دہشتگردوں کے ہمدرد اصل مجرم ہیں
دہشت گردی کے خلاف آپریشن پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ ورنہ تو پاکستان دہشت گردوں کی جنت بنا ہوا تھا۔
پاک فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ حملہ کرنے والے انسان کہلانے کے حقدار نہیں، دہشت گردوں نے غیر انسانی کام کیا ہے۔ پشاور سانحہ ہو یا واہگہ بارڈر حملہ یا اس سے پہلے جی ایچ کیو نیول بیس کراچی یا کامرہ حملہ ہو۔ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ دہشت گردوں کے مدد گار سہولت کار پہلے ہی سے ان جگہوں پر موجود تھے۔
اب صورت حال یہ ہے کہ جب لوگ واہگہ بارڈر سانحہ کو مکمل طور پر فراموش کر چکے تو اس سے بڑا پشاور سانحہ پیش آگیا۔ خدا نخواستہ اگر اس سے بھی بڑا سانحہ ہو گیا تو ہم پشاور سانحہ کو بھی فراموش کر بیٹھیں گے۔ جس کے مستقبل میں قوی امکانات ہیں۔ کیونکہ طالبان دہشت گردوں کے ہمدرد' مدد گار اورسہولت کار آرام سے نہیں بیٹھیں گے۔ یقینی رد عمل دیں گے۔
سانحہ واہگہ بارڈر ہو یا سانحہ پشاور دونوں آپریشن ضرب عضب کے بعد ہوئے جس کا مقصد یہ تھا کہ پاکستانی قوم کو دہشت زدہ کر کے اس آپریشن کو رکوایا جائے جس کے بارے میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک یہ آپریشن جاری رہے گا۔ یہ حقیقت ہے کہ اس آپریشن میں دہشت گردوں کا بے پناہ جانی نقصان ہوا۔ ان کی کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم تباہ کر دیا گیا۔ جس کا پوری دنیا میں اعتراف کیا گیا۔
دہشت گردی کے خلاف آپریشن پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ ورنہ تو پاکستان دہشت گردوں کی جنت بنا ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا کے د ہشت گرد منہ اٹھا کر پاکستان پہنچ جاتے تھے۔ کیونکہ انھیں یہاں ہر طرح کا تحفظ میسر تھا۔ ان دہشت گردوں کو اور کیا چاہیے۔ جنگیں بھوکے ننگے وحشیوں کے لیے ایک پیشہ تھیں اور امیر بننے کا نسخہ۔ اپنے جیسے جیتے جاگتے انسانوں کو غلام لونڈی بنانے میں احساس فتح مندی تھی۔ (اب یہ کام کسی اور طریقے سے کیا جا رہا ہے۔ اب سرمایہ دارانہ نظام نے کروڑوں اربوں لوگوں کو غیر محسوس طور پر بالواسطہ غلام بنا لیا ہے کیونکہ انسان کی سرشت تو ویسے کی ویسے ہے) بہر حال شکر ہے کہ آج کے اس جدید دور میں ان وحشیانہ اقدامات پر پابندی ہے۔
اس دور جدید میں آپ کتنے ہی عیب نکالیں لیکن ماضی کے مقابلے میں اسے ''مہذب دور'' کہنا ہی پڑے گا۔اب اس دور میں کوئی قوم مفتوح قوم کے سر کاٹ کر فٹ بال نہیں کھیل سکتی سوائے طالبان کے جن کے اپنے خود ساختہ قوانین ہیں جن کا اسلام سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ تو بات ہو رہی تھی سانحہ واہگہ بارڈر کے حوالے سے کہ ہم اسے بھول گئے تو سانحہ پشاور پیش آ گیا۔ یہ سانحات کا ایک تسلسل ہے کہ پچھلا بھول جاتے ہیں تو اگلا سامنے آ جاتا ہے۔ بحیِثیت قوم کمزوریاں ہم میں ہی ہیں۔ دہشت گردوں کے مدد گار سہولت کار اہم اداروں تک میں سرایت کر گئے تھے۔ بہر حال اب بڑی حد تک ان کا صفایا کر دیا گیا ہے۔
میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ ہمارا بڑا مسئلہ دہشت گرد تو ہیں ہیں لیکن اس سے بھی بڑا مسئلہ ان کے ہمدرد اور سہولت کار ہیں جو ان کے حق میں بیانات دے کر قوم کو کنفیوز اور اس کی قوت عمل کو معطل کرتے ہیں۔ صرف ریٹنگ کے لیے دہشت گردوں کے ہمدردوں کو ٹی وی پر لا کر ان کے حق میں بیانات دلوانا انتہائی شرمناک ہے۔ حکومت اور عوام کو ان کا احتساب کرنا چاہیے۔ سانحہ پشاور اور دیگر سانحات سے متاثرہ لوگوں کے دلوں پر کیا گزرتی ہو گی جب دہشت گردوں کے حق میں بیانات ٹی وی اخبارات کی زینت بنتے ہیں۔
دہشت گردوں کو صرف دہشت گرد کہنے سے بات نہیں بنے گی جب تک ان کی شناخت نہ بیان کی جائے۔ ورنہ یہ پوری قوم کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ پورا پرنٹ و ٹیلی میڈیا دہشت گرد دہشت گرد کا شور مچا رہا ہے لیکن ان کی شناخت نہیں بتا رہا کہ یہ واردات تحریک طالبان نے کی ہے جس کا انھوں نے اعتراف بھی کیا ہے۔
دہشتگردوں کے ہمدرد بھی قوم کی نفرت سے ان دہشت گردوں کو بچانے کے لیے ہمیشہ کی طرح یہ بیان دے رہے ہیں کہ اسکول پر حملہ دہشت گردوں نے کیا ہے۔ دہشت گردوں کے ہمدرد سہولت کار کون ہیں پوری قوم پر واضح ہو چکا ہے۔ اس لیے پورے میڈیا کو چاہیے کہ وہ صرف دہشت گرد نہ کہیں بلکہ ان کی شناخت ظاہر کریں' ورنہ دوسری صورت میں وہ شعوری یا لاشعوری طور پر دہشت گردوں کے مدد گاروں میں شامل ہو جائیں گے اور یہی دہشت گردوں کے ہمدرد چاہتے ہیں۔
اور آخر میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ دہشت گردی کا مقابلہ اکیلے فوج نہیں کر سکتی جب تک پوری قوم ساتھ نہ ہو۔ سانحہ پشاور پر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پوری قوم بے ساختہ دہشت گردوں کے خلاف بطور احتجاج سڑکوں پر آ جاتی لیکن افسوس ایسا نہیں ہوا صرف گنتی کے چند لوگ ہی سڑکوں پر نظر آئے۔ سوائے ایم کیو ایم کے انھوں نے ایک بڑی ریلی نکالی۔
ہماری قوم نے یہ وتیرہ بنالیا ہے کہ وہ اپنے محفوظ آرام دہ گھروں میں ٹی وی دیکھتے ہوئے دہشت گردوں کی مذمت کریں گے... اس سے زیادہ نہیں... اگر ایسی بات ہے تو اللہ ہی ہمارے حال پر رحم کرے یہ تو بے حس بزدل اور مردہ قوم کی نشانیاں ہیں... کیا ہم واقعی ایسے ہیں؟ ہمیں یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ یہ ایک لمبی اور مشکل جنگ ہے جس میں پوری قوم کو پاک فوج کا ہر سطح پر عملی طور پر ساتھ دینا ہو گا تب اس جنگ میں کامیابی ممکن ہے... نہ کہ خاموش تماشائی بن کر۔
جنوری فروری 2015ء سے ڈرون حملے شدت پکڑ جائیں گے۔
سیل فون :۔0346-4527997
اب صورت حال یہ ہے کہ جب لوگ واہگہ بارڈر سانحہ کو مکمل طور پر فراموش کر چکے تو اس سے بڑا پشاور سانحہ پیش آگیا۔ خدا نخواستہ اگر اس سے بھی بڑا سانحہ ہو گیا تو ہم پشاور سانحہ کو بھی فراموش کر بیٹھیں گے۔ جس کے مستقبل میں قوی امکانات ہیں۔ کیونکہ طالبان دہشت گردوں کے ہمدرد' مدد گار اورسہولت کار آرام سے نہیں بیٹھیں گے۔ یقینی رد عمل دیں گے۔
سانحہ واہگہ بارڈر ہو یا سانحہ پشاور دونوں آپریشن ضرب عضب کے بعد ہوئے جس کا مقصد یہ تھا کہ پاکستانی قوم کو دہشت زدہ کر کے اس آپریشن کو رکوایا جائے جس کے بارے میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک یہ آپریشن جاری رہے گا۔ یہ حقیقت ہے کہ اس آپریشن میں دہشت گردوں کا بے پناہ جانی نقصان ہوا۔ ان کی کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم تباہ کر دیا گیا۔ جس کا پوری دنیا میں اعتراف کیا گیا۔
دہشت گردی کے خلاف آپریشن پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ ورنہ تو پاکستان دہشت گردوں کی جنت بنا ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا کے د ہشت گرد منہ اٹھا کر پاکستان پہنچ جاتے تھے۔ کیونکہ انھیں یہاں ہر طرح کا تحفظ میسر تھا۔ ان دہشت گردوں کو اور کیا چاہیے۔ جنگیں بھوکے ننگے وحشیوں کے لیے ایک پیشہ تھیں اور امیر بننے کا نسخہ۔ اپنے جیسے جیتے جاگتے انسانوں کو غلام لونڈی بنانے میں احساس فتح مندی تھی۔ (اب یہ کام کسی اور طریقے سے کیا جا رہا ہے۔ اب سرمایہ دارانہ نظام نے کروڑوں اربوں لوگوں کو غیر محسوس طور پر بالواسطہ غلام بنا لیا ہے کیونکہ انسان کی سرشت تو ویسے کی ویسے ہے) بہر حال شکر ہے کہ آج کے اس جدید دور میں ان وحشیانہ اقدامات پر پابندی ہے۔
اس دور جدید میں آپ کتنے ہی عیب نکالیں لیکن ماضی کے مقابلے میں اسے ''مہذب دور'' کہنا ہی پڑے گا۔اب اس دور میں کوئی قوم مفتوح قوم کے سر کاٹ کر فٹ بال نہیں کھیل سکتی سوائے طالبان کے جن کے اپنے خود ساختہ قوانین ہیں جن کا اسلام سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ تو بات ہو رہی تھی سانحہ واہگہ بارڈر کے حوالے سے کہ ہم اسے بھول گئے تو سانحہ پشاور پیش آ گیا۔ یہ سانحات کا ایک تسلسل ہے کہ پچھلا بھول جاتے ہیں تو اگلا سامنے آ جاتا ہے۔ بحیِثیت قوم کمزوریاں ہم میں ہی ہیں۔ دہشت گردوں کے مدد گار سہولت کار اہم اداروں تک میں سرایت کر گئے تھے۔ بہر حال اب بڑی حد تک ان کا صفایا کر دیا گیا ہے۔
میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ ہمارا بڑا مسئلہ دہشت گرد تو ہیں ہیں لیکن اس سے بھی بڑا مسئلہ ان کے ہمدرد اور سہولت کار ہیں جو ان کے حق میں بیانات دے کر قوم کو کنفیوز اور اس کی قوت عمل کو معطل کرتے ہیں۔ صرف ریٹنگ کے لیے دہشت گردوں کے ہمدردوں کو ٹی وی پر لا کر ان کے حق میں بیانات دلوانا انتہائی شرمناک ہے۔ حکومت اور عوام کو ان کا احتساب کرنا چاہیے۔ سانحہ پشاور اور دیگر سانحات سے متاثرہ لوگوں کے دلوں پر کیا گزرتی ہو گی جب دہشت گردوں کے حق میں بیانات ٹی وی اخبارات کی زینت بنتے ہیں۔
دہشت گردوں کو صرف دہشت گرد کہنے سے بات نہیں بنے گی جب تک ان کی شناخت نہ بیان کی جائے۔ ورنہ یہ پوری قوم کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ پورا پرنٹ و ٹیلی میڈیا دہشت گرد دہشت گرد کا شور مچا رہا ہے لیکن ان کی شناخت نہیں بتا رہا کہ یہ واردات تحریک طالبان نے کی ہے جس کا انھوں نے اعتراف بھی کیا ہے۔
دہشتگردوں کے ہمدرد بھی قوم کی نفرت سے ان دہشت گردوں کو بچانے کے لیے ہمیشہ کی طرح یہ بیان دے رہے ہیں کہ اسکول پر حملہ دہشت گردوں نے کیا ہے۔ دہشت گردوں کے ہمدرد سہولت کار کون ہیں پوری قوم پر واضح ہو چکا ہے۔ اس لیے پورے میڈیا کو چاہیے کہ وہ صرف دہشت گرد نہ کہیں بلکہ ان کی شناخت ظاہر کریں' ورنہ دوسری صورت میں وہ شعوری یا لاشعوری طور پر دہشت گردوں کے مدد گاروں میں شامل ہو جائیں گے اور یہی دہشت گردوں کے ہمدرد چاہتے ہیں۔
اور آخر میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ دہشت گردی کا مقابلہ اکیلے فوج نہیں کر سکتی جب تک پوری قوم ساتھ نہ ہو۔ سانحہ پشاور پر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پوری قوم بے ساختہ دہشت گردوں کے خلاف بطور احتجاج سڑکوں پر آ جاتی لیکن افسوس ایسا نہیں ہوا صرف گنتی کے چند لوگ ہی سڑکوں پر نظر آئے۔ سوائے ایم کیو ایم کے انھوں نے ایک بڑی ریلی نکالی۔
ہماری قوم نے یہ وتیرہ بنالیا ہے کہ وہ اپنے محفوظ آرام دہ گھروں میں ٹی وی دیکھتے ہوئے دہشت گردوں کی مذمت کریں گے... اس سے زیادہ نہیں... اگر ایسی بات ہے تو اللہ ہی ہمارے حال پر رحم کرے یہ تو بے حس بزدل اور مردہ قوم کی نشانیاں ہیں... کیا ہم واقعی ایسے ہیں؟ ہمیں یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ یہ ایک لمبی اور مشکل جنگ ہے جس میں پوری قوم کو پاک فوج کا ہر سطح پر عملی طور پر ساتھ دینا ہو گا تب اس جنگ میں کامیابی ممکن ہے... نہ کہ خاموش تماشائی بن کر۔
جنوری فروری 2015ء سے ڈرون حملے شدت پکڑ جائیں گے۔
سیل فون :۔0346-4527997