بات کچھ اِدھر اُدھر کی سنگ آنکھیں نہیں رکھتے
ہم نے نالائیکی اور کمزوری کے سبب معاملات اس حد تک خراب کر لیے ہیں کہ جس کے منطقی نتائج اب سب کے سامنے عیاں ہیں۔
طالبان پاکستان کے بدترین دشمن ہیں تو طالبان حمایتی بھی کچھ کم نہیں ۔ اس وحشت کو اسٹریٹجک ڈیپتھ کے نام پر پال پوس کر پروان چڑھانے والے پاکستان میں جاری دہشت گردی کے لئے اتنے ہی ذمہ دار ہیں جتنے کہ طالبان کے حق میں دلائل دینے والے اور بذاتِ خود طالبان۔
بات ترجیحات کی ہے پر ہماری ترجیحات کیا ہیں؟ شاید تلخ زمینی حقائق کو بس قالین کے نیچے دھکیل دینا اور وقت گزاری کرنا!
دہشتگردوں کی جانب سے ایک کے بعد ایک دہشت گردی کی واردات کے باوجود حقیقی بنیادی وجوہات سے چشم پوشی کی جاتی رہی ہے۔ ہر دہشت گرد کارروائی کے بعد اس گروہ کی سفاکی کو بین الاقوامی سازش، شرعی نظام کے نفاذ کی جد و جہد، امریکی جنگ، ڈرون حملوں، اور پاک فوج کے آپریشن کے ردِ عمل کے طور پر ابھار کر طالبان کو سیاسی ، مذہبی، اخلاقی اور جنگی جواز فراہم کیا جانا انتہائی قابلِ اعتراض فعل ہے کیونکہ درحقیقت یہی نظریاتی حمایت اس قاتل گروہ کی اسقدر مضبوطی کا سبب بھی بنی ہے۔
پشاور آرمی پبلک سکول میں نہتے بچوں کے قتلِ عام کے بعد سیاسی اور عسکری قیادت نے جس ولولے سے متحد ہو کر دہشت گردوں کے خلاف کمر کسی ہے گر یہی مستعدی ہزارہ کمیونیٹی کے قتل عام ، پشاور چرچ کے خودکش دھماکوں، مذاکرات کے دوران سیکیورٹی اہلکاروں کی گردنیں اتارے جانے یا اقلیتوں کو مذہب کے نام پر زندہ جلانے کے مواقعوں پر دکھائی گئی ہوتی تو شاید اس انسانیت سوز ظلم کو وقوع پذیر ہونے سے روکا جا سکتا تھا۔پر شاید وطنِ عزیز کے خوابیدہ شعور اور قومی یکجہتی کو جنجھوڑنے کے لئے اس قوم کے نرم گرم رخسار پر کسی ایسی عظیم قربانی کا زناٹے دار تھپڑ درکار تھا ! اب دیکھنا یہ ہے کہ اس تھپڑ کی سنسناہٹ قومی یکجہتی اور بیدار ہوئے شعور کو کتنی دیر تک جگائے رکھتی ہے!!!
132 بچوں کی زندگی اگر وقتی طور پر قومی یکجہتی اور شعور اجاگر کرنے کی قیمت ہے تو ہم نے بلاشبہ بہت مہنگا سودا کیا ہے۔ اگر یہ قومی یکجہتی اور شعور مستقل نوعیت کا ہے تب بھی سودا سستا نہیں کیونکہ بچے بہت قیمتی ہوتے ہیں اور یہ بات والدین سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا۔ دوسری بات کہ یہی سودا بہت پہلے بہت سے مواقعوں پر انتہائی ارزاں قیمت پر بھی خریدا جا سکتا تھا۔ضرورت تھی تو درست وقت پر دہشت گرد عناصر کو مزید قبولیت بخشنے سے انکار کرتے ہوئے زمینی حقائق پر مبنی سنجیدہ قومی ایجنڈا مرتب کرنے کی نہ کہ قومی سانحات پر سانحات رونما ہونے کے باوجود انہی عناصر کی کارروائیوں کی توجیہات پیش و قبول کرنے کی!یہی غیر سنجیدہ اور ناعاقبت اندیش رویہ قومی سطح پر ہماری بڑی ناکامی ثابت ہوا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جوں جوں عوام کے جذبات میں ٹھہراؤ آتا جا رہا ہے تو ایک بار پھر رونما ہوئے عظیم قومی سانحے کو غیر ملکی سازش کے طور پر ابھارنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
بطور قوم ہم نے اپنی کج شعوری، نا عاقبت اندیشی ، سٹریٹیجک ڈیپتھ نامی پالیسی ، نظام کی شرعی ساخت پر بحث ، اچھے برے طالبان کی خود ساختہ تفریق، اور دیگر غیر ضروری الجھاؤ کے سبب معاملات اس حد تک خراب کر لیے ہیں کہ جس کے منطقی نتائج اب سب کے سامنے عیاں ہیں!!!
وہ پاکستانی پود جس نے ضیاء دور کے پاکستان میں آنکھ کھولی۔ نوے کی دہائی کی سیاست کو سکول اور کالج جاتے بچے کے طور پر دیکھا۔ مشرف کی مطلق العنانیت میں پڑھائی کا دور ختم کرکے عملی زندگی میں قدم رکھا۔ 9/11 اور اس کے بعد کی پیدا ہوئی صورتحال کا ذاتی طور پر مشاہدہ کیا جب سینکڑوں بم دھماکے ، قتل و غارت گری اور جنگ و جدال عروج پر تھا۔آج اسی پاکستانی پود کے بچے سکولوں میں زیرِ تعلیم ہیں۔ ضیاء دور کی جہادی پالیسی کو اِس پود نے جو بھگتا سو بھگتا اب اِسی پود کے معصوم بچے بھی اسی آگ کو بھگت رہے ہیں۔ آج جو فیصلے ہم اور ہمارے کرتا دھرتا لیں گے وہ ہمارے بچوں کے بچے بھگتے گیں۔ آج بھی اگر ہم دہشت گردوں اور ان کے حمایتیوں کی کھلی عام مذمت نہیں کرینگے تو اس سے کہیں زیادہ تکلیف دہ اور سخت وقت ہمارے بچوں اور ان کے بچوں کا انتظار کر رہا ہے۔
خالد احمد صاحب کے یہ اشعار موجودہ حالات کا بالکل درست احاطہ کرتے ہیں:
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
بات ترجیحات کی ہے پر ہماری ترجیحات کیا ہیں؟ شاید تلخ زمینی حقائق کو بس قالین کے نیچے دھکیل دینا اور وقت گزاری کرنا!
دہشتگردوں کی جانب سے ایک کے بعد ایک دہشت گردی کی واردات کے باوجود حقیقی بنیادی وجوہات سے چشم پوشی کی جاتی رہی ہے۔ ہر دہشت گرد کارروائی کے بعد اس گروہ کی سفاکی کو بین الاقوامی سازش، شرعی نظام کے نفاذ کی جد و جہد، امریکی جنگ، ڈرون حملوں، اور پاک فوج کے آپریشن کے ردِ عمل کے طور پر ابھار کر طالبان کو سیاسی ، مذہبی، اخلاقی اور جنگی جواز فراہم کیا جانا انتہائی قابلِ اعتراض فعل ہے کیونکہ درحقیقت یہی نظریاتی حمایت اس قاتل گروہ کی اسقدر مضبوطی کا سبب بھی بنی ہے۔
پشاور آرمی پبلک سکول میں نہتے بچوں کے قتلِ عام کے بعد سیاسی اور عسکری قیادت نے جس ولولے سے متحد ہو کر دہشت گردوں کے خلاف کمر کسی ہے گر یہی مستعدی ہزارہ کمیونیٹی کے قتل عام ، پشاور چرچ کے خودکش دھماکوں، مذاکرات کے دوران سیکیورٹی اہلکاروں کی گردنیں اتارے جانے یا اقلیتوں کو مذہب کے نام پر زندہ جلانے کے مواقعوں پر دکھائی گئی ہوتی تو شاید اس انسانیت سوز ظلم کو وقوع پذیر ہونے سے روکا جا سکتا تھا۔پر شاید وطنِ عزیز کے خوابیدہ شعور اور قومی یکجہتی کو جنجھوڑنے کے لئے اس قوم کے نرم گرم رخسار پر کسی ایسی عظیم قربانی کا زناٹے دار تھپڑ درکار تھا ! اب دیکھنا یہ ہے کہ اس تھپڑ کی سنسناہٹ قومی یکجہتی اور بیدار ہوئے شعور کو کتنی دیر تک جگائے رکھتی ہے!!!
132 بچوں کی زندگی اگر وقتی طور پر قومی یکجہتی اور شعور اجاگر کرنے کی قیمت ہے تو ہم نے بلاشبہ بہت مہنگا سودا کیا ہے۔ اگر یہ قومی یکجہتی اور شعور مستقل نوعیت کا ہے تب بھی سودا سستا نہیں کیونکہ بچے بہت قیمتی ہوتے ہیں اور یہ بات والدین سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا۔ دوسری بات کہ یہی سودا بہت پہلے بہت سے مواقعوں پر انتہائی ارزاں قیمت پر بھی خریدا جا سکتا تھا۔ضرورت تھی تو درست وقت پر دہشت گرد عناصر کو مزید قبولیت بخشنے سے انکار کرتے ہوئے زمینی حقائق پر مبنی سنجیدہ قومی ایجنڈا مرتب کرنے کی نہ کہ قومی سانحات پر سانحات رونما ہونے کے باوجود انہی عناصر کی کارروائیوں کی توجیہات پیش و قبول کرنے کی!یہی غیر سنجیدہ اور ناعاقبت اندیش رویہ قومی سطح پر ہماری بڑی ناکامی ثابت ہوا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جوں جوں عوام کے جذبات میں ٹھہراؤ آتا جا رہا ہے تو ایک بار پھر رونما ہوئے عظیم قومی سانحے کو غیر ملکی سازش کے طور پر ابھارنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
بطور قوم ہم نے اپنی کج شعوری، نا عاقبت اندیشی ، سٹریٹیجک ڈیپتھ نامی پالیسی ، نظام کی شرعی ساخت پر بحث ، اچھے برے طالبان کی خود ساختہ تفریق، اور دیگر غیر ضروری الجھاؤ کے سبب معاملات اس حد تک خراب کر لیے ہیں کہ جس کے منطقی نتائج اب سب کے سامنے عیاں ہیں!!!
وہ پاکستانی پود جس نے ضیاء دور کے پاکستان میں آنکھ کھولی۔ نوے کی دہائی کی سیاست کو سکول اور کالج جاتے بچے کے طور پر دیکھا۔ مشرف کی مطلق العنانیت میں پڑھائی کا دور ختم کرکے عملی زندگی میں قدم رکھا۔ 9/11 اور اس کے بعد کی پیدا ہوئی صورتحال کا ذاتی طور پر مشاہدہ کیا جب سینکڑوں بم دھماکے ، قتل و غارت گری اور جنگ و جدال عروج پر تھا۔آج اسی پاکستانی پود کے بچے سکولوں میں زیرِ تعلیم ہیں۔ ضیاء دور کی جہادی پالیسی کو اِس پود نے جو بھگتا سو بھگتا اب اِسی پود کے معصوم بچے بھی اسی آگ کو بھگت رہے ہیں۔ آج جو فیصلے ہم اور ہمارے کرتا دھرتا لیں گے وہ ہمارے بچوں کے بچے بھگتے گیں۔ آج بھی اگر ہم دہشت گردوں اور ان کے حمایتیوں کی کھلی عام مذمت نہیں کرینگے تو اس سے کہیں زیادہ تکلیف دہ اور سخت وقت ہمارے بچوں اور ان کے بچوں کا انتظار کر رہا ہے۔
خالد احمد صاحب کے یہ اشعار موجودہ حالات کا بالکل درست احاطہ کرتے ہیں:
شہر جاگے تو ہمیں خون میں تر دیکھیں گے سنگ آنکھیں نہیں رکھتے کہ سر دیکھیں گے
ہر دریچے میں نظر آئیں گی خالی آنکھیں اور ہم چاک بہ جاں، خاک بہ سر دیکھیں گے
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔