پاکستان ایک نظر میں مجھ سے کیا کوئی جرم ہوا ہے
انکل ہمارے ٹیسٹ بھی صیح ہوئے تھے ،یونیفارم بھی ٹھیک تھا، پھر ہم نے ان دہشت گردوں کا کیا بگاڑاتھا جوانہوں نے ایسا کیا؟
میں جیسے ہی لائبریری کے اندرپہنچا ضبط کے تمام بندھن ٹوٹ گئے ،میری آنکھوں سے آنسورواں تھے ۔میں نے آرمی پبلک اسکول پشاور کے آڈیٹوریم ،کلاس رومزاوربرآمدے میں جو مناظردیکھے تھے اس کے بعد ہمت جواب دے چکی تھی لیکن وہاں رویا اس لئے نہیں کیونکہ وہاں میرے علاوہ میڈیا کے اوربھی لوگ تھے ، لیکن جب مختلف جگہوں کو دیکھتا ہوا لائبریری میں پہنچا تو یہاں خود کو تنہا پاکررودیا ،اور ناجانے کتنی دیردیوارکے ساتھ بیٹھا آنسوبہاتارہا۔جس دن پشاورمیں ظلم وبربریت کا یہ واقعہ پیش آیامجھے اسی دن لاہورسے پشاورجانے کا کہا گیا اورپھرمیں رات دس بجے کے قریب اس شہر سوگوارمیں پہنچ گیا، جہاں خاموشی ،خوف اوردھند کاراج تھا۔ میں فورا لیڈی ریڈنگ اسپتال پہنچا، جہاں سارا پشاورجمع تھا، کوئی زخمیوں کے لئے خون دینے آیا تھا کسی کو اپنے لال کی فکرتھی۔ اسپتال انتظامیہ نے ایمرجنسی گیٹ کے ساتھ دیوار پر شہدا اور زخمیوں کی فہرست آویزاں کردی تھی ۔اس اسپتال میں سویلینز کے بچوں کو لایا گیا تھا،پاک فوج کے زخمی افرادیاان کے زخمی بچوں کو سی ایم ایچ منتقل کیا گیا تھا جہاں میڈیا کی رسائی نہیں تھی ،رات دو بجے تک میں اسپتال میں رہا ۔
اس سانحے کے اگلے روزہم لوگ آرمی پبلک اسکول پشاور پہنچے، اسکول کے خارجی گیٹ کی طرف سے ہمیں اندرجانے کی اجازت ملی ،تھوڑی دیرمیں ہم اس آڈیٹوریم کی بیک سائیڈ پرتھے جہاں بچے بیالوجی کا پیپردے رہے اوراسی حالت میں دہشت گردوں کی گولیوں نے ان معصوموں کو ہمیشہ کی نیندسلادیا،یہاں آئی ایس پی آرپشاورکے انچارج کرنل ندیم سے سانحے کی تفصیلات معلوم کیں اورپھراپنے ساتھی کیمرہ مین اوردیگر اسٹاف کو یہاں چھوڑکرمیں ان مناظرکو دیکھنے چل پڑا،سب سے پہلے آڈیٹوریم تھا سیڑھیاں چڑھتاہواجب میں آڈیٹوریم میں داخل ہواتویہاں فرش پراورکرسیوں پرخون بکھراپڑاتھا، شہدا کے اعضا کو یہاں سے اٹھالیا گیا تھا لیکن ان کے پیپر،جوتے ، سبز جرسیاں ،چشمے اور کاپیاں خون میں لت پت پڑی تھیں۔ایک پیپرایسا بھی تھاجس کے آخرپردی اینڈلکھا تھااورشایدیہ الفاظ لکھنے والے نویں کلاس کے بچے کے آخری الفاظ تھے۔
وہاں ہونے والی تباہی کی داستانیں تومیڈیا کے ذریعے پوری قوم تک جارہی تھیں لیکن میں جس چیز کو شیئرکرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ اس قیامت نے پوری قوم کے ساتھ ساتھ صحافیوں کو بھی رلادیا۔اپنے تیرہ،چودہ سالہ صحافتی کیریرمیں بہت سے سانحات دیکھے ہیں،ایبٹ آبادکا زلزلہ،بلوچستان کی خشک سالی ، سیلاب کی تباہ کاریاں، مناواں پولیس ٹریننگ سنٹرپرحملہ اورحال ہی میں واہگہ بارڈر پرگزری قیامت۔ اس کے علاوہ کئی بم دھماکے ،جن میں کٹے پھٹے انسانوں کو دیکھا تھا۔ایک ایک بسترپرچار،چارخون میں لت پت لاشیں دیکھیں لیکن میں کبھی رویا نہیں تھا۔آج جب میرے سامنے کسی شہید بچے کی میت نہیں تھی ، صرف ان کا خون تھا،ان کی خون میں لت پت کتابیں، بیگ ، جوتے اورکھانے کے ڈبے تھے، مجھے ان چیزوں نے رلا دیا ۔میں ہی کیا اس سانحے کی کوریج کے لئے آئے غیرملکی صحافی بھی یہاں روتے نظرآئے۔
میرے ساتھی حوصلہ دے رہے تھے اوریاددلا رہے تھے کہ ہم لوگ یہاں رپورٹنگ کیلئے آئے ہیں۔ لیکن یہ اب سیکھنے کے بعد میری آوازحلق سے نکل نہیں پائی ، بالاخرمیں ا سکول سے باہرآگیا اوراپنی گاڑی میں بیٹھ گیا ۔اسکول کے باہرسبزیونیفارم پہنے تین بچے نظرآئے جن میں پانچ،چھ برس عمرکی دولڑکیاں اوران کا ہم عمرایک لڑکا تھا۔یہ بچے اپنے شہید ساتھیوں کی یادمیں شمع جلانے کے لئے آئے تھے میں ان بچوں کے پاس چلاگیا،ان کے نام پوچھے،لڑکا دوسری کلاس جبکہ لڑکیاں پریپ کلاس میں پڑھتی تھیں۔ایک بچی نے اچانک مجھ سے سوال پوچھا انکل ہمارے دوست شہید ہوگئے ہیں ،آپ کو بھی دکھ ہواہے ناں ؟ دوسری بچی بولی انکل میرا بیگ اورکھانے کا باکس بھی اندرہی رہ گیا تھامیں آپ کو اس کا رنگ بتاتی ہوں آپ اند جائیں تووہ لیتے آیئے گا،میری فرینڈز کے بیگ بھی وہیں ہوں گے ۔ لڑکا بڑا اور دونوں سے سمجھدارتھا وہ بولا انکل ہمارے ٹیسٹ بھی صحیح ہوئے تھے ،یونیفارم بھی ٹھیک تھا، پھر ہم نے ان دہشت گردوں کا کیا بگاڑاتھا جوانہوں نے ایسا کیا؟ مجھے بہت ڈرلگ رہا تھا جب گولیاں چل رہی تھیں ،میں نے کبھی گولی چلتے نہیں دیکھی تھی اس لئے میں ڈررہا تھا اور ماما، ماما پکار رہا تھا۔ ۔وہ بچے اپنے معصومانہ اندازمیں سوال کئے جارہے تھے اورمیری آنکھوں میں موتی اترآئے ۔ میرے ذہن میں وہ نظم گونجنے لگی جس میں ان معصوموں کے جذبات کی عکاسی کی گئی تھی۔
مجھ سے کیا کوئی جرم ہوا ہے ؟
مجھ پر کیوں یہ ظلم ہوا ہے؟
وقت پہ آج بھی آیا تھا
سبق بھی دہرایا تھا
پنسل، ما رکر، ر بڑ،شا پنر
سب کچھ ساتھ میں لا یا تھا
آج تو میرا پیپر ہے
ٹیچر نے بتلایا تھا
ما ں بھی رات کو جاگی تھی
ابو نے بھی پڑھا یا تھا
شور نہ کرو سو جاؤ
بہنا کو سمجھایا تھا
آ تیں پڑھ کر پھونکیں ما ریں،ماتھا چوما
بیٹا اسکول بھجوا یا تھا
ماں ! امتحان تو مشکل ہے
موت سوال جو لا زم ہے
پر وعدہ میں نہ توڑوں گا
یہ سوال نہ چھوڑوںگا
بابا کو بتلا دینا
گڑیا کو سمجھا دینا
یونیفارم کو دھو لینا
اب پہروں بیٹھ کے رو لینا
پرچہ آج کچھ یوں ہوا ہے
بدن لہو لہوہواہے
مجھ سے کیا کوئی جرم ہوا ہے ؟
مجھ پر کیوں یہ ظلم ہوا ہے ؟
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اس سانحے کے اگلے روزہم لوگ آرمی پبلک اسکول پشاور پہنچے، اسکول کے خارجی گیٹ کی طرف سے ہمیں اندرجانے کی اجازت ملی ،تھوڑی دیرمیں ہم اس آڈیٹوریم کی بیک سائیڈ پرتھے جہاں بچے بیالوجی کا پیپردے رہے اوراسی حالت میں دہشت گردوں کی گولیوں نے ان معصوموں کو ہمیشہ کی نیندسلادیا،یہاں آئی ایس پی آرپشاورکے انچارج کرنل ندیم سے سانحے کی تفصیلات معلوم کیں اورپھراپنے ساتھی کیمرہ مین اوردیگر اسٹاف کو یہاں چھوڑکرمیں ان مناظرکو دیکھنے چل پڑا،سب سے پہلے آڈیٹوریم تھا سیڑھیاں چڑھتاہواجب میں آڈیٹوریم میں داخل ہواتویہاں فرش پراورکرسیوں پرخون بکھراپڑاتھا، شہدا کے اعضا کو یہاں سے اٹھالیا گیا تھا لیکن ان کے پیپر،جوتے ، سبز جرسیاں ،چشمے اور کاپیاں خون میں لت پت پڑی تھیں۔ایک پیپرایسا بھی تھاجس کے آخرپردی اینڈلکھا تھااورشایدیہ الفاظ لکھنے والے نویں کلاس کے بچے کے آخری الفاظ تھے۔
وہاں ہونے والی تباہی کی داستانیں تومیڈیا کے ذریعے پوری قوم تک جارہی تھیں لیکن میں جس چیز کو شیئرکرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ اس قیامت نے پوری قوم کے ساتھ ساتھ صحافیوں کو بھی رلادیا۔اپنے تیرہ،چودہ سالہ صحافتی کیریرمیں بہت سے سانحات دیکھے ہیں،ایبٹ آبادکا زلزلہ،بلوچستان کی خشک سالی ، سیلاب کی تباہ کاریاں، مناواں پولیس ٹریننگ سنٹرپرحملہ اورحال ہی میں واہگہ بارڈر پرگزری قیامت۔ اس کے علاوہ کئی بم دھماکے ،جن میں کٹے پھٹے انسانوں کو دیکھا تھا۔ایک ایک بسترپرچار،چارخون میں لت پت لاشیں دیکھیں لیکن میں کبھی رویا نہیں تھا۔آج جب میرے سامنے کسی شہید بچے کی میت نہیں تھی ، صرف ان کا خون تھا،ان کی خون میں لت پت کتابیں، بیگ ، جوتے اورکھانے کے ڈبے تھے، مجھے ان چیزوں نے رلا دیا ۔میں ہی کیا اس سانحے کی کوریج کے لئے آئے غیرملکی صحافی بھی یہاں روتے نظرآئے۔
میرے ساتھی حوصلہ دے رہے تھے اوریاددلا رہے تھے کہ ہم لوگ یہاں رپورٹنگ کیلئے آئے ہیں۔ لیکن یہ اب سیکھنے کے بعد میری آوازحلق سے نکل نہیں پائی ، بالاخرمیں ا سکول سے باہرآگیا اوراپنی گاڑی میں بیٹھ گیا ۔اسکول کے باہرسبزیونیفارم پہنے تین بچے نظرآئے جن میں پانچ،چھ برس عمرکی دولڑکیاں اوران کا ہم عمرایک لڑکا تھا۔یہ بچے اپنے شہید ساتھیوں کی یادمیں شمع جلانے کے لئے آئے تھے میں ان بچوں کے پاس چلاگیا،ان کے نام پوچھے،لڑکا دوسری کلاس جبکہ لڑکیاں پریپ کلاس میں پڑھتی تھیں۔ایک بچی نے اچانک مجھ سے سوال پوچھا انکل ہمارے دوست شہید ہوگئے ہیں ،آپ کو بھی دکھ ہواہے ناں ؟ دوسری بچی بولی انکل میرا بیگ اورکھانے کا باکس بھی اندرہی رہ گیا تھامیں آپ کو اس کا رنگ بتاتی ہوں آپ اند جائیں تووہ لیتے آیئے گا،میری فرینڈز کے بیگ بھی وہیں ہوں گے ۔ لڑکا بڑا اور دونوں سے سمجھدارتھا وہ بولا انکل ہمارے ٹیسٹ بھی صحیح ہوئے تھے ،یونیفارم بھی ٹھیک تھا، پھر ہم نے ان دہشت گردوں کا کیا بگاڑاتھا جوانہوں نے ایسا کیا؟ مجھے بہت ڈرلگ رہا تھا جب گولیاں چل رہی تھیں ،میں نے کبھی گولی چلتے نہیں دیکھی تھی اس لئے میں ڈررہا تھا اور ماما، ماما پکار رہا تھا۔ ۔وہ بچے اپنے معصومانہ اندازمیں سوال کئے جارہے تھے اورمیری آنکھوں میں موتی اترآئے ۔ میرے ذہن میں وہ نظم گونجنے لگی جس میں ان معصوموں کے جذبات کی عکاسی کی گئی تھی۔
مجھ سے کیا کوئی جرم ہوا ہے ؟
مجھ پر کیوں یہ ظلم ہوا ہے؟
وقت پہ آج بھی آیا تھا
سبق بھی دہرایا تھا
پنسل، ما رکر، ر بڑ،شا پنر
سب کچھ ساتھ میں لا یا تھا
آج تو میرا پیپر ہے
ٹیچر نے بتلایا تھا
ما ں بھی رات کو جاگی تھی
ابو نے بھی پڑھا یا تھا
شور نہ کرو سو جاؤ
بہنا کو سمجھایا تھا
آ تیں پڑھ کر پھونکیں ما ریں،ماتھا چوما
بیٹا اسکول بھجوا یا تھا
ماں ! امتحان تو مشکل ہے
موت سوال جو لا زم ہے
پر وعدہ میں نہ توڑوں گا
یہ سوال نہ چھوڑوںگا
بابا کو بتلا دینا
گڑیا کو سمجھا دینا
یونیفارم کو دھو لینا
اب پہروں بیٹھ کے رو لینا
پرچہ آج کچھ یوں ہوا ہے
بدن لہو لہوہواہے
مجھ سے کیا کوئی جرم ہوا ہے ؟
مجھ پر کیوں یہ ظلم ہوا ہے ؟
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔