناک مناظر دیکھنا بھی پڑے۔

یہ سانحہ یا ایسے سانحے غیر متوقع نہیں ہیں، کیونکہ ان کا بیج خود ہمارے حکمرانوں اور منصوبہ سازوں نے اپنے ہاتھوں بویا ہے۔ احمقانہ فیصلوں کی طویل تاریخ ہے، جس نے ہر بار منہ پر زوردار طمانچہ مارا ہے، مگر حکمران اشرافیہ نے پھر بھی انھی فیصلوں پر اصرار کیا ہے۔ ملک میں جمہوریت، جمہوری عمل اور جمہوری اداروں کو کمزور کرنے کے لیے ریاستی منتظمہ نے جس طرح مذہب کے نام پر قائم جماعتوں کی سرپرستی کر کے عوام کے مذہبی جذبات کو برانگیختہ کیا، اس نے ریاست کو زد پذیری کی اس منزل تک پہنچایا ہے۔

آج یہ دن اس لیے بھی دیکھنا پڑا ہے کیونکہ منصوبہ سازوں نے اپنی روش نہیں بدلی، بلکہ انھی پالیسیوں پر اصرار کرتے رہے، جن کی وجہ سے شدت پسندوں کے حوصلے بلند ہوئے۔ ایک پرانی کہاوت ہے کہ باپ کی غلطیاں بیٹا بھگتتا ہے اور حکمرانوں کی غلطیاں قوم بھگتتی ہے۔ آج پورا پاکستان حکمرانوں کی غلطیوں کی سزا بھگت رہا ہے۔

یاد رہے کہ جب حکمران اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کے بجائے ان پر اصرار کرنے لگیں تو پھر قوم کو ایسے ہی سانحات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن سے آج وطن عزیز گزر رہا ہے۔ اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ تاریخ کے فیصلے سفاک اور بے رحم ہوتے ہیں۔ زندہ قومیں تاریخ سے سبق سیکھتی ہیں اور ماضی کے کسی بھی دور میں کی گئی غلطیوں اور کوتاہیوں کو دہرانے سے گریز کرتی ہیں۔ بلکہ دانستہ اور نادانستہ سرزد ہونے والی غلطیوں کے ازالے کی کوشش کرتی ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ تاریخ عالم میں بارہا قوموں نے اپنی آزادی کے لیے کہیں مذہب، کہیں نسلی تفاخر اور کہیں قومی شناخت کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔ لیکن آزادی ملنے کے بعد انھوں نے ان نعروں سے جان چھڑا کر اپنی پوری توجہ قومی تعمیر نو پر مبذول کرلی۔ مگر المیہ یہ ہے کہ پاکستانی حکمران اشرافیہ نے اس حقیقت سے صرف نظر کرتے ہوئے قیام پاکستان کے ڈیڑھ برس بعد قرارداد مقاصد دستور ساز اسمبلی سے منظور کراکے دراصل ایک طرف جناح کے تصور پاکستان کی نفی کر دی، جب کہ دوسری طرف عوام میں تقسیم در تقسیم کا ایسا بیج بو دیا، جو آج تناور درخت بن چکا ہے۔ برٹش انڈیا میں آزادی کی جدوجہد کے دوران مسلم تشخص پر اصرار کسی حد تک سمجھ میں آتا ہے۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد ریاست کے منطقی جواز کی مذہب کی بنیاد پر تفہیم ناقابل فہم ہے۔

آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت نے دوسری بڑی غلطی یہ کی کہ قیام پاکستان کے بعد 1940ء کی قرارداد لاہور میں دیے گئے وفاقیت کے تصور کو نظر انداز کر کے ملک کو وحدانی ریاست میں تبدیل کر دیا۔ مسلم قومیت کی نرگسیت میں مبتلا حکمرانوں نے اس ملک میں موجود قوموں اور قومیتوں کے قومی تشخص سے انکار کر کے ان میں احساس محرومی پیدا کر دیا۔ اسی طرز عمل کے نتیجے میں سقوط ڈھاکا ہوا اور اب بلوچستان میں بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔

سرد جنگ کے دوران عالمی سطح پر اس رویے کے خلاف کوئی ردعمل اس لیے نہیں آیا کیونکہ پاکستان کا مذہبی تشخص اس وقت کے معروضی حالات میں سرمایہ دار دنیا کے لیے سودمند تھا۔ لہٰذا کمیونسٹ دنیا کو چھوڑ کر کسی بھی جانب سے کوئی اعتراض نہیں اٹھا، بلکہ عالمی قوتوں نے اس طرز عمل کی حوصلہ افزائی کی۔ لیکن سرد جنگ کے خاتمے کے بعد دنیا کی ترجیحات مکمل طور پر تبدیل ہو گئیں۔ عالمی سطح پر نظریاتی آویزش کی جگہ عالم انسانیت کو درپیش مسائل نے اولیت حاصل کر لی۔ ایسے میں پاکستانی منصوبہ سازوں نے اپنے رویے تبدیل کرنے کے بجائے سرد جنگ کے طرز عمل کو جاری رکھنے پر اصرار کیا، جس کے نتیجے میں پاکستان ان گنت نئے مسائل و مصائب میں گھرتا چلا گیا۔

امریکی امداد سے افغانستان میں لڑی جانے والی لڑائی کے نتیجے میں سوویت یونین کی شکست و ریخت کو بعض حلقوں نے اپنی کامیابی سمجھ کر پوری دنیا میں اسلام برآمد کرنے کا ازخود ٹھیکہ لے لیا۔ حالانکہ شاعر بہت پہلے کہہ چکا ہے کہ

رند خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو
تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تو

اس روش اور طرز عمل کے نتیجے میں ملک کے اندر مختلف نوعیت کے سماجی تضادات اور تنازعات پیدا ہونا شروع ہو گئے۔ دوسری طرف ریاستی اقتدار اعلیٰ پر گرفت اور پالیسی سازی پر اختیار کی رسہ کشی نے سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان فاصلے بڑھا دیے۔ جس کی وجہ سے پالیسی سازی کا عمل اور انتظامی ڈھانچہ بری طرح متاثر ہوا۔ نتیجتاً ریاستی منتظمہ جو پہلے ہی فکری ابہام میں مبتلا ہونے کی وجہ سے فرسودگی کا شکار تھی، مزید ابتری کا شکار ہو گئی۔

تجزیہ نگار طویل عرصے سے ریاستی انتظامی ڈھانچے کی فرسودگی کی نشاندہی کرتے چلے آ رہے ہیں۔ لیکن سانحہ پشاور نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہمارا انتظامی ڈھانچہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے اور اس میں مزید چلنے کی گنجائش نہیں ہے۔ لہٰذا پورا ریاستی نظام تشکیل نو یعنی Restructuring کا متقاضی ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے آئین میں بعض کلیدی نوعیت کی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔

وہ تمام شقیں، جو بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہیں یا جن کی وجہ سے عوام کے مختلف طبقات کے درمیان امتیازات جنم لے رہے ہیں، ان کی تنسیخ یا ان میں مناسب ترامیم ضروری ہو چکی ہیں۔ دوئم، پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور ان کی جدید خطوط پر تنظیم نو وقت کی اہم ترین ضرورت بن گئی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے درمیان پیشہ ورانہ روابط قائم کرنا بھی ضروری ہو چکا ہے۔ پولیس سمیت دیگر تمام انتظامی شعبہ جات کو Depoliticise کرکے ان میں تقرریاں اور تبادلے میرٹ پر کرنے کی اہمیت بڑھ چکی ہے۔

پھر عرض ہے کہ امن و امان کی صورتحال کو کنٹرول کرنے اور بہتر نظم حکمرانی قائم کرنے کے لیے اختیارات کی مرکزیت کو ختم کر کے اقتدار و اختیار کو نچلی ترین سطح تک منتقل کرنا ہو گا۔ اس مقصد کے لیے سیاسی، انتظامی اور مالیاتی Devolution ضروری ہے۔ ساتھ ہی عدالتی نظام کو بھی Devolve کیا جائے اور یونین کونسل کی سطح پر County Courts قائم کی جائیں، جو چھوٹے موٹے جرائم پر سزا دینے کی مجاز ہوں۔

اس وقت دوسرا بڑا مسئلہ ملک میں آباد مختلف قومیتوں اور لسانی اکائیوں کے درمیان عدم اعتماد کی فضا ہے، جسے ایک نئے عمرانی معاہدے کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے اہل دانش کے علاوہ سیاسی جماعتوں کو سیاسی عزم کا مظاہرہ کرنا پڑے گا، کیونکہ ان کی شرکت کے بغیر یہ عمل ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح مردم شماری بھی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ وسائل کی تقسیم کے لیے مردم شماری نہایت ضروری ہے۔ اس کے علاوہ ان غیر ملکیوں کی تعداد بھی معلوم ہو سکے گی، جو ملک کے مختلف حصوں میں قانونی یا غیر قانونی طور پر آباد ہیں۔

یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دنیا کا ہر ملک تبدیل ہوتے حالات کے تحت اپنے قومی مفاد میں انتہائی سخت گیر فیصلے کرنے سے گریز نہیں کرتا ہے۔ اکثر و بیشتر بعض اہم قومی پالیسیوں پر U-turn لینے سے بھی نہیں ہچکچایا جاتا۔ اس سلسلے کی بڑی مثال بھارت کی ہے۔ آزادی ہند کے ممتاز رہنما پنڈت جواہر لعل نہرو جب آزاد ہند کے وزیراعظم بنے تو انھوں نے Closed economy کی پالیسی متعارف کرائی، تا کہ ہندوستان صنعتی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکے۔ لیکن ان ہی کی جماعت کے وزیراعظم نرسمہا راؤ اور وزیر خزانہ ڈاکٹر من موہن سنگھ نے 45 برس بعد عالمی معاشی دباؤ کا ادراک کرتے ہوئے نہرو ڈاکٹرائن کو ختم کر کے بھارت میں بیرونی سرمایہ کاری کے لیے راستہ کھول دیا۔

کسی نے یہ نہیں کہا کہ نرسمہاراؤ نے اس مقدس گائے کو ذبح کر دیا جس کو پنڈت جی جیسے مہان رہنما نے پالا پوسا تھا۔ اس لیے اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان میں بھی جرأت مندانہ اور سخت گیر فیصلے کیے جائیں۔ ملک کے مذہبی تشخص پر اصرار سے چھٹکارا پا کر پاکستان کو عملاً ایک قومی وفاقی جمہوریہ بنایا جائے۔ اس کے علاوہ ملک میں یکساں نصاب تعلیم رائج کیا جائے، تا کہ مختلف نوعیت کی عصبیتوں کا خاتمہ ہو سکے۔ ساتھ ہی دینی مدارس سمیت تمام تعلیمی اداروں کی مانیٹرنگ اور ان کے حسابات کے سالانہ آڈٹ کو یقینی بنایا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں