سونار بنگلہ غلام گردش میں
محبان وطن نے مشرقی پاکستان کی سرزمین پر وفائے عہد کی راہ میں بہنے والے لہو کو فراموش کردیا ۔
بھارت کے محاصرے میں جکڑے بنگلہ دیش کی مثال بتیسی میں گھری زبان کی مانند ہے۔ یہ تین اطراف سے خشکی کے ذریعے اورایک طرف سے خلیج بنگال کے راستے وسائل اور خاص قسم کا اعتماد و حوصلہ بھارتی ریاستی اداروں کو بخشتا ہے اور علاقے میں عالمی کھلاڑیوں بلکہ یوں کہا جائے کہ غاصبوں کے گٹھ جوڑ کے بعد ابھرتے ہوئے بھارتی سامراج کو شہ بھی ملی ہے تو غلط نہ ہوگا، جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش و پاکستان سمیت تمام ہمسایہ ممالک میں بھارتی لابیز اور اثرات میں تیز رفتار اضافہ ہوا۔ بنگلہ دیش اس بھارتی سرمایہ کاری کے نتیجے میں کم از کم فی الحال پوری طرح سے بھارتی اثرورسوخ و ترجیحات کے تابع ہوچکا ہے اور معلوم نہیں کہ اس طرح کی تابعداری کتنے برسوں پر محیط ہے۔
مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش کے مقام تک پہنچانے میں مغربی پاکستان کے بعض وہ عناصر ہیں جنھیں اسلامی پاکستان سے کل بھی بغض تھا اور آج بھی ہے اور وہ اس خیال سے چڑتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ قلم و زبان سے زہر بھی اگلتے ہیں ۔ بنیادی طور پر یہ اسی نقطہ نظر سے تعلق رکھتے ہیں جو بھارتی سامراج کا موقف رہا ہے یعنی جو عوامی لیگ کے باغیوں کو مطلوب اور ان کے لیے مفید مطلب ہیں۔ محبان وطن نے مشرقی پاکستان کی سرزمین پر وفائے عہد کی راہ میں بہنے والے لہو کو فراموش کردیا اور جو لوگ زندہ بچ گئے ان سے قطع تعلق کرلیا۔
16 دسمبر 1971 کو جو ہوا اس کے بارے میں اس وقت کے تمام نوجوانوں کے خیالات یکساں نہیں تھے۔ اکثریت کا خیال تھاکہ ہم اس جنگ میں اپنی اصل آزادی سے محروم ہوگئے ہیں کیونکہ چاروں طرف بھارتی فوجیوں کی موجودگی میں ہتھیار ڈالنے سے بھی بنگلہ دیش کو آزادی نہیں ملی جب کہ ہم نے اپنے قومی وجود کو غلامی کے گھڑے میں دھکیل دیا ہے۔ نئے جنم لینے والے بنگلہ دیش کے لیے شیخ مجیب الرحمان بابائے قوم بن گئے، جب انھیں راولپنڈی جیل سے 9 جنوری 1972 کو رہا کیا گیا تو وہ اگلے ہی دن لندن سے ہوتے ہوئے ڈھاکا پہنچے۔
رائل فورس کا طیارہ جب انھیں ڈھاکا کے تیج گائوں میں ائر پورٹ پر اترا تو ان کا فقید المثال استقبال کیا گیا۔ مجیب الرحمان کی تقریر سے اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ وہ مخالفین کو سبق سکھانے کے لیے کس قدر بے تاب تھے۔ انھوں نے مکتی باہنی کے چھاپہ ماروں سے ہتھیار پھینکنے کی اپیل تو کی لیکن اس یقین دہانی کے ساتھ کہ دشمنوں کا صفایا کرنے کی ذمے داری اب باضابطہ طورپر فورسز کے حوالے کردی جائے گی، جس سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ وہ جنھیں ملک و قوم کا دشمن سمجھتے ہیں انھیں کسی بھی صورت معافی نہیں دی جائے گی اور نہ ہی قومی سطح پر مصالحت اور مفاہمت کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا جائے گا۔
تقریر میں شیخ مجیب نے پاکستان میں اپنے خلاف مقدمے کے حوالے دے کر یہ اشارہ بھی دے دیا تھا کہ عوامی لیگ اور خود ان کے خلاف جانے والوں کو معاف نہیں کیا جائے گا، کم ہی لوگ بچ پائیں گے اور بعد کے حالات نے ثابت کردیا کہ واقعی کم لوگ ہی بچ پائے۔ ہزاروں افراد کو گرفتار کرکے ان پر جنگ آزادی کی راہ میں روڑے اٹکانے کے بے بنیاد الزامات عائد کیے گئے اور جنوری 1972 میں نافذ کیے جانے والے لیبوریٹر آرڈر کے تحت پولیس کو بغیر کسی الزام کے گرفتار کرنے کا اختیار مل گیا۔ ان دنوں کسی بھی شخص کو گرفتار کرنے کے لیے بس اتنا ہی کافی تھا کہ اس کے بارے میں پروپیگنڈہ کردیا جائے کہ وہ آزادی کا مخالف اور پاک فوج کا حامی ہے۔
شیخ مجیب الرحمان نے عوام کو ''سونار بنگلہ'' کی تعمیر و ترقی کے کاموں میں مصروف ہوجانے کی ہدایت کی۔ یہ بظاہر انتباہ تھا کہ مزید خون خرابہ ملک کے مفاد میں نہیں لیکن جب بھی انھوں نے اپنے مقدمے کا ذکر کیا تو واضح اور دو ٹوک الفاظ میں جتلا دیا گیا کہ جن لوگوں نے عوامی لیگ کی مخالفت کی وہ الگ طبقہ تصور کیے جائیں گے جب کہ بعد کی قانون سازی، گرفتاریوں اور مخالفین کے قتل عام نے یہ ثابت کردیاکہ وہ کیا چاہتے تھے۔
1965 کی پاک بھارت جنگ کے دوران مشرقی پاکستان میں یہ منفی تاثر قائم کیا گیا تھاکہ پاکستان جن مقاصد کے لیے وجود میں آیا تھا وہ حاصل نہیں ہوسکے، جب کہ استدلال یہ تھا کہ بنگالیوں کو قوم پرستی اور علیحدگی کی جانب مائل کیا جارہا ہے۔ مغربی پاکستان کے قائدین نے بنگالیوں کا پاکستانیوں کے ساتھ مل کر رہنا ناممکن بنا دیا ہے، لہٰذا ان کے پاس واحد راستہ یہ بچا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان سے علیحدگی کے لیے کام کریں اور ایک الگ ریاست تشکیل دیں۔ حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ برطانوی راج کے دوران 200 برسوں میں متحدہ ہندوستان کے ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات اور تلخی کے علاج کے لیے پاکستان بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
بنگلہ دیش کو بنے 43 برس گزر گئے ہیں، اس نے کسی حد تک معاشی ترقی بھی کی ہے لیکن وہ بھارت کی مرہون منت ہے، اس میں بنگلہ حکومت یا وہاں کی سیاسی جماعتوں کا کوئی کردار نہیں ہے، بلکہ اس ترقی کے پیچھے درحقیقت وہ عوامل ہیں جو بھارتی اجارہ داری کے ساتھ ساتھ پاکستان کو خطے میں کمزور کرنا چاہتے ہیں۔
سقوط ڈھاکا کے بعد سے تاحال کئی بنگالی وطن عزیز میں پاکستان سے محبت اور روزگار کے لیے مقیم ہیں جنھیں بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہر طرح کا تحفظ حاصل ہے، جس سے وہ مطمئن ہیں، اس کے برعکس بھارت میں مقیم بنگالی وہاں موجود دیگر مسلمانوں کی طرح پرتشدد حالات سے نبرد آزما ہیں اور اپنی جان و مال سمیت مذہبی آزادی سے محروم ہیں، جب کہ بنگلہ دیش میں پاکستان سے اظہار محبت کے نتیجے میں کئی لوگ اب بھی موت کی گھاٹ اتارے جارہے ہیں۔ بھارت میں مجموعی طور پر مسلمانوں کو عدم تحفظ کا خدشہ ہے۔ قیام پاکستان سے اب تک مسلمان کسی نہ کسی طرح مشکلات سے دوچار ہیں۔
بابری مسجد کا سانحہ ہو یا گجرات سمیت مختلف مسلم علاقوں میں ہندوئوں کی انتہا پسندی عروج پر ہے، یعنی بھارت میں کوئی بھی مسلمان اپنے عقیدے سمیت ہر معاملے میں مسائل کا شکار ہیں۔ حال ہی میں بھارت کے شہر آگرہ میں کئی بنگالیوں کو بزور طاقت مذہب بدلنے کا واقعہ پیش آیا ہے جس میں انھیں راشن کارڈ، بی پی ایل کارڈ و دیگر سہولیات دینے پر کچھ ہندوئوں نے انھیں تقریب میں بلاکر ہندو رسم کے مطابق ان کے ماتھے پر تلک لگائی اور آگ میں گھی ڈلوا کر ہندو قرار دیدیا، گوکہ ان بنگالیوں کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ وہ مسلمان ہی ہیں لیکن ہندو انتہاپسند انھیں ہندو ہی گردانتے ہیں۔
اس تمام تر صورتحال میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ بھارت کو بنگلہ دیش یا اس کے عوام سے کوئی محبت نہیں بلکہ وہ خطے میں اپنی اجارہ داری کے قیام کی راہ ہموار کررہا ہے۔ لہٰذا بنگالیوں کو یہ ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ وہ جس سونار بنگلہ کا خواب دیکھ رہے ہیں وہ خواب سے زیادہ کسی اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ گویا بنگالیوں نے پاکستان سے علیحدگی اختیار کرکے نہ صرف اپنی آزادی کو دائو پر لگادیا بلکہ اپنی آیندہ کی نسلوں کو غلام گرد ش میں مبتلا کردیا ہے۔