بھارت میں جبری ہندو بنانے پر اپوزیشن حکومت پر پھٹ پڑی
گجرات میں 200 افراد کو صلیب اتارکر آگ میں پھینکنے، بھگوان کی تصویر والا نیا نشان گلے میں پہننے کا کہا گیا
بھارت کی ہندو انتہا پسند تنظیمیں بھارتی وزیراعظم مودی کی آبائی ریاست میں تقریباً200 مسیحیوں کو ہندو بنانے کے بعد شدید تنقید کی زد میں ہیں اور بھارتی حکومت کے ہندو نواز اقدام کے حوالے سے تحفظات میں اضافہ ہوا ہے۔
ہندوانتہا پسندتنظیم وشوا ہندو پریشدنے بتایاکہ وزیراعظم نریندرمودی کی آبائی ریاست گجرات میں مسیحی قبائل کو ان کے اصل ہندومذہب کی طرف واپس لایا گیا ہے۔ بڑے پیمانے پرتبدیلی مذہب کے اس واقعے پرنہ صرف مسیحی گروپ بلکہ مودی حکومت کے سیاسی مخالفین بھی شدید تنقید کررہے ہیں۔انھوں نے الزام لگایاکہ بھارت میں دیگر مذاہب کے لوگوں کو زبردستی ہندو بنانیوالی راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ جیسی بنیاد پرست ہندو تنظیموں کا مودی کی حکمراں جماعت کے ساتھ تعلق ہے۔
اپوزیشن جماعت کانگریس پارٹی کے ایک رہنما دگ وجے سنگھ نے اپنے ٹوئیٹر پیغام میں لکھا ہے، ''انتہائی دائیں بازو کے ہندو بنیاد پرست گروپ ہندومذہب کے ذریعے اپنی طاقت دکھارہے ہیں، یہ تاریخ اورمعاشی پالیسیوں کو دوبارہ لکھنے کی کوشش کررہے ہیں''۔ گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک مسیحی مبلغ فادرڈومینک کے مطابق وہ یہ بات تسلیم نہیں کرسکتے کہ کوئی ایساشخص جو مسیحی ہووہ اپنی مرضی سے کوئی دوسرا مذہب اختیارکرلے گا۔
انھوں نے مزید کہاکہ وشوا ہندو پریشد لوگوں کوزبردستی اورلالچ دیکر مذہب تبدیل کرنے پر مجبورکررہی ہے۔ ہفتے کومذہب کی تبدیلی کی تقریب ریاست گجرات کے دارالحکومت احمدآباد سے 350 کلومیٹرجنوب میں واقع ایک قبائلی گاؤں میں ہوئی۔ فرانسیسی خبرایجنسی اے ایف پی کے مطابق یہ تقریب مودی کی ہندوقوم پرست جماعت بی جے پی اورنظریاتی طورپراس کے قریب آرایس ایس کی طرف سے اس مطالبے کے کئی گھنٹے بعدہوئی جس میں زبردستی مذہب کی تبدیلی کیخلاف قانون سازی کی بات کی گئی تھی۔
وشوا ہندو پریشد گجرات کے سیکریٹری اجیت سولنکی نے اے ایف پی کوبتایاکہ 200 سے زیادہ افرادکوگلے میں پہنے جانیوالے اپنے مذہبی نشانات مقدس آگ میں پھینکنے کیلیے کہا گیا اور انھیں نئے نشانات دیے گئے جن پرہندو بھگوان رام کی تصویر موجود تھی تاہم سولنکی نے مذہب کی اس تبدیلی کیلیے کسی قسم کی زبردستی یا فائدہ پہنچانے کے وعدے استعمال کرنے کی تردیدکرتے ہوئے کہا کہ یہ تبدیلی لوگوں کی اپنی مرضی کے مطابق تھی۔
مذہب کی تبدیلی کایہ معاملہ بھارتی پارلیمان میں بھی ایک بڑا مسئلہ بناہواہے جہاں اپوزیشن ارکان نے وزیراعظم مودی سے مطالبہ کیاکہ وہ قبل ازیں معاشی طور پر بدحال مسلمانوں کو زبردستی ہندوبنانے کے ایک ایسے ہی واقعہ پراپنابیان جاری کریں۔ بی جے پی سے منسلک ایک بنیاد پرست ہندوگروپ کی جانب سے گزشتہ ہفتے آگرہ میں انتہائی غریب علاقے میں رہنے والے50 مسلمانوں کو ہندوبنانے کی خبروں پرملک بھرمیں تنقید کی گئی تھی۔
ہندوانتہا پسندتنظیم وشوا ہندو پریشدنے بتایاکہ وزیراعظم نریندرمودی کی آبائی ریاست گجرات میں مسیحی قبائل کو ان کے اصل ہندومذہب کی طرف واپس لایا گیا ہے۔ بڑے پیمانے پرتبدیلی مذہب کے اس واقعے پرنہ صرف مسیحی گروپ بلکہ مودی حکومت کے سیاسی مخالفین بھی شدید تنقید کررہے ہیں۔انھوں نے الزام لگایاکہ بھارت میں دیگر مذاہب کے لوگوں کو زبردستی ہندو بنانیوالی راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ جیسی بنیاد پرست ہندو تنظیموں کا مودی کی حکمراں جماعت کے ساتھ تعلق ہے۔
اپوزیشن جماعت کانگریس پارٹی کے ایک رہنما دگ وجے سنگھ نے اپنے ٹوئیٹر پیغام میں لکھا ہے، ''انتہائی دائیں بازو کے ہندو بنیاد پرست گروپ ہندومذہب کے ذریعے اپنی طاقت دکھارہے ہیں، یہ تاریخ اورمعاشی پالیسیوں کو دوبارہ لکھنے کی کوشش کررہے ہیں''۔ گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک مسیحی مبلغ فادرڈومینک کے مطابق وہ یہ بات تسلیم نہیں کرسکتے کہ کوئی ایساشخص جو مسیحی ہووہ اپنی مرضی سے کوئی دوسرا مذہب اختیارکرلے گا۔
انھوں نے مزید کہاکہ وشوا ہندو پریشد لوگوں کوزبردستی اورلالچ دیکر مذہب تبدیل کرنے پر مجبورکررہی ہے۔ ہفتے کومذہب کی تبدیلی کی تقریب ریاست گجرات کے دارالحکومت احمدآباد سے 350 کلومیٹرجنوب میں واقع ایک قبائلی گاؤں میں ہوئی۔ فرانسیسی خبرایجنسی اے ایف پی کے مطابق یہ تقریب مودی کی ہندوقوم پرست جماعت بی جے پی اورنظریاتی طورپراس کے قریب آرایس ایس کی طرف سے اس مطالبے کے کئی گھنٹے بعدہوئی جس میں زبردستی مذہب کی تبدیلی کیخلاف قانون سازی کی بات کی گئی تھی۔
وشوا ہندو پریشد گجرات کے سیکریٹری اجیت سولنکی نے اے ایف پی کوبتایاکہ 200 سے زیادہ افرادکوگلے میں پہنے جانیوالے اپنے مذہبی نشانات مقدس آگ میں پھینکنے کیلیے کہا گیا اور انھیں نئے نشانات دیے گئے جن پرہندو بھگوان رام کی تصویر موجود تھی تاہم سولنکی نے مذہب کی اس تبدیلی کیلیے کسی قسم کی زبردستی یا فائدہ پہنچانے کے وعدے استعمال کرنے کی تردیدکرتے ہوئے کہا کہ یہ تبدیلی لوگوں کی اپنی مرضی کے مطابق تھی۔
مذہب کی تبدیلی کایہ معاملہ بھارتی پارلیمان میں بھی ایک بڑا مسئلہ بناہواہے جہاں اپوزیشن ارکان نے وزیراعظم مودی سے مطالبہ کیاکہ وہ قبل ازیں معاشی طور پر بدحال مسلمانوں کو زبردستی ہندوبنانے کے ایک ایسے ہی واقعہ پراپنابیان جاری کریں۔ بی جے پی سے منسلک ایک بنیاد پرست ہندوگروپ کی جانب سے گزشتہ ہفتے آگرہ میں انتہائی غریب علاقے میں رہنے والے50 مسلمانوں کو ہندوبنانے کی خبروں پرملک بھرمیں تنقید کی گئی تھی۔