بجلی کا طویل بریک ڈاؤن
ملک کا سب سے بڑا شہرکراچی تو دہرے عذاب کا شکار رہا،کے الیکٹرک جوکہ علیحدہ ادارہ ہے اس کی کارکردگی کی قلعی کھل گئی۔
سندھ،بلوچستان کے باسی گہری نیند میں تھے، سپید سحر کا وقت ہو چلا تھا کہ اچانک روشنیاں گل ہوگئیں، کراچی، حیدرآباد،نوابشاہ، سانگھڑ، تھرپارکر، میرپورخاص، دادو،جامشورو، جیکب آباد، لاڑکانہ، کشمور سمیت سندھ کے تمام اضلاع جب کہ بلوچستان کے لسبیلہ،جھل مگسی ، نصیرآباد، صحبت پور اورڈیرہ مراد جمالی تاریکی میں ڈوب گئے ، وجہ یہ تھی کہدادوکے مقام پر این ٹی ڈی سی کیkv 500 کی ٹرانسمیشن لائن ٹرپ کرگئی تھی ۔ ملک میں طویل بریک ڈاؤن پہلی بار نہیں ہوا ہے ، عشرہ پہلے پنجاب اور خیبر پختون خوا میں کئی گھنٹے تک بجلی کی فراہمی معطل رہی۔
چند دن پیشتر وزیراعظم نوازشریف ایک اجلاس کی صدارت کررہے تھے کہ بجلی کی فراہمی معطل ہوگئی تھی ، اتوار کے دن سرکاری چھٹی کا ہوتی ہے ، ہفتے بھرکے رکے ہوئے کام اسی دن سرانجام دیے جاتے ہیں ، لیکن یہ دن تو ایسا بھاری گزرا کے تمام کام ادھورے کیا رہ گئے ، بلکہ نظام زندگی مکمل طور پر مفلوج ہوگیا ۔انڈسٹریل ایریاز میں صنعتوں کو بھاری مالی نقصان پہنچا،ملک کا سب سے بڑا شہرکراچی تو دہرے عذاب کا شکار رہا ،کے الیکٹرک جوکہ علیحدہ ادارہ ہے اس کی کارکردگی کی قلعی کھل گئی ۔ تمام پمپنگ اسٹیشنزبندہونے سے 380ملین گیلن پانی کی فراہمی کی معطلی سے شہر میں پانی کا شدید ترین بحران پیدا ہوگیا ،واٹر بورڈ کے ترجمان کے مطابق شہر کو پانی کی فراہمی معمول پر آنے میں تین سے چار دن لگیں گے ۔
بیشتر علاقوں میں ٹیلی فون ڈیڈہوگئے،اسپتالوں کو بجلی کی عدم فراہمی کی وجہ سے مریضوں اوران کے لواحقین کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا،شہر کے تمام علاقوں میں ٹریفک سنگنلزبند ہونے کی وجہ سے ٹریفک کے بھی مسائل پیداہوئے۔اسی ساری صورتحال کا ایک المناک پہلو یہ بھی ہے کہ بارہ گھنٹے سے زائد کا طویل بریک ڈاؤن ہونے کے باوجود حکومتی سطح پر اس کا کوئی نوٹس لیا گیا ، سردیوں میں تو بجلی کی طلب انتہائی کم ہوجاتی ہے ، لیکن مجال ہے جو لوڈشیڈنگ کے دورانیے میں کمی آئی ہو ، ایک طرف تو لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے حکومتی دعوے ہیں اور دوسری جانب صارفین کی زندگیاں اجیرن بنی ہوئی ہیں ۔ نہ جانے عام آدمی کو ریلیف کب ملے گا۔
چند دن پیشتر وزیراعظم نوازشریف ایک اجلاس کی صدارت کررہے تھے کہ بجلی کی فراہمی معطل ہوگئی تھی ، اتوار کے دن سرکاری چھٹی کا ہوتی ہے ، ہفتے بھرکے رکے ہوئے کام اسی دن سرانجام دیے جاتے ہیں ، لیکن یہ دن تو ایسا بھاری گزرا کے تمام کام ادھورے کیا رہ گئے ، بلکہ نظام زندگی مکمل طور پر مفلوج ہوگیا ۔انڈسٹریل ایریاز میں صنعتوں کو بھاری مالی نقصان پہنچا،ملک کا سب سے بڑا شہرکراچی تو دہرے عذاب کا شکار رہا ،کے الیکٹرک جوکہ علیحدہ ادارہ ہے اس کی کارکردگی کی قلعی کھل گئی ۔ تمام پمپنگ اسٹیشنزبندہونے سے 380ملین گیلن پانی کی فراہمی کی معطلی سے شہر میں پانی کا شدید ترین بحران پیدا ہوگیا ،واٹر بورڈ کے ترجمان کے مطابق شہر کو پانی کی فراہمی معمول پر آنے میں تین سے چار دن لگیں گے ۔
بیشتر علاقوں میں ٹیلی فون ڈیڈہوگئے،اسپتالوں کو بجلی کی عدم فراہمی کی وجہ سے مریضوں اوران کے لواحقین کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا،شہر کے تمام علاقوں میں ٹریفک سنگنلزبند ہونے کی وجہ سے ٹریفک کے بھی مسائل پیداہوئے۔اسی ساری صورتحال کا ایک المناک پہلو یہ بھی ہے کہ بارہ گھنٹے سے زائد کا طویل بریک ڈاؤن ہونے کے باوجود حکومتی سطح پر اس کا کوئی نوٹس لیا گیا ، سردیوں میں تو بجلی کی طلب انتہائی کم ہوجاتی ہے ، لیکن مجال ہے جو لوڈشیڈنگ کے دورانیے میں کمی آئی ہو ، ایک طرف تو لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے حکومتی دعوے ہیں اور دوسری جانب صارفین کی زندگیاں اجیرن بنی ہوئی ہیں ۔ نہ جانے عام آدمی کو ریلیف کب ملے گا۔