اس رات کی صبح نہیں

یہ غلط ہے کہ مسلمان نے مسلمان کو مارا، وہ انسان جو جان کر معصوم بچوں کو نشانہ بناتا ہے وہ مسلمان نہیں۔


Wajahat Ali Abbasi December 21, 2014
[email protected]

دسمبر 16 کو پاکستان کی تاریخ میں وہ رات آئی جس کی کبھی بھی صبح ہونا مشکل ہے، ہاں سورج نکلتا اور غروب ضرور ہوتا ہے لیکن وہ تاریکی جو اس دن ہمارے ملک میں چھائی تھی کبھی نہیں چھٹے گی۔

پاکستان کے شہر پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں 144 انسان ہلاک ہوگئے جن میں سے بیشتر بچے ہیں اور سیکڑوں زخمی۔ یہ خبر دنیا بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ یہ وہ لوگ تھے جو صبح گھر سے کوئی جنگ لڑنے نہیں نکلے تھے بلکہ یہ وہ کام کرنے گئے تھے جس کا حکم ہمارے مذہب نے دیا یعنی علم حاصل کرنے کا، لیکن کچھ اسلام کے دشمن اسکول میں گھس گئے اور ان بچوں کی نہ صرف تعلیم بلکہ زندگی کا رابطہ ہی ہمیشہ کے لیے ختم کردیا۔

انڈیا کے پرائم منسٹر سے لے کر صدر اوباما تک سب ہی نے افسوس کا اظہار کیا، دنیا بھر کے میڈیا کی نظر ایک بار پھر پاکستان پر گھوم گئی، آفیشلی دنیا بھر کا سب سے تاریک دن ایک نہیں درجنوں آرگنائزیشنز نے سولہ دسمبر کو قرار دیا۔

یہ غلط ہے کہ مسلمان نے مسلمان کو مارا، وہ انسان جو جان کر معصوم بچوں کو نشانہ بناتا ہے وہ مسلمان نہیں بلکہ انسان ہی نہیں ہوسکتا، یہ اتنا ظالمانہ حملہ تھا کہ افغانستان کے طالبان تک نے اس کی مذمت کی، ذبیح اﷲ مجاہد نے بیان میں کہا ہے کہ عورتوں اور بچوں کو مارنا تو اسلام کے خلاف ہے اور ہر اسلامی پارٹی کو یہ سمجھنا چاہیے۔

پچھلے کچھ دنوں میں سیکڑوں کالموں، خبروں، ریڈیو، ٹی وی چینلز کے ذریعے آپ لوگوں نے اس حادثے کے متعلق ہر تفصیل جان لی ہوگی لیکن آج ہم آپ کو یہ بتائیں گے کہ ان 144 لوگوں کی شہادت کے نمبر کے علاوہ وہ کون سے اعداد و شمار ہیں جن کی وجہ سے پاکستان خصوصاً شمالی علاقہ جات سب سے خطرناک علاقے ہیں دنیا میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے۔

پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملہ طالبان کا جواب بتایا جارہا ہے ۔ 2009 سے آج تک چھوٹے بڑے 1019 حملے طالبان کے پی کے اور ٹرائبل علاقوں کے اسکولوں پر کرچکے ہیں، اس طرح سوات کی وادی میں 407 ایسے اسکول ہیں جو ان لوگوں نے تباہ کیے جن میں سے 70% اسکول لڑکیوں کے تھے۔ 1019 اسکولوں میں سے صرف پچاس فی صد ایسے ہیں جن کی تعمیر نو پر کوئی کام ہوا ہے ورنہ باقی اسکول آج بھی ویسے ہی پڑے ہیں جیسے حملے کے بعد تھے جس کی وجہ سے سیکڑوں بچے تعلیم سے محروم رہ گئے ہیں۔

2009 سے 2014 تک چوالیس بچے اسکول جاتے آتے ہوئے یا پھر اسکول کے اندر ان ظالموں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے ہیں۔ 107 بچے زخمی ہوئے اور 138 بچے اور ٹیچرز ایسے تھے جنھیں اسکول کے راستے سے اغوا کیا گیا۔

پاکستان میں اسکول جانے والی عمر کی لڑکیوں میں صرف 29% لڑکیاں ایسی ہیں جو اسکولوں میں نام انرول کرواتی ہیں۔ لڑکوں کی تعداد چالیس فی صد ہے، جو انرول کرواتے بھی ہیں۔ وہ چھوٹی کلاسوں میں ہی طالبان کا نشانہ بننے کے خوف سے یا پھر حالات کے ہاتھوں مجبور ہوکر اسکول جانا چھوڑ دیتے ہیں۔ 53% بچیاں اور لڑکیاں جو چھ سے سولہ سال کی عمر کے بیچ ہیں پاکستان میں کبھی اسکول گئی ہی نہیں ہیں۔ اسی طرح لڑکوں میں یہ تناسب 36% ہے۔

پندرہ سے پچیس سال کی عمر کے بیچ پاکستان میں 79% ایسے لڑکے ہیں جو اپنا نام لکھ سکتے ہیں لیکن لڑکیوں میں یہ تناسب صرف 61% ہے یعنی تقریباً چالیس فی صد تو اپنا نام بھی نہیں لکھ سکتی ہیں۔

2% وہ تناسب ہے جو پاکستان کی جی ڈی پی میں ہم تعلیم پر خرچ کررہے ہیں، دو پرمنٹ وہ نمبر ہے جو بنگلہ دیش، انڈیا اور سری لنکا سب کے مقابلے میں کم ہے۔ 0% (صفر) جی ہاں یہ ہے وہ نمبر جو حکومت خرچ کررہی ہے پاکستان پرائمری اسکولوں میں کمپیوٹرز پر، پاکستان میں ایک بھی ایسا گورنمنٹ پرائمری اسکول نہیں ہے جس کے بچے کمپیوٹر استعمال کرتے ہوں، جہاں امریکا، انگلینڈ میں دو سال کے بچے کے ہاتھ میں آئی پیڈ تھمادیا جاتا ہے وہیں ہمارے یہاں کئی طالب علم اپنی پرائمری تعلیم کے دوران کمپیوٹر دیکھ بھی نہیں پاتے۔

پاکستان میں تعلیم کا حال ویسے ہی برا ہے، درجنوں بین الاقوامی ادارے جنھوں نے تعلیم کے حوالے سے پاکستان میں کوئی بھی پروگرام شروع کیا وہ بیشتر اوقات فیل ہوا ہے۔

یوٹیوب پر ''ایجوکیشن ان پاکستان'' سرچ کریں تو وہ ڈاکومنٹری ملتی ہے جس میں ہمارا ساتویں جماعت کا بچہ CAT نہیں Spell کرپا رہا۔

اگر یہ طالبان انگریزی پڑھنے کو منع کریں یا پھر اپنی خود کی کتابیں اسکولوں میں رائج کرنے کی کوشش کریں تو بات سمجھ میں بھی آتی ہے لیکن اس ظلم کو کوئی زبان، کوئی ایمان بیان نہیں کرسکتا۔

طالبان جو معصوم بچوں کو مار رہے ہیں، سمجھتے کہ اسلام کی خدمت کررہے ہیں کیوں کہ وہ ان لوگوں کو مار رہے ہیں جو مغرب کا ساتھ دیتے ہیں لیکن وہ یہاں بھی غلط ہیں، چالیس ہزار سے زیادہ اسکول پاکستان میں ایسے ہیں جنھوں نے ملالہ کی کتاب ''آئی ایم ملالہ'' کو صرف اس لیے اپنے اسکولوں سے بین کردیا کیوں کہ انھیں لگا کہ ملالہ مغرب کا ساتھ دے رہی ہیں، اگر یہ اسکول مغرب کی تقلید کرتے تو کیوں کتاب کو BAN کرتے۔

ملالہ کی عمر چودہ سال تھی جب ان پر حملہ ہوا، کچھ دن پہلے ہی انھیں دنیا کا سب سے بڑا مقام یعنی نوبل پیس ایوارڈ ملا۔ اب دیکھتے ہیں ہمارے سو سے زائد ان بچوں کو دنیا کیا ایوارڈ دیتی ہے جو ملالہ کی طرح بچ تو نہیں پائے لیکن دنیا بھر میں یہ پیغام ضرور دے گئے کہ ایک دوسرے کو مارنے سے صرف نفرتیں بڑھتی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں