صبح کب ہوگی
تم وہ درندے ہو جنہوں نے پہلے بھی 9 اکتوبر 2012 میں… ملالہ یوسف زئی کی جان لینے کی کوشش کی…
ہم تو وہ حساس لوگ ہیں جو فلموں کے جذباتی مناظر دیکھ کر اپنی آنکھیں نم ہوتی محسوس کرتے ہیں۔ مگر یہ کوئی فلمی منظر نہیں تھا۔ اور اس دن وہ ادکار ی نہیں کر رہا تھا۔ کیوں کہ اداکار تو اسکرپٹ کو پڑھ کر بولتے ہیں۔ اس دن اس نے کچھ پڑھنے کے بجائے کاغذ قلم اٹھایا اور لکھنا شروع کیا۔ کس قدر درد تھا اس اداکار کے الفاظ میں جو ہمیں اکثر ہنساتا ہے۔ مگر اس کے یہ الفاظ ہمیں پھر سے رلانے لگے۔
جی ہاں! میں بھارت کے مشہور اداکار انوپم کھیر کی بات کر رہا ہوں جس نے پشاور سانحہ کے حوالے سے ایسی نظم لکھی جیسی نظم صرف گلزار ہی لکھ سکتا ہے۔ مگر واقعہ اس قدر شدید ہے کہ گلزار شاعر ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں لکھ پایا اور جو ایک اداکار ہے اس کو اس صدمے نے شاعر بنا دیا اور اس نے خط کی صورت جو کچھ بھی لکھا وہ نثر نہیں بلکہ شاعری ہے۔ کیوں کہ اتنا درد نثر میں بیان نہیں ہوسکتا۔ اس لیے انوپم کھیر نے شاعری کو ذریعہ اظہار بنایا اور پشاور کو خون میں ڈبونے والے دہشتگردوں سے مخاطب ہوتے ہوئے اس نے لکھا کہ:
''ہر مرتبہ جب تم دہشتگردی کرتے ہو... میں تھوڑا مر جاتا ہوں... سچی بات تو یہ ہے کہ میں بہت عرصے سے... تھوڑا تھوڑا مرتا آرہا ہوں... میں اس وقت بھی مرا... جب شہری علاقوں میں بم دھماکے ہوئے... جب عام لوگوں کو یرغمال بنایا گیا... جب ہوائی جہاز ہائی جیک ہوئے... جب اپنا دفاع نہ کرپانے والے کمزور ہلاک ہوئے... اور جب نہتے غلاموں کی طرح بیچ دیے گئے... لیکن آج جب تم نے ایک سو تیس سے زائد بچوں کو... پشاور کے ایک اسکول میں سنگ دلانہ قتل کیا... تو مجھے ڈر ہے کہ میرے اندر کچھ مرنے کے لیے نہیں رہا... میں نہیں جانتا کہ اس بربریت کے پیچھے تمہارے کیا مقاصد تھے؟... لیکن تم نے مجھے چلتی پھرتی لاش میں بدل دیا ہے... تم بچوں کو ذبح کرنے کا کیا مذہبی جواز پیش کرسکتے ہو؟...
کیا معصوم چہروں پر گولیاں برسانے کے لیے بہادری چاہیے؟... تم نے ان معصوموں پر گولیاں برسائیں جو شیطانی دہشتگردی تو کیا... وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ تنازعات کیا ہوتے ہیں؟... کوئی بھی مذہب بچوں کو قتل کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا... تم وہ درندے ہو جنہوں نے پہلے بھی 9 اکتوبر 2012 میں... ملالہ یوسف زئی کی جان لینے کی کوشش کی... تم اسے مار نہیں سکے اور وہ بہادر بچی نوبل انعام لینے میں کامیاب رہی... تم نے آج جس بربریت کا مظاہرہ کیا ہے اس کی لفظوں میں مذمت ممکن نہیں... یہ سچ ہے کہ تاریخ بڑے قتل عام کے واقعات سے بھری پڑی ہے... لیکن ان میں سے زیادہ تر سیاسی تحریکوں یا ایسے ہی تنازعات کا شاخسانہ تھے... لیکن تم نے آج معصوموں کا جس طرح قتل عام کیا... اس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی... مجھے نہیں پتہ کہ تم کس طبقہ یا سوچ سے تعلق رکھتے ہو؟...
کیوں کہ جانوروں کو بھی بھوک مٹانے یا خوف کی وجہ سے مارا جاتا ہے... در حقیقت تم شیطان سے بدتر ہو... جنگوں کی تصویریں دیکھ کر میں جذباتی ہوجاتا ہوں... مگر آج ایسا نہیں ہوا... آج میں نے اس والد کی تصویر دیکھی ... جس نے بیٹے کو اسکول بھیجنے سے پہلے... خود اپنے ہاتھوں سے اس کے جوتے کے تسمے باندھے... غمزدہ باپ کہہ رہا تھا ''میرے پاس جوتے تو ہیں مگر بیٹا نہیں رہا''... میں اس پر جذباتی نہیں ہوا بلکہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا... آج تمہارے پاگل پن نے ہر جگہ والدین کو ایک کردیا... جو سب مل کر تمہیں کوس رہے ہیں... اور وقت ثابت کرے گا... ان کا یہ کوسنا ضایع نہیں گیا''
کیا یہ کسی فلمی اسکرپٹ کے الفاظ ہوسکتے ہیں؟ کیا کوئی اداکاری کرتے ہوئے ایسے بول سکتا ہے؟ الفاظ تو خود ہی گواہی دیتے ہیں کہ وہ دل سے نکلے ہوئے ہیں یا دماغ سے؟
یہ دل کی باتیں ہیں۔ یہ دل کے درد ہیں۔ جو ہم سے شیئر کیے ہیں اس اداکار نے جو اکثر ہمیں ہنساتا ہے۔ مگر آج اس نے ہمیں رلادیا۔ آج اس نے ہمیں بتا دیا کہ درد کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ اور احساس سرحدوں میں قید نہیں ہوسکتا۔ وہ ہمارے پڑوسی ملک کا باشندہ ہے۔ جو ایک دوست بن کر ہمارے درد پر آنسو بہا رہا ہے۔ یہ درد اور یہ آنسو ہمیں ایک دوسرے کے کس قدر قریب لے آئے ہیں؟
جب برصغیر کے حوالے سے امن کی بات ہوا کرتی تھی تب بہت سے لوگ بہت سی باتیں کرتے تھے۔ مگر سندھ کے عظیم شاعر شیخ ایاز نے لکھا تھا کہ:
''بارشیں ہوں گی... رہ ہستی پہ تھم جائے گی دھول... اور دونوں طرف گہرے سرخ پھول... جب کھلیں گے... تب ملیں گے... تیرے میرے آنسوؤں سے... ایک طوفاں آئے گا... بعد سب مٹ جائے گا... کب ملیں گے؟... کب ملیں گے؟''
اس بار تو بارود کے بادل گرجے اور خون کی بارش ہوئی۔ مگر دونوں طرف نہیں بلکہ ہمارے ملک میں بچے مقتول گلاب بن گئے۔ لیکن آنسوؤں کا طوفان دونوں طرف امڈا اور ہمیں مل کر معصوم بچوں کے لاشوں پر ماتم کرنے کے لیے مجبور کرگیا۔
آج ہم الفاظ نہیں لکھ رہے۔ آج ہم دانشوری نہیں کر رہے۔ آج درد نے ہمیں اس قدر زور سے دبوچا ہے کہ ہم رونے لگے ہیں۔ ہم سب رو رہے ہیں۔آج رونے نے ہمارے اندر سارا رومانس ختم کر دیا ہے۔ آج ہم خوابوں کی باتیں نہیں کرپاتے۔ کیوں کہ خواب تو برے بھی ہوتے ہیں۔ خواب تو خطرناک بھی ہوا کرتے ہیں۔اتنے خطرناک کہ وہ ہماری نیند کو بھی قتل کردیتے ہیں اور پھر ہم خواب آور گولیوں کے بغیر نہیں سوسکتے۔ مگر یہ کوئی خواب نہیں تھا۔
یہ حقیقت تھی۔ مگر کیا کوئی حقیقت اتنی تلخ بھی ہوسکتی ہے؟ وہ حقیقت جس کو کور کرنے والے میڈیا کے لوگ بھی رو رہے تھے۔ وہ ٹی وی اینکر جنھیں سنتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ وہ بولنے کی مشینیں ہیں۔ اس دن ان کے پاس الفاظ نہیں تھے۔ وہ اپنی خاموشی سے اس بات کا احساس دلانے کی کوشش کرتے رہے کہ پشاور واقعے کے صدمے نے ان سے بولنے کی قوت چھین لی۔اب ہم بول نہیں سکتے۔ ہم صرف ایک دوسرے کو دکھ بھری آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ اور ہماری آنسوؤں سے بھری ہوئی آنکھوں میں وہ مناظر ہیں جو اس سے پہلے کسی نے نہیں دیکھے۔ کیا ہمیں اس اکیسویں صدی سے یہ کچھ حاصل ہونا تھا؟
یہ بدامنی کی انتہا ہے۔ کہتے ہیں کہ جب رات ختم ہونے والی ہوتی ہے ۔ تب تاریکی اور گہری ہوجاتی ہے۔ کیا اس سے زیادہ گہری تاریکی ممکن ہے؟
اگر نہیں تو صرف اس سوال کا جواب دو کہ ''صبح کب ہوگی؟''
وہ صبح جس کے ہاتھوں پر خون کا کوئی داغ نہ ہو
وہ صبح جس کا دامن بچے کی یونیفارم کی طرح اجلا ہو
وہ صبح جو ہم سے رات کے سنگین سپنے بھی بھلا دے
وہ صبح جس کے بارے میں ساحر لدھیانوی نے لکھا تھا کہ
''وہ صبح کبھی تو آئے گی''
آج صرف ایک شہر نہیں، ایک ملک نہیں، پوری دنیا پوچھ رہی ہے کہ
''وہ صبح کب آئے گی؟''
جی ہاں! میں بھارت کے مشہور اداکار انوپم کھیر کی بات کر رہا ہوں جس نے پشاور سانحہ کے حوالے سے ایسی نظم لکھی جیسی نظم صرف گلزار ہی لکھ سکتا ہے۔ مگر واقعہ اس قدر شدید ہے کہ گلزار شاعر ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں لکھ پایا اور جو ایک اداکار ہے اس کو اس صدمے نے شاعر بنا دیا اور اس نے خط کی صورت جو کچھ بھی لکھا وہ نثر نہیں بلکہ شاعری ہے۔ کیوں کہ اتنا درد نثر میں بیان نہیں ہوسکتا۔ اس لیے انوپم کھیر نے شاعری کو ذریعہ اظہار بنایا اور پشاور کو خون میں ڈبونے والے دہشتگردوں سے مخاطب ہوتے ہوئے اس نے لکھا کہ:
''ہر مرتبہ جب تم دہشتگردی کرتے ہو... میں تھوڑا مر جاتا ہوں... سچی بات تو یہ ہے کہ میں بہت عرصے سے... تھوڑا تھوڑا مرتا آرہا ہوں... میں اس وقت بھی مرا... جب شہری علاقوں میں بم دھماکے ہوئے... جب عام لوگوں کو یرغمال بنایا گیا... جب ہوائی جہاز ہائی جیک ہوئے... جب اپنا دفاع نہ کرپانے والے کمزور ہلاک ہوئے... اور جب نہتے غلاموں کی طرح بیچ دیے گئے... لیکن آج جب تم نے ایک سو تیس سے زائد بچوں کو... پشاور کے ایک اسکول میں سنگ دلانہ قتل کیا... تو مجھے ڈر ہے کہ میرے اندر کچھ مرنے کے لیے نہیں رہا... میں نہیں جانتا کہ اس بربریت کے پیچھے تمہارے کیا مقاصد تھے؟... لیکن تم نے مجھے چلتی پھرتی لاش میں بدل دیا ہے... تم بچوں کو ذبح کرنے کا کیا مذہبی جواز پیش کرسکتے ہو؟...
کیا معصوم چہروں پر گولیاں برسانے کے لیے بہادری چاہیے؟... تم نے ان معصوموں پر گولیاں برسائیں جو شیطانی دہشتگردی تو کیا... وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ تنازعات کیا ہوتے ہیں؟... کوئی بھی مذہب بچوں کو قتل کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا... تم وہ درندے ہو جنہوں نے پہلے بھی 9 اکتوبر 2012 میں... ملالہ یوسف زئی کی جان لینے کی کوشش کی... تم اسے مار نہیں سکے اور وہ بہادر بچی نوبل انعام لینے میں کامیاب رہی... تم نے آج جس بربریت کا مظاہرہ کیا ہے اس کی لفظوں میں مذمت ممکن نہیں... یہ سچ ہے کہ تاریخ بڑے قتل عام کے واقعات سے بھری پڑی ہے... لیکن ان میں سے زیادہ تر سیاسی تحریکوں یا ایسے ہی تنازعات کا شاخسانہ تھے... لیکن تم نے آج معصوموں کا جس طرح قتل عام کیا... اس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی... مجھے نہیں پتہ کہ تم کس طبقہ یا سوچ سے تعلق رکھتے ہو؟...
کیوں کہ جانوروں کو بھی بھوک مٹانے یا خوف کی وجہ سے مارا جاتا ہے... در حقیقت تم شیطان سے بدتر ہو... جنگوں کی تصویریں دیکھ کر میں جذباتی ہوجاتا ہوں... مگر آج ایسا نہیں ہوا... آج میں نے اس والد کی تصویر دیکھی ... جس نے بیٹے کو اسکول بھیجنے سے پہلے... خود اپنے ہاتھوں سے اس کے جوتے کے تسمے باندھے... غمزدہ باپ کہہ رہا تھا ''میرے پاس جوتے تو ہیں مگر بیٹا نہیں رہا''... میں اس پر جذباتی نہیں ہوا بلکہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا... آج تمہارے پاگل پن نے ہر جگہ والدین کو ایک کردیا... جو سب مل کر تمہیں کوس رہے ہیں... اور وقت ثابت کرے گا... ان کا یہ کوسنا ضایع نہیں گیا''
کیا یہ کسی فلمی اسکرپٹ کے الفاظ ہوسکتے ہیں؟ کیا کوئی اداکاری کرتے ہوئے ایسے بول سکتا ہے؟ الفاظ تو خود ہی گواہی دیتے ہیں کہ وہ دل سے نکلے ہوئے ہیں یا دماغ سے؟
یہ دل کی باتیں ہیں۔ یہ دل کے درد ہیں۔ جو ہم سے شیئر کیے ہیں اس اداکار نے جو اکثر ہمیں ہنساتا ہے۔ مگر آج اس نے ہمیں رلادیا۔ آج اس نے ہمیں بتا دیا کہ درد کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ اور احساس سرحدوں میں قید نہیں ہوسکتا۔ وہ ہمارے پڑوسی ملک کا باشندہ ہے۔ جو ایک دوست بن کر ہمارے درد پر آنسو بہا رہا ہے۔ یہ درد اور یہ آنسو ہمیں ایک دوسرے کے کس قدر قریب لے آئے ہیں؟
جب برصغیر کے حوالے سے امن کی بات ہوا کرتی تھی تب بہت سے لوگ بہت سی باتیں کرتے تھے۔ مگر سندھ کے عظیم شاعر شیخ ایاز نے لکھا تھا کہ:
''بارشیں ہوں گی... رہ ہستی پہ تھم جائے گی دھول... اور دونوں طرف گہرے سرخ پھول... جب کھلیں گے... تب ملیں گے... تیرے میرے آنسوؤں سے... ایک طوفاں آئے گا... بعد سب مٹ جائے گا... کب ملیں گے؟... کب ملیں گے؟''
اس بار تو بارود کے بادل گرجے اور خون کی بارش ہوئی۔ مگر دونوں طرف نہیں بلکہ ہمارے ملک میں بچے مقتول گلاب بن گئے۔ لیکن آنسوؤں کا طوفان دونوں طرف امڈا اور ہمیں مل کر معصوم بچوں کے لاشوں پر ماتم کرنے کے لیے مجبور کرگیا۔
آج ہم الفاظ نہیں لکھ رہے۔ آج ہم دانشوری نہیں کر رہے۔ آج درد نے ہمیں اس قدر زور سے دبوچا ہے کہ ہم رونے لگے ہیں۔ ہم سب رو رہے ہیں۔آج رونے نے ہمارے اندر سارا رومانس ختم کر دیا ہے۔ آج ہم خوابوں کی باتیں نہیں کرپاتے۔ کیوں کہ خواب تو برے بھی ہوتے ہیں۔ خواب تو خطرناک بھی ہوا کرتے ہیں۔اتنے خطرناک کہ وہ ہماری نیند کو بھی قتل کردیتے ہیں اور پھر ہم خواب آور گولیوں کے بغیر نہیں سوسکتے۔ مگر یہ کوئی خواب نہیں تھا۔
یہ حقیقت تھی۔ مگر کیا کوئی حقیقت اتنی تلخ بھی ہوسکتی ہے؟ وہ حقیقت جس کو کور کرنے والے میڈیا کے لوگ بھی رو رہے تھے۔ وہ ٹی وی اینکر جنھیں سنتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ وہ بولنے کی مشینیں ہیں۔ اس دن ان کے پاس الفاظ نہیں تھے۔ وہ اپنی خاموشی سے اس بات کا احساس دلانے کی کوشش کرتے رہے کہ پشاور واقعے کے صدمے نے ان سے بولنے کی قوت چھین لی۔اب ہم بول نہیں سکتے۔ ہم صرف ایک دوسرے کو دکھ بھری آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ اور ہماری آنسوؤں سے بھری ہوئی آنکھوں میں وہ مناظر ہیں جو اس سے پہلے کسی نے نہیں دیکھے۔ کیا ہمیں اس اکیسویں صدی سے یہ کچھ حاصل ہونا تھا؟
یہ بدامنی کی انتہا ہے۔ کہتے ہیں کہ جب رات ختم ہونے والی ہوتی ہے ۔ تب تاریکی اور گہری ہوجاتی ہے۔ کیا اس سے زیادہ گہری تاریکی ممکن ہے؟
اگر نہیں تو صرف اس سوال کا جواب دو کہ ''صبح کب ہوگی؟''
وہ صبح جس کے ہاتھوں پر خون کا کوئی داغ نہ ہو
وہ صبح جس کا دامن بچے کی یونیفارم کی طرح اجلا ہو
وہ صبح جو ہم سے رات کے سنگین سپنے بھی بھلا دے
وہ صبح جس کے بارے میں ساحر لدھیانوی نے لکھا تھا کہ
''وہ صبح کبھی تو آئے گی''
آج صرف ایک شہر نہیں، ایک ملک نہیں، پوری دنیا پوچھ رہی ہے کہ
''وہ صبح کب آئے گی؟''