جواب

روحانیت کامکمل نظام ہے۔ہم اس نظام میں بندھے ہوئے ہیں۔ہرکام خداکی مرضی سے ہوتاہے۔

raomanzarhayat@gmail.com

آخر یہ ہنگام کیا ہے! دن میں ایان تالبوت(Ian Talbot)کی کتاب، پاکستان ایک نئی تاریخ (Pakistan a new History) پڑھتا رہا۔کوئی نئی چیزسامنے نہ آئی۔ذہن میں لہرآئی کہ کیاکوئی پاکستان اور اس کے مسائل کوایک پاکستانی سے زیادہ جانتا ہوگا۔جواب یہی ملاکہ نہیں۔کتاب پڑھنی چھوڑدی۔ اتفاق سے"نظامی بنسری"نام کی کتاب ہاتھ آگئی۔ خواجہ حسن نظامی دہلوی کی تصنیف شدہ۔ سبحان اللہ!کیانسخہ ہے۔کیاکیاواقعات درج ہیں۔ برصغیر کے بادشاہوں اور اصل شہنشاہوں کے قصے۔ ولیوں اور درویشوں کی نایاب روایات۔ پڑھتا جارہا ہوں۔ جی ہے کہ کتاب سے باہرنکلتاہی نہیں۔

صوفی نے کوئی ایک مہینہ پہلے میرے دفتر آکرخاموشی سے بتایاکہ بلاوا آگیا ہے۔ میں نے حسبِ عادت پوچھنے کی کوشش کی۔کونسااورکہاں سے، جواب ملاکہ آقاؐنے حاضری کی درخواست قبول کرلی ہے اورایک مہینہ رہنے کاحکم ملا ہے۔ صوفی گزشتہ کئی دنوں سے مدینہ میں ہے۔ٹیلیفون پرپوچھاکہ حالات کیا ہیں۔ زور زور سے ہنسنے لگے اورپھر ہچکیاں بندھ گئیں۔کہنے لگاکہ انوارکی بارش ہورہی ہے اورمکمل بھیگ چکا ہوں۔

مشورہ دینے لگاکہ آپ دررویش کے پاس نہیں گئے۔ زیادہ جایا کریں، وہ منتظر ہیں۔ میں نے بتایاکہ سائوتھ افریقہ کے سفر کے بعدغفلت ہوگئی۔فون بند کرنے سے پہلے صوفی کہنے لگاکہ نظروں میں رہاکیجیے۔ درویش کی رسائی بہت اوپرتک ہے۔ میں خاموش ہوگیا۔ گھنٹوں سوچتا رہا کہ درویش تواپنے شہرسے باہرجاتے ہی نہیںپھران کی رسائی اوپرتک۔یہ اوپرکون ہے۔ میرے اندر ہمت نہیں کہ پوچھ سکوں! ہوسکتا ہے کہ سوال بالکل ہی غلط ہو!

بیس برس پہلے عامرمنیرکہنے لگاکہ روحانیت کامکمل نظام ہے۔ہم اس نظام میں بندھے ہوئے ہیں۔ہرکام خداکی مرضی سے ہوتاہے۔ مگر آقاؐکی سفارش بہت معنی رکھتی ہے۔ وہ ایک دن میرے گھرآکرکہنے لگاکہ قطب، ولی اورابدال مختلف درجے ہیں۔قطبِ مداروہ بزرگ ہیں جو اکیلے ہوتے ہیں اوراس تمام نظام کے ہیڈ ماسٹر! مجھے اس کی کوئی بات سمجھ نہیں آئی۔رازہے کہ کھل کے ہی نہیںدیتا۔دروازہ ابھی تک بہت معمولی سا کھلا ہے۔ بلکہ اکثربندہی رہتا ہے۔ابھی تک دروازے کے اندر جھانکنے کی اجازت نہیں ملی۔

بوعلی قلندررکوکچھ نذربھجوانی تھی۔بادشاہ وقت نے حضرت امیرخسروسے استدعاکی۔یہ مشکل کام امیرخسروکے بس سے باہرکاتھا۔چنانچہ نظام الدین اولیاء کی خدمت میں حاضرہوئے اوراجازت مانگی۔اجازت توملی مگرصرف ایک شرط پرکہ قلندرکوکسی بات پربھی انکارنہ کرنا۔امیرخسرودرویش کی مجلس میں حاضرہوئے۔بوعلی نذرقبول کرتے ہوئے کہنے لگے کہ یہ توہندوستان کے چوکیدارکی جانب سے ہے۔آپ بتائیے،کہ غزل کیسی کہتے ہو بلکہ سنائو۔

امیر خسرو نے اپنی غزل کے چند اشعار سنائے۔بوعلی قلندرفرمانے لگے،اب میری غزل سنو۔ چنداشعارسنائے۔امیرخسروزاروقطاررونے لگے۔ میں اتنی لیاقت نہیں رکھتا کہ سمجھ پائوں۔ قلندر کہنے لگاکہ نظام الدین اولیاء کوبتاناکہ آقاؐکے دربارمیں نظرنہیں آتے۔ امیرخسرونے دہلی واپس آکریہ تمام معاملہ اپنے مرشدسے بیان کیا۔ جواب ملاکہ قلندر کو کہیے گاکہ آقاؐکے خیمے کی پچھلی طرف دیکھیے گا'آپکوپتہ چل جائے گا۔بوعلی استغراق میں چلے گئے ۔کہنے لگے نظام الدین ٹھیک فرماتے ہیں۔آگے کادرج شدہ واقعہ میں یہاں رقم کرنے کی ہمت نہیں رکھتا۔

قطب الدین خلجی کے دل میں نظام الدین اولیاء کے متعلق بدگمانی پیداکردی گئی۔بادشاہ نے حکم دیاکہ چاندرات کودرویش دربارمیں دعاکے لیے خودحاضرہوں۔غیرحاضری کی صورت میں زبردستی بلوایاجائے گا۔نظام الدین اولیاء نے جواب دیاکہ دعاکے لیے تنہائی درکارہے اوردرباروں میں جاکر دعادینے سے تاثیرختم ہوجاتی ہے۔ مزید یہ درویشوں کا وتیرہ بھی نہیں۔مقررہ دن پردرویش نے جانے سے انکار کردیا۔

تمام مریدین کو واپسی کاحکم دیدیا۔امیرخسروبارباردرگاہ سے باہرنظردوڑاتے تھے کہ کب بادشاہ کی فوج درویش کی گرفتاری کے لیے آئیگی؟درویش نے سکون سے مغرب کی نماز پڑھی اور وظائف میں مشغول ہوگئے۔ درویش نے دوبارہ حکم دیاکہ سب اپنے گھروں کو چلے جائیں، کیونکہ میرا بچانے والا ہروقت میرے ساتھ ہے۔ اسی شب قطب الدین خلجی کواس کے بہترین رفیق خسرو خان نے قتل کردیا۔

آپ آج سے محض چند دہائیاں پہلے کی طرف چلے جائیے۔فلسفہ اورشاعری کابے تاج بادشاہ،علامہ اقبالؒآپکی نظرکوخیرہ کردیگا۔ان کی تعلیم وتربیت مشرق اورمغرب دونوں کے بے مثال امتزاج میں طے پائی تھی۔ عشق رسول سے سرشار،یہ شخص میرے جیسے طالبعلم کی دانست میں انمول تھا۔ آپ ان کے بیٹے،جاویداقبال کی کتاب" زندہ رود" کا مطالعہ کیجیے۔ آپکے ذہن میں علامہ کی شخصیت کے کئی ایسے پہلو اجاگر ہونگے جو شائد پہلے آپ نے کبھی بھی نہیں دیکھے۔ قریب ترین دوستوں کی علامہ کے متعلق کتابیں پڑھیں، کئی راز کھل جائینگے۔


عمرکے پختہ حصے میں اقبال اکثراکیلے محوِگفتگورہاکرتے تھے۔مگران کے نزدیک وہ ہرگز اکیلے نہیں ہوتے تھے اور وہ خودکلامی بھی نہیں تھی۔وہ اکثراپنے کمرے میں مولاناروم سے محوِگفتگورہتے تھے۔جب وہ لاہورمیں انارکلی میں مقیم تھے،اس دورکاایک واقعہ بھی محفوظ ہے۔اقبال پراکثر جذب کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔جذب کی کیفیت میں ایک رات کو اٹھے۔ لکھنے کاکمرہ نیچے تھا۔سیڑھیاں اتر کر نیچے پہنچے۔ اسی عالم میں لکھنا شروع کیا۔دیکھتے ہیں کہ کمرے کی کرسی پرایک انتہائی خوبصورت بزرگ بیٹھے ہوئے ہیں۔

علامہ لکھنے میں مصروف رہے۔ایک دم پھربزرگ کی طرف دھیان گیاتووہ بڑے اطمینان سے تشریف فرما تھے۔تھوڑی دیربعد علامہ نے کمرے میں اس جانب دیکھا توکمرہ خالی تھا۔ انھیں گمان ہواکہ شائدبزرگ باہر تشریف لے گئے ہیں۔ لالٹین لے کر گلی میں باہر نکلے۔ چوکیدارنزدیک ہی موجود تھا۔ چوکیدارکے پاس جاکر پوچھا کہ آپ نے میرے گھرسے کسی کوباہرجاتے ہوئے تونہیں دیکھا؟جواب ملاکہ میں توپوری رات سے اس جگہ موجود ہوں،آپکے گھرسے توکوئی باہرنہیں نکلا۔علامہ واپس چلے گئے۔ پورے گھرمیںانتہائی لطیف خوشبورچ چکی تھی۔ یہ تمام واقعات کیاہیں اورکس طرف اشارہ کرتے ہیں! بات محض عشق اورادراک کی ہے!

میں توہم پرستی کے سخت خلاف ہوں۔میں ضعیف العتقادی سے ہزاروں میل دورہوں۔سائنس اورعلمی دنیا کا مسافرہونے کے باوجودکئی ایسے سوالات ہیں جنکے جواب کم ازکم دنیاوی نظام میں نہیں ملتے۔یہ روحانیت کی دنیا کیسی ہے؟ آپ یقین فرمائیے،میں اس وقت پنڈولم کی طرح ہوچکا ہوں۔کبھی ایک طرف اورکبھی دوسری طرف۔اگریہ روحانی نظام مکمل طور پرموجودہے توپھردنیاوی نظام کی حیثیت کیاہے؟ اگر دنیاوی حقائق موجود ہیں، توکیاواقعی روحانی نظام کا کوئی جواز باقی رہ جاتاہے!صرف ایک چیزجانتاہوں اگرکوئی بھی اَمرآپکی عقل اورحواسِ خمسہ کی کسوٹی پرپورا نہیں اترتا،تو اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ وہ موجودنہیں ہے۔

میڈیکل ڈاکٹرہونے کی بدولت سے عرض کرونگاکہ آپ تحقیق کی دنیامیں چلے جائیے۔دنیاکے بہترین آنکھوں کے ڈاکٹرکے پاس بیٹھیے۔وہ آپکویہ بتاسکے گاکہ آپ روشنی میں کیادیکھ سکتے ہیں اورکیوں دیکھ سکتے ہیں۔ وہ آپکو نزدیک اوردورکی عینک بھی لگاکردے سکتاہے۔مگروہ آپکویہ نہیں بتا سکتاکہ روشنی دراصل ہے کیااورآنکھوں کی بصیرت کتنی محدود ہے؟آپ فزکس کی کوئی کتاب اٹھاکردیکھ لیجیے۔ آپکو لکھا ہوا مل جائے گاکہ ہمیں نظر آنے والی روشنی صرف سات رنگوں کا مرکب ہے۔

محض سات رنگ! مگراس سچ کو نفی نہیں کرتا،کہ ان رنگوں سے باہرکوئی اوررنگ موجود نہیں ہے۔ممکن ہے کہ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں رنگ ہوں۔مگرانسانی آنکھ کے اندروہ اسطاعت نہیں کہ سات رنگوں پر مشتمل روشنی کے علاوہ کچھ اور دیکھ سکے۔یہ دلیل میں اسلیے دے رہاہوں کہ ہماری دیکھنے کی قوت انتہائی محدودہے۔ ہمیں اسی حصارمیں زندہ رہنا ہے۔

آپ سماعت کے ڈاکٹرکے پاس چلے جائیں۔اس سے آوازکی حقیقت پوچھیے۔وہ آپکوE.N.Tکی ضخیم کتاب پڑھ کرآسانی سے بتادیگا کہ آوازکیاہے۔ہم کیسے سنتے ہیں اور کیوںسنتے ہیں۔مگرسائنس میں ایک مشکل ہے۔ آواز کا صرف وہ حصہ سناجاسکتاہے جومخصوص رینج میں ہے یعنی ایک خاص ڈیسی بلز(Decibells)کا۔اس سے اوپر یا نیچے کی رینج کی آواز موجود بھی ہو، تب بھی انسان کے پاس وہ استطاعت نہیں کہ وہ رینج سے باہر کی آوازسن سکے۔

اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہماری قوت سماعت سے باہرکوئی آوازموجودنہیں ہے۔ یہ اَمرتصدیق شدہ ہے کہ بالکل موجودہے مگرہماری قوت سماعت سے باہرہے۔سوال یہ پیداہوتاہے کہ اگر خدا اپنے چندبزرگ بندوں کو سماعت کی اس معمولی رینج سے باہرنکال دیتاہے۔تو مشیتِ الہی سے یہ لوگ ہروہ چیزسن سکتے ہیں جوعام آدمی نہیں سن سکتا۔یہ بالکل تعجب کی بات نہیں۔

روحانیت کیاہے؟میں اس سوال کاجواب دینے سے مکمل قاصرہوں!اپنے محدودحواسِ خمسہ سے ہم ہرعقدہ کوکھول نہیں سکتے۔مگرہم محدودسے لامحدودکی جانب سفرضرورکرسکتے ہیں۔میں لکھتے ہوئے کہیں سے کہیں پہنچ گیاہوں۔آپ ان تمام چیزوں کوچھوڑدیجئے۔آپ امریکا یا پاکستان میں کسی بڑی لیب میں چلے جائیے جہاں ستاروں کودیکھنے کے لیے بڑی ضخیم دوربینیں لگی ہوئی ہیں۔آپ سائنسدانوں کے پاس بیٹھیے۔وہ آپکو بے شمارآلات دکھائینگے جوآسمان پرموجود ستاروں اورسیاروں کی آواز ریکارڈ کرتے ہیں۔

وہ آپکومخصوص آلات سے کچھ ستاروں کی آوازیں آرام سے سنا دینگے۔ اگر آپ وہ آلات کانوں پرنہ لگائیں توآپکووہ مخصوص آوازسنائی نہیں دیگی۔یہ اس اَمرکاثبوت ہے کہ ہماری قوت سماعت سے باہرآواز موجود ہیں مگر ہم اسے سننے پرقادر نہیں۔ میں طالبعلم کی حیثیت سے عرض کررہاہوں کہ اگر کوئی نظام ہمیں دکھائی یاسنائی نہیں دے رہاتویہ دلیل نہیں کہ وہ نظام موجودنہیں ہے!

کون درست ہے اورکون غلط!اسکافیصلہ بہت مشکل ہے،بلکہ میری نظرمیں اس فیصلہ کوکرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے!میں یقین اوربے یقینی کے سمندرکے درمیان غوطے کھارہا ہوں۔ صوفی نے مجھے کیوں کہا کہ وہ مدینہ میں آقاؐ کے انوارات سے بھیگ چکاہے۔دیکھنے میں تواس کے تمام کپڑے خشک ہیں۔ یہ کیا ماجرا ہے! صوفی کس جذب میں سرشار ہے! میرے علم میں قطعاًنہیں ہے!مگرمیں اب جاننابھی نہیں چاہتا! ضروری نہیں کہ ہرسوال کاجواب ہو!یہ بھی توممکن ہے کہ سوال میں ہی اصل جواب پنہاں ہو!
Load Next Story