پاکستان ایک نظر میں لائحہ عمل کی ضرورت ہے

دہشت گردوں کی کوئی شکل نہیں ہوتی،جس کی ہم وضاحت کرسکیں یا پھر ہم انہیں کسی شکل یا صورت سے تشبیح دے کرکسی کو سمجھا سکیں

دہشت گردوں کی کوئی شکل نہیں ہوتی،جس کی ہم وضاحت کرسکیں یا پھر ہم انہیں کسی شکل یا صورت سے تشبیح دے کرکسی کو سمجھا سکیں۔ فوٹو فائل

اس وقت ملک میں دہشت گردوں کے خلاف تیزی سے آپریشن جاری ہے جس میں ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ کے مطابق اب تک کوئی شہری جاں بحق نہیں ہوا جبکہ 950 سے زائد دہشت گرد ہلاک اور بہت بڑی تعداد میںزخمی ہوئے ہیں صرف یہ ہی نہیں ہماری فوج کی جانب سے دہشت گردوں کے مرکزی کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم سمیت 130 سے زائد ٹھکانے بھی تباہ کئے جا چکے ہیں۔ان تمام پیشرفت کے بعد عالمی میڈیا جو ہمیشہ پاکستان کے مخالف بولا کرتا تھا اب یہ کہنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ پاکستان میں جس طرح دہشت گردوں کا قلعہ کمع کیا جا رہا ہے اس کے بعد وہ دن دور نہیں کہ پورے پاکستان سے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہو جائے اور ملک ایک بار پھر امن کا گہوارا بن جائے گا۔

دوسری جانب اگر ایک اور پہلو پر نظر کی جائے تو یہ خبریں بھی سامنے آرہی ہیں کہ بہت سے دہشت گرد اپنی ڈارھیاں منڈوا کر شہروں کی جانب جا رہے ہیں تاکہ ان کو کوئی پہچان نہ سکے لیکن جس طرح ہمارے فوجی جوان آپریشن میں دہشت گردوں کا صفایا کر رہے ہیں اسی طرح آئی ڈی پیز پر بھی سخت نگاہ رکھی جا رہی تاکہ کوئی بھی دہشت گرد عام شہریوں کے روپ میں پاکستان کے کسی شہر میں داخل نہ ہو جائے۔ دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن میں تو اس وقت سوائے ایک دو سیاسی جماعتوں کے کسی کی بھی دو رائے نہیں ہے اور ہر کوئی پاکستانی فوج کے اس فیصلے سے متفق ہے کہ ان دہشت گردوں سے اب مزاکرات کرنے کا کائی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ ہمارے پاس ماضی کی مثال بھی موجود ہے کہ جب دہشت گردوں نے سوات میں اپنی رڈ قائم کر لی تھی اور انہوں نے آئین اور قانون پاکستان کو ماننے سے انکار کر دیا تھا تو ایسے میں 25اکتوبر 2007میں پاکستانی فوج نے سوات میں فضائی اور زمینی کارروائی کی جس کے بعد وہاں کی زمین پر پاکستان کا پرچم بھی بلند ہوا اور وہاں کے معصوم شہریوں کو ان دہشت گردوں سے نجات بھی ملی۔

اس وقت پاکستانی فوج نے میرانشاہ اور وزیرستان کے مختلف علاقوں میں زمینی کارروائی شروع کر دی ہے اور مبصرین کے مطابق یہ آپریشن انشاء اللہ اب بہت جلد اپنی تکمیل کو پہنچنے والا ہے۔ لیکن کیا شمالی وزیرستان کے علاقوں میں آپریشن کرنے کے بعد مسائل حل ہو جائیں گے؟ کراچی ، کوئٹہ ، پشاور میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ اور خود کش دھماکے رک جائیں گے ؟ اس کا جواب یہی ہے کہ دہشت گردوں کی کوئی شکل نہیں ہوتی، جس کی ہم وضاحت کر سکیں یا پھر انہیں ہم کسی شکل یا صورت سے تشبیح دے کر کسی کو سمجھا سکیں ،بلکہ یہ ایک مائنڈ سیٹ ہے جو نہ صرف پاکستان بلکہ اب پوری دنیا میں تیزی سے کام کر رہا ہے اس کے پیچھے ان کے حامی کون ہیں اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگا یا جاسکتا ہے کہ عراق میں معصوم لوگوں کو مارنے والی تنظیم کے دہشت گرد جو شدید زخمی ہو جائیں ان کو علاج کے لئے اسرائیل کے صدر شہر تل ابیب لے کے جا یا جا رہا ہے جہاں ان کا بھر پور علاج کیا جاتا ہے اور اس کے بعد ان کو مزید تربیت اور گولہ بارود دے کر واپس عراق اور شام کی جانب روانہ کر دیا جاتا ہے کہ وہ وہاں جا کے اپنے مشن کو جا ری رکھیں۔

اب تو ان کی حمایت میں وال چاکنگ کا سلسلہ پاکستان کے بھی مختلف شہروں میں شروع ہو چکا ہے ۔دنیا بھر میں جتنے بھی دہشت گرد ہیں ان سب کا ایک ہی مشن اور منصوبہ ہے ،عوام ان کی حقیقت اب اچھی طرح سمجھ چکی ہے ۔پاکستان میں ان دہشت گردوں نے کبھی حضرت عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر حملہ کیا تو کبھی لاہور میں داتا گنج بخش پر زائرین کو نشانہ بنایا اور یہی حال عراق میں اس وقت ہے کے یہ دہشت گرد انبیاء کرام ؑ کے مزارات کو مسمار کرنے کے ساتھ ساتھ اب یہ دعویٰ بھی کر رہے ہیں کہ اگر ہم سعودیہ عرب تک پہنچ گئے تو وہاں بھی بہت کچھ کریں گے ۔یہ وہ تمام باتیں ہیں جن کے بعد سمجھ میں آہی جاتا ہے کہ بدنام زمانہ وہ تنظیم جو اپنے آپ کو اسلامی کہتی ہے اس کے لوگوں کا علاج اسرائیل کیوں کرتا ہے، اور اب یہ تمام باتیں اب ریکارڈ پر آچکی ہیں۔

یہ تمام عالمی دنیا کا منظرنامہ ہے ۔اب پاکستان کے دیگر شہروں میں امن قائم کس طرح کیا جاسکتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کے وزیر اعظم نواز شریف وزیرستا ن آپریشن کے مکمل ہو جانے کے بعد ایک کمیٹی تشکیل دیں جو کراچی میں گزشتہ آٹھ سالوں سے ہونے والی ٹارگٹ کلنگ کی وجوہات پر سنجیدگی سے غور کریں اور اس کے بعد آرمی کی نگرانی میں کراچی کے ان تمام علاقوں میں آپریشن کروایا جائے جہاں سے دہشت گردی کی جاتی ہے ۔ انہی علاقوں سے شہید ایس ایس پی سی آئی ڈی چودھری اسلم نے بیشتر کارروائیاں کر کے دہشت گردوں کو گرفتا ر کیا تھا،جو شہر میں جاری فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کے پیچھے ملوث ہوتے تھے۔ کچھ روز قبل آئی جی سندھ کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بھی یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ کراچی میں ایسے بہت سے مقامات ہیں کہ جہاں سے دہشت گردوں کو تربیت دی جا رہی ہے۔ لہذا ایسے تمام لوگ جو کراچی میں امن کے دشمن ہیں، چاہے وہ بھتہ مافیا کی شکل میں ہوں یا لینڈ مافیا کی شکل میں اب ضروری ہو گیا ہے کہ فوج کی نگرانی میں ان سب کے خلاف آپریشن کیا جائے ، جب ایک بار ملک سے اس گندگی کی صفائی کا عمل شروع کیا گیا ہے تو اس کو پورا کر کے ہی چھوڑا جائے کیونکہ اگر اس کو سوات کی طرح صرف ایک جگہ آپریشن کر کے چھوڑ دیا گیا تو پھر خدا نخواستہ وہی حال نہ ہو کہ چند مہینوں یا سالوں کے بعد یہ دہشت گرد ملک کے کسی اور حصے میں اپنی آماجگاہ بنا لیں۔


آج کل ایک اور چیز مشاہدے میں آئی ہے اور وہ یہ دنیا بھر میں دہشت گردی پھیلانے والی ایک نامور تنظیم جو اب دنیا بھر میں اپنے دفاتر قائم کرنے کے چکر میں لگی ہے، اسی تنظیم کو خیر مقدم کرنے اور سپورٹ کے لئے ہمارے نوجوانوں کے اندر بھی ایک جذبہ پایا جا رہا ہے جو نہ صرف سوشل میڈیا پر اس عالمی دہشت گرد تنظیم کو سپورٹ کر رہے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی خواہش ظاہر کر رہے ہیں کہ کسی طرح بھی وہ اس تنظیم کا حصہ بن سکیں۔ چند روز قبل سابق وزیر داخلہ رحمان ملک کا بیان بھی کسی ڈھکا چھپا نہیں ہے جس کے مطابق پاکستان میں بھی اس عالمی دہشت گرد تنظیم کا نیٹ ورک قائم ہو چکا ہے جس کو یوسف سالفی نامی شخص چلا رہا ہے نہ صرف یہ اس کے علاوہ پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بھی چند روز قبل راولپنڈی سے ایک شخص کو گرفتار کیا ہے جو ٹیکنیکل طور پر اس جہادی گروپ کے لئے کام کر رہا تھا ۔

اب ذرا دل سے سوچئےکیا کبھی آپ ﷺ سے اپنی پوری حیات طیبہ میں کسی بے گناہ انسان کو قتل کرنے کا حکم دیا ؟ کیا کبھی آپ ﷺ نے کسی صحابیؓ کو یہ کہا کہ جو اسلام کی تعلیمات نہ مانے چاہے کسی بھی دین کا ہو ، اس کا سر تن سے جدا کر دو ؟کیا اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ میں کہیں یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسلمان عورتوں کو بازاروں میں لے جاکر فروخت کیا جائے؟

ان تمام تر سوالوں کے جوابات کے بعد آپ خود اس بات کا فیصلہ کریں کہ وہ لوگ جو اسلامی اصولوں سے عاری کام کر رہے ہیں، کیا وہ مسلمانوں کے رہنما اور خلیفہ ہو سکتے ہیں۔

لہذا اب حکومت پاکستان کو ہماری آنے والی نئی نسل کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے آپریشن ضرب عضب کے بعد کا لائحہ عمل ابھی سے بنا لینا چاہئے تاکہ شہروں میں ان کے خلاف کارروائی کی جائے، کیونکہ اب لوگ تھک چکے ہیں، ان دہشت گردوں کی کارروائیوں کے باعث بہت سی ماؤں کے بیٹے ان سے جدا ہوگئے، کتنی لڑکیوں کے سہاگ اجڑ گئے ، بہت سے بچے یتیم ہو گئے ، بہت سے گھروں کے پھول مرجھا گئے اور اب بھی کراچی میں آئے دن کسی ماں کا بیٹا تو کسی بہن کا بھائی ان ٹارگٹ کلرز کی گولیوں کا نشانہ بن جاتا ہے جن کا کوئی پرسان حال نہیں ۔ اللہ ہم سب کو محفوظ رکھے ۔ آمین

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story