پہلے جمہوریت لاؤ پھر اسے بچاؤ
جو اقتدار مافیا 50 سال پہلے ملک پر قابض تھی آج اس کی آل اولاد ملک کی سیاست اور اقتدار پر قابض ہے۔
قیام پاکستان کے بعد 1958ء تک جاگیرداروں نے سول بیوروکریسی کی مدد سے محلاتی سازشوں کے ذریعے جمہوریت کا جو گندا کھیل شروع کیا تھا اس ہی کی وجہ سے ایوب خان کو یہ حوصلہ ملا کہ وہ آگے بڑھ کر اس کھیل کا خاتمہ کر دے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ہماری اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کی خرمستیاں رہیں۔
مجھے یاد ہے 1978ء ہی میں جب بھٹو گرفتار تھے کراچی کے ڈیفنس میں ایک استقبالیہ دیا گیا تھا جس میں جمہوریت کے گورکن شریک تھے۔ اس استقبالیے میں بھٹو کے خلاف جی بھر کے بھڑاس نکالی گئی، ہمارے ایک معزز جمہوری رہنما خان ولی خان نے اپنی تقریر کے دوران جب یہ فرمایا کہ ''بھٹو کو خدا نے اس بار گردن سے پکڑ لیا ہے اب بھٹو اپنی گردن نہیں چھڑا سکتا۔'' تو میں حیرت سے گنگ ہو کر رہ گیا، میں نے پاکستانی جمہوریت کو سربازار برہنہ دیکھا۔
اسی جمہوریت کے ایک اور چیمپئن اصغر خان نے فوج کو خط لکھا کہ وہ مداخلت کر کے ان کی جان بھٹو سے چھڑائے۔ ایوب خان کو مسلم لیگ کنونشن بنا کر سیاسی بیساکھی فراہم کرنے والے بھی سیاستدان ہی تھے۔ ضیا الحق کو سیاسی حمایت فراہم کرنے والے بھی سیاستدان ہی تھے جنرل مشرف کے اقتدار سنبھالنے پر مٹھائیاں بانٹنے والے بھی سیاستدان ہی تھے اور جنرل مشرف کی خدمت میں مسلم لیگ (ق) کا تحفہ پیش کرنے والے بھی سیاستدان ہی تھے اور ضیا الحق کے جانشین بننے کا اعزاز حاصل کرنے والے بھی سیاستدان ہی تھے۔
سیاستدانوں اور جمہوریت کے یہ کارنامے دیکھ کر یہ اندازہ ہوا کہ جب تک ملک میں بددیانت، عیار اور مکار اشرافیہ جمہوریت پر قابض رہے گی اس ملک میں جمہوریت کا حال بالادست طبقات کے لیے کھیل کا ہی ہو گا۔ اس پس منظر میں نیپ نے عوامی جمہوریت کے قیام کا فیصلہ کیا اور مزدوروں، کسانوں، مڈل اور لوئر مڈل کلاس پر مشتمل عوامی جمہوریت کے قیام کی جدوجہد شروع کی اس سلسلے میں ایک رسالہ نکالنے کا اہتمام بھی کیا گیا جس کا نام بھی ''عوامی جمہوریت'' رکھا گیا، اس رسالے کی ادارت کی ذمے داری متحدہ ہندوستان کی پارٹی کے سینئر رہنما سید مطلبی فرید آبادی کو دی گئی، مطلبی صاحب نے مجھ سے اس رسالے کے لیے پابندی سے لکھنے کا عہد لیا اور ہم یہ عہد آخر وقت تک نبھاتے رہے۔
ماڈل ٹاؤن لاہور میں مطلبی صاحب کا مکان پارٹی کے کارکنوں کا مہمان خانہ بنا ہوا تھا جہاں کراچی، کوئٹہ، پشاور وغیرہ سے آنے والے مہمان فروکش رہتے تھے اور مطلبی صاحب کا خاندان ہمہ تن مہمانوں کی خدمت میں مصروف رہتا، سی آر اسلم، سید قسور گردیزی، میاں محمود قصوری، سردار شوکت حیات سمیت کئی رہنما عوامی جمہوریت کے لیے سرگرداں رہتے۔ چوہدری فتح محمد کسانوں کو منظم کرنے کی ذمے داری ادا کرتے، مرزا ابراہیم پنجاب میں مزدوروں کو متحرک کر رہے تھے اور ہم کراچی میں یہ خدمت انجام دے رہے تھے جس کے دو پلیٹ فارم تھے ایک متحدہ مزدور فیڈریشن دوسرے لانڈھی کورنگی میں لیبر آرگنائزنگ کمیٹی۔ یہ غالباً 1966ء کی بات ہے۔
اس طویل پس منظر کو پیش کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ تقریباً پچاس سال پہلے عوامی جمہوریت کے لیے جو لڑائی شروع کی گئی تھی وہ آج بھی جاری ہے اور جو اقتدار مافیا 50 سال پہلے ملک پر قابض تھی آج اس کی آل اولاد ملک کی سیاست اور اقتدار پر قابض ہے اس پچاس سالہ جمہوریت کے خلاف پہلی بار لاکھوں غریب عوام سڑکوں پر آ رہے ہیں، یہ صورت حال اقتدار مافیا کے لیے خوف و دہشت کا باعث بن گئی ہے اور اشرافیہ کے گندے سیاسی انڈے جمہوریت بچاؤ کے نعرے کے ساتھ عوام کو گمراہ کر کے اپنے موروثی ورثے اشرافیائی جمہوریت کو بچانے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔
چونکہ اصلاً یہ طبقہ عوام میں اپنی اربوں کی کرپشن، بدعنوانیوں، نااہلیوں کی وجہ بدنام ہو چکا ہے اور خود اس جمہوریت کا دفاع کرنے کے قابل نہیں رہا اس لیے اس نے مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے جی حضور سیاستدانوں اور کرپٹ اہل دانش اور اہل قلم کو آگے بڑھا رہا ہے اور ان کے ہاتھوں میں جمہوریت کے لڈو تھما کر اور منہ میں ٹھونس کر اور بھاری لفافوں کی مدد سے ''جمہوریت بچاؤ'' مہم پر اس طرح لگا دیا ہے کہ عوام ایک بار پھر دھوکا کھا کر اشرافیائی عوام دشمن جمہوریت کا دفاع کر سکیں، لیکن اب صورت حال اتنی تبدیل ہوگئی ہے کہ ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک لاکھوں عوام، بوڑھے، جوان، مرد، خواتین، بچے سڑکوں پر آ رہے ہیں۔
اسے ہم اتفاق کہیں یا حسن اتفاق کہ اس تحریک کی قیادت عمران خان کر رہے ہیں، عمران خان خاندانی سیاستدان ہے نہ اقتدار پر نسلوں سے قابض خاندان کا فرد۔ وہ بنیادی طور پر ایک کرکٹر ہے اس لیے نہ وہ اشرافیائی جمہوریت کے سحر میں مبتلا ہے، نہ اس فراڈ جمہوریت کا حامی ہے۔ وہ ملک کے اس 67 سالہ فراڈ نظام کو بدلنے کی بات کر رہا ہے اور عوام اس کی بات کو سن بھی رہے ہیں اور اس پر یقین بھی کر رہے ہیں، اگر عمران خان نے عوام کو مایوس کیا تو پھر وہ عوام کی نظروں سے اس طرح گر جائے گا کہ کسی بھی گنگا کو نہانے کے بعد بھی وہ پوتر نہیں بن سکے گا۔
یہ بات عمران خان بھی جانتا ہے کہ آج وہ جدھر نکل جاتا ہے لاکھوں عوام اس کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کر دیتے ہیں یہ اس لیے نہیں کہ وہ ایک مشہور کرکٹر رہا ہے بلکہ اس لیے کہ وہ عوام کو 67 سالہ فراڈ جمہوریت سے نجات دلا کر عوامی جمہوریت قائم کرنے کا وعدہ کر رہا ہے۔
جو دانشور جو اہل قلم جو مڈل کلاس کے سیاستدان اپنا ضمیر اور قلم بیچ کر ''جمہوریت بچاؤ'' کا نعرہ لگا رہے ہیں ان سے شکایت اس لیے بے کار ہے کہ یہ مارکیٹ کا مال ہے جو بکنے ہی کے لیے مارکیٹ میں رہتا ہے۔
عوام کو شکایت ان دانشوروں، ان قلمکاروں، ان مڈل کلاسز صف دوئم کے سیاست کاروں سے ہے جو اس جمہوریت کے 67 سالہ ریکارڈ اور کارکردگی اس کی لوٹ مار اس کی موروثیت سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود ''جمہوریت بچاؤ'' کے پر فریب نعرے میں اپنی آواز شامل کر رہے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ ایماندار لوگ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس جمہوریت نے کبھی ڈلیور نہیں کیا، یہ مخلص لوگ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ یہ جمہوریت ولی عہد شہزادے شہزادیاں پیدا کر رہی ہے اور پروان چڑھا رہی ہے۔
یہ مہان لوگ اس حقیقت سے بھی واقف ہیں کہ اس معزز اشرافیہ کے غیر ملکی بینکوں میں اربوں ڈالر رکھے ہوئے ہیں۔ یہ معزز اور مخلص لوگوں کو اس بات کا بھی علم ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں اس طبقے کی اربوں ڈالر کی جائیدادیں ہیں۔ یہ محترم لوگ اس حقیقت سے بھی واقف ہیں کہ یہ جمہوریت کے علمبردار آنے والی اپنی کئی نسلوں تک جمہوریت کو اپنے لیے محفوظ بنانے کے جتن کر رہے ہیں۔
یہ قابل احترام لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ اس جمہوریت کے ہوتے ہوئے مڈل اور لوئر مڈل کلاس کا کوئی فرد خواہ وہ کتنا ایماندار مخلص اور باصلاحیت ہو قانون ساز اداروں میں نہیں پہنچ سکتا۔ پھر اس فراڈ جمہوریت کی حمایت اور جمہوریت بچاؤ کا مطلب کیا ہے؟ جمہوریت کو بے شک بچانا چاہیے لیکن جمہوریت بچانے کا نعرہ لگانے سے پہلے ''جمہوریت لاؤ'' کا نعرہ لگانا چاہیے پھر ''جمہوریت بچاؤ'' کا نعرہ درست بھی ہو گا اور منطقی بھی۔ اب یہی ایک نعرہ ہونا چاہیے ''پہلے جمہوریت لاؤ، پھر اسے بچاؤ''۔
مجھے یاد ہے 1978ء ہی میں جب بھٹو گرفتار تھے کراچی کے ڈیفنس میں ایک استقبالیہ دیا گیا تھا جس میں جمہوریت کے گورکن شریک تھے۔ اس استقبالیے میں بھٹو کے خلاف جی بھر کے بھڑاس نکالی گئی، ہمارے ایک معزز جمہوری رہنما خان ولی خان نے اپنی تقریر کے دوران جب یہ فرمایا کہ ''بھٹو کو خدا نے اس بار گردن سے پکڑ لیا ہے اب بھٹو اپنی گردن نہیں چھڑا سکتا۔'' تو میں حیرت سے گنگ ہو کر رہ گیا، میں نے پاکستانی جمہوریت کو سربازار برہنہ دیکھا۔
اسی جمہوریت کے ایک اور چیمپئن اصغر خان نے فوج کو خط لکھا کہ وہ مداخلت کر کے ان کی جان بھٹو سے چھڑائے۔ ایوب خان کو مسلم لیگ کنونشن بنا کر سیاسی بیساکھی فراہم کرنے والے بھی سیاستدان ہی تھے۔ ضیا الحق کو سیاسی حمایت فراہم کرنے والے بھی سیاستدان ہی تھے جنرل مشرف کے اقتدار سنبھالنے پر مٹھائیاں بانٹنے والے بھی سیاستدان ہی تھے اور جنرل مشرف کی خدمت میں مسلم لیگ (ق) کا تحفہ پیش کرنے والے بھی سیاستدان ہی تھے اور ضیا الحق کے جانشین بننے کا اعزاز حاصل کرنے والے بھی سیاستدان ہی تھے۔
سیاستدانوں اور جمہوریت کے یہ کارنامے دیکھ کر یہ اندازہ ہوا کہ جب تک ملک میں بددیانت، عیار اور مکار اشرافیہ جمہوریت پر قابض رہے گی اس ملک میں جمہوریت کا حال بالادست طبقات کے لیے کھیل کا ہی ہو گا۔ اس پس منظر میں نیپ نے عوامی جمہوریت کے قیام کا فیصلہ کیا اور مزدوروں، کسانوں، مڈل اور لوئر مڈل کلاس پر مشتمل عوامی جمہوریت کے قیام کی جدوجہد شروع کی اس سلسلے میں ایک رسالہ نکالنے کا اہتمام بھی کیا گیا جس کا نام بھی ''عوامی جمہوریت'' رکھا گیا، اس رسالے کی ادارت کی ذمے داری متحدہ ہندوستان کی پارٹی کے سینئر رہنما سید مطلبی فرید آبادی کو دی گئی، مطلبی صاحب نے مجھ سے اس رسالے کے لیے پابندی سے لکھنے کا عہد لیا اور ہم یہ عہد آخر وقت تک نبھاتے رہے۔
ماڈل ٹاؤن لاہور میں مطلبی صاحب کا مکان پارٹی کے کارکنوں کا مہمان خانہ بنا ہوا تھا جہاں کراچی، کوئٹہ، پشاور وغیرہ سے آنے والے مہمان فروکش رہتے تھے اور مطلبی صاحب کا خاندان ہمہ تن مہمانوں کی خدمت میں مصروف رہتا، سی آر اسلم، سید قسور گردیزی، میاں محمود قصوری، سردار شوکت حیات سمیت کئی رہنما عوامی جمہوریت کے لیے سرگرداں رہتے۔ چوہدری فتح محمد کسانوں کو منظم کرنے کی ذمے داری ادا کرتے، مرزا ابراہیم پنجاب میں مزدوروں کو متحرک کر رہے تھے اور ہم کراچی میں یہ خدمت انجام دے رہے تھے جس کے دو پلیٹ فارم تھے ایک متحدہ مزدور فیڈریشن دوسرے لانڈھی کورنگی میں لیبر آرگنائزنگ کمیٹی۔ یہ غالباً 1966ء کی بات ہے۔
اس طویل پس منظر کو پیش کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ تقریباً پچاس سال پہلے عوامی جمہوریت کے لیے جو لڑائی شروع کی گئی تھی وہ آج بھی جاری ہے اور جو اقتدار مافیا 50 سال پہلے ملک پر قابض تھی آج اس کی آل اولاد ملک کی سیاست اور اقتدار پر قابض ہے اس پچاس سالہ جمہوریت کے خلاف پہلی بار لاکھوں غریب عوام سڑکوں پر آ رہے ہیں، یہ صورت حال اقتدار مافیا کے لیے خوف و دہشت کا باعث بن گئی ہے اور اشرافیہ کے گندے سیاسی انڈے جمہوریت بچاؤ کے نعرے کے ساتھ عوام کو گمراہ کر کے اپنے موروثی ورثے اشرافیائی جمہوریت کو بچانے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔
چونکہ اصلاً یہ طبقہ عوام میں اپنی اربوں کی کرپشن، بدعنوانیوں، نااہلیوں کی وجہ بدنام ہو چکا ہے اور خود اس جمہوریت کا دفاع کرنے کے قابل نہیں رہا اس لیے اس نے مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے جی حضور سیاستدانوں اور کرپٹ اہل دانش اور اہل قلم کو آگے بڑھا رہا ہے اور ان کے ہاتھوں میں جمہوریت کے لڈو تھما کر اور منہ میں ٹھونس کر اور بھاری لفافوں کی مدد سے ''جمہوریت بچاؤ'' مہم پر اس طرح لگا دیا ہے کہ عوام ایک بار پھر دھوکا کھا کر اشرافیائی عوام دشمن جمہوریت کا دفاع کر سکیں، لیکن اب صورت حال اتنی تبدیل ہوگئی ہے کہ ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک لاکھوں عوام، بوڑھے، جوان، مرد، خواتین، بچے سڑکوں پر آ رہے ہیں۔
اسے ہم اتفاق کہیں یا حسن اتفاق کہ اس تحریک کی قیادت عمران خان کر رہے ہیں، عمران خان خاندانی سیاستدان ہے نہ اقتدار پر نسلوں سے قابض خاندان کا فرد۔ وہ بنیادی طور پر ایک کرکٹر ہے اس لیے نہ وہ اشرافیائی جمہوریت کے سحر میں مبتلا ہے، نہ اس فراڈ جمہوریت کا حامی ہے۔ وہ ملک کے اس 67 سالہ فراڈ نظام کو بدلنے کی بات کر رہا ہے اور عوام اس کی بات کو سن بھی رہے ہیں اور اس پر یقین بھی کر رہے ہیں، اگر عمران خان نے عوام کو مایوس کیا تو پھر وہ عوام کی نظروں سے اس طرح گر جائے گا کہ کسی بھی گنگا کو نہانے کے بعد بھی وہ پوتر نہیں بن سکے گا۔
یہ بات عمران خان بھی جانتا ہے کہ آج وہ جدھر نکل جاتا ہے لاکھوں عوام اس کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کر دیتے ہیں یہ اس لیے نہیں کہ وہ ایک مشہور کرکٹر رہا ہے بلکہ اس لیے کہ وہ عوام کو 67 سالہ فراڈ جمہوریت سے نجات دلا کر عوامی جمہوریت قائم کرنے کا وعدہ کر رہا ہے۔
جو دانشور جو اہل قلم جو مڈل کلاس کے سیاستدان اپنا ضمیر اور قلم بیچ کر ''جمہوریت بچاؤ'' کا نعرہ لگا رہے ہیں ان سے شکایت اس لیے بے کار ہے کہ یہ مارکیٹ کا مال ہے جو بکنے ہی کے لیے مارکیٹ میں رہتا ہے۔
عوام کو شکایت ان دانشوروں، ان قلمکاروں، ان مڈل کلاسز صف دوئم کے سیاست کاروں سے ہے جو اس جمہوریت کے 67 سالہ ریکارڈ اور کارکردگی اس کی لوٹ مار اس کی موروثیت سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود ''جمہوریت بچاؤ'' کے پر فریب نعرے میں اپنی آواز شامل کر رہے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ ایماندار لوگ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس جمہوریت نے کبھی ڈلیور نہیں کیا، یہ مخلص لوگ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ یہ جمہوریت ولی عہد شہزادے شہزادیاں پیدا کر رہی ہے اور پروان چڑھا رہی ہے۔
یہ مہان لوگ اس حقیقت سے بھی واقف ہیں کہ اس معزز اشرافیہ کے غیر ملکی بینکوں میں اربوں ڈالر رکھے ہوئے ہیں۔ یہ معزز اور مخلص لوگوں کو اس بات کا بھی علم ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں اس طبقے کی اربوں ڈالر کی جائیدادیں ہیں۔ یہ محترم لوگ اس حقیقت سے بھی واقف ہیں کہ یہ جمہوریت کے علمبردار آنے والی اپنی کئی نسلوں تک جمہوریت کو اپنے لیے محفوظ بنانے کے جتن کر رہے ہیں۔
یہ قابل احترام لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ اس جمہوریت کے ہوتے ہوئے مڈل اور لوئر مڈل کلاس کا کوئی فرد خواہ وہ کتنا ایماندار مخلص اور باصلاحیت ہو قانون ساز اداروں میں نہیں پہنچ سکتا۔ پھر اس فراڈ جمہوریت کی حمایت اور جمہوریت بچاؤ کا مطلب کیا ہے؟ جمہوریت کو بے شک بچانا چاہیے لیکن جمہوریت بچانے کا نعرہ لگانے سے پہلے ''جمہوریت لاؤ'' کا نعرہ لگانا چاہیے پھر ''جمہوریت بچاؤ'' کا نعرہ درست بھی ہو گا اور منطقی بھی۔ اب یہی ایک نعرہ ہونا چاہیے ''پہلے جمہوریت لاؤ، پھر اسے بچاؤ''۔